رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال کے دوران 12سے 15ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔مصنفین کے مطابق ایک شخص کو گرفتار کرکے آگرہ جیل میں بس اس وجہ سے پہنچایا گیا کہ کسی فوٹو میں اس کو کسی کی نماز جنازہ ادا کرتے ہو ئے دیکھا گیا تھا۔
ویسے تو حقوق انسانی کی خلاف ورزیاں، زیادتیاں، گرفتاریاں اور ٹارچر کشمیر میں عام بات ہے اور وہاں کے مکین بھی ان کے عادی ہو چکے ہیں، مگر پچھلے سال اگست کے بعد سے جس طرح ریاست کو تحلیل اور ضم کردیا گیا، اس نے سیکورٹی اداروں کو اس حد تک بے لگام کر دیا ہے، کہ دیگر ادارے بشمول عدلیہ بھی ان سے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔
حال ہی میں پاکستان، انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیموکریسی اور جموں و کشمیر سالیڈیریٹی گروپ نے کشمیر کے زمینی حالات کا جائزہ لینے کے بعد 196صفحات پر مشتمل ایک جامع رپورٹ میں کئی دلخراش واقعات قلم بند کئے ہیں، جن سے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ بدقسمتی سے میڈیا میں اس رپورٹ کو خاطر خواہ تشہیر اور پذیرائی نہیں مل سکی ہے۔
رپورٹ کے مصنفین تپن بوس، ریتا منچندا، انورادھا بھسین، سیدہ سیدین حامد، ایم جی وجیین اور دیگر افراد نے دیہاتوں اور قصبوں کا دورہ کرکے یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ خطے میں ایک خاموش عدم تعاون کی تحریک چل رہی ہے، جس سے مین اسٹریم پارٹیاں اور حکومت خاصی خائف ہیں۔ ان کہنا ہے کہ بدلہ میں سیکورٹی انتظامیہ کا رویہ خاصا ہتک آمیز اور بے لگام ہو گیا ہے۔
پلوامہ کے متمول تاجر اور ایک فیکٹری کے مالک کا ذکر کرتے ہوئے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح دیہی علاقوں میں عام افراد کو مخبر ی کے لیےمجبور کیا جاتا ہے۔ اس تاجر (جس کا نام مخفی رکھا گیا ہے)نے وفد کو بتایا کہ چند ماہ قبل جب وہ انڈسٹریل اسٹیٹ میں واقع اپنی فیکٹری کے سامنے کار پارک کر رہا تھا کہ راشٹریہ رائفلز کے سپاہیوں نے اس کو برلب سڑک اینٹیں اٹھا کر ایک ٹرالی میں ڈالنے کا حکم دے دیا۔ اس نے پہلے تو احتجاج کیا اور پھر آفر دی کہ وہ اپنی فیکٹری سے مزدور بلا کر یہ کام کروائے گا۔
مگر سپاہی اس سے اور بھی طیش میں آگئے اور کہا کہ،
‘کشمیریوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ اب وہ ہمارے غلام ہیں اور ان کو غلامی کی زندگی گزارنا سیکھنی ہوگا اور غلام ہی کی طرح رہیں۔’
یہ کہتے ہوئے اس متمول تاجر کے سر پر انہوں نے اینٹوں اور گارے کا ٹوکرہ زبردستی لاد کر اس سے اگلے کئی گھنٹے تک بیگا ر لیتے رہے۔ سڑک کی دوسری طرف اس کی فیکٹری کے مزدور اپنے مالک کو سر پر اینٹیں اور گارا ڈھوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔
مزید اس رپورٹ میں درج ہے کہ پچھلے سال ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی کاروائی کے دوران جب پاکستانی وزیر اعظم عمران خان تقریر کررہے تھے، تو اس علاقے میں سپاہیوں نے لوگوں کے دروازے کھٹکٹھائے اور جو بھی یہ تقریر دیکھ رہا تھا، اس کی شامت آگئی۔
