اسرائیل کی لبنان میں کارروائی: مستقبل کی جنگ کی ایک جھلک

لبنان میں دھماکے ایک واضح یاد دہانی ہیں کہ جنگوں کی نوعیت بدل رہی ہے۔ اسرائیل کا یہ حملہ اس بات کی بھی واضح مثال ہے کہ مستقبل کی جنگیں صرف بموں اور گولیوں سے نہیں بلکہ ڈیٹا، الگورتھم اور سائبر کارناموں سے لڑی جا سکتی ہیں۔

لبنان میں دھماکے ایک واضح یاد دہانی ہیں کہ جنگوں کی نوعیت بدل رہی ہے۔ اسرائیل کا یہ حملہ اس بات کی بھی واضح مثال ہے کہ مستقبل کی جنگیں صرف بموں اور گولیوں سے نہیں بلکہ ڈیٹا، الگورتھم اور سائبر کارناموں سے لڑی جا سکتی ہیں۔

انٹرنیٹ پر وائرل ایک تصویر، جس کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس تکنیک کا استعمال اسرائیل نے لبنان میں دھماکہ کرنے کے لیے کیا تھا۔

انٹرنیٹ پر وائرل ایک تصویر، جس کے بارے میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس تکنیک کا استعمال اسرائیل نے لبنان میں دھماکہ کرنے کے لیے کیا تھا۔

ہندوستانی فوج کے ایک سابق سربراہ جنرل سندر راجن پدمانابھن، جن کا ابھی اگست میں ہی انتقال ہوا، نے 2004 میں دہلی میں اپنے ایک ناول کا اجرا کیا۔ یہ ناول رائٹنگ آن دی وال پاکستان کے ساتھ ایک خیالی جنگ، جس میں امریکہ پاکستان کی مدد کو آتا ہے، کے ارد گرد گھومتا ہے۔ فوجیوں اور ٹینکوں کے بجائے سائنسدانوں کے ذریعے مصنوعی ذہانت اور پوشیدہ ہتھیاروں کا استعمال کرکے مواصلاتی نظام میں خلل ڈال کر ہندوستان یہ جنگ جیت جاتا ہے۔

جب اجرا کے وقت ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس طرح کے ہتھیار وجود میں آچکے ہیں، تو بار بار انہوں نے وضاحت کی کہ یہ ایک مصنف کا تخیل ہے، اس کو فوج کی تیاریوں کے ساتھ نہ جوڑا جائے۔

مجھے یاد ہے کہ ایک بار اسرائیلی سائنسدانوں کا ایک وفد دہلی میں تھا، اور ان کے سفارت خانہ نے چند صحافیوں کے ساتھ ان کی ایک نشست رکھی تھی۔

بات چیت کے دوران وفد میں شامل ان میں ایک سائنسدان نے کہا کہ جب بھی مارکیٹ میں کوئی سائنس فکشن آتا ہے، تو ان کا محکمہ اس کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ لیتا ہے اور معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کیا مصنف کے تخیل کو حقیقت میں ڈھالا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سائنسدانوں کو سائنس فکشن لکھنے والے مصنفین رچرڈ مورگن، السٹر ری نالڈس، (جن کے ناولوں کا مرکزی مو ضوع تھیوریٹکل فزکس ہوتی ہے) اور ان گنت دیگر مصنفین کی نگارشات کو پڑھنے کی نہ صرف ترغیب دی جاتی ہے، بلکہ یہ بھی رپورٹ کرنا پڑتا ہے کہ کیا اس کو عملی روپ دیا جاسکتا ہے۔

اسی طرح سے ان اسرائیلی سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ وہ جاسوسی تھرلرز کو بھی سنجیدگی سے لیتے ہیں۔

جنرل پدمانابھن کا تخیل اور اسرائیلی سائنسدانوں کے یہ دعوے اس وقت واقعی حقیقت میں تبدیل ہوتے دیکھے گئے، جب ابھی حال ہی میں لبنا ن کے طول و عرض سے خبریں آنا شروع ہوئیں کہ حزب اللہ کے مواصلاتی آلات پیجر اور پھر بعد میں واکی ٹاکی میں پے در پے دھماکے ہو رہے ہیں، جن سے پچاس کے قریب افراد ہلاک اور تقریبا تین ہزار سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔

موبائل نیٹ ورک کو درکنار کرتے ہوئے حزب اللہ نے پیجر نیٹ ورک کو محفوظ اور قابل اعتماد مواصلاتی ذریعہ گر دانا تھا، کیونکہ ان کو ہیک کرنے کا کم خطرہ رہتا ہے۔ مگر یہ خود ہی بم بن گئے۔

بتا یا جاتا ہے کہ حال ہی میں، حزب اللہ کو پیجرز کی ایک نئی کھیپ موصول ہوئی تھی۔خبروں کے مطابق اسرائیلی ایجنٹوں نے سمندری جہاز کے ذریعے جانے والی پیجرز کی کھیپ تک رسائی حاصل کی تھی اور بیٹری کے ساتھ ہی اس میں چند گرام بارود رکھ کر ان کو دوبارہ بالکل اسی طرح پیک کرکے ان کو اپنے نیٹ ورک کے ساتھ جوڑ دیا تھا۔

مگر ایک روز قبل حزب اللہ سے وابستہ کسی جنگجو کو دو پیجرز پر شک ہو گیا تھا کہ ان کی پیکنگ کھولی گئی ہے۔ اس سے قبل یہ تنظیم ان پیجرز پر مزید تحقیق کرکے ان کو کوڑے دان میں پھینک دیتی اسرائیلی وزیر اعظم بنجیمن نیتن یاہونے آپریشن کی منظوری دے دی۔

ان رپورٹوں کے مطابق اصل منصوبہ کی رو سے ان پیجرز کو اس وقت پھٹنا تھا، جب اسرائیل غزہ سے فراغت کے بعد باضابطہ لبنان پر حملہ کردیتا۔ چونکہ یہ پیجر ہر جنگجو کے پاس موجود ہوتے، تو ایک ساتھ ان کے پھٹنے سے  ایک دم پانسہ پلٹ جاتا۔

فی الحال حزب اللہ کا محفوظ مواصلاتی نظام، جو حملوں کو مربوط کرنے اور جنگجوؤں کو متحرک کرنے کے لیے ضروری تھا، اس کی کمزوری بن گیا ہے جس کا اسرائیل بھر پور فائدہ اٹھارہا ہے۔ نہ صرف بیروت بلکہ ملک کے دیگر علاقوں میں بمباری کر رہا ہے۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حزب اللہ جو کبھی نظم و ضبط اور ناقابل تسخیر کے طور پر دیکھی جاتی تھی، اسے غیر محفوظ بنا دیا گیا ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ میزائلوں اور جدید اسلحہ سے لیس انتہائی محفوظ فوج کو ڈیجیٹل دور میں انتہائی محفوظ خطرے میں ڈالا جاسکتا ہے۔

لبنان میں دھماکے ایک واضح یاد دہانی ہیں کہ جنگوں کی نوعیت بدل رہی ہے۔

 اسرائیل کا یہ حملہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ مستقبل کی جنگیں صرف بموں اور گولیوں سے نہیں بلکہ ڈیٹا، الگورتھم اور سائبر کارناموں سے لڑی جا سکتی ہیں۔

ماہرین اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ یہ حملہ 21 ویں صدی میں جنگ کے حوالے سے ایک اہم لمحہ ہے۔ سائبر حملے اکثر پوشیدہ ہوتے ہیں، جس میں کوئی نشان، کوئی ملبہ، اورگولہ بارود نہیں چھوڑا جاتا ہے۔

یہ حملے مواصلاتی نیٹ ورکس، پاور گرڈز، مالیاتی اداروں کو نشانہ بناتے ہیں۔یہ اس بات کی بھی سنگین یاد دہانی کے طور پر کام کراتا ہے کہ ڈیجیٹل دور میں کس طرح انسان کے روز مرہ میں استعمال میں آنے والے آلات کو ہتھیار بناکر بڑے پیمانے پر تباہی کے سامان کیے جاسکتے ہیں۔

