تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن ہاہو نے تہران میں ہنیہ پر حملہ کرکے ایک تیر سے کئی شکار کیے ہیں۔ ایک تو امریکی ایما پر ہو رہی جنگ بندی مذاکرات کا بیڑا غرق کردیا، دوسرا ایران اور مغربی ممالک کے درمیان جوہری معاہدہ پر از سر نو مذاکرات کا راستہ فی الحال بند کردیا اور اسی کے ساتھ اپنے لیے اقتدار میں برقرار رہنے کا جواز بھی فراہم کردیا۔
حماس کے سرکردہ سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ اور اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن ہاہو (فوٹو: سوشل میڈیا)
گزشتہ 30 جولائی کی دوپہر کو حلف برداری کی تقریب کے بعد ایران کے نومنتخب اعتدال پسند صدر مسعود پیزشکیان نے جب تہران کے سعدآباد صدارتی کمپلیکس میں چارچ سنبھالا، تو اپنی پہلی میٹنگ میں ہی افسران کو بتا یا کہ مغرب کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنا اور جوہری مذاکرات کی تجدید، ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔
اس سلسلے میں انہوں نے متعلقہ افسران کو روڑ میپ کا ایک خاکہ بنانے کی ہدایت دی۔ جولائی کے پہلے ہفتے میں ان کے انتخاب کے 26 دن بعد یعنی 28 جولائی کو سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے ان کو عہدہ سنبھالنے کی منظوری دی تھی۔
وہ اس دوران ایرانی اسٹیبلشمنٹ کو قائل کرانے کی کوشش کر رہے تھے کہ امریکی انتخابات سے قبل ہی مغرب کے ساتھ مکالمہ کی کوئی صورت نکلنی چاہیے، جس سے عائد بین الاقوامی پابندیوں کو کسی حد تک نرم کیے جانے کا ایک روڑ میپ تیار ہو سکے۔ ورنہ امریکی انتخابات میں ڈونالڈ ٹرمپ کے جیتنے کے بعد اس کے امکان معدوم ہو جائیں گے۔
حلف برداری میں تقریباً سو سے زائد غیر ملکی مندوبین مدعو تھے اور اسی رات ان کی سرکاری ضیافت کا بھی انتظام تھا۔ اس ڈنر میں حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ اسماعیل ہنیہ، اسلامک جہاد کے لیڈر زیاد النخلہ اور حزب اللہ کے ڈپٹی سکریٹری جنرل نعیم قاسم پر سبھی کی توجہ مرکوز تھی۔
اکثر ملکوں کے سربراہان یا وزراء خارجہ امریکی سربراہی میں قطر اور مصر کی ثالثی میں ہو رہے اسرائیل اور حماس کے درمیان ہونے والے مذاکرات اور جنگ بندی کی شرائط کے جزیات جاننے کو بے تاب تھے۔ ڈنر ختم ہونے کے بعد پیزشکیان، اپنے گھر پہنچ کر لیٹے ہی تھے کہ مقامی وقت کے مطابق رات کے ڈھائی بجے کے آس پاس ان کو جگا کر بتایا گیا کہ پاسداران انقلاب کے گیسٹ ہاوس، جہاں ہنیہ مقیم تھے، کو میزائل سے نشانہ بنایا گیا ہے، جس کے نتیجے میں
حماس کے سربراہ، ان کے باڈی گارڈ سمیت ہلاک ہو گئے ہیں۔
ایران کے نومنتخب صدر مسعود پیزشکیان, فوٹو؛ وکی پیڈیا