یہ ایک ایسے شخص کا قصہ ہے، جس کے والد انڈین ملٹری کی انجینئرنگ سروس کے لیے اور اس کے چاچا ایئر فورس کے لیے کام کرتے تھے۔ 2014میں آئے سیلاب متاثرین کے لیے جب اس نے بڑھ چڑھ کر ریلیف کا کام کیا تو پولیس نے اس کو گرفتار کرکے پوچھ تاچھ کی کہ ریلیف کے لیے رقوم کہا ں سے آرہی ہیں اور کس نے ریلیف میں حصہ لینے کی ترغیب دی؟ 2018میں راشٹریہ رائفلز کی 55ویں بٹالین نے اس کے گھر پر دھاوا بول کر کار اور دیگر قیمتی اشیاء اپنے قبضہ میں لے لیں۔
اگلے دن کیمپ میں بٹالین کے کیپٹن نے اس کو بلا کر کہا وہ کہ عسکری کمانڈرذاکر موسیٰ کی اہلیہ کے ساتھ تعلقات بنائے اور اس کے ذریعے اس کی مخبری کرے۔ ان کو معلوم ہوگیا تھا کہ ذاکر موسیٰ کی اہلیہ اس کے ایک قریبی دوست کی ہمشیرہ تھی۔ انکار کی صورت میں اس تاجر کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر خوب زد و کوب کیا گیا، جس سے اس کے ہاتھ میں فریکچر ہوگیا۔ کئی دن حراست میں رکھنے کے بعد اس کے والد نے کیپٹن کو تین لاکھ روپے ادا کرکے اس کو چھڑوادیا۔
اس شخص کا کہنا تھا کہ کشمیر میں حالات کو خراب اور غیر مستحکم رکھوانے میں ہندوستانی فوج کا بھی کچھ کم رول نہیں ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے اپنے والد اور چچا کی فوج کے ساتھ قربت کی وجہ سے فوج کو کافی قریب سے دیکھا اور پرکھا ہے، اور اس کے اندر کس قدر بدعنوانی سرایت کر گئی ہے وہ اس کا چشم دید گواہ ہے۔ پچھلے سال پانچ اگست کا ذکر کرتے ہوئے اس تاجر کا کہنا ہے کرفیو کی وجہ سے اس دن وہ اپنی فیکٹری میں ہی رکا۔
مگرپیچھے اس کے گھر پر آرمی نے ریڈ کی اور افراد خانہ کو زد و کوب کیا، حتیٰ کہ دماغی طور پر کمزور اس کے 15سالہ کزن کو بری طرح پیٹا۔ اس واقعہ کی اطلا ع ملنے پر وہ کیمپ کی طرف روانہ ہوا، جہاں اس پر الزام لگایا گیا کہ وہ احتجاج میں شریک تھا اور چند دن کیمپ میں حراست میں رکھ کر اس کو پولیس کے حوالے کیا گیا۔
اس کے مطابق پولیس لائنز میں اس وقت ایک درجن کے قریب 13سے 15سال کی عمر کے بچے بند تھے۔ چار روز بعد تو اس کو چھوڑدیا گیا، مگر ان بچوں پر بد نام زمانہ پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کرکے انہیں جیلوں میں بھیج دیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال کے دوران 12سے 15ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جو افراد ابھی تک حراست میں ہیں ان کا بھی پورا حساب و کتاب نہیں ہے۔مصنفین کے مطابق ایک شخص کو گرفتار کرکے آگرہ جیل میں بس اس وجہ سے پہنچایا گیا کہ کسی فوٹو میں اس کو کسی کی نماز جنازہ ادا کرتے ہو ئے دیکھا گیا تھا۔
پچھلے ایک سال کے دوران جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں حبس بےجا یعنی ‘ہیبیس کارپس’ کی 450 رٹ پٹیشن دائر کی گئی، مگر صرف تین کی شنوائی کی گئی۔ کشمیر سے ہزاروں کیلومیٹر دور اسیروں کی حالت نہایت ناگفتہ بہ ہے۔ اسیروں سے ملاقات کے لیے اکثر افراد خانہ کو زمین و جائیداد بیچنی پڑی ہے۔ کپواڑہ کا ایک طالب علم بلال احمد جو سرینگر میں امر سنگھ کالج میں زیر تعلیم تھا کو پولیس نے چند دیگر نوجوانوں کے ساتھ حراست میں لے لیا۔
