جہاں اسرائیلی علاقوں کے رکھ رکھاؤ اور تر قی کو دیکھ کر یورپ اور امریکہ بھی شرما جاتا ہے، وہیں چند فاصلہ پر ہی فلسطینی علاقوں کی کسمپرسی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ سیاحو ں کو دیکھ کر بھکاری لپک رہے ہیں، نو عمر فلسطینی بچے سگریٹ، لائٹر وغیرہ بیچنے کے لیے آوازیں لگا رہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں جہاں اس وقت امریکہ اور ایران کے مابین کشیدگی عروج پر ہے، وہیں فلسطین کے حوالے سے صدر ٹرمپ، یورپی یونین، ان کے عرب حلیف اور اسرائیل ایک فارمولہ کو حتمی شکل دینے میں مصروف ہیں، جس کو’ڈیل آف سنچری’کا نام دیا جا رہا ہے۔ چند ماہ قبل دہلی کے دورہ پر آئے ایک یہودی عالم ڈیوڈ روزن نے عندیہ دیا تھا کہ سابق امریکی صدر براک اوبامہ جس خاکہ کو تیار کرنے میں ناکام ہو گئے تھے، ٹرمپ، سعودی عرب و دیگر عرب ممالک کے تعاون سے فلسطین کے حتمی حل کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ایئر لینڈ کے چیف ربی ڈیوڈ روزن اسرائیل کی چیف ربائیٹ یعنی مذہبی امورکے رکن ہیں اور امریکی جیوش کونسل (اے جے سی) کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔یہ واشنگٹن میں طاقتور ترین لابی ہے، جس نے ہندوستان- امریکہ جوہری معاہدہ کو کانگریس و سینٹ سے منظوری دلوانے میں اہم رول ادا کیا تھا۔ مشرق وسطیٰ میں امن مساعی اور خصوصاً اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیا ن بیک چینل تعلقات کے حوالے سے وہ خاصے سرگرم ہیں۔
وہ سابق سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ کی ایما پر قائم کنگ عبدالعزیز انٹرنیشنل سینٹر فار انٹر ریلجنز اینڈ کلچر ڈائیلاگ کے بورڈ ممبر بھی ہیں۔ میں نے جب ان سے پوچھا کہ جہاں ایک طرف اسرائیل نے فلسطینیوں کا ناطقہ بند کر رکھا ہے، آئے دن ان پر حملے ہو رہے ہیں، آخر امن آئے گا تو کیسے؟تو انکا کہنا تھا کہ اسرائیل کی تمام تر جارحانہ کارروائیوں کے باوجود ایک حقیقت کا ادراک یہودیوں اور اسرائیلی حکام کو ہو گیا ہے کہ وہ ناقابل تسخیر نہیں ہیں۔ ویسے تو اس کا اندازہ 1973کی جنگ مصر اور بعد میں 2006میں جنگ لبنان کے موقع پر ہی ہوگیا تھا،مگر حالیہ کچھ عرصے سے یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جا رہی ہے۔اس لئے دنیا بھر کے یہودی چاہتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ تاریخ کا پہیہ کوئی اور رخ اختیار کرے، اسرائیل کی سرحدوں کا تعین کرکے، پڑوسی ممالک سے اس کا وجود تسلیم کرایا جائے۔ان کا کہنا تھا کہ توسیع پسندی اب کسی بھی صورت میں اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔ فوجی اعتبار سے اسرائیل چاہے تو سرحدوں کو وسیع کرنے کی قوت رکھتا ہے، مگر مقبوضہ علاقوں کی آبادی کو بھی پھر ملک میں شامل کرنا پڑے گا، جس سے ظاہر ہے کہ یہودیوں کے اقلیت میں تبدیل ہونے کا خدشہ لاحق ہوگا۔ دنیا بھر میں یہودی محض ایک کروڑ ہیں، جن میں 60لاکھ کے قریب اسرائیل میں رہتے ہیں۔ اس لئے فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیلیوں کے لیے بھی اپنی بقاء کے لیے سرحدوں کا تعین کرنا ضروری ہے۔ ٹرمپ کے لیے شاید اس لئے بھی ضروری ہے کہ شام کے بحران میں اگر کسی کو سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہوا ہے تو وہ روسی صدر ولادمیر پتن ہیں۔ اس سے قبل شاید ہی روس مشرق وسطیٰ میں اسٹیک ہولڈر تھا۔
