جموں و کشمیر: سرینگر کے کچھ حصوں میں نئی پابندیاں نافذ

جموں کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آئین کے آرٹیکل370 کےاکثر اہتمام کو ختم کئے جانے کے 40ویں دن بعد بھی کشمیر میں زندگی متاثر ہے۔

جموں کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آئین کے آرٹیکل370 کےاکثر اہتمام کو ختم کئے جانے کے 40ویں دن بعد بھی کشمیر میں زندگی متاثر ہے۔

فوٹو: رائٹرس

فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی : جمعہ  کی نماز کے مد نظر نظم و نسق  بنائے رکھنے کے لئے سرینگر کے کچھ حصوں میں نئی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔حکام نے بتایا کہ جمعہ کو اسکول بند رہے اور پبلک ٹرانسپورٹ  سڑکوں سے ندارد رہے۔جموں کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آئین  کے آرٹیکل 370 کے اکثر اہتمام  کو ختم کئے جانے کے 40ویں دن بعد بھی کشمیر میں عام زندگی متاثرہے۔انہوں نے بتایا کہ حضرت بل کے اردگرد کے علاقوں میں نئی پابندیاں  لگائی  گئی ہیں جبکہ شہر کے اندرونی علاقوں میں، پانچ پولیس تھانہ حلقوں  میں پابندیاں اب بھی جاری ہیں۔

نظم ونسق  کو قائم رکھنے کے لئے دفعہ 144 کے تحت پابندیاں لگائی گئی ہیں۔ حکام  ہر جمعہ کو وادی کے حساس علاقوں میں پابندیاں لگاتے ہیں تاکہ اس دن مسجدوں اور مذہبی مقامات  پر جمع ہونے والی بھیڑ کا مفاد پرست عناصرمبینہ طور پر فائدہ نہ اٹھا سکیں۔گزشتہ تقریباً ایک مہینے سے نوہٹا واقع جامع مسجد اور حضرت بل واقع درگاہ شریف جیسی بڑی مسجدوں اور مذہبی مقامات  میں جمعہ  کی نماز کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔حالانکہ پوری وادی میں لینڈ لائن فون کام کر رہے ہیں لیکن موبائل پر وائس کال صرف جنوبی کشمیر کے کپواڑا اور ہندواڑا پولیس حلقوں  میں ہی ہو پا رہی ہیں۔

حکام نے کہا کہ  وادی  میں عام زندگی  ابھی بھی متاثر ہے۔ بازار اور دوسرے کاروباری ادارے بند رہے اور سڑکوں سے گاڑیاں ندارد رہیں۔ انٹرنیٹ خدمات  پوری طرح سے ٹھپ ہیں۔اسکولوں کو پھر سے کھولنے کی ریاستی  سرکار کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا کیونکہ سکیورٹی  کو لے کر تشویش کی وجہ سےوالدین  بچوں کو گھر سے باہر نہیں بھیج رہے ہیں۔

اکثر سرکردہ رہنماؤں  کو حراست میں رکھا گیا ہے جبکہ سابق وزیر اعلیٰ  فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت کئی رہنماؤں کو حراست یا نظربندی میں رکھا گیا ہے۔

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)