جھارکھنڈ مکتی مورچہ کی ایم ایل اے اور شیبو سورین خاندان کی بہو سیتا سورین کے بی جے پی میں شامل ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی مانڈو سے بی جے پی ایم ایل اے اور اسمبلی میں پارٹی وہپ جئے پرکاش بھائی پٹیل کانگریس میں شامل ہوگئے۔ ان کا نام کچھ دن پہلے بی جے پی لیجسلیچر پارٹی کا لیڈر بنائے جانے کے لیے اچھالا گیا تھا۔
جھارکھنڈ میں مانڈو سے بی جے پی ایم ایل اے جئے پرکاش بھائی پٹیل کے کانگریس میں شامل ہونے کے دوران کی کی ایک تصویر۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس)
رانچی: لوک سبھا انتخابات کو لے کر جھارکھنڈ کی سیاست میں شہ مات کا کھیل زور پکڑنے لگا ہے۔ جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) ایم ایل اے اور شیبو سورین خاندان کی بہو سیتا سورین کے بی جے پی میں شامل ہونے کے چند ہی گھنٹے بعد جھارکھنڈ میں بی جے پی کو بڑا جھٹکا لگا ہے۔ مانڈو سے بی جے پی ایم ایل اے اور پارٹی کے اسمبلی وہپ جئے پرکاش بھائی پٹیل کانگریس میں شامل ہو گئے ہیں۔
جے پی پٹیل کے کانگریس میں شامل ہونے کے بعد یہ قیاس آرائیاں شروع ہو گئی ہیں کہ وہ شمالی چھوٹا ناگ پور ڈویژن کے ہزاری باغ پارلیامانی حلقہ سے الیکشن لڑ سکتے ہیں۔
پٹیل کا نام کچھ دن پہلے بی جے پی لیجسلیچر پارٹی کا لیڈر بنائے جانے کے لیے اچھالا گیا تھا، لیکن آخری وقت میں بی جے پی نے اپنا فیصلہ بدلتے ہوئے یہ عہدہ امر باؤری کو دے دیا۔
کرمی برادری سے تعلق رکھنے والے پٹیل جھارکھنڈ کے آندولن کاری اور جے ایم ایم کے سرکردہ رہنما آنجہانی ٹیک لال مہتو کے بیٹے ہیں۔ مہتو پانچ بار مانڈو سے جے ایم ایم کے ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ، 2004 میں انہوں نے گریڈیہہ سے پارلیامانی الیکشن جیتا تھا۔
جھارکھنڈ تحریک کے علمبردار بنود بہاری مہتو اور شیبو سورین کے ساتھ مل کر انہوں نے کئی بڑی سماجی اور سیاسی تحریکوں کی بھی قیادت کی۔ مہاجنی نظام کے خلاف چلائی گئی تحریک کی وجہ سے ٹیک لال مہتو کو گاؤں—گاؤں میں پہچان ملی تھی۔
سال 2011 میں ٹیک لال مہتو کی موت کے بعد جے پی پٹیل کو جے ایم ایم نے مانڈو اسمبلی کا ضمنی انتخاب لڑایا تھا۔ الیکشن جیتنے کے بعد جے پی پٹیل ہیمنت سورین کی حکومت میں وزیر بنے۔ اس کے بعد 2014 میں جے پی پٹیل نے دوبارہ مانڈو سے جے ایم ایم کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا۔ 2019 میں وہ جے ایم ایم سے مایوس ہوئے اور بی جے پی میں شامل ہو گئے۔ بی جے پی کے ٹکٹ پر مانڈو سے پھر سے الیکشن جیت گئے۔
اس سے قبل، 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں پٹیل نے ریاست کے کرمی اکثریتی علاقوں میں بی جے پی کی حمایت میں پارٹی کے سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ اسٹیج شیئر کرتے ہوئے مہم بھی چلائی۔ جھارکھنڈ میں کم از کم چھ لوک سبھا سیٹوں پر کرمی—کوئری ووٹوں کا فیکٹر مؤثر مانا جاتا رہا ہے۔
کانگریس میں شامل ہونے کے بعد پٹیل نے کہا ہے، ‘2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ہم نے بی جے پی کی حمایت میں 11 لوک سبھا حلقوں میں مہم چلائی اور اپنے والد ٹیک لال بابو کے مداحوں کو متحد کرکے بی جے پی کی جیت کا راستہ آسان بنایا۔ ٹیک لال مہتو جھارکھنڈ تحریک کے ایک سرکردہ قائد تھے۔ ہم نے پانچ سالوں تک بی جے پی کی سیاست کو قریب سے دیکھا اور محسوس کیا کہ بی جے پی کے خیالات میرے والد کے جھارکھنڈی خیالات سے میل نہیں کھاتے۔’
