جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے کے بعد لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے لوگ اپنے معاملوں کی سماعت کے لئے ہائی کورٹ نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ سرکاری محکمے بھی اپنی پیروی کرنے کے لئے کورٹ میں حاضر نہیں ہو سکے۔
نئی دہلی: مرکز کی مودی حکومت کے ذریعے جموں و کشمیر کا خصوصی درجہ ختم کرنے اور اس کو دو یونین ٹریٹری میں باٹنے کے بعد سے ہی ریاست میں کئی طرح کی پابندیاں لگائی گئیں۔ اس کی وجہ سے وہاں کی عوام کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔عالم یہ ہے کہ پابندیوں کی وجہ سے جموں و کشمیر ہائی کورٹ تقریباً بند پڑا ہوا ہے۔ لوگ اپنے معاملوں کی سماعت کے لئے ہائی کورٹ نہیں پہنچ پا رہے ہیں۔ جموں و کشمیر کی عدالت میں انصاف کو لگاتار ملتوی کیا جا رہاہے۔
انڈین ایکسپریس نے پانچ اگست سے لےکر 26 اگست تک ہائی کورٹ کے ذریعے جاری کئے گئے احکام کا تجزیہ کیا ہے، جس سے کئی چونکانے والے حقائق نکلکر سامنے آئے ہیں۔اس دوران کورٹ نے کل 288 معاملوں کی سماعت کی اور اس میں سے 256 معاملوں میں درخواست گزار موجود نہیں تھے۔ وہیں اس میں سے 235 معاملوں میں رسپانڈنٹ موجود نہیں تھے۔
اس کے علاوہ کم سے کم 38 معاملوں میں چیف جسٹس گیتا متل یا جسٹس راشد علی ڈار کو مقدمہ کی فائل تک نہیں ملی۔ کورٹ کے ذریعے جاری احکام میں بنیادی طور پر دو باتیں لکھی ہوئی ہیں۔پہلی، ‘ ریاست میں لگائی گئی پابندیوں کی وجہ سے فریقین کے وکیل حاضر نہیں ہو پائے۔ معاملے کا ریکارڈ نہیں ملا ہے۔ عبوری حکم، اگر کوئی ہو، اگلے حکم تک جاری رکھا جائے۔ پھر سے لسٹ کریں۔ ‘
اور دوسری، ‘ آج اس معاملے کی سماعت کے دوران مدعی اور مدعا علیہ کی طرف سے کوئی حاضر نہیں ہوا۔ انصاف کے مفاد میں، پھر سے لسٹ کریں۔ عبوری حکم اگلے حکم تک جاری رکھا جائے۔ ‘اس کے علاوہ 288 معاملوں میں سے 39 معاملے اگست مہینے کے لئے، 29 معاملے ستمبر مہینے کے لئے، 114 معاملے اکتوبر مہینے کے لئے اور 90 معاملے نومبر مہینے کے لئے ملتوی کیے گئے ہیں۔ اس طرح 70 فیصد سے زیادہ معاملے اکتوبر اور نومبر مہینے کے لئے ملتوی کیے گئے ہیں۔
غور طلب ہے کہ جموں و کشمیر میں جاری پابندیوں کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی گئی تھی۔ حالانکہ کورٹ نے حالات کو معمول پر لانے کے لئے مرکزی حکومت کو وقت دیتے ہوئے درخواست گزاروں سے کہا کہ ابھی تھوڑی دیر اور انتظار کریں۔پابندیوں کی وجہ سے ریاست میں حالت اتنی خراب ہے کہ تین معاملوں میں رسپانڈنٹ کے طورپر ریاستی ہیومن رائٹس کمیشن بھی حاضر نہیں ہو سکا۔ دو معاملوں کو چھوڑکر، کوئی بھی وکیل پرائیویٹ پرسن کے لیے حاضر نہیں ہوا، جو کہ رسپانڈنٹ تھے۔