کانگریس کے علاوہ پی ڈی پی، نیشنل کانفرنس، پیپلس کانفرنس، سی پی ایم اور کشمیر کی کچھ دوسری سیاسی پارٹیوں نے بھی بی ڈی سی انتخابی عمل میں شامل نہ ہونے کی بات کہی ہے۔ بی جے پی نے کہا کہ بی ڈی سی انتخاب کی مخالفت کانگریس، این سی، پی ڈی پی کے کھوکھلےپن کو ظاہر کرتا ہے۔
نئی دہلی: جموں و کشمیر میں 24 اکتوبر کو ہونے والے بلاک ڈیولپمنٹ کاؤنسل (بی ڈی سی) الیکشن میں شامل ہونے کے پہلے کے اپنے فیصلے کو پلٹتے ہوئے کانگریس نے اعلان کیا ہے کہ وہ بی ڈی سی انتخابات کا بائیکاٹ کرےگی۔ حزب مخالف پارٹی نے انتخاب کے بائیکاٹ کے لئے ریاست کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل 370 کے زیادہ تر اہتماموں کو ختم کرنے کے مرکز کے فیصلے کے بعد ریاستی انتظامیہ کے رویے اور لمبے عرصے تک اپنے سینئر رہنماؤں کو حراست میں رکھنے کو وجہ بتایا۔
آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت ریاست کو ملے خصوصی درجے کو گزشتہ پانچ اگست کو واپس لئے جانے کے بعد یہاں یہ پہلا الیکشن ہوگا۔ الیکشن کے وقت اور موجودہ سکیورٹی سے متعلق حالات کو لےکر تشویش کا اظہار کرنے کے باوجود کانگریس نے نیشنل پینتھرس پارٹی کے ساتھ پچھلے ہفتہ بی ڈی سی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔
بدھ کو ریاستی کانگریس صدر غلام احمد میر نے جموں کے صحافیوں سے کہا، ‘ کانگریس جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے میں یقین رکھتی ہے اور کبھی بھی کسی الیکشن سے دور نہیں بھاگتی ہے۔ حالانکہ آج ہم ریاستی انتظامیہ کے رویے اور وادی میں پارٹی کے سینئر رہنماؤں کو لگاتار حراست میں رکھے جانے کی وجہ سے بی ڈی سی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کو مجبور ہیں۔ ‘
میر خود بھی جموں میں نظربند تھے اور ان کو حال میں ہی رہا کیا گیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ ریاستی انتظامیہ نے جان-بوجھ کر مین اسٹریم کی پارٹیوں کی راہ میں رکاوٹ پیدا کی تاکہ بی جے پی بی ڈی سی انتخاب جیت سکے۔ میر نے کہا، ‘ انہوں نے ہمارے رہنماؤں اور کارکنان کو حراست میں رکھا ہے اور سیاسی سرگرمیاں ہونے نہیں دیں اور اس قواعد میں کانگریس کو جان-بوجھ کر نشانہ بنایا گیا۔ ‘
میر نے کہا کہ کانگریس نے الیکشن میں حصہ لینے کا فیصلہ کرنے کے بعد ریاستی الیکشن کمیشن سے رابطہ کرکے اس کے رہنماؤں کی بلا روک ٹوک آمد ورفت کو یقینی بنانے کی گزارش کی تھی۔ انہوں نے کہا، ‘ ہم نے بی ڈی سی انتخاب میں حصہ لینے کے لئے امیدواروں کو خط جاری کئے تھے تاکہ ہم جمہوری قواعد میں اپنی خدمات دے سکیں اور ہمارے کچھ امیدواروں نے اپنا پرچہ نامزدگی بھی داخل کیا۔ ‘
میر نے کہا، ‘حالانکہ بدھ کو امیدواروں کے پرچہ نامزدگی داخل کرنے کا آخری دن تھا، تو ہم نے انتخاب سے دور رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کو ریاست میں موجودہ حالات کو دھیان میں رکھتے ہوئے ملتوی کیا جانا چاہیے تھا، کیونکہ تمام حزب مخالف سیاسی پارٹیوں نے ایسی ہی مانگ کی تھی۔ ‘ ریاستی انتظامیہ پر بی جے پی کی حمایت کرنے کا الزام لگاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کانگریسی رہنماؤں کو سکیورٹی دینے سے انکار کیا گیا اور ان کو گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نے ریاست میں 300 کے قریب فعال دہشت گردوں کے ہونے کی بات کہی ہے۔
کانگریس رہنما نے کہا، ‘ ہم ذمہ دار نیشنل پارٹی ہیں۔ اس کے باوجود ہمارا مسلسل استحصال کیا جا رہا ہے۔ ہم الیکشن میں حصہ لینے کو تیار ہیں، کیونکہ ہمارے رہنما راجیو گاندھی کا خواب پنچایتی راج اداروں کو مضبوط کرنا تھا لیکن حکومت نے ہمیں انتخاب کا بائیکاٹ کرنے پر مجبور کیا ہے۔ ‘ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ 73ویں آئین ترمیم کے بجائے ریاستی آئین کے تحت الیکشن کرا رہا ہے۔
