دہلی میں کووڈ بحران کے بیچ فلپائن اور نیوزی لینڈکےسفارت خانوں کے ذریعے یوتھ کانگریس کے سربراہ شری نواس بی وی سے آکسیجن کی مدد مانگی گئی تھی، جس کو لےکر کانگریس رہنما جئےرام رمیش نے وزارت خارجہ کو تنقید کا نشانہ بنایاتھا۔ اس کے بعد وزیر خارجہ ایس جئے شنکر نے کہا کہ یوتھ کانگریس کی طرف سے کی گئی فراہمی ‘غیرمطلوبہ’ تھی۔
وزیر خارجہ ایس جئےشنکر اور نیوزی لینڈ سفارت خانے میں پہنچے آکسیجن سلینڈر۔
نئی دہلی:وزیر خارجہ ایس جئےشنکر اور کانگریس رہنما جئےرام رمیش کے بیچ یوتھ کانگریس کے کارکنوں کے ذریعےدو غیرملکی سفارت خانوں کومیڈیکل آکسیجن کی فراہمی کے معاملے پر سوشل میڈیا پر زبانی جنگ چلی۔معاملہ یوتھ کانگریس کے قومی صدر شری نواس بی وی کےسنیچر کو کیے گئے ایک ٹوئٹ سے شروع ہوا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ گزشتہ کچھ وقت سے شری نواس ٹوئٹر اورسوشل میڈیا کے ذریعے کووڈ 19 مریضوں کی مدد کر رہے ہیں۔
انہوں نے سنیچر کی شام تقریباً7.57 بجے ایک ویڈیو ٹوئٹ کیا، جس میں ان کی ٹیم کے ذریعےدہلی کے فلپائن سفارت خانے میں ایک منی وین آکسیجن سلینڈر کے ساتھ داخل ہوتی دکھائی دیتی ہے اور آکسیجن سلینڈر دیے جا رہے تھے۔ ویڈیو میں ایک شخص کے یہ پوچھنے پر کہ سفارت خانے میں دو لوگ کووڈ سے متاثر ہیں، جواب ہاں ملتا ہے۔
کانگریس رہنما جئےرام رمیش نے سنیچر دیر رات ایک ٹوئٹ میں شری نواس بی وی کے ٹوئٹر پوسٹ والے ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے انڈین یوتھ کانگریس کی تعریف کی۔
انہوں نے لکھا،‘میں آئی وائی سی کا ان کی شاندار کوششوں کے لیےشکریہ اداکرتا ہوں، ایک ہندوستانی شہری کے طور پر مجھے حیرت ہے کہ اپوزیشن پارٹی کایوتھ سیل غیرملکی سفارت خانوں کے بحران سے متعلق پیغامات کو حاصل کر رہا ہے۔’
کانگریس رہنما نے اپنے ٹوئٹ میں کہا کہ اگر اپوزیشن پارٹی کا یوتھ ونگ غیر ملکی سفارت خانوں کے بحران سے متعلق پیغامات(ایس اوایس)کو دیکھ رہا ہے، تو کیا
وزارت خارجہ سو رہا ہے؟
اس پر اتوار کو وزیر خارجہ ایس جئےشنکر نے ٹوئٹ کیا،‘ایم ای اے نے فلپائن کےسفارت خانے سے رابطہ کیا۔ یہ غیرمطلوبہ سپلائی تھی اور وہاں کوئی کووڈ 19 کا معاملہ نہیں تھا۔صاف ہے کہ یہ آپ کی طرف سے سستی شہرت کے لیے تھا۔ جب لوگوں کو آکسیجن کی کافی ضرورت ہو تب اس طرح سے سلینڈر دینا خوفناک ہے۔’
سلسلےوار ٹوئٹ میں انہوں نے کہا، ‘جئےرام جی، ایم ای اے کبھی نہیں سوتا ہے ۔ ہمارے لوگ پوری دنیا میں جانتے ہیں ۔ ایم ای اے کبھی فرضی باتیں بھی نہیں کرتا۔ ہم جانتے ہیں کہ کون کرتا ہے۔’جئے شنکر کا ٹوئٹ آنے کے چند منٹوں کے اندر ہی نیوزی لینڈ کے سفارت خانے نے شری نواس کو ٹیگ کرتے ہوئے ‘فوراً’ان کے کیمپس میں آکسیجن سلینڈر دینے کی بات کہی۔
