کشمیر کے نامور مؤرخ و مصنف محمد یوسف ٹینگ، نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیامان و ماہر قانون جسٹس (آر) حسنین مسعودی اور مرحوم شیخ محمد عبداللہ کے فرزند ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال نے دی وائر اردو سے بات کرتے ہوئے جموں وکشمیر کی تاریخ، اہم واقعات، خصوصی پوزیشن اور بی جے پی حکومت کے پانچ اگست کے فیصلوں سے جموں وکشمیر پر مرتسم ہونے والے اثرات پر بات کی۔
مسلم اکثریتی خطہ جموں وکشمیر جمعرات کو اپنی تاریخ کے تیسرے مرحلے میں داخل ہوتے ہوئے ایک ریاست سے مرکز کے زیر انتظام والا علاقہ بن گیا جس کا انتظام و انصرام اب مرکزی حکومتوں کی مرضی کے تابع ہوگا۔ آج کی ‘یونین ٹریٹری آف جموں وکشمیر’ ایک زمانے میں ایک آزاد اور خودمختار ریاست تھی۔ بعد ازاں سن 1947 میں ایسے حالات پیدا ہوئے کہ اس ریاست کو ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنا پڑا، الحاق کے چند سال بعد خصوصی اختیارات ملے جو زائد از چھ دہائیوں کے بعد امسال پانچ اگست کو بی جے پی حکومت کی طرف سے منسوخ کئے گئے۔
کشمیر کے نامور مؤرخ و مصنف محمد یوسف ٹینگ، نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیامان و ماہر قانون جسٹس (آر) حسنین مسعودی اور مرحوم شیخ محمد عبداللہ کے فرزند ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال نے دی وائر اردو سے بات کرتے ہوئے جموں وکشمیر کی تاریخ، اہم واقعات، خصوصی پوزیشن اور بی جے پی حکومت کے پانچ اگست کے فیصلوں سے جموں وکشمیر پر مرتسم ہونے والے اثرات پر بات کی۔
محمد یوسف ٹینگ کے مطابق ،
سن 1546 تک کشمیر ایک آزاد ملک تھا لیکن مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر نے کشمیر کے آخری خود مختار حکمران یوسف شاہ چک کو دھوکہ دےکر اسے مغلیہ سلطنت کے دائرے میں لایا جس کے نتیجے میں کشمیریوں کی غلامی کا آغاز ہوا۔ مغلوں کے بعد کشمیر پر افغانیوں، سکھوں اور ڈوگروں نے حکومت کی اور بالآخر سن 1947 میں تقسیم ہند کے ساتھ ہی ریاست کا ہندوستان سے الحاق ہوا۔
ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال کہتے ہیں کہ،
بی جے پی کی طرف سے پانچ اگست کے فیصلوں کو سردار ولبھ بھائی پٹیل کے نظریات کی فتح قرار دیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جموں وکشمیر کو یونین ٹریٹریز میں منقسم کرنے کے لئے ان کے یوم پیدائش یعنی 31 اکتوبر تک انتظار کیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ آنجہانی پٹیل کی کشمیر میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور انہوں نے ہی دفعہ 370 کا مسودہ پارلیامانٹ میں پیش کیا تھا۔
مصطفیٰ کمال کے مطابق ،