گو کہ اسرائیل نے سرکاری سطح پر اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے، مگر یہ طریقہ واردات اسرائیلی خفیہ ایجنسی کا ہی ہے۔ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن ہاہو نے تہران میں ہنیہ پر حملہ کرکے ایک تیر سے کئی شکار کیے ہیں۔ ایک تو امریکی ایما پر ہو رہی جنگ بندی مذاکرات کا بیڑا غرق کردیا، دوسرا ایران اور مغربی ممالک کے درمیان جوہری معاہدہ پر از سر نو مذاکرات کا راستہ فی الحال بند کردیا اور اسی کے ساتھ اپنے لیے اقتدار میں برقرار رہنے کا جواز بھی فراہم کردیا۔
کیونکہ جس دن جنگ ختم ہو جائےگی، اسی روز نیتن یاہو کے اقتدار کا سورج بھی غروب ہو جائےگا۔ بین الاقوامی کرائسس گروپ کے امریکی پروگرام کے ایک سینئر مشیر برائن فنوکین کا خیال ہے کہ اگر مذاکرات پٹری پر سے نہ بھی اترے، تب بھی ان کی راہ میں روڑے تو بچھائے گئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یمن میں حوثیوں اور لبنان میں حزب اللہ کے ساتھ معاملات طے نیز شام اور عراق میں امریکی فوجیوں پر حملوں کا تدارک کرنے کے لیے غزہ میں جنگ بندی امریکہ کے لیے اشد ضرور ی ہے۔
مغربی ممالک بھی پیزشکیان کی حلف برداری اور جلد چارج لینے کے خواہش مند تھے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایران میں اعتدال پسندوں اور اصلاح پسندوں کی موجودگی اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے لیے ایک چیلنج تھی،کیونکہ مغرب کے ساتھ ایران کا دروازہ یا چھوٹا سا روشندان ہی کھلنا نیتن یاہو کے برداشت سے باہر تھا۔
اصلاح پسند دھڑے کے لیڈر ہونے کے علاوہ پیزشکیان کا پس منظر ایران کی متنوع نسلی روایت کی عکاسی کرتا ہے۔اس کے والد ایک ایرانی آذربائیجانی ہیں، جبکہ اس کی ماں کا تعلق کرد برادری سے ہے۔ ترک اور کرد ورثے کا یہ امتزاج انہیں دیگر ایرانی لیڈروں سے منفرد کرتا ہے۔اکثریتی سنی کرد شہر میں دو فیصد آذری بولنے والی اقلیت کا حصہ ہونے کے باوجود، پیزشکیان ہمیشہ اپنی آذری ترک جڑوں کو فخر کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔
مغربی ایشیا کی سیاست میں، جہاں امریکہ، عراق اور شام میں کرد مسلح گروہوں پر انحصار کرتا ہے، نئے ایرانی صدر کی کرد جڑوں نے تزویراتی محاذ پر ایک دلچسپ صورت حا ل پیدا کردی ہے۔ گزشتہ سال ترک صدر رجب طیب اردوان نے بھی ایک نسلی کرد حقان فیدان کو وزیر خارجہ مقررکرکے امریکہ کے عسکری پیادوں میں دراڑیں ڈالنے کا کام کردیا تھا۔
اس ڈھٹائی کے حملے نے ایران کے پاسداران انقلاب (آئی آر جی سی) کی سیکورٹی کی کمزوریوں کو بھی بے نقاب کیا بلکہ اس کی سفارتی کوششوں کی نازک پوزیشن کو بھی واضح کردیا۔سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے ہنیہ کے قتل کو ’اسلامی جمہوریہ کی سرزمین میں پیش آنے والا ایک تلخ اور مشکل واقعہ‘ قرار دیا۔ویسے تو مشرق وسطیٰ نے کئی بار اپنی سانسیں روک لی ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس واقعے نے ایک سرخ لکیر عبور کر لی ہے جو ناگزیر فوجی ردعمل اور مزید عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔
اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل کے سابق نائب سربراہ اران اتزیون نے تبصرہ کیا کہ یہ قتل اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کی کوششوں کو پٹری سے اتارنے کی حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو کسی نہ کسی طرح غزہ کی جنگ کا دائرہ وسیع کرکے امریکہ کو براہ راست اس میں شامل کرنے کے فراق میں ہے۔
کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ تہران میں ہنیہ کو قتل کرنے کے لیے امریکہ کی کسی نہ کسی صورت میں رضامندی شامل ہو سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نیتن یاہو، جب امریکہ کے دورہ پر تھے، تو ان کو بتایا گیا کہ غزہ کی کارروائیوں کو جلد از جلد سمیٹ لیں اور چند سرکردہ رہنماؤں کا شکار کرنے کے بعد فتح کا اعلان کریں۔
اس لیے اسرائیل اب حماس کے ملٹری چیف کے درپے ہے، اور ان کی موت کے بعد تل ابیب ا ور یروشلم میں ایک بڑے جشن کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔
یہ ایسا ہی جشن ہوگا، جیسا ہندوستان میں وزیر اعظم نریندر مودی نے 2019 میں پاکستان کی طرف سے جنگی طیارہ کو مار گرانے کے بعد ایئر فورس کے پائلٹ ابھی نندن کی واپسی پر منایا تھا اور پوری قوم کو اس سحر میں مبتلا کیا کہ وہ جنگ جیت چکے ہیں۔
امریکہ نے جنگ بندی کے منصوبہ کو تین مرحلوں میں تقسیم کیا تھا، جس کو اب غیریقینی صورتحال کا سامنا ہے۔ پہلے مرحلے میں فوری اور جامع جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی اور فلسطینی قیدیوں کی ادلا بدلی۔ دوسرے مرحلے کا مقصد غزہ سے اسرائیلی افواج کا مکمل انخلاء ہے۔ تیسرے مرحلے میں غزہ کے لیے ایک بڑے کثیر سالہ تعمیر نو کے منصوبے کا تصور کیا گیا تھا۔
امریکی ادارے فلسطین کے مغربی کنارہ اور غزہ پٹی کو ملاکر ایک متحدہ اتھارٹی کے حوالے کرنے کے لیے پر تول رہے تھے۔ اس اتھارٹی کی سربراہی کے لیے متحدہ عرب امارات میں مقیم فلسطینی جلاوطن کروڑ پتی محمد یوسف دحلان اور ایک مقبول فلسطینی قیدی مروان برغوتی کے ناموں پر غور کیا جا رہا تھا، کیونکہ اسرائیل کا اصرار تھا کہ نئی فلسطینی حکومت میں حماس کا عمل و دخل نہیں ہونا چاہیے اور محمود عباس پر امریکہ کا بھروسہ اٹھ چکا ہے۔
دحلان کے متحدہ عرب امارات کی قیادت کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں اور انہوں نے عرب مماک کے اسرائیل کے ساتھ ابراہم معاہدے کے خد و خال طے کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
برغوتی، قید میں ہونے کے باوجود، فلسطینیوں کے درمیان مزاحمت اور اتحاد کی علامت بن چکے ہیں۔ و ہ فلسطین کے اند رحماس کے مخالف مانے جاتے ہیں۔ مگر چند سال قبل انہوں نے جیل میں حماس کے لیڈروں کے ساتھ ایک اشتراک پر رضامندی ظاہر کی تھی۔