یہ ٹوئٹ بعد میں سفارت خانے کے ذریعے ڈی لٹ کر دیا گیا، لیکن اس پر دیا گیا شری نواس کا
جواب اب بھی موجود ہے۔ اس کے تقریباً45 منٹ بعد نیوزی لینڈسفارت خانےنے ایک نیا ٹوئٹ کیا، جس میں کہا گیا کہ وہ فوراً آکسیجن سلینڈر پانے کے لیےتمام ذرائع سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے، اور ان کی اپیل کا غلط مطلب نکالا گیا جس کے لیے وہ معافی چاہتے ہیں۔
اس کے بعد شری نواس نے ایک ویڈیو ٹوئٹ میں بتایا کہ ان کی ٹیم کے ذریعے سفارت خانےمیں سلینڈر پہنچا دیے گئے ہیں۔ انہوں نے فوراً راحت کے لیے انڈین یوتھ کانگریس کی ٹیم کا شکریہ ادا کیا ۔اس بیچ یوتھ کانگریس کے ٹوئٹر ہینڈل سے فلپائن سفارت خانے کے ساتھ ہوئی مبینہ بات چیت کوشیئرکرتے ہوئے بتایا گیا کہ اسی کی وجہ سے انہیں آکسیجن سلینڈر بھیجا گیا تھا نہ کہ وزیر خارجہ کے کہنے کے مطابق ‘وہ غیرمطلوبہ فراہمی’ تھی۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے کچھ فیس بک پوسٹ اور کال ریکارڈس بھی شیئر کرتے ہوئے کہا کہ سیلنڈر سفارت خانے سے اپیل پر بھیجے گئے تھے اور سپلائی کے بعد سفارت خانےنے فیس بک پرشکریہ ادا کیا ۔اس کے بعد پوسٹ کو ٹیگ کرتے ہوئے رمیش نے بعد میں ٹوئٹ کیا،‘اب آپ کیا کہیں گے، جناب وزیر، ڈاکٹر ایس جئےشنکر۔’
وہیں وزارت خارجہ نے کہا کہ وہ ہندوستان میں تمام سفارت خانوں سے رابطے میں ہے اور ان کے طبی معاملات اور خاص طور پر کووڈ 19 سے متعلق مانگوں پر جواب دے رہا ہے۔وزارت کے ترجمان ارندم باغچی نے کہا کہ سفارت خانوں کے طبی مطالبات میں اسپتالوں میں علاج کی سہولت مہیا کرانا شامل ہے۔ انہوں نے سب سے آکسیجن سمیت ضروری فراہمی سےمتعلق سامان کی جمع خوری نہ کرنے کی اپیل کی ۔
دوسری جانب باٖغچی نے اپنے بیان میں کہا کہ وزارت خارجہ غیرملکی مشنوں کی طبی مطالبات پر جواب دے رہی ہے۔ اہم پروٹوکال اور سیل کے سربراہان تمام ہائی کمیشن/سفارت خانوں کے مستقل رابطے میں ہیں اور ان کے طبی مطالبات پر جواب دے رہے ہیں، جس میں اسپتالوں میں علاج ومعالجےکی سہولیات بھی شامل ہے۔
باغچی نے صحافیوں کے سوالوں پر کہا، ‘مہاماری کی حالت کو دیکھتے ہوئے ہم سب سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ آکسیجن سمیت ضروری فراہمی کو جمع نہیں کریں گے۔’جمع کرنے کی بات کے بارےمیں واضح کیا گیا کہ یہ یوتھ کانگریس کے بارے میں ہے نہ کہ سفارت خانے کے بارے میں۔