جموں وکشمیر کے آخری ڈوگرہ مہاراجہ، مہاراجہ ہری سنگھ سن 1947 میں آزاد رہنا چاہتے تھے لیکن پاکستان نے حملہ کروایا جس کے نتیجے میں یہاں ایسے حالات پیدا ہوئے کہ مہاراجہ کو ہندوستان کے ساتھ مشروط اور عارضی الحاق کرنا پڑا۔
رکن پارلیامان جسٹس (آر) حسنین مسعودی نے کہا کہ،
پانچ ہزار سال پرانی ریاست جموں وکشمیر کو یونین ٹریٹری میں تبدیل کرکے اس کا درجہ اور رتبہ کم کیا گیا ہے۔ یونین ٹریٹری کے اثرات سامنے آنے لگے ہیں۔ اداروں کو ختم یا ضم کیا جارہا ہے۔ پانچ اگست کے فیصلوں سے جموں وکشمیر میں ہر ایک شعبے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
رانی جسومتی تا رنچن
محمد یوسف ٹینگ کے مطابق کشمیر پر رانی جسومتی نے بھی حکومت کی جو دنیا اور کشمیر کی پہلی رانی تھیں۔ پھر سن 1320 میں صدر الدین المعروف رنچن حکمران بنا جو ایک لداخی مسلمان تھا۔
وہ تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں؛
‘دنیا کی پہلی رانی کشمیری تھیں۔ ان کا نام رانی جسومتی تھا۔ اس کے بعد گونندا دوم کی حکومت شروع ہوئی جس نے رامائن کی جنگ میں بھی حصہ لیا۔ سن 1546 تک یہاں کشمیری بادشاہوں کی حکومت رہی۔ کشمیر کا پہلا مسلمان بادشاہ رنچن، جو کہ ایک لداخی تھا، سن 1320 میں بادشاہ بنا۔ وہ اصل میں بدھسٹ تھا۔ وہ ایک پنڈت کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ میں ہندو مذہب اختیار کرنا چاہتا ہوں۔ اس پنڈت نے رنچن سے کہا کہ ہندو پیدا ہوتا ہے کسی کو ہندو نہیں بنایا جاسکتا۔ اس کے بعد وہ حضرت بلبل شاہ صاحب کے پاس گیا جنہوں نے اسے کلمہ پڑھایا’۔
کشمیریوں کی غلامی کا آغاز
محمد یوسف ٹینگ کا کہنا ہے کہ ،
سن 1546 میں کشمیریوں کی غلامی اس وقت شروع ہوئی جب اکبر بادشاہ نے کشمیری حکمران یوسف شاہ چک کو دھوکے سے بسواک بہار بلاکر خود کشمیر پر حملہ کروایا۔ اس سال تک کشمیر میں جتنے بھی حکمران آئے تھے، چاہے وہ ہندو تھے یا مسلمان، وہ مقامی کشمیری تھے۔
وہ کہتے ہیں؛
‘اکبر بادشاہ نے سن 1546 میں سری نگر پر چڑھائی کی۔ اس نے کشمیری بادشاہ یوسف شاہ چک کو دھوکے سے بسواک بہار بلایا اور خود کشمیر پر حملہ کروایا۔ یہیں سے کشمیریوں کی غلامی کا آغاز ہوا۔ کیونکہ سن 1546 تک کشمیر میں جتنے بھی بادشاہوں نے حکومت کی تھی، چاہے وہ ہندو تھے یا مسلمان، وہ مقامی تھے۔ اکبر بادشاہ کے حملے کے بعد پھر مغلوں نے یہاں سن 1755 تک حکومت کی’۔
وہ مزید کہتے ہیں؛
‘مغلوں کے بعد کشمیر میں افغانیوں کی حکومت قائم ہوئی جو سن 1819 تک جاری رہی۔ افغانیوں کے بعد رنجیت سنگھ نے کشمیر کو فتح کیا اور یوں یہاں سکھوں کی حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ سکھوں کی حکومت سن 1846 تک جاری رہی۔ رنجیت سنگھ نے پھر کشمیر کا سودا کرکے اسے مہاراجہ گلاب سنگھ کو بیع نامہ امرتسر کے تحت بیچا اور اس طرح یہاں ڈوگرہ راج شروع ہوا۔ ڈوگرہ راج یہاں ایک سو ایک سال تک جاری رہا، یعنی سن 1846 سے شروع ہوکر سن 1947 میں ہندوستان کے ساتھ مشروط الحاق تک جاری رہا’۔