لوک سبھا الیکشن لڑنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ وہ اس خیال کے ساتھ کانگریس میں شامل نہیں ہوئے ہیں۔ ہمیں کانگریس میں شامل ہو کر انڈیا اتحاد کو مضبوط کرنا ہے۔ ویسے تو کانگریس کے کئی لیڈروں نے اشارہ دیا ہے کہ پٹیل کا لوک سبھا الیکشن لڑنا طے ہے۔
کانگریس خیمے میں جوش و خروش
دوسری طرف پٹیل کی آمد سے کانگریس کے خیمے میں جوش و خروش دیکھا جا رہا ہے۔ دراصل، حال ہی میں مغربی سنگھ بھوم سے کانگریس ایم پی گیتا کوڑا بی جے پی میں شامل ہوئی ہیں۔ بی جے پی نے گیتا کوڑا کو مغربی سنگھ بھوم سے اپنا امیدوار بھی بنایا ہے۔
بی جے پی ایم ایل اے کے کانگریس میں شامل ہونے پر جھارکھنڈ کے کانگریس انچارج غلام احمد میر نے کہا، ‘پٹیل کا بی جے پی چھوڑ کر کانگریس میں شامل ہونا ایک بڑی سیاسی پیش رفت ہے اور ساتھ ہی راہل گاندھی کی ‘بھارت جوڑو نیایے یاترا’ کا اثر ہے۔ پارٹی کو اس برادری اور نظریہ سے فائدہ پہنچے گا جس سے پٹیل تعلق رکھتے ہیں۔’
وہیں، جھارکھنڈ بی جے پی کے ریاستی ترجمان پرتول شاہ دیو نے اس معاملے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ایکس پر کہا، ‘ جانے والے کو کوئی روک نہیں سکتا۔ پٹیل صاحب، آپ جس کشتی پر سوار ہو رہے ہیں وہ سفر شروع ہوتے ہی ڈوب جائے گی۔ پورا ملک مودی-مودی کر رہا ہے۔’
دریں اثنا، بی جے پی قانون ساز پارٹی کے رہنما امر باؤری نے جھارکھنڈ اسمبلی کے اسپیکر کو ایک خط لکھا ہے۔ اس میں انہوں نے بتایا ہے کہ پٹیل نے بی جے پی کے انتخابی نشان سے الیکشن جیتا تھا۔ اب وہ کانگریس میں شامل ہو گئے ہیں، جو دل بدل کے دائرے میں آتا ہے۔ لہٰذا دسویں شیڈول اور نااہلی کے قواعد 2006 کے تحت ان کی رکنیت ختم کرنے کی کارروائی کی جائے۔
ووٹوں کا ایکویشن متاثر ہوگا
شمالی چھوٹا ناگپور کی سیاست کو طویل عرصے سے کور کر رہے سینئر صحافی نیلندو جئے پریارکہتے ہیں، ‘پٹیل کا کانگریس میں داخلہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ وہ لوک سبھا الیکشن لڑنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اگر کانگریس ہزاری باغ سیٹ سے پٹیل کو الیکشن لڑاتی ہے تو بی جے پی کے لیے مقابلہ آسان نہیں ہوگا۔’
وہ مزید کہتے ہیں، ‘ٹیک لال مہتو کا دیہی علاقوں میں کرمی، کوئری اور مہتہ برادریوں میں کافی اثر و رسوخ تھا۔ پٹیل اپنے والد کی سیاسی میراث اور زمین کو سنبھال رہے ہیں۔ جھارکھنڈ میں کانگریس کا جے ایم ایم کے ساتھ اتحاد ہے۔ اس لیے بدلے ہوئے حالات میں پٹیل بی جے پی کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں۔’
سیتا سورین کی بی جے پی میں شمولیت پر چھڑی بحث
جھارکھنڈ کی سیاست میں بنتے بگڑتے ایکویشن کے درمیان سیتا سورین کے بی جے پی میں شامل ہونے کی سیاسی پیش رفت پر رانچی سے لے کر دہلی تک حکمت عملی ساز نظر رکھے ہوئے ہیں۔
سیتا سورین جامہ اسمبلی سے جے ایم ایم کی ایم ایل اے تھیں۔ اپنے شوہر درگا سورین کی موت کے بعد وہ عوامی زندگی میں آئیں۔ اس کے بعد انہوں نے 2009، 2014 اور 2019 میں مسلسل انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔
جامہ اسمبلی دمکا پارلیامانی حلقہ کا حصہ ہے۔ دمکا سیٹ بی جے پی اور جے ایم ایم دونوں کے وقار سے جڑی ہوئی ہے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ بی جے پی میں سیتا سورین کا کیا کردار ہوگا اور وہ وہاں کیسے خود کو قائم کریں گی۔
اس کے علاوہ، بی جے پی میں شامل ہونے سے پہلے سیتا سورین نے پارٹی سربراہ شیبو سورین کو جے ایم ایم چھوڑنے کے بارے میں جو خط لکھا تھا، اس خط کے مضمون کو لے کر سورین خاندان اور پارٹی میں ہلچل ہے۔
خط میں سیتا سورین نے کہا ہے کہ ‘میرے شوہر کی موت کے بعد سے ہی میں اور میرا خاندان مسلسل نظر انداز کیے جاتے رہے ہیں۔ ہمیں پارٹی اور خاندان کے افراد نے الگ تھلگ کر دیا ہے جو کہ میرے لیے انتہائی تکلیف دہ ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ پارٹی ان لوگوں کے ہاتھ میں چلی گئی ہے جن کے وژن اور مقاصد ہماری اقدار اور آدرشوں سے میل نہیں کھاتے۔’
سیتا سورین کے پارٹی بدلنے کے بعد جے ایم ایم کی انتخابی کمان سنبھال رہیں ہیمنت سورین کی بیوی کلپنا سورین کا ایک ردعمل
ایکس پر سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے، ‘درگا سورین جی کی جدوجہد کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری لیتے ہوئے سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے خلاف لڑتے ہوئے ہیمنت سورین جیل چلے گئے۔ وہ جھکے نہیں۔ ویسے بھی ہمارے قبائلی معاشرے نے کبھی پیٹھ دکھاکر یا سمجھوتہ کر کے آگے بڑھنا نہیں سیکھا۔’
دریں اثنا، حکومت میں وزیر اور جے ایم ایم لیڈر متھلیش ٹھاکر نے سیتا سورین کو بی جے پی میں شامل ہونے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ جلد ہی وہ بھی بی جے پی سے مایوس ہو جائیں گی۔
کلپنا سورین کے ردعمل کے چند گھنٹے بعد سیتا سورین کا ردعمل
ایکس پر سامنے آیا ہے۔ اس میں انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ‘میرے استعفیٰ کے پیچھے کوئی سیاسی وجہ نہیں ہے۔ یہ میری اور میری بیٹیوں کے دکھ، تحقیر اور ناانصافی کے خلاف ایک آواز ہے۔ بہتر ہو گا کہ لوگ انگلیاں ڈال کر میرا منہ نہ کھلوائیں۔’
کلپنا سورین نے گانڈیہ میں سنبھالا مورچہ
اس سب کے درمیان کلپنا سورین نے گانڈیہ اسمبلی حلقہ کا دورہ شروع کر دیا ہے۔ گانڈیہ میں کلپنا سورین نے جھارکھنڈ کے بہادر شہیدوں کے مجسمہ، ویدی اور جے ایم ایم کے سابق ایم ایل اے سالکھن سورین کی تصویر پر گلپوشی کرکے خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنی مہم کا آغاز کیا۔
بدھ کے روز انہوں نے کئی میٹنگیں کیں اور ریاست میں جے ایم ایم حکومت کے کاموں کے بارے میں بتایا۔ اس کے ساتھ ہی بی جے پی اور مرکزی حکومت کو بھی نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت جانتی ہے کہ اگر ہیمنت سورین انتخابات میں موجود ہوتے تو سب کا صفایا ہو جاتا، اسی لیے انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔
اس سیٹ سے جے ایم ایم کے ایم ایل اے سرفراز احمد کے استعفیٰ کے بعد یہاں 20 مئی کو ضمنی انتخاب ہونا ہے۔ کلپنا سورین یہاں سے ضمنی انتخاب لڑ سکتی ہیں۔ تاہم جے ایم ایم نے ابھی تک ان کے نام کا اعلان نہیں کیا ہے۔
(نیرج سنہا جھارکھنڈ میں مقیم آزاد صحافی ہیں)