اسرائیل ٹارگٹ کلنگ کی اپنی دیرینہ حکمت عملی کے لیے جانا جاتا ہے۔ بیروت سے یوروگوئے تک، ساؤ پالو، روم، پیرس وغیرہ ہر شہر میں اسرائیل کی مشہور سیکورٹی ایجنسیوں نے تقریبا 60 افراد کو نشانہ بنایا ہے۔ اس کا آغاز 1956 میں اومان، اردن میں ایک مصری ملٹری اتاشی صلاح مصطفی کے قتل سے شروع ہوا تھا، جس کو پارسل بم کے ذریعے ہلاک کیا گیا تھا۔ 1962میں جرمن شہر میونخ میں راکٹ سائنسدان ہینرکروگ کو موساد نے اس لیے اغوا اور قتل کیا کیونکہ وہ مصر کے میزائل پروگرام کے لیے کام کر رہے تھے۔
ایسے ان گنت واقعات ہیں جن پر ایک پوری کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ 25 ستمبر 1997 کو، موساد کے ایجنٹوں نے نیتن یاہو اور ان کی سیکورٹی کابینہ کے حکم کے تحت حماس کے سیاسی بیور و کے سابق سربراہ خالد مشعل کو اردن میں قتل کرنے کی کوشش کی۔ یہ ایجنٹ کینیڈا کے جعلی پاسپورٹ پرسیاحوں کے بھیس میں اردن میں داخل ہوئے۔
حماس کے دفتر کے باہر انہوں نے ڈیرا جمایا ہوا تھا۔ جونہی مشعل باہر نکل کر گاڑی کی طرف جا رہے تھے، کہ ان کے بائیں کان کی طرف کسی آلہ کا رخ کرکے انہوں نے ایک بٹن دبا دیا۔ جس کا مشعل نے خود نوٹس ہی نہیں کیا۔ مگر ان کے ایک باڈی گارڈ نے یہ حرکت دیکھی اور پیچھا کرکے ان دونوں ایجنٹوں کو پکڑا۔
شام کو ہی مشعل کی طبیعت بگڑنے لگی۔ اسپتال میں معلوم ہوا کہ ان کے بدن میں زہر سرایت کر گیا ہے۔ اردن کے شاہ حسین نے نیتن یاہو سے سفارتی تعلقات منقطع کرنے اور گرفتار موساد کے ایجنٹوں کی حوالگی کے بدلے زہر کے تریاق کا مطالبہ کیا۔ نیتن یاہو نے تو پہلے انکار کردیا۔ مگر جب شاہ حسین نے مشعل کی ممکنہ موت ہونے پر 1994 کے تاریخی امن معاہدہ کو منسوخ کرنے کی دھمکی دی، تو امریکی صدر بل کلنٹن کو کودنا پڑا اور موساد کے سربراہ، ڈینی یاٹوم کو خود تریاق لے کر اردن روانہ ہونا پڑا۔ مگر بتایا جاتا ہے کہ جب تک ڈینی یاٹوم اومان کے اسپتال پہنچ جاتا، تو اردنی ڈاکٹروں نے اس کا توڑ نکال دیا تھا۔
میں نے 2016 میں دوحہ میں خالد مشعل کا انٹرویو کیا تھا۔ چونکہ وزیر اعظم مودی اسرائیل اور پھر فلسطین جانے کے لیے پر تول رہے تھے، حماس کا دفتر مشعل کے موقف کو ہندوستانی میڈیا میں لانا چاہتا تھا۔ اس کے لیے پرنٹ میڈیا سے ڈی این اے اور الکٹرانک میڈیا میں این ڈی ٹی وی کا انتخاب کیا گیا تھا۔ مگر کئی ماہ ملتوی ہوتے ہوتے آخر جولائی میں پیغام ملا کہ دوحہ پہنچ جائیں۔
اگلے روز علی الصبح ہوٹل سے روانہ ہوکر دن بھر ہمیں کبھی ایک جگہ تو پھر دوسری جگہ گھمایا گیا۔ ایک جگہ پر کاپی پین، ٹیپ ریکارڈر، فون وغیر ہ بھی رکھوائے گئے۔ جب اسفتسار کیا تو بتایا گیا کہ’آپ کے اس انٹرویو کے بارے میں کافی افراد کو علم ہے، کیونکہ اس انٹرویو کے لیےآپ لوگوں نے اپنے دفاتر سے اجازت لی ہوگی۔ اس لیے کسی بھی چیز میں کوئی ایسا آلہ ہوسکتا ہے، جس سے اسرائیلی خفیہ ایجنسیاں مشعل کو ٹریس کرسکیں گی۔‘