جب میں نے ربی ڈیوڈ روزن سے پوچھا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو تو خود کئی بار د و ریاستی فارمولہ کو مسترد کر چکے ہیں، تو ان کا کہنا تھا کہ حکومتوں کے رویہ میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، مگر یک ریاستی حل کسی بھی طور پر اسرائیل کے مفاد میں نہیں ہے۔ ایک اسٹیٹ کا مطلب ہے کہ مستقبل میں عرب اسٹیٹ کا قیام اور یہودی اسٹییٹ کا خاتمہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیلی علاقوں میں مسلمانوں کی افزائش نسل یہودیو ں سے کئی گنا زیا دہ ہے۔ 1967میں عرب،اسرائیل کی آبادی کا 14فیصد تھے، جو اب لگ بھگ 22 فیصد ہو چکے ہیں۔یہ وہ مسلمان ہیں جنہوں نے اسرائیل کی شہریت تسلیم کی ہوئی ہے اور اسرائیلی۔عرب کہلاتے ہیں۔ اس حقیقت کے پیش نظر اسرائیل کسی بھی صورت میں 50لاکھ فلسطینی ریفوجیوں کو واپس لانے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ جن ممالک میں و ہ پناہ گزین ہیں، ان کو ہی ان کی مستقل رہائش کا بندوبست کرنا پڑے گا،کیونکہ مغربی کنارہ اور غازہ بھی شاید ان کو بسا نہیں پائے گا۔
ربی ڈیوڈ روزن کا مزید کہنا تھا کہ القاعدہ اور داعش جیسی تنظیمیں اسرائیل کی نسبت عرب ممالک کے لیے زیادہ خطرہ ہیں۔ اس لئے اسرائیل کے ساتھ معاہد ہ کرنا ان کے مفاد میں ہے۔ اس وقت خلیجی ممالک سعودی عرب، اردن، مصر وغیرہ سبھی مسئلہ فلسطین کا حل چاہتے ہیں، کیونکہ فلسطین کے نام پر ہی دہشت گر د تنظیمیں مسلم نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرتی ہیں اور تشدد کو جواز فراہم کراتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس مسئلہ کے حل کی صورت میں مسلمانوں اور یہودیوں کے مابین مکالمہ کے دروازے بھی کھل سکتے ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ یہودی، اسلام سے زیادہ عیسائیت سے خائف رہتے تھے اور مختلف ادوار میں عیسائیوں نے ان پر خوب ظلم ڈھائے ہیں۔’اس کے برعکس میں کہوں گاکہ مسلم حکومتوں کے ادوار میں یہودی پکنک تونہیں منا تے تھے، مگر بہترحالات میں تھے۔اگر اس قدر خونریز تاریخ کے ہوتے ہوئے بھی عیسائی اور یہودی ایک دوسرے کو معاف کرکے مفاہت کا راستہ اختیار کر سکتے ہیں، تو آخر اسلام اور یہودی کیوں نہیں۔’
مگر صدر ٹرمپ اور ان کے معاونین کی طرف سے فلسطینی مسئلہ کا جو فارمولہ فی الحال منظر عام پر آیا ہے، اس سے شاید ہی امن کی امید بندھ سکتی ہے۔ خدشہ ہے کہ یہ اس خطے کے لیے مزید پیچیدگیاں پیدا نہ کردے۔ اس کے اہم نکات ہیں کہ مغربی کنارہ و غازہ پر مشتمل علاقہ کو نئی فلسطینی اسٹیٹ قرار دینا ہے۔ فلسطینی مہاجرین کی اپنے گھروں کی واپسی کا معاملہ ہمشہ کے لیے بند ہو جائےگا۔یا تو ان کو اس نئے فلسطینی اسٹیٹ میں رہنا ہوگا یا جس ملک میں مقیم ہیں وہیں ضم ہونا پڑےگا۔ 1993میں اوسلو میں اسرائیلی اور فلسطینی قیادت کے درمیان طے پائے گئے سمجھوتہ میں ایک فلسطینی اتھارٹی کا قیام عمل میں آیا اور 4 ملین کی آبادی کو دو خطوں مشرق میں غازہ اور اردن کی سرحد سے متصل مغربی کنارہ میں تقسیم کیا گیا۔نسبتاً وسیع مغربی کنارہ کا انتظام الفتح کی قیادت والے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن یعنی پی ایل او کے پاس ہے، وہیں غاز ہ میں اسلامک گروپ حماس بر سر اقتدار ہے۔
