جھارکھنڈ میں آدی واسی کئی دہائیوں سے ہندوستان میں علیحدہ مذہبی شناخت کے لیے تحریک چلا رہے ہیں۔ کچھ آدی واسی کارکنوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر وزیر اعظم نریندر مودی نے بدھ کو جھارکھنڈ کے کھونٹی میں علیحدہ سرنا دھرم کوڈ پر کوئی اعلان نہیں کیا تو وہ خودسوزی کریں گے۔ پولیس نے انہیں احتیاطاً حراست میں لیا ہے۔
رانچی کے برسا منڈا میوزیم میں وزیر اعظم نریندر مودی۔ (تصویر بہ شکریہ: Twitter/@Narendramodi)
نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی کے بدھ (15 نومبر) کو جھارکھنڈ کے کھونٹی میں اپنے خطاب کے دوران سرنا دھرم کوڈ پر کوئی اعلان نہیں کرنے پر خودسوزی کی دھمکی دینے والے آدی واسی کارکنوں کو ریاستی پولیس نے احتیاطاً حراست میں لے لیا ہے۔
دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق،آدی واسی سینگیل ابھیان کے قومی صدر اور میوربھنج (اڑیسہ) کے بی جے پی کے سابق ایم پی سالکھن مرمو نے کہا، ‘ہمیں پتہ چلا ہے کہ دونوں آدی واسی کارکن – چندر موہن مارڈی، جو بوکارو ضلع کے پیٹوار بلاک کے رہنے والے ہیں اور کانہورام ٹڈو، جو مغربی سنگھ بھوم ضلع کے سونوآ بلاک کے رہنے والے ہیں —کو متعلقہ ضلعی پولیس نے سوموار کی رات دیر گئے احتیاطاً حراست میں لے لیا ہے۔ دو دیگر کارکنوں – پرتھوی مرمو اور وکرم ہیمبروم – کو بھی جمشید پور میں ان کے گھروں سے پولیس نےحراست میں لیا ہے۔’
نریندر مودی بدھ کے روز قبائلی رہنما برسا منڈا کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کھونٹی ضلع کے الیہاتو پہنچے ہیں۔ قبائلی کارکنوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر مودی نے اپنے دورے کے دوران الگ سرنا دھرم کوڈ کا اعلان نہیں کیا تو وہ خودسوزی کر لیں گے۔
مرمو نے کہا، ‘آدی واسی کارکنوں کے خلاف پولیس کی اس طرح کی زیادتیوں کے باوجود ہماری ایک خاتون کارکن پریم شیلا مرمو،جومغربی سنگھ بھوم ضلع کے سونوآ کی رہنے والی ہیں، نے بدھ کی دوپہر جمشید پور کے ساکچی میں برسا منڈا کے مجسمے کے پاس خودسوزی کی دھمکی دی تھی۔ ‘
تاہم، بعدمیں شام کوپرسوڈیہہ پولیس نے پریم شیلا کو بھی احتیاطاً حراست میں لے لیا۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سرنا کوڈ کے اعلان میں تاخیر کے خلاف وہ اپنی بیوی (سمترا) کے ساتھ ساکچی گول چکر کے پاس صبح 10 بجے سے دوپہر 1 بجے تک بھوک ہڑتال کریں گے۔ سرنا کوڈ کے اعلان کا مطالبہ کرتے ہوئے قبائلی کارکن بدھ کو جھارکھنڈ کے مختلف ضلع ہیڈکوارٹروں میں برسا منڈا کے مجسموں یا تصویروں کے پاس ان کے یوم پیدائش پر احتجاجی مظاہرہ کریں گے۔
بوکارو کے پولیس سپرنٹنڈنٹ آلوک پریہ درشی نے کہا کہ قبائلی کارکن (مارڈی) کو احتیاطاً حراست میں لے لیا گیا ہے اور انہیں بدھ کو رہا کر دیا جائے گا۔
پریہ درشی نے کہا، ‘چونکہ انہوں نے خودسوزی کی دھمکی دی تھی، جو غیر قانونی ہے، پولیس نے انہیں احتیاطاً حراست میں رکھا ہے اور انہیں بدھ کی شام کو رہا کر دیا جائے گا۔’
جھارکھنڈ میں آدی واسی، جن میں اکثر سرنا کے پیروکار اور فطرت کے پرستار ہیں، کئی دہائیوں سے ہندوستان میں الگ مذہبی شناخت کے لیے لڑ رہے ہیں اور حالیہ برسوں میں انہوں نےدہلی اور ملک کے دیگر حصوں میں مظاہرہ کیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ تمام قبائلی دیہاتوں میں جوعبادت گاہ ہوتے ہیں، انہیں سرنا ستھل کہا جاتا ہے۔ وہاں بنیادی طور پر سکھوآ کے درخت یا کسی اور درخت کی پوجا کی جاتی ہے۔
قبائلیوں کا استدلال ہے کہ مردم شماری کے سروے میں الگ سرنا مذہبی ضابطہ نافذ کرنے سے قبائلیوں کی شناخت سرنا مذہب کے پیروکاروں کے طور پر کی جائے گی۔ قبائلی تنظیموں نے دعویٰ کیا ہے کہ مرکز کی جانب سے اگلی مردم شماری کے لیے مذہب کے کالم سے ‘دیگر’ آپشن کو ہٹانے کے ساتھ سرنا کے پیروکاروں کو یا تو کالم چھوڑنا پڑے گا یا خود کو چھ مخصوص مذاہب – ہندو، مسلم، عیسائی، بدھ، جین اور سکھ میں سے کسی ایک کا رکن اعلان کرنےپر مجبور ہونا پڑےگا۔’
انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق، جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے اس ہفتے کے شروع میں کہا تھا کہ جھارکھنڈ میں مودی کا خیر مقدم ہے لیکن ‘سرنا’ مذہب کو تسلیم کرنے کا فیصلہ ابھی بھی مرکز کے پاس زیر التوا ہے۔
سورین نے جمعرات کو کہا، ‘ہم نے پہلے ہی انہیں تمام کاغذات بھیج دیے ہیں (آدی واسیوں کے لیے الگ سرنا مذہب کوڈ کے مطالبے سے متعلق)… اب انہیں اس پر فیصلہ لینا ہے۔’
انہوں نے کہا تھا کہ آدی واسیوں کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں سے الگ شناخت اور ان کے آئینی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سرنا مذہب کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔
ستمبر میں وزیر اعظم کو لکھے ایک خط میں سورین نے قبائلیوں کے لیے ‘سرنا’ کوڈ کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ گزشتہ آٹھ دہائیوں میں علاقے میں ان کی آبادی 38 فیصد سے کم ہو کر 26 فیصد ہو گئی ہے۔