سیاہ شیشوں والے گاڑی نے خاصا گھما کر آخر مغرب کی ساعت کے آس پاس ایسی جگہ پہنچا دیا، جہاں ہماری ملاقات خالد مشعل سے ہوئی اور ان کا انٹرویو لیا۔انٹرویو کے وقت انہوں نے ہی قلم، کاپی اور ریکارڈنگ مہیا کرادی۔
حماس کے ذرائع کے مطابق خالد مشعل جتنے محتاط تھے، اسماعیل ہنیہ اتنی احتیاط نہیں برتتے تھے۔ ان سے جب اصرار کیا جاتا تو ان کا جواب ہوتا تھا کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
اسماعیل ہنیہ کو کو فلسطینی مزاحمتی تنظیم کے سفارتی چہرے کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ جو لوگ مذاکرات سے واقف ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ ایک عملی نقطہ نظر رکھنے والے معتدل شخصیت کے حامل تھے، مگر عسکری بازو پر ان کا اثر و رسوخ دیگر معتدل لیڈروں کے برعکس زیا دہ تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہنیہ کا قتل، صرف ایک رہنما کا قتل نہیں بلکہ امن عمل کے لیے ایک اسٹریٹجک دھچکا ہے۔
امریکہ کی طرز پر اسرائیل کا ٹارگٹ کلنگ پروگرام اس کی کاؤنٹر انسرجنسی ڈاکٹرائن کی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس کی رو سے فوری نتیجہ حاصل کرنے کے لیے باغی رہنما کو ٹارگیٹ کرکے اس کے گروپ کو تہس نہس کیا جاسکتا ہے۔ مگر برطانوی کاؤنٹر انسرجنسی ڈاکٹرائن اس کے برعکس ہے۔ اس میں باغی گروپ کے لیڈر کے بجائے اس کے آس پاس کے معتمدین کو نشانہ بناکر، فنڈز اور اسلحے کی سپلائی پر قدغن لگا کر اس کو مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔یہ خاصا صبر آزما نسخہ ہے۔
مگر برطانیہ نے یہ داؤ شمالی آئرلینڈ سمیت مختلف بغاوتوں کو جڑ سے ختم کرنے میں استعمال کیا ہے۔ ایک دہائی قبل تک ہندوستان بھی اسی ڈاکٹرئن پر عمل پیرا تھا۔
اس ڈاکٹرئن کے حامیوں کا کہنا ہے کہ لیڈر کی ہلاکت کے بعد عسکری تنظیم کئی گروپوں میں بٹ جاتی ہے۔ پہلے تو ایک سے واسطہ تھا، اب کئی سے نپٹنا پڑتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ اس کے لیڈر کو مارنے کے بجائے رام کیا جائے۔
میزورم میں لال ڈنگا کو میز پر لانے کے لیے اسی طرح کی حکمت عملی اپنائی گئی تھی۔ یہ نسخہ دیگر شمال مشرقی ریاستوں میں اور 1970 کی دہائی میں شیخ محمد عبداللہ کو مذاکرات کی میز پر لا نے کے لیے استعمال کیا گیا۔
اسرائیل کی ٹارگٹ کلنگ کی تاریخ ایک ایسی کاؤنٹر انسرجنسی ڈاکٹرین کے نظریے کی عکاسی کرتی ہے جو قیادت کو ختم کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ لیکن یہ ڈاکٹرائن خطرات سے پر ہے۔
یہ طویل مدتی امن اور استحکام کو برقرار رکھنے میں کسی صورت میں مدد گار ثابت نہیں ہوتی ہے۔ کیونکہ آپ ایک تنظیم کو کمزور یا اس کا صفایا کرتے ہیں، مگر جن عوامل کی وجہ سے اس کا جنم ہوا ہوتا ہے، ان کی طرف توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ پائیدار امن کے لیے ضروری ہے کہ باہمی افہام و تفہیم کے ذریعے مسائل کے حل ڈھونڈا جائے نہ کہ ٹارگٹ کلنگ سے چند لمحوں کی واہ واہی لوٹی جائے۔