سال 2019 کے جامعہ تشدد کے سلسلے میں درج ایک معاملے میں شرجیل امام، صفورہ زرگر اور آصف اقبال تنہا سمیت 11 لوگوں کو بری کرنے والے کورٹ کے فیصلےمیں کہا گیا ہے کہ معاملے میں پولیس کی طرف سے تین ضمنی چارج شیٹ دائرکرنا انتہائی غیر معمولی واقعہ تھا۔ اس نے ضمنی چارج شیٹ داخل کرکے ‘تفتیش’ کی آڑ میں پرانے حقائق کو ہی پیش کرنے کی کوشش کی۔
نئی دہلی: جامعہ نگر میں 2019 میں تشدد برپا کرنے کے ملزمین کو تین سال سے زائد عرصے کے بعد رہا کرتے ہوئے دہلی کی ایک عدالت نے سنیچر کو متعدد چارج شیٹ داخل کرنے کی وجہ سےپولیس اہلکاروں کی سرزنش کی اور کہا کہ اس نے ‘ملزمین کے حقوق کو پامال’ کیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ دسمبر 2019 میں ہوئے تشدد کے سلسلے میں شرجیل امام، صفورہ زرگر اور آصف اقبال تنہا اور آٹھ دیگر افراد کو گرفتار کیا تھا، سنیچر کو انہیں الزام سے بری کرتے ہوئے دہلی کی عدالت نے کہا تھاکہ چونکہ پولیس حقیقی مجرموں کو پکڑنے میں ناکام رہی، اس لیے اس نے ان ملزمین کو قربانی کا بکرا بنا دیا۔
ایڈیشنل سیشن جج ارول ورما نے کہا کہ پولیس کے لیے صرف ایک چارج شیٹ نہیں بلکہ تین ضمنی چارج شیٹ داخل کرنا انتہائی غیر معمولی بات تھی، جس میں درحقیقت کوئی نئی بات نہیں تھی۔
انہوں نے استغاثہ کی سرزنش کرتے ہوئے کیس میں داخل متعدد چارج شیٹ پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا، موجودہ معاملے میں غیرمعمولی بات یہ ہے کہ پولیس نے ایک چارج شیٹ اور ایک نہیں بلکہ تین ضمنی چارج شیٹ دائر کی، جس میں درحقیقت کچھ بھی پیش نہیں کیا گیا۔ چارج شیٹ کی یہ فائلنگ بند ہونی چاہیے، یہ بازی گری مقدمےکے علاوہ بہت کچھ ظاہر کرتی ہے اور اس کا اثر ملزمین کے حقوق پر پڑے گا۔
The investigative agency pr… by The Wire
رپورٹ کے مطابق فیصلے میں مزید کہا گیا، ‘یہ نوٹ کرنا بہت ضروری ہے کہ ایک چارج شیٹ اور دو ضمنی چارج شیٹ دائر کرنے کے بعد بھی معاملہ ختم نہیں ہوا ہے۔ یہ مایوسی کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ اس عدالت نے مشاہدہ کیا کہ تیسری ضمنی چارج شیٹ الزامات پر حتمی دلائل کے ختم ہونے سے ایک دن پہلے اس وقت داخل کی گئی، جب الزامات پر کافی بحث ہو چکی تھی۔ اور یہ ایک ایسے وقت میں دائر کیا گیا تھا جب خاطرخواہ دلیلوں پر پہلے ہی بحث ہو چکی تھی اور جب ملزمین نے اپنی تحریری دلیلیں داخل کر دی تھیں۔
اس نے اس بات پر زور دیا کہ ‘تیسری ضمنی چارج شیٹ واضح طور پر غلط بیانی کے ساتھ شروع ہوتی ہے۔’ان مشاہدات کے ساتھ عدالت نے سریندر ایٹ دی ریٹ تنو بنام دلی سرکار کے کیس کا بھی حوالہ دیا، جس میں ضمنی چارج شیٹ داخل کرنے کے پہلو پر مفصل بات کی گئی ہے۔
فیصلے میں کہا گیا، ‘کسی معاملے (جسے کھولنے کے لیے چارج شیٹ جمع کی گئی ہے اور جس کا نوٹس لیا گیا ہے) کی پیشگی شرط یہ ہے کہ اسے صرف نئے مواد کی بنیاد پرہی کھولا جانا چاہیے، ایسامواد جو پہلے دستیاب نہیں تھا، اس کےلیے بھی عدالت سے اجازت لی جانی چاہیے۔
لہذا، عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ‘ دوسری چارج شیٹ صرف پہلی چارج شیٹ پیش کرنے کے وقت جمع کیے گئے شواہد پر دوبارہ غور کرنے کے لیے ہی پیش کی گئی تھی۔
اس طرح، دوسری چارج شیٹ پر ضابطہ فوجداری کے سیکشن 173(8) کے دفعات کے مطابق غور نہیں کیا جا سکتا۔ (ایک مجسٹریٹ از خود نوٹس لےکرآگے کی جانچ کی ہدایت نہیں دے سکتا ہے۔)
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ تیسری ضمنی چارج شیٹ کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ اس میں وہی تصویریں دائر کی گئی ہیں، جو پہلے سے ہی ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ ان گواہوں کے وہی بیانات جو پہلے ریکارڈ کیے گئے تھے دوبارہ نئی چارج شیٹ میں پیش کیے گئے ہیں۔
عدالتی حکم میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ‘تیسری چارج شیٹ میں بھی گواہ صرف یہ کہتے ہیں کہ ملزمین احتجاجی مظاہرہ کا حصہ تھے اور کچھ ‘زور سے بول رہے تھے’ اور ‘پولیس سے بحث کر رہے تھے۔’ حتیٰ کہ موجودہ چارج شیٹ میں بھی ان پر براہ راست کسی سرگرمی کا حصہ ہونے کا الزام نہیں لگایا گیا ہے۔
لہذا، عدالت نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ،جانچ ایجنسی نے نئے شواہد پیش نہیں کیے ہیں، بلکہ [اس نے] ایک اور ضمنی چارج شیٹ دائر کرکے ‘تفتیش’ کی آڑ میں وہی پرانے حقائق پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
بتادیں کہ فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ تفتیشی ایجنسیوں کو اختلاف اور بغاوت کے درمیان کے فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اختلاف رائے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے، اس کو دبانا نہیں چاہیے۔ اس نے کہا کہ، بے شک اختلاف رائے کی آوازہر طرح سے پرامن ہونی چاہیے،اس میں تشدد کا شائبہ تک نہیں ہونا چاہیے۔
عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ ملزمین کو ‘قربانی کا بکرا’ بنانے اور ان کے خلاف الزامات ثابت کرنے کے لیے وسائل اکٹھا کرنے کے بجائےپولیس کو قابل اعتماد خفیہ جانکاری جمع کرنی چاہیے تھی اور تفتیش کے لیے ٹکنالوجی کا استعمال کرنا چاہیے تھا۔ ورنہ ، ایسے لوگوں کے خلاف جھوٹی چارج شیٹ دائر کرنے سے گریز کیا جانا چاہیے تھا، جن کا کردارصرف ایک احتجاج کا حصہ بننے تک ہی محدود تھا۔