جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کے زیادہ تراہتماموں کو ہٹانے کے ساتھ ہی وہاں ذرائع ابلاغ پر لگی پابندیوں کو چیلنج دیتےہوئے کانگریسی رہنما غلام نبی آزاد، کشمیر ٹائمس کی مدیر انورادھا بھسین اور دیگرلوگوں نے عرضیاں دائر کی تھیں۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر میں آئین کے آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتمام ختم کرنے کے بعد وہاں لگائی گئی پابندیوں کو چیلنج دینے والی عرضی پر بدھ کو سماعت پوری کر لی۔ اس معاملے میں عدالت فیصلہ بعد میں سنائےگی۔ جسٹس این وی رمن، جسٹس آرسبھاش ریڈی اور جسٹس بی آر گوئی کی بنچ نےکانگریس کے سینئر رہنما غلام نبی آزاد اور کشمیر ٹائمس کی مدیر انورادھابھسین اور کئی دیگر کی عرضیوں پر تمام فریق کو تفصیل سے سننے کے بعد کہا کہ فیصلہ بعد میں سنایا جائےگا۔
آزاد کی طرف سے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ جموں و کشمیر میں قومی سلامتی کے مسئلے کو وہ سمجھتے ہیں لیکن اس وجہ سے وادی کی پوری 70 لاکھ کی آبادی کو تالے میں بند نہیں کیا جا سکتا۔ انورادھا بھسین کی طرف سے وکیل تلسی گروور نے ان پابندیوں کو’غیر آئینی’بتایا اور کہا کہ ان پابندیوں کو متناسب ٹیسٹ سے گزرنا ہوگا۔
جموں و کشمیر انتظامیہ کی طرف سے سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتمام ختم کرنے کے بعد سابقہ ریاست میں انٹرنیٹ خدمات پر لگائی گئی پابندیوں کو منگل کو منصفانہ ٹھہرایا تھا۔ مہتہ نے کہا تھا کہ ان کی لڑائی اندر فعال دشمنوں سے ہی نہیں بلکہ سرحدپار دشمنوں سے بھی ہے۔ انہوں نے آرٹیکل 35 اے ہٹائے جانے کے خلاف سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی اور نیشنل کانفرنس پارٹی کے رہنماؤں کی تقاریراور سوشل میڈیا پر اپلوڈ پوسٹ کا حوالہ دیا۔
آرٹیکل35اے ریاست کے مستقل باشندوں کو خصوصی حق عطا کرتا تھا اور آرٹیکل 370 میں ریاست کو خصوصی درجہ عطا کرنے سے متعلق اہتمام تھے۔ مہتہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی فوج، افغان طالبان اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے سرکاری ٹوئٹر ہینڈلس پر جموں وکشمیر کے عوام کو بھڑکانے والے ہزاروں پیغام ہیں۔ سالیسٹر جنرل نے کہا کہ پاکستانی فوج کا پروپیگنڈہ چل رہا ہے۔ اگر ہم نےاحتیاطی قدم نہیں اٹھائے ہوتے تو ہم اپنے فرائض سرانجام دینے میں ناکام ہوجاتے۔
انہوں نے کہا کہ اس کا واحد حل یہی ہے کہ یا تو آپ انٹرنیٹ خدمات رکھیں یانہیں کیونکہ ان کو الگ کرنا، بالخصوص اتنے بڑے علاقے میں، بہت ہی مشکل کام ہے۔وہاں حکم امتناعی نافذ کیا گیا تاکہ لوگ جمع نہ ہو سکیں کیونکہ ایسا ہونے پر نظم و نسق کا مسئلہ کھڑا ہو سکتا تھا۔ مرکز نے بھی 21 نومبر کوآرٹیکل 370 کے زیادہ تراہتمام ختم کئے جانے کے بعد جموں و کشمیر میں لگائی گئی پابندیوں کو منصفانہ ٹھہرایا تھا۔ مرکز نےکہا تھا کہ احتیاط کے طور پر اٹھائے گئے اقدام کی وجہ سے وادی میں ایک بھی آدمی کی جان نہیں گئی اور نہ ہی حفاظتی دستہ کو ایک بھی گولی چلانی پڑی۔
مرکز نے کشمیر وادی میں دہشت گردانہ تشدد کا ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ پچھلے کئی سالوں سے سرحد پار سے دہشت گردوں کو یہاں بھیجا جا رہا ہے، مقامی انتہاپسندوں اور علیحدگی پسند تنظیموں نے شہریوں کو گروی بنا رکھا تھا۔ ایسی حالت میں اگر حکومت نے شہریوں کی زندگی کی حفاظت کے لئے احتیاطی قدم نہیں اٹھائے ہوتے، تویہ بہت ہی نادانی ہوتی۔اس سے پہلے 20 نومبر کو وزیرداخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ وادی میں حالات بالکل معمول پرہیں۔ انہوں نے پولیس کی گولی سے ایک بھی آدمی کی جان نہیں جانے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔
انہوں نے راجیہ سبھا کو بتایا تھا کہ رات کے 8 بجے سے صبح کے 6 بجے کے درمیان کو چھوڑکر جموں و کشمیر کے 195 پولیس اسٹیشنوں میں سے کسی میں بھی دفعہ 144 نافذ نہیں ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اسکولوں میں حاضری 98 فیصد ہے اور جموں و کشمیر انتظامیہ کے مطمئن ہونے پر ہی انٹرنیٹ خدمات کوبحال کیا جائےگا۔ وہیں، مرکزی وزیرمملکت برائے داخلہ جی کشن ریڈی نے راجیہ سبھا میں بتایاتھا کہ 4 اگست سے کشمیر وادی میں رہنماؤں،علیحدگی پسندوں اور پتھربازوں سمیت 5161 لوگوں کی گرفتاریاں ہوئی ہیں۔ اس میں سے 218 پتھربازوں کے ساتھ 609 لوگوں کو فی الحال حراست میں رکھا گیا ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)