یوسف ٹینگ کے مطابق سن 1546 میں اکبر بادشاہ کے حملے تک کشمیر ایک آزاد ملک تھا۔ یوسف شاہ چک جنہیں دھوکے سے بسواک بہار بھیجا گیا تھا وہیں مدفون ہیں۔
مزید کہتے ہیں؛
‘سن 1546 میں اکبر بادشاہ کے حملے تک کشمیر ایک آزاد ملک تھا، چاہے بادشاہ ہندو تھے یا مسلمان۔ یوسف شاہ چک ہمارا آخری مقامی بادشاہ تھا۔ اس کی رگوں میں کشمیر کا خون دوڑ رہا تھا۔ ان کے 400 ویں یوم وصال پر شیخ صاحب (شیخ محمد عبداللہ) اور میں بسواک بہار گئے جہاں ہم نے ان کا مقبرہ تعمیر کیا۔ وہاں انکشاف ہوا کہ کشمیر کی آخری ملکہ حبہ خاتون بھی وہاں آئی تھیں۔ وہاں ہم نے حبہ خاتون کی قبر بھی پائی’۔
اسٹیٹ سبجیکٹ قانون مہاراجہ کی دین
محمد یوسف ٹینگ نے آخری ڈوگرہ مہاراجہ، مہاراجہ ہری سنگھ کے کارناموں کو سراہتے ہوئے کہا کہ اسٹیٹ سبجیکٹ قانون جس کے تحت یہاں کوئی بھی غیر ریاستی شہری زمین نہیں خرید سکتا تھا، مہاراجہ کا ہی بنایا ہوا قانون تھا۔مزیدکہتے ہیں؛
‘اسٹیٹ سبجیکٹ قانون مہاراجہ نے سن 1927 میں بنایا۔ مہاراجہ ہری سنگھ نہیں چاہتا تھا کہ بیرون ریاست سے لوگ آکر یہاں زمین خریدیں۔ نزدیکی ریاست پنجاب سے لوگ آکر یہاں زمینیں خریدتے تھے، ملازمتیں کرتے تھے۔ یہاں کے لوگوں بالخصوص پنڈتوں جن کے پاس بہت زمینیں تھیں، کے اصرار پر ہی مہاراجہ ہری سنگھ نے اسٹیٹ سبجیکٹ قوانین بنائے تھے’۔
یوسف ٹینگ نے مہاراجہ کے کارناموں کو گنتے ہوئے کہا؛
‘مہاراجہ ہری سنگھ اپنا نام مہاراجہ ادےراج جموں، کشمیر و تبت ہا لکھتے تھے۔ یہ نام ان کے فرمانوں میں لکھا ہوتا تھا۔ تبت کا ایک حصہ بھی ہمارے ساتھ تھا۔ وہ حصہ بعد میں اکسائی چن کہلایا جو اس وقت چین اور بھارت کے درمیان جھگڑے کا باعث ہے۔ وہ بہت ہی اچھے حکمران تھے۔ اس نے بہت سے اچھے کام کئے۔ ان کی حکمرانی میں اردو کو سرکاری زبان کا درجہ تھا اور اب معلوم نہیں کیا ہوگا۔ ہری سنگھ نے ہی بلیوارڈ روڑ بنایا جس نے ڈل جھیل کو مزید رونق بخشی۔ اس نے ایس ایم ایچ ایس ہسپتال بنایا۔ اس وقت بھی وہ وادی کا سب سے اچھا ہاسپٹل ہے’۔
ہری سنگھ کیا چاہتے تھے؟
ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال کے مطابق ؛
مہاراجہ ہری سنگھ ہندوستان اور پاکستان میں سے کسی کے ساتھ نہیں جانا چاہتے تھے بلکہ ‘آزاد’ ہی رہنا چاہتے تھے لیکن اکتوبر 1947 میں قبائلیوں کے، جنہیں پاکستان کی پشت پناہی حاصل تھی، کے کشمیر پر حملے کی وجہ سے انہیں بہ حالت مجبوری ہندوستان کے ساتھ مشروط اور عارضی الحاق کرنا پڑا تھا۔
ڈاکٹر کمال کہتے ہیں؛