میر نے کہا کہ تین سطح کا نظام ریاستی پنچایتی قانون میں ترمیم کے ذریعے لایا گیا تھا جبکہ بی جے پی نے اپنی حکومت میں اس قانون کو ختم کر دیا جس کے تحت سبھی کا انتخاب الیکٹورل کالج کے ذریعے ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ بنا مین اسٹریم کی پارٹیوں سے صلاح مشورہ کئے بی ڈی سی انتخاب کراکے گورنر حکومت اپنے یا حکمراں پارٹی کے ہدف کو پورا کر رہا ہے۔ وہ ان بی ڈی سی میں انتخاب کرا رہے ہیں، جہاں پنچوں کی تعداد ایک یا تین ہے۔ ‘
میر نے کہا کہ گزشتہ سال 12500 پنچایتوں میں الیکشن نہیں کرائے گئے، اس کے باوجود بی ڈی سی انتخاب کرائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس قیادت نے بی ڈی سی انتخاب کی تاریخ اعلان کرنے کے دن ہی اس کو ملتوی کرنے کی اپیل کی کیونکہ حالات اور سیاسی ماحول موافق نہیں ہے اور کئی رہنما حراست میں ہیں۔
حکومت کے دو مہینے پہلے آرٹیکل-370 کے زیادہ تر اہتماموں کو ختم کرنے کے وقت سے پہلے وزیراعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی سمیت اہم سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کو یا تو حراست میں لے لیا گیا یا نظربند رکھا گیا ہے۔ ریاستی انتظامیہ نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ مناسب تجزیے کے بعد کشمیر میں سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کو رہا کیا جائےگا۔
ڈیلی ایکسلسیر کی رپورٹ کے مطابق، کانگریس کے علاوہ پی ڈی پی، نیشنل کانفرنس، پیپلس کانفرنس، سی پی ایم اور کشمیر کی کچھ دوسری سیاسی پارٹیوں نے بھی بی ڈی سی الیکشن پروسیس میں شامل نہ ہونے کی بات کہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق، ریاست کے 310 بلاک کے الیکشن کے لئے اب تک 1382 امیدواروں نے اپنا پرچہ نامزدگی داخل کر دیا ہے۔ بی ڈی سی انتخابات کے لئے بدھ کو نامزدگی داخل کرنے کا آخری دن تھا۔
ڈیلی ایکسلسیرسے بات چیت میں چیف الیکٹورل آفیسر شیلیندر کمار نے بتایا کہ بی ڈی سی الیکشن کے لئے سبھی تیاریاں پوری کر لی گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 22 ضلعوں کے 1382 امیدواروں نے اپنا پرچہ نامزدگی داخل کیا ہے۔ جموں و کشمیر کے 310 بلاک میں صدر عہدے کے انتخاب کے لئے گزشتہ آٹھ اکتوبر کو نوٹیفیکشن جاری کی گئی تھی۔ بی ڈی سی انتخاب 24 اکتوبر کو ہونے والے ہیں۔
گزشتہ بدھ کو ہی جے این یو کی سابق اسٹوڈنٹ لیڈر اور جموں و کشمیر پیپلس موومنٹ (جے کے پی ایم) پارٹی کی رہنما شہلا رشید نے انتخابی سیاست چھوڑنے کا اعلان کیا ہے۔ شہلا نے اپنے بیان میں کہا تھا، ‘ گزشتہ دو سے زیادہ مہینوں سے لاکھوں شہریوں کو پابندیوں کے بیچ رہنا پڑ رہا ہے۔ہندوستانی حکومت ابھی بھی کشمیر میں بچوں کا اغوا کر رہی ہے اور لوگ ایمبولنس اور دیگر ایمرجنسی خدمات کو فون کرنے سے بھی محروم ہیں۔ وہیں،مرکزی حکومت جلد ہی کشمیر میں بلاک ڈیولپمنٹ کونسل (بی ڈی سی) انتخاب کرانے جا رہی ہے،جو باہر ی دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش ہے کہ کشمیر میں سب کچھ معمول پر ہے۔’
بی جے پی کی جموں و کشمیر اکائی نے پہلی بار ریاست میں منعقد ہو رہے بی ڈی سی انتخاب میں حصہ نہیں لینے کے لئے کانگریس، پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس کی مذمت کی۔ بتا دیں کہ ریاست میں کانگریس نے انتخاب کے بائیکاٹ کا فیصلہ لیا ہے۔ نیشنل کانفرنس اور پیپلس ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) بھی اس انتخاب میں حصہ نہیں لے رہی ہیں۔
بی جے پی کے ریاستی ترجمان بریگیڈیئر (ریٹائرڈ)انل گپتا نے کہا کہ تینوں پارٹیوں کا کھوکھلاپن سامنے آ گیا ہے اور یہ پارٹیاں ریاست کے لئے وزیر اعظم نریندر مودی کی کوششوں کو پچا پانے میں نااہل ہیں۔ گپتا نے کہا، ‘این سی اور پی ڈی پی کو اس سچائی کو اتنا ہی قبول کرنے کی ضرورت ہے جتنا 370 اور آرٹیکل 34اے کے ختم ہونے کی حقیقت کو۔ ان کومین اسٹریم کی سیاست میں بامعنی بنے رہنے کے لئے خود کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ ‘
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)