ایس ایچ او نے طالب علم کے رشتہ داروں کو بتایا کہ چند روز میں اس کو رہا کیا جائےگا۔ دیگر نوجوانوں کو چند روز بعد بھاری رشوت کے عوض رہا کیا گیا، مگر بلال کے والد نے جب رقم دینے سے انکار کر دیا، تو اگلے ہی دن اس پر پبلک سیفٹی ایکٹ کا اطلاق کرکے 1600کیلومیٹر دور اتر پردیش کے امیڈکر نگر ضلع کی جیل میں بھیج دیا گیا۔ جہاں اس کو یرقان کی بیماری لاحق ہوگئی۔
یہ ضلع لکھنؤ سے 200کیلومیٹر دور فیض آباد ڈویژن میں آتا ہے۔ جب ان کے والد کو پتہ چلا تو 25ہزار روپے میں گائے بیچ کروہ امبیڈ کر نگر پہنچ گئے، وہاں کسی ہندو تو دور مسلم ہوٹل والے نے بھی ان کو رات بھر ٹھہرانے سے منع کردیا۔ خیر جیل کے ملاقات کمرہ میں بلال نے ان کو بتایا کہ اس کو بری طرح زد و کوب کیا گیا۔ اس جیل میں دیگر 25ایسے کشمیری لڑکے تھے، جن کے گھر والوں کو ابھی تک ان کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا۔
سرینگر واپسی پر بلال کے والد نے ہائی کورٹ میں فریا دکی، کہ اس کے بیٹے کے امتحانات شروع ہونے والے ہیں اور اس کو ان میں شرکت کی اجازت دی جائے۔ کورٹ نے دسمبرمیں حکم دیا کہ بلال کو سرینگر جیل میں شٖفٹ کیا جائے، تاکہ وہ امتحانات دے سکے۔ مگر کوئی ایکشن نہیں ہوا۔ فروری میں دوبارہ اس کے والد ہائی کورٹ کے دروازے پر پہنچے اور ایک یا دو پیشی کے بعد کورٹ نے دوبارہ آرڈر پاس کیے،مگر انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔
اب اس کے والد کو مشورہ دیا گیا کہ وہ توہین عدالت کا کیس دائر کرے۔ مگر اب اس کے پاس عدالتی غلام گردشوں کے لیے پیسے ہی نہیں بچے تھے۔
اسی طرح بارہمولہ کے 21سالہ دہاڑی مزدور نوید پرے کو اس کے گھر سے اٹھایا گیا۔ جب اس کے عمر رسیدہ والدین پولیس اسٹیشن پہنچے، تو اس کی والدہ کو زد وکوب کیا گیا، اور نوید کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت آگرہ جیل بھیج دیا گیا۔ آگرہ سفر اور ملاقات کے لیے والد نے 35ہزار روپے میں اپنی 10مرلہ زمین بیچی۔ نوید خاندان کا اکیلا کفیل تھا۔ جب اس رپورٹ کے مصنفین اس کے گھر پہنچے، تو معلوم ہوا کہ عمررسیدہ والدین پاس پڑوس سے ادھار لےکر زندگی کاٹ رہے ہیں۔
گرفتاری کو چیلنج کرنے کے لیے ا ن کے پاس کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ 28سالہ فیاض میر نے قرضہ لےکر ایک ٹریکٹر خریدا تھا تاکہ بوڑھے ماں باپ اور چار جوان بہنوں کی کفالت کر سکے۔ اس کو گرفتار کرکے اتر پردیش کے شہر بریلی کی جیل میں بھیج دیا گیا۔ اس کے باپ نے 25ہزار روپے اکٹھا کیے اور ملاقات کے لیےبریلی پہنچا۔ مگر ملاقات کمرہ میں سلاخوں کے پیچھے وہ صرف اپنے بیٹے کو دیکھ سکا اور کوئی بات نہیں کرسکا، کیونکہ جیل سپرنٹنڈنٹ کی سخت ہدایت تھی کہ گفتگو صرف ہندی زبان میں سپاہیوں کی موجودگی میں کی جائےگی۔
مگر اس کے والد کشمیر ی کے علاوہ اور کوئی زبان بولنے سے قاصر تھے۔ 20منٹ تک باپ بیٹے بس ایک دوسرے کو دیکھتے رہے، تاآنکہ سپاہی فیاض کو دوبارہ اندر لےکر گئے اور ملاقاتی کو باہر نکال دیاگیا۔ بیٹے سے بات کیے بغیر عمررسیدہ باپ 1100کیلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد واپس سرینگر اپنے گھر لوٹا۔
صبر کرتی ہی رہی بے چارگی، ظلم ہوتا ہی رہا مظلوم پر۔