جموں وکشمیر کے جنرل ایڈمنسٹریشن کی جانب سے15ستمبر کو جاری کیے گئے نئے ضابطوں سے جموں وکشمیر کے چھ لاکھ سرکاری ملازمین کی اظہار رائے کی آزادی شدید طور پرمتاثر ہو سکتی ہے۔ کارکنوں کا کہنا ہے کہ یو اے پی اے اور پی ایس اے کا استعمال اختلافات کو دبانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
جموں و کشمیرانتظامیہ نے نئےضابطوں کو نوٹیفائی کیا ہے،جس کے تحت اگر سرکاری ملازم اور ان کے گھر کے افراد یو اے پی اے اور پی ایس اےکے ملزمین کے لیے ہمدردی کا جذبہ رکھتے پائے جاتے ہیں تو ان ملازمین کو برخاست کیا جا سکتا ہے۔
کارکنوں کا کہنا ہے کہ یو اے پی اے اور پی ایس اے قوانین کا استعمال اختلاف کو دبانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
یہ ضابطے جموں وکشمیرانتظامیہ کےذریعےپاسپورٹ کےلیےدرخواست دینے والےسرکاری ملازمین کے لیےمحکمہ ویجیلنس کی منظوری کو لازمی کیے جانے کے کچھ دنوں بعد آئے ہیں۔
یہ ضابطہ جموں وکشمیر کے چھ لاکھ سرکاری ملازمین کی اظہار رائے کی آزادی کو شدید طور پر متاثر کر سکتے ہیں۔
یہ ضابطےجموں وکشمیر کے جنرل ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ(جی اے ڈی)نے 15ستمبر کو جاری کیےتھے۔ اس سے لگ بھگ ایک مہینے پہلے ہی جموں وکشمیر کےتقریباً دو درجن ملازمین کوغیرجانبدارانہ جانچ کے بغیربرخاست کر دیا گیا تھا۔
اس سے پہلے جولائی میں جموں وکشمیر انتظامیہ نے 11ملازمین کو برخاست کرنے کے لیےآئین کے آرٹیکل 311 کو نافذ کیا تھا۔ ان 11ملازمین میں جماعت اسلامی کارکن کی بیٹی اور حزب سپریمو سید صلاح الدین کے دو بیٹے بھی شامل تھے۔ انہیں مبینہ طور پرغیر جانبدارانہ جانچ کے بغیر برخاست کیا گیا تھا۔
نئےضابطوں کو واپس لینے کی مانگ کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس اورکمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) جیسی کشمیر کی سیاسی پارٹیوں اور کئی کارکنوں نے اس فیصلے کو من مانا قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ جمہوریت کے اصولوں کو کمزور کریں گے۔
سی پی آئی کے جنرل سکریٹری ایم وائی تاریگامی نے جاری بیان میں کہا، ‘یہ فیصلہ لوگوں کے مفاد کے خلاف ہے۔ اس طرح کے احکامات جاری کرنے کے بجائے سرکار کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ لوگوں کے حقوق اور ان کے ذریعہ معاش محفوظ رہیں۔’
اس نئے فیصلے میں جی اےڈی نے کہا ہے کہ سرکاری ملازمین کو ہندوستان اور اس کے آئین کے تئیں وفاداری ، یکجہتی اور ایمانداری بنائے رکھنے کی ضرورت ہے۔
فیصلے میں زور دیا گیا کہ سرکاری ملازم جموں وکشمیرگورنمنٹ امپلائز کنڈکٹ رولز ، 1971 کی پاسداری کے لیے پرعزم ہیں۔
اس سال کی شروعات میں انتظامیہ نے کہا تھا کہ کئی ملازم واضح طور پرضروری سیکیورٹی کلیئرنس کے بغیر سروس کے فوائد حاصل کر رہے ہیں، جس وجہ سے اس کے لیے اس عمل کا تجزیہ کرنا پڑا۔
جموں وکشمیرانتظامیہ پہلے ہی نئے ملازمین کی تقرری کے لیے21 جون کو ضابطوں میں ترمیم کر چکی ہے۔
نئے فیصلے کے مطابق، جموںو کشمیر سول سروسز ڈائریکٹیو1997 میں ہدایت دو کو شامل کیا گیا، جس سے سرکاری ملازمین کے لیے سی آئی ڈی کی تصدیق لازمی ہو گئی ۔
