آٹھ اگست کو دہلی کےجنتر منتر پر‘بھارت جوڑو آندولن’کےزیراہتمام منعقد تقریب میں اشتعال انگیز اورمسلم مخالف نعرے بازی کے کلیدی ملزم بھوپندر تومرعرف پنکی چودھری نے مندر مارگ تھانے میں خودسپردگی کر دی۔ دہلی ہائی کورٹ نے 27 اگست کو چودھری کو گرفتاری سے عبوری راحت دینے سے انکار کر دیا تھا۔
ہندو رکشا دل کا چیف پنکی چودھری۔ (فوٹو بہ شکری: اے این آئی)
نئی دہلی:قومی راجدھانی میں جنتر منتر پر منعقد ایک ریلی میں فرقہ وارانہ نعرے لگانے کے ملزم ہندو رکشا دل کےچیف بھوپندر تومر عرف پنکی چودھری نے منگل کو مندر مارگ تھانے میں خودسپردگی کر دی۔
سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں چودھری مالا پہنے نظر آ رہے ہیں اور ان کے حامی انہیں اپنے کندھےپر بٹھاکرتھانے لے جاتے دکھ رہے ہیں۔ اس دوران ان کے حامیوں نے ‘پنکی بھیا زندہ باد’ اور ‘جئے شری رام’ کے نعرے لگائے۔
چودھری نے دہلی پولیس کے سامنےسرینڈر کیا جبکہ ان کے حامی نعرے لگاتے رہے۔
صحافی پرشانت کمار کے ٹوئٹ کیے گئے ایک ویڈیو میں پنکی چودھری کو اس کے حامی پھولوں کی مالا پہناتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ اسے ان کے حامی کندھوں پر لے جا رہے ہیں۔ اس کے آس پاس کے لوگ اس کی حمایت میں نعرے لگاتے نظر آ رہے ہیں۔
سوموار کو سامنے آئے ایک اور ویڈیو میں چودھری اپنے اوپر لگے تمام الزامات سے انکار کرتے نظر آئے تھے۔ انہوں نے ویڈیو میں دعویٰ کیا تھا کہ وہ منگل کو پولیس کے سامنےسرینڈر کریں گے اور جانچ میں تعاون کریں گے۔
ایک سینئر پولیس افسر نے کہا کہ چودھری کو منگل تقریباًڈھائی بجے مندر مارگ پولیس تھانے پر گرفتار کیا گیا۔ بعد میں انہیں کناٹ پلیس پولیس تھانے کے حوالے کر دیا گیا۔ چودھری کو بدھ کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائےگا۔
پولیس نے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو کے سامنے آنے کے بعدمعاملہ درج کیا تھا۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا تھا کہ گزشتہ آٹھ اگست کو یہاں جنتر منتر پر احتجاجی مظاہرہ کے دوران مبینہ طور پر مسلم مخالف نعرے لگائے جا رہے ہیں۔
دہلی پولیس اس معاملے میں آٹھ لوگوں– اتم اپادھیائے، اشونی اپادھیائے، پریت سنگھ، دیپک سنگھ، دیپک کمار، ونود شرما، ونیت باجپائی اور سشیل تیواری کو پہلے ہی گرفتار کر چکی ہے۔چودھری کی گرفتاری کے لیے قومی راجدھانی اور پڑوسی ریاستوں میں چھاپےماری کی جا رہی تھی۔
حالانکہ اس معاملے میں بی جے پی رہنما اور سپریم کورٹ کے وکیل اشونی اپادھیائے کو دو دن کی عدالتی حراست میں رکھنے کے بعد ضمانت پر رہا کیا جا چکا ہے۔
سوموار کو سامنے آئے ویڈیو میں چودھری یہ کہتے سنے گئے، ‘نہ تو میں نے اور نہ ہی میری تنظیم میں کسی اور نے جنتر منتر پر کچھ غلط کیا ہے۔ میں عدالت کااحترام کرتا ہوں اور 31 اگست کو دوپہر لگ بھگ 12 بجے کناٹ پلیس پولس تھانے میں سرینڈر کروں گا۔’
چودھری نے کہا، ‘عدالت میں جانے کا ہر شخص کو حق ہے اور میں نے وہی کیا۔ میرے خلاف تمام الزامات جھوٹے اور بے بنیاد ہیں۔ میں نے اپنی زندگی ہندو دھرم اور ہندوتوا کے لیےوقف کر دی ہے۔ جب تک میں زندہ ہوں، میں اپنے دھرم کے لیے کام کرنا جاری رکھوں گا۔’
اس سے پہلے دہلی ہائی کورٹ نے جمعہ کو پنکی چودھری کو گرفتاری سے عبوری راحت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس مہینے کی شروعات میں یہاں کی ایک سیشن عدالت نے بھی چودھری کی پیشگی ضمانت کی عرضی خارج کر دی تھی۔
پنکی چودھری کی عرضی ایڈیشنل سیشن جج انل انتل نے
خارج کر دی تھی اور کہا کہ ماضی میں ایسی واقعات کی وجہ سے فرقہ وارانہ کشیدگی ہوئی ہے، جس سے دنگے ہوئے اور جان ومال کا نقصان ہوا۔
جج نے 21 اگست کو اپنے فیصلے میں
کہا تھا، ‘ہم طالبانی اسٹیٹ نہیں ہیں۔قانون کی حکمرانی، ہماری کثیر ثقافتی اور تکثیری کمیونٹی کی حکمرانی کا مقدس اصول ہے۔ آج جب پورا ہندوستان ‘آزادی کا امرت مہوتسو’منا رہا ہے تب کچھ ایسے لوگ ہیں جو اب بھی عدم برداشت اورخودغرض ذہنیت میں جکڑے ہوئے ہیں۔’
چودھری شدت پسند ہندوتوارہنمایتی نرسنہانند سرسوتی کے قریبی ہیں اور پریس کانفرنس میں دکھائی دیے ہیں۔
انہوں نے جنوری 2020 میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں طلبا اور اساتذہ پر ہوئے حملے کی ذمہ داری لی تھی۔
بتا دیں کہ گزشتہ آٹھ اگست (اتوار)کو دہلی کے جنتر منتر پر ‘بھارت جوڑو آندولن’ کے زیر اہتمام منعقد پروگرام میں یکساں سول کوڈ کونافذ کرنے کے حق میں ریلی ہوئی تھی، جس میں براہ راست مسلمانوں کے خلاف تشدد کی اپیل کی گئی تھی۔
الزام ہے کہ اس دوران بھڑکاؤ اور مسلم مخالف نعرےبازی کی گئی تھی۔ سوشل میڈیا پر وائرل پروگرام کے ایک مبینہ ویڈیو میں براہ راست مسلمانوں کو قتل کرنے کی اپیل کی گئی تھی۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)