جن 26 لوگوں پر سے پبلک سیفٹی ایکٹ ہٹایا گیا ہے ان میں سے کچھ یونین ٹریٹری سے باہر اتر پردیش اور راجستھان جیسی ریاستوں میں بند ہیں۔ ان میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر نذیر احمد رونگا بھی شامل ہیں، جنہیں اتر پردیش کی مرادآباد سینٹرل جیل میں حراست میں رکھا گیا ہے۔
نئی دہلی: جموں کشمیر انتظامیہ نے کشمیر وادی میں انٹرنیٹ پر روک اور دفعہ 144 پر روک کے بارے میں سپریم کورٹ کے حکم کے چند گھنٹے بعد کشمیر بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سمیت 26 لوگوں پر لگا سخت پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) ہٹا لیا۔ان 26 لوگوں میں سے بارہمولہ سے 11, پلواما سے سات، کلگام سے تین ، اننت ناگ سے تین، شوپیاں اور سرینگر ضلعے سے ایک ایک ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ ان لوگوں کو سنیچر کو رہا کئے جانے کے امکان ہیں۔ ان میں سے کچھ یونین ٹریٹری سے باہر اتر پردیش اور راجستھان جیسی ریاستوں میں بند ہیں۔جمعہ کو جن لوگوں کے خلاف پی ایس اے رد کیا گیا اس فہرست میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر نذیر احمد رونگا (55) شامل ہیں۔ 5 اگست سے اتر پردیش کی مرادآباد سینٹرل جیل میں حراست میں رکھے گئے رونگا کو ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کے ساتھ جموں وکشمیر کے بٹوارے کے خلاف بولنے کی وجہ سے حراست میں لیا گیا تھا۔
رونگا کے خلاف یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ ان کے اندر الیکشن کے بائیکاٹ کے دوران بھی لوگوں کو ووٹ کرنے کے لیے جمع کرنے کی اہلیت ہے۔ بتا دیں کہ، پبلک سیفٹی ایکٹ میں دو دفعات ہیں ‘سرکاری حکم’ اور ‘ریاست کی سکیورٹی کو خطرہ’۔ پہلی دفعہ کے تحت کسی بھی شخص کو بنا کسی شنوائی کے تین مہینے سے ایک سال تک جبکہ دوسری دفعہ کے تحت دو سال تک حراست میں رکھنے کا اہتمام ہے۔
پی ایس اے صرف جموں وکشمیر میں نافذ ہے جبکہ ملک کے باقی حصہ میں این ایس اے نافذ ہوتا ہے۔ دونوں قانون یکساں ہیں۔جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے حال میں کچھ لوگوں سے پی ایس اے ہٹا دیا تھا اور حکم پر دستخط کرنے والے افسروں پر سخت تبصرہ کیا تھا۔تین بار وزیراعلیٰ رہے اور ابھی لوک سبھا ممبر فاروق عبداللہ پر بھی 17 ستمبر کو پی ایس اے لگا دیا گیا تھا۔ اس کے بعد ایم ڈی ایم کے رہنما وائیکو نے سپریم کورٹ میں عرضی دائر کر ان کی پیشی کی مانگ کی تھی۔
ان کے بیٹے عمر عبداللہ اور سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی سمیت درجنوں دیگر رہنماؤں کو احتیاطاً حراست میں رکھا گیا ہے۔اس سے پہلے سپریم کورٹ نے اپنے ایک بےحد اہم فیصلے میں کہا تھا کہ انٹرنیٹ کا حق آئین کے آرٹیکل 19 کے تحت بولنے اور اظہار رائے کی آزادی کا حصہ ہے اورجموں کشمیر انتظامیہ کو حکم دیا کہ وہ ایک ہفتے کے اندرسبھی پابندی کے احکامات پر دوبارہ غور کریں۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)