موجودہندو قوم پرست حکومت کوئی بھی قدم خلاف مصلحت نہیں اٹھاتی ہے، اسی لیے اس پر چہ می گوئیاں شروع ہو گئی ہیں اور بتایا جا تاہے کہ بیک ڈور سے سرینگر سے دارالحکومت کا درجہ چھین کر جموں کو دیا گیا ہے۔ ویسے بھی مرکزی حکومت کے کئی اہم ادارے برسوں قبل اپنے دفاتر مستقل طو پر جموں منتقل کر چکے تھے۔
دسمبر میں کشمیرمیں جاڑے کا موسم شروع ہوجاتا ہے، جس کو مقامی زبان میں چلہ کلان کہتے ہیں۔ خون کو جما دینے والی سردی اور اس پر طرہ کہ بجلی بند، منفی ڈگری درجہ حرارت میں نلکوں کے پھٹنے سے پانی کی ترسیل بھی بند، برف باری سے نقل و حمل کے ذرائع معطل اور جھیلیں بھی جمی ہوئی، تو ایسی صورت میں گوشت پوشت کے کسی انسان کے پاس گھرکے اندر مقید ہوکر اعتکاف پر بیٹھنے کے سوا کیا چارہ بچتا ہے۔
ویسے کشمیری زبان میں اعتکاف کو چلہ ہی کہتے ہیں۔ شاید اسی لیے جاڑے کے ابتدائی سخت 40دنوں کو چلہ کلان، بعد کے 20دنوں کو چلہ خورد اور پھر آخر کے 10دنوں کو چلہ بچہ کہا جاتا ہے۔ کشمیر پر چلہ کی اس آفت کے نازل ہونے سے ایک ماہ قبل ہی پچھلے 149 برسوں سے سیاستدان، کیا افسران اپنا بوریہ بسترہ لپیٹ کر 300کلومیٹر دور سرمائی دارالحکومت جموں منتقل ہو جاتے ہیں، جہاں بجلی کی پریشانی نہ پانی کے جمنے کا خطرہ۔
پورے چھ ماہ کشمیر میں عوام جاڑوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں اور اسی طرح گرمیوں میں جب جموں میں لو برس رہی ہوتی ہے، حکام سرینگر کی فرحت بخش ہواؤ ں میں آرڈرز پاس کرتے رہتے ہیں۔ گورنر کا دفتر ہو یا سول سکریٹریٹ، اعلیٰ سطحی بیوروکریٹوں سے لےکر چپراسیوں سمیت تقریباً پانچ ہزار ملازمین جموں و کشمیر میں ہر سال چھ ماہ بعد جموں سے سرینگر اور پھر سرینگر سے جموں حرکت کرتے رہتے ہیں۔ منتقلی کے اس عمل کے دوران ہر برس سکریٹریٹ کو16دنوں تک بند رکھنا پڑ تا ہے۔
ہندوستان میں وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے کشمیر میں حکمرانوں کی اس عیاشی کو ختم کرکے اب فرمان جاری کیا ہے کہ جموں اور سرینگر دونوں جگہوں پر اب سکریٹریٹ کام کرےگا۔ چونکہ موجودہ دور میں اب ڈیجیٹل ٹکنالوجی مہیا ہے اسی لیے اب دونوں جگہوں پر افسران متعلقہ کاغذات اور فائلوں کے ساتھ حاضر رہیں گے۔ 150ٹرکوں میں ہر سال سکریٹریٹ کا ساز و سامان و کاغذات ادھر سے ادھر کیا جاتا تھا، جس پر بتایا جاتا ہے کہ ایک ارب کے قریب روپے خرچ ہوتے تھے۔
جموں و کشمیر انتظامیہ نے گزشتہ روز ملازمین کو حکم دیا کہ دونوں دارالحکومتوں سری نگر اور جموں میں تین ہفتوں کے اندر اندر سرکاری رہائش گاہوں کو خالی کردیں۔ لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا نے اعلان کیا کہ سکریٹریٹ کی ششماہی منتقلی جس کو دربار مو کا نام دیا جاتا تھا کی روایت کو ختم کیا جارہا ہے۔ اس صورت حال میں ہر ذی حس شخص کو حکومت کے اس قدم کا استقبال کرنا چاہیے۔
مگر چونکہ موجودہندو قوم پرست حکومت کوئی بھی قدم خلاف مصلحت نہیں اٹھاتی ہے، اسی لیے اس پر چہ می گوئیاں شروع ہو گئی ہیں اور بتایا جا تاہے کہ بیک ڈور سے سرینگر سے دارالحکومت کا درجہ چھین کر جموں کو دیا گیا ہے۔ ویسے بھی مرکزی حکومت کے کئی اہم ادارے برسوں قبل اپنے دفاتر مستقل طو پر جموں منتقل کر چکے تھے۔
کشمیر اور کشمیری مسلمانوں کے لیے چونکہ یہ سرینگر شہرایک نیوکلیس کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے اس کی افادیت کو ختم کرکے کشمیریوں کو بے وزن و بے وقعت کرنے کی سمت میں ایک اور قدم گر دانا جارہا ہے۔لگتا یہی ہے کہ کشمیر ی عوام سے ان کی شناخت، زبان، انفرادیت و ثقافت کے بعد ان کے خطے سے اس کا دارالحکومت بھی چھین لیا گیا ہے۔ دو ہزار سال قبل راجہ پرورسین کے بسائے اس شہر کی تاریخی حیثیت کا انداز ہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ 960ء سے یہ مسلسل کبھی کسی صوبہ کا تو کبھی مکمل ملک کا دارالحکومت رہا ہے۔ یہ اعزازدنیا بھر میں غالباً دمشق کے بعدکسی اور شہر کو حاصل نہیں ہے۔
انہی خدشات کے پیش نظر کشمیر کی سیاسی جماعتوں نے اس روایت کے خاتمہ پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ نیشنل کانفرنس، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی و کمیونسٹ پارٹی نے دربار مو کی 149 برس کی روایت کو ختم کرنے کے فیصلے پر کئی سوالات اْٹھائے ہیں۔گو کہ یہ بتایا گیا کہ سکریٹریٹ دونوں جگہوں پر کام کرےگا، مگر سوال ہے کہ چیف سکریٹری، ڈائریکٹر جنرل پولیس، انتظامی سکریٹری اور دیگر اعلی افسران کہاں بیٹھے رہیں گے؟
ڈیجیٹل کام تو ٹھیک ہے، مگر افسران جسمانی طور پربھی تو کسی نہ کسی دفتر میں موجود رہیں گے۔ اس کے علاوہ اگر لوگوں کو کسی افسر سے ملنا ہے تو وہ کہاں ملیں گے؟ ان معاملات کی کوئی وضاحت پیش نہیں کی جا رہی ہے۔ انتخابات کے بعد اسمبلی نیز وزیراعلیٰ اور اس کے وزراء کہاں سے کام کریں گے؟ اسی طرح اگر جموں اور سرینگر میں سکریٹریٹ اور دیگر اعلیٰ دفاتر سے وابستہ ملازمیں کی رہائشی الاٹمنٹ منسوخ کردی گئی ہے تو اب انہیں کہاں تعینات کیا جائے گا؟
ماضی میں کئی بار سرینگر کو مستقل دارالحکومت بنانے کی کوششیں کی گئی، مگر نئی دہلی کی حکومتیں اس پر اعتراض جتا کر اس کو جموں کے ساتھ زیادتی کے مترادف قرار دیتے رہے۔ اس منتقلی پر رقوم کے خرچ ہونے پر حکومتی حلقوں کی دلیل تھی کہ یہ ایک لازمی عمل ہے اور اس کو سود و زیاں سے نہ تولا جائے۔
دو دہائی قبل ایک بار اس موضوع پر اسٹوری کرنے کی غرض سے جب میں نے ایک اعلیٰ افسر سے دہلی میں رابطہ کیا تو اس کا کہنا تھا کہ چونکہ جموں وکشمیر کے مختلف خطے متنوع، زبان،تمدن،خطوں اور ٹوپو گرافی کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں اس لیے ششماہی منتقلی سے سماجی میل ملاپ کا موقع ملتا ہے۔
اس کی دلیل تھی دربار مو پر خرچ کی جانے والی رقوم تو بس اس بجٹ کا چھوٹا سا حصہ ہے، جو مختلف مد وں میں حکومت جموں و کشمیر میں خرچ کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سماجی میل ملاپ کو پیسوں سے تولا نہیں جاسکتا۔مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پچھلے کئی برسوں سے وادی کشمیر اور جموں توی علاقے کے درمیان دوریاں بڑھ گئی ہیں۔
گو کہ جموں کے ہندو بیلٹ میں ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ 1950سے ہی سرگر م تھی اور مقامی کانگریس کی سرپرستی کرتی تھی،مگر پچھلی ایک دہائی سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے عروج سے دونوں خطوں کے درمیان دوریا ں خاصی بڑھ گئی ہیں۔ جموں کے دو مسلم علاقے پیر پنچال اور وادی چناب بھی بے کس محسوس کر رہے ہیں۔
دربار مو یا دارالحکومت کی ششماہی منتقلی سے جموں شہر کے تاجروں کو خاصا فائدہ پہنچتا تھا۔ اقتصادی امور کے ماہر اور سابق وزیر خزانہ حسیب درابو ہفتہ روزہ کشمیر لائف میں رقم طراز ہیں کہ موسم سرما میں جموں میں 10ہزار خاندانوں کی آمد سے بازاروں میں چہل پہل اور پرچوں اشیاء کی خرید و فروخت میں خاصا اضافہ ہو تا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ دارالحکومت کی منتقلی کی اس روایت کو ڈوگرہ مہاراجہ رنبیر سنگھ نے 1872 میں ایک شاہی فرمان کے تحت جاری کیا تھا، تاکہ سرینگر کی سردی سے بچا جائے۔ مگر درابو کا کہنا ہے کہ روس کے بڑھتے اثر و رسوخ کی وجہ سے فارورڈ پالیسی کے ایک جز کو مدنظر رکھتے ہوئے برطانوی افسران نے اس کی بنیاد ڈالی۔
ویسے تو ہندوستان میں محمد شاہ تغلق (1325-1351) نے 1327میں دارالحکومت دہلی سے دولت آباد(موجودہ مہاراشٹرہ)منتقل کرنے اور دونوں شہروں کو دارالحکومت قرار دینے کا بیڑا اٹھایا تھا۔ چونکہ سلطنت اس وقت تک جنوب کی طرف کافی پھیل چکی تھی اور دہلی کو منگولوں سے خطرہ لاحق ہوتا تھا، اسی لیے شاید بادشاہ نے محفوظ دولت آباد کو دارالحکومت کے طور پر چنا۔مغل بادشاہوں کے وقت تو لاہور، دہلی اور آگرہ یعنی تین جگہوں پر مختلف اوقات میں دربار لگتے تھے۔
اکبر سے لےکر شاہجہاں تک مغل فرمانرو ا ہر سال گرمیوں میں لاؤ لشکر اور وزیروں کی فوج کے ساتھ کشمیر وارد ہوتے تھے اور کئی ماہ تک سرینگر میں ہی دربار لگتا تھا اور فرمان جاری ہوتے تھے۔ شوپیاں، پونچھ، راجوری اور پھر لاہور کے درمیان خطوط رسانی کا انتظام ہوتا تھا، جس سے فرمان بلا کسی تاخیر صوبائی گورنروں اور سالاروں تک پہنچائے جاتے تھے۔ برطانوی دور میں موسم سرما میں کلکتہ اور گرمیوں میں شملہ دارالحکومت منتقل ہوتا تھا۔
جب ایک بار برطانیہ میں سکریٹری آف اسٹیٹ نے اس پر اعتراض جتایا اور دلیل دی کی اس پر خاصی رقم خرچ ہوتی ہیں تو وائسرائے نے کہا کہ شملہ میں برطانوی افسران کلکتہ کے مقابلے دوگنا کام کرپاتے ہیں اور ان کی کارکردگی بہتر ہوجاتی ہے۔ اس کے علاوہ شملہ چونکہ سرحدی علاقوں کے نزدیک ہے، اس لیے ان کی بہتر نگرانی ہو پاتی ہے۔
مرکزی حکومتوں کی دیکھا دیکھی صوبائی حکومتوں نے بھی دو دارالحکومت بنائے ہوئے تھے۔ بمبئی ریزیڈنسی نے تو موسم گرما میں مہابلیشور، مون سون کے موسم میں پونا اور سردیوں میں بمبئی کو دارالحکومت بنایا ہوا تھا۔ ہر تیسرے مہینے ایک لاؤ لشکر اس خطے میں ادھرسے ادھر سفر کرتا رہتا تھا۔