‘ہندوستان کے آخری گورنر جنرل لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے مہاراجہ ہری سنگھ کو خط بھیجا کہ آپ ہندوستان اور پاکستان میں سے کس سے الحاق کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے واپس لکھا کہ میں کسی کے ساتھ بھی نہیں جانا چاہتا ہوں۔ وہ آزاد رہنا چاہتے تھے۔ شیخ محمد عبداللہ کہتے تھے کہ اگر پاکستان حملہ نہیں کرتا تو یہاں حالات کچھ اور ہوتے۔ مہاراجہ ہری سنگھ خود مختار تھے تو خود مختار ہی رہتے۔ پاکستان کے ساتھ جاتے تو وہاں بھی ہمارے حالات ٹھیک نہیں ہوتے’۔
وہ مزید کہتے ہیں؛
‘در اصل مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان اور پاکستان کو سٹینڈ سٹل ایگریمنٹ کی پیشکش کی تھی۔ انہوں نے ہندوستان اور پاکستان کو لکھا تھا کہ میں الگ رہنا چاہتا ہوں۔ پاکستان نے معاہدے کو قبول کیا تھا۔ اس کے بعد جب پاکستان کی طرف سے حملہ ہوا تو انہیں اپنا فیصلہ بدلنا پڑا’۔
کشمیر کسی کا اندرونی معاملہ نہیں
مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر ہندوستان کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔ یہ مسئلہ اقوام متحدہ میں درج ہے اور اب تک معاملے پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان متعدد بار مذاکرات ہوچکے ہیں۔ڈاکٹر کمال کہتے ہیں؛
‘کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ مشروط الحاق ہوا ہے۔ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ میں درج ہے۔ مسئلہ پر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان میٹنگ ہوئی ہیں۔آگرہ میں مشرف اور من موہن سنگھ کے درمیان میٹنگ ہوئی۔ واجپائی لاہور گئے جہاں لاہور اعلامیہ جاری ہوا۔ اندرا گاندھی اور ذوالفقار علی بھٹو نے شملہ اگریمنٹ کیا۔ شیخ محمد عبداللہ اور ایوب خان سن 1964ء میں اسلام آباد میں ملے۔ یہ مسئلہ کشمیر کی تاریخ ہے۔ اب آج کی حکومت کہے گی کہ معاملہ اندرونی ہے، صحیح نہیں ہے’۔
موجودہ بی جے پی حکومت کے فیصلوں پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال کہتے ہیں؛
‘ہندوستان نے اب تک تمام وعدوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ آہستہ آہستہ گلا دبانے تک پہنچ گیا ہے۔ اب من مانیاں کررہا ہے۔ یہ بدقسمتی کی بات ہے۔ جب تک جموں وکشمیر کے لوگوں کے جذبات، احساسات اور حق کا احترام نہیں کیا جاتا خطے میں امن نہیں آئے گا۔ کشمیری قوم اس وقت مصیبت میں ہے۔ بدقسمتی سے اس میں سب سے بڑا ہاتھ ہمارے اپنے ملک ہندوستان کا ہے۔ یہ حقیقت پسندی سے کام نہیں لیتا۔ ہمارے آئین میں وقت وقت پر تبدیلیاں کی گئیں جس سے ہماری خصوصی پوزیشن کھوکھلی بن کر رہ گئی تھی لیکن مسئلہ ابھی بھی زندہ ہے۔ آج حکومت بھی وہ ہے جس میں فرقہ پرستی کی علامتیں سامنے آرہی ہیں’۔
سردار پٹیل کی کشمیر میں دلچسپی نہیں تھی