جہاں پی ایل او اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے، حماس فلسطینی بستیوں میں بسائی گئی یہودی ریاست کے وجود سے انکاری ہے۔ چونکہ مغربی کنارہ اور غزہ کے درمیان کوئی زمینی رابطہ نہیں ہے، اس لئے ان کو منسلک کرنے کے لیے اسرائیلی علاقوں سے 30میٹراوپر ایک 100کلومیٹر طویل فلائی اوور بنایا جائےگا۔ جس کے لیے چین سے رابطہ کیا جا رہا ہے۔متوقع معاہدہ کی رو سے اسرائیل مرحلہ وار فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میں لائے گا اور اس میں تین سال کا وقفہ لگ سکتا ہے۔ القدس یا یروشلم شہر کو تقسیم نہیں کیا جائےگا، بلکہ اس کا کنٹرول اسرائیل کے پاس ہی رہےگا۔ شہر میں مکین عرب مسلمان اسرائیل کے بجائے فلسطین کے شہری ہوں گے۔ ان کی بہبود،تعلیم و صحت کے لیے نئی فلسطینی اسٹیٹ اسرائیلی بلدیہ کو رقوم فراہم کرے گی۔ ال اقصیٰ حرم پر جو ں کی توں پوزیشن برقرار رہےگی، یعنی یہ بدستور اردن کے اوقاف کے زیر نگرانی رہےگا۔ ویسے سعودی عرب اس کے کنٹرول کا متمنی تھا، تاکہ ریاض میں موجود فرمانراو سبھی تین حرمین یعنی مکہ، مدینہ و مسجد اقصیٰ کے متولی یا خادم قرار پائیں۔ اسرائیل مسجد اقصیٰ کے تہہ خانہ تک رسائی کا خواہشمند ہے۔ جس کے لیے اس نے مغربی سرے پر کھدائی بھی کی ہے، تاکہ وہاں تک پہنچنے کے لیے مسجدکی دیواروں کے نیچے سے ایک ٹنل بنا سکے۔ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ تہہ خانہ میں ہی معبد سلمان کے کھنڈرات موجود ہیں۔
اس کے علاوہ مصر، فلسطینی ریاست کے لیے ایئر پورٹ، کارخانہ لگانے اور زراعت کے لیے زمین فراہم کرےگا، مگر اس زمین پر فلسطین کے مالکانہ حقوق نہیں ہوں گے، نہ ہی وہ اس پر بس سکیں گے۔ امریکہ، پورپی یونین اور خلیجی ممالک اگلے پانچ سال تک فلسطینی ریاست کو انتظام و انصرام کے لیے300بلین ڈالر کی رقم فراہم کریں گے۔ اس میں 70فیصد خلیجی ممالک، 20فیصد امریکہ اور 10فیصد یورپی ممالک دیں گے۔ نئی فلسطینی حکومت فوج نہیں رکھ سکے گی،مگر ایک پولیس فورس تشکیل دے سکے گی۔ اس کی سرحدوں کی حفاظت اسرائیل کی ذمہ داریوں میں شامل ہوگی۔ ڈیل پر دستخط ہونے کے بعد حماس اپنے تمام ہتھیار مصر کو سونپ دے گا۔ ایک سال کے اندر انتخابات ہوں گے۔ غازہ کے راستے اسرائیل اورمصر کی سرحدیں نقل و حمل و تجارت کے لیے کھول دی جائینگی۔ اسی طرح اردن اور مغربی کنارہ کی سرحدکے تین چیک پوسٹ فلسطینی حکام کے حوالے کئے جائیں گے۔ اس پورے معاہدہ میں ترکی کے رول کا کوئی ذکر نہیں ہے، جس نے پچھلے سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں القدس یا یروشلم کو اسرائیلی دارلحکومت قرار دیئے جانے کے فیصلہ کے خلاف ووٹ دلوانے میں قائدانہ کردارکرکے امریکہ کے فیصلے کی سینہ تان کرمخالفت کی تھی۔چند برس قبل امریکی صدر براک اوبامہ کی شہ پر مسلم ممالک سعودی عرب، مصر اور ترکی نے مصالحت کا کردار ادا کرکے حماس کو قائل کرادیا تھاکہ وہ مغربی کنارہ کی محمود عباس کی قیادت والی فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان کسی بھی مجوزہ براہ راست بات چیت میں روڑے نہیں اٹکائے گا اور نہ ہی بات چیت میں شریک افراد کو غداری وغیرہ کے القابات سے نوازے گا۔ مگر اس سعی سے اگر ایکارڈ یا ایگریمنٹ کی صور ت میں کوئی نتیجہ برآمد ہوتا ہے تو طے ہوا تھا کہ اس پر فلسطینی علاقوں میں ریفرنڈم کرایا جائیگا اور عوامی قبولیت کی صورت میں سبھی فریقوں کو منظور ہوگا۔
