فلسطین سے اظہار یکجہتی کی علامت ’کیفیہ‘ پر پابندی کے خلاف جھمپا لاہری کا احتجاج، امریکی ایوارڈ لینے سے انکار

12:27 PM Oct 01, 2024 | دی وائر اسٹاف

کیفیہ فلسطینی قوم پرستی اور اس سے اظہار یکجہتی کی علامت ہے۔ امریکہ کے نوگوچی میوزیم نے گزشتہ اگست میں اعلان کیا تھا کہ اس کے ملازمین کام کے اوقات میں ایسا لباس نہیں پہن سکتے، جو ’سیاسی پیغامات، نعرے یا علامتوں‘ کا اظہار کرتے ہوں۔

جھمپا لاہری۔ (تصویر بہ شکریہ: Wikipedia-librairie mollat, CC BY 3.0)

نئی دہلی: معروف ادیبہ جھمپا لاہری نے فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کی علامت ’کیفیہ‘ (اسکارف)  پہننے والے تین ملازمین کے نکالے جانے کے خلاف احتجاج میں امریکہ کے نوگوچی میوزیم سے ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا ہے۔

لاہری ہندوستانی نژاد ادیبہ ہیں۔ 1999 میں ان کی کہانیوں کے سب سے پہلے مجموعہ انٹرپریٹر آف میلاڈیز کے لیے انہیں پولٹزر پرائز سے نوازا گیا تھا۔

بتادیں کہ جاپانی-امریکی ڈیزائنر اور مجسمہ ساز اسامو نوگوچی کے ذریعے تقریباً 40 سال قبل قائم کیے گئے اس میوزیم نے اگست میں اعلان کیا تھا کہ اس کے ملازمین اپنے کام کے اوقات میں  ایسے کپڑے نہیں پہن سکتے یا ایسے  لوازمات اپنے ساتھ نہیں لا سکتے جو ‘سیاسی پیغامات، نعرے یا علامتوں‘ کا  اظہار کرتے  ہوں۔

اسامو نوگوچی ایوارڈ 2014 میں شروع کیا گیا تھا اور، اس کی ویب سائٹ کے مطابق، ہر سال ان افراد کو دیا جاتا ہے جو نوگوچی کی طرح ہی جدت پسند، اعلیٰ ارفع تخیل اور تخلیقی صلاحیتوں کے لیےمالک ہوتے ہیں۔‘

اس ایوارڈ کے پہلے فاتحین میں نارمن فوسٹر، ڈیوڈ اڈجائے، توشیکو موری اور ٹاڈاؤ اینڈو کے نام  شامل ہیں۔

میوزیم نے بدھ (25 ستمبر) کو ایک بیان میں کہا، ’جھمپا لاہری نے ہماری نئی ڈریس کوڈ پالیسی کے خلاف احتجاج میں 2024 کے اسامو نوگوچی ایوارڈ کے لیے اپنی رضامندی کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

گزشتہ 18 ستمبر کو میوزیم کی ویب سائٹ پر اپلوڈ کیے گئے ایک اور بیان میں میوزیم کی ڈائریکٹر ایمی ہاؤ نے لکھا؛ ’یہ فیصلہ احتیاط کے ساتھ غوروفکرکے بعدلیا گیا ہے اور اس کا مقصد ہمارے یہاں آنے والوں کے اندر بیگانگی یا اجنبیت کے احساس کوختم کرنا ہے،اس کے ساتھ ہی  ہمیں اسامو نوگوچی کے فن اور میراث کی تفہیم اور اقدار کو آگے بڑھانے کے ہمارے اصل مشن پر توجہ مرکوز کرناہے۔‘

انہوں نے کہا، ’ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ مشکل وقت ہیں اور ہر کوئی ہمارے نقطہ نظر سے متفق نہیں ہوگا۔‘

کیفیہ فلسطینیوں کے ساتھ یکجہتی کی علامتوں میں سے ایک ہے اور دنیا بھر میں اس کے حامی اسے اپنا رہے ہیں۔ جیسا کہ الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ نسل پرستی کے مخالف جنوبی افریقہ کے رہنما نیلسن منڈیلا کو بھی کئی مواقع پر اس  اسکارف میں  دیکھا گیا تھا۔