قابل ذکر ہے کہ قومی راجدھانی کووڈ 19 کے بڑھتے معاملوں کے بیچ میڈیکل آکسیجن کی شدید کمی کا سامنا کر رہی ہے۔راجدھانی کے اسپتالوں کی طرف سے لگاتار آکسیجن کی کمی کی بات کہی جا رہی ہے اور مریضوں کی جان گنوانے کے معاملے سامنے آ رہے ہیں۔
پچھلےجمعہ کو دہلی ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ مرکز یقینی بنائے کہ دہلی کو مختص مقدار 490 میٹرک ٹن آکسیجن ملے اور وارننگ دی کہ اس میں ناکام ہونے پر وہ عدالت کی توہین کی کارر وائی کر سکتی ہے۔یہی حال قومی راجدھانی میں آئی سی یو بیڈ اور میڈیکل سپلائی کا ہے، جس کے بیچ سیاسی اور غیر سیاسی سب طرح کے رضاکاروں کے گروپ ضرورت مندوں کی مدد کرتے نظر آ رہے ہیں۔
وزارت خارجہ میں بھی اب تک کوروناانفیکشن کے ڈیڑھ سو سے زیادہ معاملے سامنے آ چکے ہیں۔وزارت کے کئی سینئر حکام دہلی کے علاوہ ہریانہ اور راجستھان میں بھی اپنے رشتہ داروں کے لیے بیڈ کی تلاش کرتے دکھے ہیں۔
دہلی کی اس شدید صورتحال سے واقف کئی غیرملکی سفارت خانے اپنے بوتے پر ایسے حالات سے نمٹنے کے لیے تیار رہنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امریکہ اور چین جیسے کئی بڑے ممالک کےسفارت خانوں کے پاس ان کے بڑے کیمپس میں کئی سہولیات سے لیس میڈیکل سینٹر ہیں۔ سی این این نے پچھلے ہفتے بتایا تھا کہ ہندوستان میں امریکہ کے ڈپلومیٹک اسٹاف کے تقریباً 100 لوگ کووڈ سے متاثر ہو چکے ہیں اور دو کی جان جا چکی ہے۔
کئی نسبتاًچھوٹے سفارت خانوں نے بیڈ‘محفوظ’رکھنے کو لےکر اسپتالوں سے رابطہ کیا ہے، لیکن دہلی کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ مشکل ہو رہا ہے۔
نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر
دی وائر سے بات کرتے ہوئے ایک سفیر نے بتایا کہ ان حالت کو دیکھتے ہوئے ‘غیرملکیوں کے لیے بیڈ محفوظ کرنا’مشکل ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ وزارت کو ایک‘سیل کھولنا چاہیے، جو آکسیجن اور بیڈ کے بارے میں اپڈیٹیڈ جانکاری فراہم کر سکے۔’
دیگر سفارت خانے بھی میڈیکل آلات خریدکر آکسیجن سلینڈر کے ساتھ ہوم آئی سی یو کے انتظام کو آخری متبادل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ حالانکہ موجودہ بحران اور کمی کو دیکھتے ہوئے یہ بھی خاصہ چیلنجنگ ہے۔کچھ غیرملکی ڈپلومیٹ ، جن سے دی وائر نے بات کی، نے بتایا کہ اگر کوئی میڈیکل کیس آتا ہے تو وہ اسٹاف کو واپس بھیجنے کے بارے میں بھی سوچ رہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ سنیچر کو تھائی لینڈ کی طرف سے تھائی سفارت خانے کے ملازمین کو لینے آئی رائل تھائی فورس فلائٹ میں 30 آکسیجن کانسینٹریٹر بھیجے گئے تھے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)