جامعہ: لائبریری میں تشدد کا مزید فوٹیج جاری، سی سی ٹی وی کیمرہ توڑتے نظر آئے پولیس اہلکار

01:52 PM Feb 18, 2020 | دی وائر اسٹاف

جامعہ ملیہ اسلامیہ میں 15 دسمبر کو ہوئے تشدد کے دوران کی ایک اور سی سی ٹی وی فوٹیج سامنےآئی ہے، جہاں پولیس طالبعلموں کے ذریعے فرنیچر سے بلاک کئے لائبریری کے گیٹ کوتوڑ‌کر اندر گھستی ہے اور طالبعلموں پر لاٹھیاں چلاتی دکھتی ہے۔ کئی طالبات سمیت ڈھیروں طالبعلم پولیس کے سامنے ہاتھ جوڑتے نظر آتے ہیں۔

سی سی ٹی وی کیمرہ توڑنے کی کوشش کرتا دکھ رہا پولیس اہلکار۔ (ویڈیوگریب ،بہ شکریہ: مکتوب میڈیا)

نئی دہلی: جامعہ کوآرڈی نیشن کمیٹی کی جانب سے15 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کی لائبریری میں پولیس کے داخل  ہونےاور تشدد کا فوٹیج جاری کرنے کے ایک دن بعد ایک دوسرافوٹیج سامنے آیا ہے، جہاں پولیس طالبعلموں کے ذریعےلائبریری کا دروازہ بلاک کرنے کےبعد اس کو توڑ‌کر اندر گھس‌کر نہتے طالب علموں پر لاٹھیاں برساتی نظر آ رہی ہے۔ مکتوب میڈیا کی جانب سے جاری 5 منٹ کا یہ ویڈیو فوٹیج اولڈ ریڈنگ ہال کے دروازے کے پاس لگے سی سی ٹی وی کا ہے۔ واضح  ہو کہ 13 دسمبر کو سی اے اے کے خلاف جامعہ کے طالبعلموں کے مظاہرہ کے بعد 15 دسمبر کوجامعہ احاطے میں تشدد ہوا تھا، جہاں پولیس کے ذریعے لاٹھی چارج کیا گیا تھا، ساتھ ہی لائبریری میں آنسو گیس پھینکی گئی تھی۔

پولیس کے ذریعے لائبریری میں گھسنے اور لاٹھی چارج کرنے کی بات سے انکارکیا گیا تھا۔ حالانکہ 16 فروری کو سامنے آئے ایک ویڈیو میں پولیس لائبریری کے اندر نظر آئی تھی۔ اسی شام ایک دہلی پولیس کے ذریعے ایک دوسراویڈیو جاری کیا گیا تھا، جس میں ان کے مطابق ‘ فسادی ‘ لائبریری میں گھسے تھے۔اس ویڈیو میں کئی طالب علم لائبریری میں گھس‌کر دروازے کے آگے فرنیچرلگاکر اس کو بلاک کر رہے تھے۔ ان میں سے صرف ایک آدمی نقاب پہنے دکھتا ہے، وہیں ایک دوسرے شخص کے ہاتھ میں کوئی چیز ہے، جس کو پولیس کے ذریعے’پتھر’بتایا جارہا ہے۔

مکتوب میڈیا کی جانب سے سوموار کو جاری ویڈیو پولیس کے ذریعے جاری کی گئی فوٹیج کے آگے کا حصہ لگتا ہے۔ مکتوب میڈیا کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس ایک گھنٹے سےزیادہ کا ویڈیو فوٹیج ہے، جو لائبریری میں ہوئے تشدد کو دکھاتا ہے۔

