جمعیۃ علماء ہند نے اپنی عرضی میں دعویٰ کیا ہے کہ اتر پردیش، مدھیہ پردیش، گجرات، اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش میں تبدیلی مذہب مخالف قوانین بین مذہبی جوڑوں کو ‘ہراساں’ کرنے اور انہیں مجرمانہ مقدمات میں پھنسانے کے لیے لائے گئے ہیں۔
نئی دہلی: جمیعۃ علماء ہند نے جمعرات کو اتر پردیش، مدھیہ پردیش، گجرات، اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش کے تبدیلی مذہب مخالف قوانین کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔
جمیعۃ نے اپنی عرضی میں دعویٰ کیا کہ یہ قوانین بین مذہبی جوڑوں کو ‘ہراساں’ کرنے اور انہیں مجرمانہ مقدمات میں پھنسانے کے لیے لاگو کیے گئے ہیں۔
جمیعۃ نے ایڈوکیٹ اعجاز مقبول کے توسط سے دائر اپنی پی آئی ایل میں کہا کہ ان پانچ ریاستوں کے مقامی قانون کی دفعات کسی شخص کو اپنے عقیدے کو ظاہر کرنے پر مجبور کرتی ہیں، جو کہ کسی شخص کی پرائیویسی پر حملہ ہے۔
عرضی میں کہا گیا کہ موجودہ رٹ پٹیشن دائر کر کے درخواست گزار پانچ ریاستوں کے تبدیلی مذہب مخالف قوانین کے آئینی جواز کو چیلنج کر رہے ہیں۔
جمیعۃ کی عرضی میں کہا گیا ہے کہ یہ ایکٹ کسی شخص کو اپنے مذہبی عقائد کو ظاہر کرنے پر مجبور کرکے اس کی پرائیویسی پر حملہ کرتے ہیں۔
عرضی میں دعویٰ کیا گیا کہ پانچ ریاستوں میں اس قانون کی دفعات بین مذہبی شادیاں کرنے والے افراد کے اہل خانہ کو ایف آئی آر درج کروانے کا اختیار دیتی ہیں، جس سے انہیں مذہب تبدیل کرنے والوں کو ہراساں کرنے کا ایک نیا طریقہ ملتا ہے۔
لائیو لا کی رپورٹ کے مطابق، عرضی میں کہا گیا ہے کہ ان قوانین کا خاندان کے ناراض افراد غلط استعمال کر رہے ہیں۔
اس میں انڈیا ٹوڈے کی 29 دسمبر 2020 کو شائع ہونے والی ایک خبر کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ اتر پردیش میں آرڈیننس کے نافذ ہونے کے ایک ماہ کے اندر، 14 معاملے رپورٹ ہوئے، جن میں سے صرف 2 ہی متاثرین کی شکایت کی بنیاد پر تھے، باقی مقدمات اہل خانہ کی شکایات پر درج کیے گئے تھے۔
یہ کہتے ہوئے کہ ان قوانین سے کسی کے مذہب پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کے حق پر تباہ کن اثر پڑے گا، جو کہ ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 25 میں درج ہے، عرضی میں استدلال کیا گیا کہ یہ قوانین کسی شخص کو اس کی پسند کا مذہب اختیار کرنے کے حق کو محدودکر کے اس کے انتخاب پر تجاوز کرتے ہیں اورانفرادی فیصلے کو ریگولیٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
عرضی کے مطابق، ‘اس طرح کے انفرادی فیصلے کی ریاست کی طرف سے جانچ کسی فرد کی ذاتی آزادی پر سنگین حملہ ہے اور یہ آئین ہند کے آرٹیکل 21 اور 25 کی خلاف ورزی ہے۔’
اس سے قبل، سٹیزن فار پیس اینڈ جسٹس سی جے پی نے اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش میں تبدیلی مذہب مخالف قانون کو اس بنیاد پر چیلنج کیا تھا کہ یہ قوانین سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کے فیصلوں کے خلاف ہیں، جس میں کہا گیا تھا کہ پارٹنر کے انتخاب کا حق، رازداری کا ایک حصہ ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)