ڈاکٹر مصطفیٰ کمال کی مانیں تو آنجہانی سردار ولبھ بھائی پٹیل کشمیر میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے اور انہوں یہ یہاں تک کہا تھا کہ اگر قبائلی حملہ آور کشمیر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں تو چھوڑ دو۔وہ کہتے ہیں؛
‘آزادی کے بعد ہندوستان میں جو پہلی حکومت بنی وہ اس کا حصہ تھا۔ وہ اس حکومت میں وزیر داخلہ تھے۔ تاریخ گواہ ہے اور کتابوں میں تحریر ہے کہ انہوں نے ہی دفعہ 370 کے مسودے کو پارلیامنٹ میں پیش کیا۔ شاما پرساد مکھرجی نے اس کی حمایت کی تھی۔ یہ سردار پٹیل ہی تھے جنہوں نے کہا کہ اگر قبائلی کشمیر پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں تو اسے چھوڑ دو۔ تاریخ کو بدلا نہیں جاسکتا۔ ان حالات میں جو فیصلے لئے گئے تھے وہ درست تھے’۔
جموں وکشمیر ڈاون گریڈ ہوا
رکن پارلیامان و ماہر قانون جسٹس (آر) حسنین مسعودی کا کہنا ہے کہ بی جے پی حکومت نے آئین کو پامال اور درکنار کرتے ہوئے ہماری ریاست کا درجہ کم کیا ہے جس پر جشن نہیں منایا جاسکتا۔حسنین مسعودی کہتے ہیں؛
‘ہماری تاریخ پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ جب جموں وکشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق ہوا تو اس کو ایک خصوصی درجہ دیا گیا۔ اب ہماری ریاست کا رتبہ کم کرکے اسے ایک میونسپلٹی کا درجہ دیا گیا ہے۔ آئین ہند میں جو طریقہ کار ہے اس کو عمل میں لایا نہیں گیا۔ متعلقین کے ساتھ کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ آئین کو پامال اور درکنار کرتے ہوئے ہماری ریاست کا درجہ کم کیا گیا۔ جشن منانے کی کوئی وجہ نہیں’۔
وہ مزید کہتے ہیں؛
‘آئین میں اس کی اجازت نہیں ہے کہ ایک ریاست کے ٹکڑے کرکے اس کو یونین ٹریٹریز میں بدل دیا جائے۔ آئین کی دفعہ تین میں پارلیامنٹ کو یہ اختیار ہے کہ وہ دو یونین ٹریٹریز کو ملاکر ایک ریاست بنا سکتا ہے۔ اس طرح کا کوئی بھی فیصلہ لینے سے پہلے ریاست کی اسمبلی کو اعتماد میں لیا جانا چاہیے تھا یا اس کی سفارش حاصل کی جانی چاہیے تھی’۔
یونین ٹریٹری کے منفی اثرات
جسٹس حسنین مسعودی کا کہنا ہے کہ یونین ٹریٹری کے منفی اثرات سامنے آنے لگے ہیں۔ اداروں کو ختم یا ضم کیا جارہا ہے۔ پانچ اگست کے فیصلوں سے جموں وکشمیر میں ہر ایک شعبے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ان کا کہنا ہے؛
‘یونین ٹریٹری کے اثرات سامنے آنے لگے ہیں۔ اداروں کو ختم یا ضم کیا جارہا ہے۔ پانچ اگست کے فیصلوں سے جموں وکشمیر میں ہر ایک شعبے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ریاست کی اپنی تاریخ، شناخت اور پہچان ہوتی ہے، وہ ختم ہوگئی۔ تصور کریں کہ اگر کسی اور ریاست کے ساتھ ایسا کیا گیا ہوتا تو ردعمل کیسا ہوتا؟’۔
(ظہور اکبر سری نگر میں مقیم صحافی ہیں۔)