مرکزی محکمہ داخلہ کے تحت کام کر رہی سی آئی ڈی سے ایسے ملازمین کی جانچ کرنے کو کہا گیا، جن کے کسی ملک کے شہریوں یانمائندوں سے رابطہ ہو یا جن کے دوسرے ممالک میں مالی مفاد ہو ں کیونکہ اس سے وہ ملک اس ملازم پر دباؤ ڈال سکتا ہے، اس کا استحصال کر سکتا ہے یا اس سے زبردستی کوئی کام کرا سکتا ہے۔
نئے فیصلے میں سرکاری محکموں اور جانچ ایجنسیوں سے ایسےملازمین کی پہچان کرنے کو کہا گیا ہے، جو جاسوسی،سیڈیشن، دہشت گردی، توڑ پھوڑ، غیرملکی دخل اندازی میں مدد کرنے،تشدد بھڑ کانے یا دوسرے کسی طرح کے غیر آئینی کاموں میں شامل رہے ہیں۔
اگر سرکاری ملازم یا ان کے گھر کے افراد ایسے کسی شخص کے ساتھ رہ رہے ہیں، جو قومی سلامتی کے خلاف کام کر رہا ہے یا کوشش کر رہا ہے یا ایسی کسی بھی سرگرمی میں ملوث ہے تو سرکار اس ملازم کو سروس سے برخاست کر سکتی ہے۔
نئے فیصلےکے مطابق،سرکاری ملازم یا ان کے گھر کے کسی فرد کی براہ راست یا بالواسطہ طور پر کسی طرح کی غیرآئینی سرگرمیوں میں شامل ہونے کی اطلاع اسے انتظامیہ کو دینی ہوگی۔
انتظامیہ نے ملازمین کو وارننگ دی ہے کہ اگر سرکاری ملازم یا ان کے گھر کا کوئی فرد ایسے کسی شخص کے ساتھ رہ رہا ہے، جو کسی ملک ، یونین سے براہ راست یا بالواسطہ طور پر جڑاہے اور جو ہندوستان کی قومی سلامتی اور مفادکے لیے خطرناک ہو سکتا ہے، ایسی صورت میں اس کی اطلاع انتظامیہ کو نہیں دینے پر اس ملازم پر سخت کارروائی کی جائےگی۔
اظہار رائے کی آزادی پرپابندی
بی جے پی کی قیادت میں مرکزی حکومت کے جموں وکشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد صوبہ دویونین ٹریٹری میں منقسم ہو گیا۔ اس بیچ اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارے اور کشمیر کی سیاسی پارٹیوں نے باربار جموں و کشمیر میں اظہار رائے کی آزادی کے معاملہ کواٹھایا۔
مرکزی حکومت کے اس فیصلے کے بعد جموں وکشمیر میں یو اے پی اے کےتحت 1200 سے زیادہ معاملوں میں 2300 سے زیادہ لوگوں کے خلاف معاملے درج کیے گئے جبکہ پی ایس اے کے تحت 954 لوگوں کے خلاف معاملے درج ہیں۔ لگ بھگ 40 فیصدی لوگ ابھی بھی جیلوں میں بند ہیں۔
کشمیر کے وکیلوں کے مطابق، پولیس من مانے طریقے سے یو اے پی اے لگا رہی ہے۔
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو(این سی آر بی)بھی وکیلوں کے اس دعوے کی تصدیق کرتی ہے۔
ان اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ جموں وکشمیر پولیس نے یو اے پی اے کے تحت 2019 میں255 معاملے درج کیے جبکہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے تک اس کی تعدادسالانہ صرف 60 تھی۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق،رہنماؤں اورسرکاروں کی تنقید کے لیے پچھلی دہائی میں درج کیے گئے سیڈیشن کے 96 فیصدی معاملے 2014 میں مودی سرکار کے اقتدارمیں آنے کے بعد درج ہوئے۔
کارکن اور کشمیر کی سیاسی پارٹیوں کا الزام ہے کہ ایل جی منوج سنہا من مانے ڈھنگ سے فیصلے لے رہے ہیں اور اظہار رائے کی آزادی کو متاثر کرنے کے لیے اوریونین ٹریٹری میں ڈر کا ماحول بنانے کے لیےیو اے پی اے کا استعمال کر رہے ہیں۔
ان نئے ضابطوں کو ملازمین کے حقوق اور خصوصی اختیارات کی خلاف ورزی بتاتے ہوئے فاروق عبداللہ کی قیادت میں نیشنل کانفرنس نے ان ضابطوں کو واپس لینے کی مانگ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ضابطے انصاف اور بنیادی انسانی حقوق کے تصورات کو کمزور کرتے ہیں۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں)