مودی سرکار کی جانب سے 5 اگست 2019 کو جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے سے ایک دن قبل سرکردہ ریاستی رہنماؤں کو نظر بند کر دیا گیا تھا، جن میں حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق بھی تھے۔ حریت کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ریاستی حکام نے میر واعظ پر لگائے گئے الزامات کی تفصیلات بتانے سے انکار کردیا ہے۔
بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت کی جانب سے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کو ہٹائے جانے کے تین سال سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی سینئر حریت رہنما میر واعظ عمر فاروق اپنی سری نگر کی رہائش گاہ میں نظر بند ہیں۔
میرواعظ کے قریبی حریت کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ جموں و کشمیر حکام نے ان الزامات کی تفصیلات بتانے سے انکار کر دیاہے جن کے تحت انہیں سری نگر میں ان کی نگین واقع رہائش گاہ تک محدود کر دیا گیا ہے، جہاں تک رسائی پر پابندی ہے اور سیکورٹی ایجنسیاں اس کی نگرانی کر رہی ہے۔
میرواعظ کے معاون نے دی وائر کو بتایا،انہیں کشمیر کے تنازعہ کا پرامن حل تلاش کرنے کی سزا دی جا رہی ہے۔اگر ان کے خلاف کوئی الزام ہیں تو انہیں ان کے بارے میں جاننے کا آئینی حق حاصل ہے تاکہ وہ تمام عدالتی تدبیروں سے فائدہ اٹھا سکیں۔
آرٹیکل 370 کی منسوخی سے ایک دن پہلے 4 اگست 2019 کو ایک پولیس وین نگین علاقے میں میرواعظ کی رہائش گاہ پر پہنچی تھی۔ حریت عہدیدار نے کہا کہ ، وین مسلسل میر واعظ کی رہائش گاہ کے باہر کھڑی ہے۔ ان کے بنیادی انسانی حقوق چھین لیے گئے ہیں جس کی وجہ سے ان کی مذہبی ذمہ داریوں میں خلل پڑ گیا ہے۔ یہ ان کے اور کشمیری مسلمانوں کے لیے انتہائی دکھ کی بات ہے۔
میرواعظ کی کی والدہ، بیوی اور دو بچوں سمیت ان کی سرگرمیاں ان کی رہائش گاہ تک محدود ہو کر دی گئی ہیں۔ انہیں بھاری حفاظتی گھیرےمیں باہر نکلنے کی اجازت ہے، جس میں ہسپتال کے چند دورے کے ساتھ–ساتھ کووڈ-19کی ٹیکہ کاری اور خاندان میں ہوئی ایک موت کے وقت ان کا باہر نکلنا ہوا تھا۔ صرف چند منتخب لوگوں، جن میں قریبی رشتہ دار شامل ہیں ، کو ہی ان سے ملنے کی اجازت ہے۔
میرواعظ کا پاسپورٹ برسوں سے ضبط ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ ان کے دونوں بچے گزشتہ دو سال سے اپنے پاسپورٹ کی تجدید کا انتظار کر رہے ہیں۔
حریت کے ایک ترجمان نے اپنے بیان میں کہا کہ میرواعظ کی گرفتاری آمرانہ اورحکام کی انصاف پسندی سے الگ ‘کارروائی’ ہے اور ‘ان کے تمام بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی’ ہے۔
جموں و کشمیر کے پولیس ڈائریکٹر جنرل دلباغ سنگھ اور وادی کشمیر کے اعلیٰ پولیس افسر وجے کمار نے ان الزامات کے بارے میں دی وائر کے سوالوں کا جواب نہیں دیا،جن کے تحت کشمیر کے چیف عالم میر واعظ کو نظر بند رکھا گیا ہے۔ ان کا جواب موصول ہونے پر رپورٹ میں شامل کیا جائے گا۔