اسرائیل کے نیشنل سائبر ڈائریکٹوریٹ کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹرجنرل  ریفیل فرانکو  کے مطابق حزب اللہ کو اس شاک سے نکلنے میں کافی وقت لگے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ان کے جنگجو ہر پیجر اور موبائل فون کو شک کی نظر سے دیکھیں گے۔

اسرائیل نے فون اور دیگر آلات کو ہیک کرنے کی ٹکنالوجی کے حصول کے لیے خاصی سرمایہ کاری کی ہے۔ یعنی آپ کے گھر پر روبوٹک جھاڑو کو بھی ہیک کرکے اس کو آپ کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔ فرانکو کا کہنا ہے کہ اسرائیلی خفیہ تنظیم موساد نے حز ب اللہ کی سپلائی چین کا پتہ لگا لیا تھا۔

انہوں نے پتہ لگایا تھا کہ چونکہ مغرب میں حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم کے زمرے میں رکھا گیا ہے، اس لیے یہ پیجرز کسی شیل کمپنی سے خریدے گئے ہوں گے۔ انہوں نے ہنگری میں بی اے سی کنسلٹنگ کا پتہ لگایا تھا جس نے ان پیجرز کو سپلائی کرنے کا ٹھیکہ لیا تھا۔

فرانکو کا کہنا ہے کہ ایران جلد ہی حزب اللہ کو جدید مواصلاتی آلات بھیجے گا، مگر اس نئے نظام کو فعال ہونے میں مہینوں نہیں تو ہفتوں لگیں گے۔ اس لیے ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے پاس حزب اللہ کو گھٹنے ٹیکنے کے لیے مجبور کرنے کا بس یہی وقت بچا ہے۔ اس لیے پچھلے چند دنوں سے اسرائیل  لبنان پرشدید بمباری کر رہا ہے۔

اس نئے سائبر وار سے قطع نظر ماضی میں بھی اسرائیلی ایجنٹوں نے کئی ایسے غیر روایتی حملہ کرکے اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگایا ہے۔

اسرائیل کی داخلی خفیہ ایجنسی شن بیٹ نے 1996 میں غزہ میں حماس کے ایک رکن یحییٰ عیاش کو مارنے کے لیے خفیہ طور پر دھماکہ خیز مواد سے لیس موبائل فون اس کے پاس پہنچایا۔  جب اسرائیلی ایجنٹوں نے تصدیق کی کہ فون ان تک پہنچ گیا ہے اور اس پر ان کی ہی آواز ہے، تو اس کو ریموٹ سے دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ اسی طرح 1997 میں حماس کے پولیٹ بیورو کے سربراہ خالد مشعل کو قتل کرنے کے لیے موساد کے دو خفیہ افسروں نے مشال کی گردن پر زہر چھڑکا تھا۔

مگر یہ منصوبہ ناکام ہوگیا اور یہ دونوں ایجنٹ پکڑے گئے۔ حماس کے لیے ہتھیارفراہم کرنے والے  محمود المبحوح 2010 میں دبئی کے ہوٹل کے کمرے میں مردہ پائے گئے تھے۔ اماراتی حکام نے ابتدائی طور پر اسے قدرتی وجوہات کی بنا پر موت قرار دیا تھا، مگر بعد کی تحقیقات میں موساد کی ایک ہٹ ٹیم کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا پردہ فاش ہوا۔

سال 2010 اور 2020 کے درمیان، تقریباً نصف درجن ایرانی جوہری سائنسدان بندوقوں کے حملوں یا دھماکوں میں ہلاک یا زخمی ہوئے۔

ایران کے چیف جوہری سائنسدان محسن فخر زادہ کو 2020 میں تہران کے مضافات میں ایک قافلے میں گاڑی چلاتے ہوئے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ کچھ ایرانی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے سیٹلائٹ سے کنٹرول کرنے والی اسنائپر رائفل کا استعمال کیا۔