دوسال قبل دوحہ میں راقم کو مقتدر فلسطینی لیڈر خالد مشعل سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ تو دو ریاستی فارمولے کو رد کرتے ہیں اور اسرائیل کے وجود سے ہی انکاری ہیں، تو مفاہمت کیسے ہو؟ انہوں نے کہا: ”حماس کا رویہ کسی بھی طرح امن مساعی میں رکاوٹ نہیں ہے۔ یاسر عرفات اور محمود عباس نے تو اسرائیل کو تسلیم کیا، مگر ان کے ساتھ کیا سلوک ہوا۔ تحریک میں شارٹ کٹ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے استقامت ضروری ہے۔ اپنے آپ کو مضبوط بنانا اور زیادہ سے زیادہ حلیف بنانا بھی تحریک کی کامیابی کے لئے ضروری ہے۔ تاریخ کا پہیہ سست ہی سہی مگر گھومتا رہتا ہے“۔ مگر اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ حماس 2006ء کے نیشنل فلسطین اکارڈ پر کار بند ہے، جس کی رو سے وہ دیگر گروپوں کے ذریعے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے گی۔ مگر مجھے یہ بھی یقین ہے کہ ان مذاکرات کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ کمزور اور طاقت ور کے درمیان کوئی ایگریمنٹ ہو ہی نہیں سکتا۔ سیاسی لحاظ سے ہمیں طاقت ور بننے کی ضرورت ہے۔
چند برس قبل ان علاقوں کا دورہ کرکے میں نے محسوس کیا کہ عرب ممالک اور امریکی امداد کے بدولت غازہ کے مقابلے مغربی کنارہ میں خاصی خوشحالی اور ترقی نظر آتی ہے۔ جریکو قصبہ میں ایک عالیشان کیسینو کے علاوہ مختلف شہروں رملہ، حبران (الخلیل)، بیت اللعم میں نئے تھیٹرکھل گئے ہیں، جہاں تازہ ترین ہالی ووڈ کی فلمیں دیکھنے کیلئے بھیڑ لگی ہوئی ہوتی ہے۔ جریکو کے کیسینو میں اسرائیلی علاقوں سے جوئے کے شوقین یہودی بھی داؤ لگانے کیلئے ہر رات پہنچ جاتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ کی جائے پیدائش بیت اللعم کے چرچ آف نیٹیوٹی یا کنیستہ المھد اور یروشلم کے درمیان مشکل سے 10کلومیٹر کا فاصلہ ہے، مگر وہاں کے مکینوں کیلئے یہ صدیوں پر محیط ہے۔ وہ اسرائیلوں کی اجازت کے بغیر یروشلم نہیں جاسکتے ہیں۔ وہ صرف دور سے اس شہر کو دیکھ سکتے ہیں۔اقوام متحدہ کے زیر انتظام ایک اسکول کے استاد نے بتایا کہ 14سال قبل وہ ایک بار یروشلم گئے تھے اور مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کی تھی۔ اسرائیلی حکومت نے فلسطینی علاقوں کو محصور کرکے ایک مضبوط دیوار کھڑی کی ہے۔ یروشلم سے بحر میت جانے کیلئے یہودیوں اور فلسطینیوں کیلئے دو الگ راستہ بنائے گئے ہیں اوران کے بیچ میں اونچی دیوار ہے۔ یہ نسل پرستی کا ایک بد ترین مظاہرہ ہے۔ اردن اور فلسطین کے درمیان بحر میت میں نمک کی مقدار 30 فیصد سے زیادہ ہے، اس لئے اس میں کوئی ذی روح زندہ نہیں رہ سکتا۔یہ وہی سمندر ہے جس میں حضرت لوط ؑ کی قوم تباہ و برباد ہوگئی۔ یہ علاقہ سطح سمندر سے400 میٹر نیچے ہے۔ چونکہ اس سمندر میں کوئی ڈوب نہیں سکتا، یہاں سیاح آرام سے پانی کی سطح پر لیٹ کر اخبار وغیرہ کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اسرائیل کی ایک کثیر ملکی کمپنی اس سمندر سے کان کنی کرکے دنیا بھر میں جلدکی خوبصورتی اور علاج کے لئے Dead Sea Products سپلائی کرتی ہے۔ اس بحر کی تہہ کو جلدی امراض کے علاج کے لئے استعمال کرنے کا سہرا کراچی سے ہجرت کرنے والے پاکستانی یہودی سائنس دان زیوا گلاڈ کے سر ہے۔
جہاں اسرائیلی علاقوں کے رکھ رکھاؤ اور تر قی دیکھ کر یورپ اور امریکہ بھی شرما جاتا ہے، وہیں چند فاصلہ پر ہی فلسطینی علاقوں کی کسمپرسی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ سیاحو ں کو دیکھ کر بھکاری لپک رہے ہیں، نو عمر فلسطینی بچے سگریٹ، لائیٹر وغیرہ کچھ ایسی چیزیں بیچنے کیلئے آوازیں لگا رہے ہیں۔ ایک جم غفیر نے پانی کے ایک ٹینکر کے آس پاس محشر برپا کیا ہوا تھا۔ پھول جیسے بچے کتابوں کے بستوں کے بجائے کین لئے پانی کے حصول کیلئے دھینگا مشتی کر رہے تھے۔ شہر کے گورنر صالح التماری سے جب استفسار کیا، تو ان کا کہنا تھا، کہ پانی کے سبھی ذرائع پر اسرائیل کا قبضہ ہے اور وہ صرف ایک مقدار تک فلسطینی علاقوں میں پانی فراہم کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ہفتوں تک ٹینکر نہیں آتا ہے۔ ان کے مطابق اسرائیل نے کربلا جیسی کیفیت برپا کی ہوئی ہے۔ گورنر سے ملاقات کے بعد جب وفد کے دیگر اراکین مارکیٹ میں شاپنگ کر رہے تھے، میں چند فلسطینی نوجوانوں سے گفتگو کر رہا تھا۔ ان میں سے ایک نوجوان گورنر کے ساتھ ہماری بریفنگ میں بھی موجود تھا۔ اس نے کہا، کہ کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ پانی آخر کہاں جاتا ہے اور عوام تک کیوں نہیں پہنچتا ہے؟ جب میں نے ہاں کہا، تو اس نے مجھے اپنے موٹر سائیکل پر بیٹھنے کیلئے کہا۔ چند لمحوں کے تذبذب کے بعد میں اللہ کا نام لیکر سوار ہوگیا۔بعد میں اس جرأت کا خمیازہ مجھے واپسی پر تل ابیب ایر پورٹ پر بھگتنا پڑا۔ جب وہاں سیکورٹی اہلکار نے یہ کہہ کر مجھے چونکا دیا، کہ میں اپنے ساتھیوں کو چھوڑ کر ایک فلسطینی کے موٹر سائیکل پر کہاں گیا تھا؟ خیر چند گلیوں سے گزرنے کے بعد ہم ایک پوش علاقہ میں وارد ہوگئے۔ اس نوجوان نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کے عہدیداران اسی علاقہ میں رہتے ہیں۔ ایک عالیشان مکان کے گیٹ کے باہر موٹر سائیکل روک کر اس نے گھنٹی کا بٹن دیااور عربی میں آواز بھی لگائی۔ خیر کسی نے دورازہ کھول کر علیک و سلیک کے بعد اندر جانے دیا۔ مکان کے مالک شاید موجود نہیں تھے۔ جس نے بھی دروازہ کھولا تھا، وہ ملازم ہی لگ رہا تھا۔ مکان کے ارد گرد وسیع باغیچہ اور ایک وسیع سیویمنگ پول بنا تھا۔ ایک اور مکان کا بھی یہی حال تھا۔ معلوم ہوا کہ مکین یا تو رملہ میں یا بیرون ملک دورہ پر گئے ہیں۔کربلا جیسے حالات میں جہاں عام فلسطینی العطش کی صدائیں بلند کر رہا تھا، لیڈروں کے ذریعے پانی کا یہ زیاں تکلیف دہ امر تھا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں اوران کا کالم بدھ کے روز شائع ہوتا ہے۔ پرانے کالمس پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں۔)