دی وائر کے ساتھ حریت کانفرنس کی طرف سےشیئر کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق، میرواعظ نے 2016 سے لے کر اب تک 1521 دن حراست میں گزارے ہیں، جس کی شروعات حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کے انکاؤنٹر میں مارے جانے کے بعد ہونے والے احتجاج کے دوران ہوئی تھی، اس وقت انہیں تقریباً دو ماہ سری نگرکی چشم شاہی سب جیل میں رکھا گیا تھا۔
جب اس وقت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے کہا تھا کہ کشمیر پر پاکستان کے ساتھ بات چیت ‘انسانیت کے دائرے میں’ ہوگی، تب میرواعظ ان چند حریت رہنماؤں میں سے ایک تھے جنہیں نئی دہلی نے مذاکرات میں شامل کیا تھا۔
میرواعظ کی بات چیت کی حمایت کو حریت کانفرنس کے اندر سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس کے بعد انہیں بھاری ذاتی نقصان بھی اٹھانا پڑا، جن میں جون 2014 میں ان کے چچا مولوی مشتاق کا قتل اور اسی دن ان کے گھر پر گرینیڈ کا حملہ بھی شامل ہے۔
ان سب کے باوجود میرواعظ نے حریت کے اعتدال پسند دھڑے کی قیادت جاری رکھی اور سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی، منموہن سنگھ اور نائب وزیر اعظم ایل کے اڈوانی کے ساتھ بات چیت کے عمل میں شامل ہوئے۔ بات چیت کے بعد نئی دہلی نے حریت رہنماؤں کو پاکستان جانے کی اجازت بھی دی، جہاں انہوں نے ملک کی سیاسی اور سیکورٹی قیادت سے ملاقات کی تھی۔
حریت کے ایک عہدیدار نے کہا، صحیح اور غلط کا تعین تنازعہ کو بڑھاتا ہے، ہمارا نقطہ نظر اس سے مختلف رہا ہے۔ ہم تنازعہ میں شامل تینوں فریقوں (ہندوستان، پاکستان اور جموں و کشمیر کی عوام) کے تحفظات اور مفادات کو سمجھ کر حل تلاش کرتے ہیں اور سب کے اطمینان کے لیے بات چیت اور غوروفکر کے ذریعے حل تلاش کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ مشکل ہے، لیکن سب سے اچھا پرامن راستہ یہی ہے۔
حریت اور مرکزی جماعتوں کے کئی دیگر رہنماؤں کے ساتھ ساتھ میرواعظ کی سرگرمیوں پر 4 اگست 2019 کو پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ ان میں ریاست کے تین سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ شامل تھے، جنہیں اب آزاد کر دیا گیا ہے۔ باقی دیگر افراد جموں و کشمیر اور ملک کے دیگر حصوں کی جیلوں میں ہیں۔ میرواعظ واحد لیڈر ہیں جو گھر میں نظر بند ہیں۔
سری نگر کی جامع مسجد کے انتظامی ادارے انجمن اوقاف کے مطابق، میرواعظ جمعہ اور اسلامی کیلنڈر کے دیگر اہم ایام میں جامع مسجد میں باجماعت نماز پڑھا کرتے تھے،یہ مسجد2016 سے اب تک 167 جمعہ کو حکام کے ذریعےبند کر ائی گئی ہے۔ یہاں تک کہ 2019 کی عید الاضحیٰ کی نماز کے بعد سے یہاں عید کی نماز پر بھی مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
ہندوستانی حکومت سے قیدیوں کی ‘غیر مشروط’ رہائی کی درخواست کرتے ہوئے حریت ترجمان نے کہا، کشمیری سیاسی قیادت، سماجی کارکنان، کارکنان، صحافی، نوجوان اور مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد ہندوستان بھر کی جیلوں میں بند ہیں اور اختلاف رائے یا مزاحمت کو دبانے کے لیے ہر طرح کےجابرانہ اقدامات کرنا، مسئلے کو حل کرنے کی سمت میں ایک ظالمانہ نظریہ ہے اور یہ بعد میں بے سود ثابت ہوں گے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)