17 فروری کو جاری ویڈیو کلپ میں طالب علم لائبریری کے دروازے کے آگے فرنیچر وغیرہ لگاکر اس کو بلاک کرتے نظر آتے ہیں اورپولیس دروازہ توڑ‌کر اندر گھستی ہے۔ پولیس کے اندر آنے پر ایک خاتون سکیورٹی گارڈکو جانے دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد کئی طالبات سمیت ڈھیروں طالب علم پولیس کے سامنےہاتھ جوڑ‌کر ان کو جانے دینے کی گزارش کرتے نظر آتے ہیں۔پولیس کئی طالب علموں پر لاٹھیاں چلاتی دکھتی ہے، جس سے بچنے کے لئے طالبعلم اپنے بیگ کے پیچھے چھپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس بیچ کچھ طلبا-طالبات آہستہ آہستہ لائبریری کے دروازے سے باہر نکلتے ہیں لیکن باہر کی طرف سے بھی پولیس اہلکارلاٹھیاں چلاتے دکھ رہے ہیں۔

پولیس کے سامنے ہاتھ جوڑتے دکھ رہی طالبہ

اس ویڈیو کلپ کے آخر میں گیٹ پر کھڑے طالب علم مار سے بچنے کے لئے اندر کی طرف بھاگتے ہیں، جب اندر کھڑے پولیس اہلکار ان پر لاٹھیاں برساتے ہیں۔ ان تمام طالب علموں میں کسی کے چہرے ڈھکے ہوئے نہیں ہیں، صرف ایک طالب علم آلودگی سے بچنےوالا ماسک لگائے نظر آ رہا ہے۔ویڈیو کے آخر میں ایک پولیس اہلکار اپنے چہرے کو چھپاتے ہوئے اس سی سی ٹیوی کیمرے کی طرف آتا ہے اور اس کے اوپر لاٹھی مار‌کر توڑنے کی کوشش کرتا ہے۔

 دی وائر آزادانہ طورپر اس ویڈیو کی سچائی کی تصدیق نہیں کرتا ہے۔ 16 فروری کو جاری ہوئے ویڈیو فوٹیج کےسامنے آنے کے بعد دہلی پولیس پر کئی سوال اٹھے تھے، جس کے بعد انہوں نے ایک ویڈیوکلپ جاری کیا۔ ‘ فسادیوں’کے لائبریری میں گھسنے کا دعویٰ غیر واضح ہے کیونکہ یہ کسی بھی طرح معلوم نہیں چل رہا کہ بھاگ‌کر لائبریری میں گھس رہے لوگ ‘ فسادی ‘ ہیں یا پولیس کی کارروائی سے بچ‌کر بھاگ رہے طالب علم۔

قابل ذکر ہے کہ اس تشدد کے بعد پولیس کے ذریعے لگاتار یہ کہا گیا تھا کہ وہ لائبریری میں نہیں گئے تھے۔ پولیس پر اس کارروائی کے دوران فائرنگ کرنے کا بھی الزام لگا تھا۔ دہلی پولیس کی انٹرنل جانچ میں کہا گیا تھا کہ دو پولیس اہلکاروں نے اےسی پی رینک کے ایک آفیسر کے سامنے طالب علموں پر گولیاں چلائی تھیں۔ وہیں، پیپلس یونین فار ڈیموکریٹک رائٹس (پی یو ڈی آر)کی ایک ٹیم نے بھی ‘بلڈی سنڈے ‘ نام کی ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ پولیس نے جامعہ کے طالب علموں کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کے ارادے سے حملہ کیا تھا۔

 رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ پولیس نے جان بوجھ کر لوگوں کو حراست میں رکھا اور زخمیوں تک طبی مدد نہیں پہنچنے دی۔ پولیس بنا اجازت کے کیمپس پہنچی اورلاٹھی سے طالب علموں کو پیٹنا شروع کیا۔رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پولیس نے سی سی ٹی وی کیمرے توڑ دیے اور طالبعلموں پر لاٹھی چارج کرنا شروع کیا۔ ساتھ ہی پولیس نے طالب علموں پر فرقہ وارانہ تبصرہ بھی کیا۔

 رپورٹ کے مطابق، پولیس نے طالب علموں پر وحشیانہ کاروائی کے دوران ان کےلئے جہادی، غداراور کٹوا جیسے الفاظ کا استعمال کیا، ساتھ ہی مبینہ طور پرخواتین کو جنسی تشدد کی بھی دھمکیاں دیں۔