سفارت کاری کی گتھیاں: دوحہ میں تاریخی معاہدے کی اندرونی کہانی

ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ جنگ بندی کا برقرار رہنا غیر یقینی ہے، کیونکہ عدم اعتماد اور غیر حل شدہ مسائل کسی بھی وقت کشیدگی کو دوبارہ ہوا دے سکتے ہیں۔

ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ جنگ بندی کا برقرار رہنا غیر یقینی ہے، کیونکہ عدم اعتماد اور غیر حل شدہ مسائل کسی بھی وقت کشیدگی کو دوبارہ ہوا دے سکتے ہیں۔

غزہ میں اسرائیل کے حملے کے بعد کی صورتحال۔ (تصویر بہ شکریہ: ٹوئٹر/یو این آر ڈبلیو اے/اشرف امرا)

غزہ میں اسرائیل کے حملے کے بعد کی صورتحال۔ (تصویر بہ شکریہ: ٹوئٹر/یو این آر ڈبلیو اے/اشرف امرا)

یہ چار دن کے تھکا دینے والے مذاکرات تھے، جہاں وقت کی قید ختم ہو چکی تھی—رات اور دن کا کوئی فرق باقی نہیں رہا تھا۔ قطر کے دارالحکومت دوحہ کے نواح میں واقع دو منزلہ عمارت تناؤ اور بے یقینی کا مرکز بن چکی تھی۔

گراؤنڈ فلور پر، ایک میز کے گرد چند چہرے جھکے ہوئے تھے۔ قطر کے وزیر اعظم محمد بن عبدالرحمان الثانی، مصر کی خفیہ ایجنسی کے سربراہ عباس کمال، اور امریکی ایلچی بریٹ مکگرک کی موجودگی، ماحول کی سنجیدگی کو ظاہر کر رہی تھی۔

ان کے ساتھ صدر ٹرمپ کے نمائندے، اسٹیو ویٹکوف، کاغذات اور نقشوں کے پلندے میں الجھے ہوئے تھے۔ ہر چہرے پر تھکن کے آثار نمایاں تھے، لیکن ان کے عزم میں کوئی کمی نہیں تھی۔

دوسری منزل پر اسرائیلی خفیہ ادارے موساد کے سربراہ ڈیوڈ برنیا، داخلی ایجنسی کے افسر رونین بار اور فوج کے نمائندے نزتان الون تل ابیب سے مسلسل رابطے میں تھے۔ یہ رابطے ایک محفوظ مواصلاتی نظام کے ذریعے جاری تھے، گویا ہر لمحہ کسی بڑے فیصلے کی بنیاد رکھ رہا ہو۔

لیکن کہانی کی اصل گتھی تیسری منزل پر تھی، جہاں حماس کے سیاسی بیورو کے نائب سربراہ خلیل الحیہ اپنے وفد کے ساتھ موجود تھے۔ ان کواختیار تھا —امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ سال مئی میں جس سیز فائر پلان کی بنیاد رکھی تھی، اور جس پر بعد میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے مہر ثبت کی تھی، اس پر رضامندی ظاہر کریں اور اس کے آس پاس ڈیل فائنل ہو۔  لیکن اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کی جانب سے بار بار گول پوسٹ بدلنے کے سبب اس پر عمل نہ ہو سکا۔

مذاکرات کی بھٹی میں ہر لمحہ تپش بڑھ رہی تھی۔ گراؤنڈ فلور پر سفارت کار ایک تجویز تیار کرتے، پھر امریکی وفد اسے پہلی منزل پر اسرائیلی وفد کے سامنے پیش کرتا۔ ادھر قطر اور مصر کے نمائندے اس تجویز کو لے کر حماس کے پاس پہنچتے، جہاں تیسری منزل کی فضا بظاہر پرسکون تھی۔

اسرائیلی وفد تل ابیب سے مشورے لیتے ہوئے قدم قدم پر نئی شرائط سامنے رکھ رہا تھا، جس سے مذاکرات کا سلسلہ بار بار رک جاتا۔

مذاکرات میں شریک ایک اہلکار نے راقم کو بتایا کہ ہر قدم پر ایسا محسوس ہوتا جیسے کامیابی کی منزل قریب ہے، لیکن اگلے ہی لمحے جب امریکی وفد اسرائیلی نمائندوں سے مل کر واپس گراؤنڈ فلور پر وارد ہوتا تھا توان کے تناؤ بھرے چہرے بتاتے تھے کہ وہ کوئی نئی پیچیدگی لے کر ہی آئے ہیں۔

انہوں نے اعتراف کیا کہ ان چار دنوں میں مذاکرات کاروں نے سینکڑوں بار سیڑھیاں چڑھی اور اتریں۔ ایک لمحے کو لگتا کہ معاہدہ طے ہونے کو ہے، اور پھر ایسا محسوس ہوتا کہ یہ کوشش ایک سراب کے سوا کچھ نہیں۔

منگل اور بدھ کی راتیں طویل اور بے چین تھیں۔ انگریزی کی ڈکشنریوں کے صفحات الٹے جا رہے تھے، ہر لفظ کی باریکی پر بحث ہو رہی تھی، لیکن کوئی بھی یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ معاہدہ طے پا جائے گا۔

ویٹکوف براہ راست صدر ٹرمپ، جنہوں نے ابھی عہدہ سنبھالا نہیں تھا، سے مسلسل رابطہ میں تھے۔ ابھی مذاکرات کے دور جاری ہی تھے کہ خبر آئی کہ ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پر معاہدے کا اعلان کر دیاہے۔ پوری دنیا کے میڈیا میں سمجھوتہ کی خبریں نشر ہونا شروع ہوگئیں۔ مذاکرات کاروں کے مطابق تب تک وہ ابھی بھی پیش رفت سے دور تھے۔ مگر ٹرمپ کے اس اعلان نے اسرائیلی وفد کو پیغام بھیجا کہ اب مزید لیت و لعل سےکام نہیں چلے گا۔

گو کہ ٹرمپ کے اس قبل از وقت اعلان نے پیچیدگیاں پیدا کر دی تھیں، مگر اس نے اسرائیلی وفد پر دباؤ ڈالنے کا کام کیا۔ امریکی وفد نے اسرائیلی نمائندوں سے کہا کہ اب سمجھوتہ کو آخری شکل دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ ان کو یہ بھی بتا یا کہ  وقت تیزی سے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔

اعصاب شکن مذاکرات 96 گھنٹوں سے مسلسل جاری تھے۔ بالآخر اسرائیلی وفد کو تل ابیب سے ہری جھنڈی مل گئی اور اس کے دو گھنٹہ کے بعد قطری وزیر اعظم نے دوحہ میں پریس کانفرنس میں سیز فائر کی ڈیل کے مندرجات کا اعلان کردیا۔ اس کے چند لمحوں کے بعد واشنگٹن میں بائیڈن نے بھی اس کا اعلان کیا۔ مگر ابھی اس معاہدہ کو اسرائیلی کابینہ کی منظوری نہیں ملی تھی۔ جس کا اجلاس اب اگلے دن یعنی جمعرات کا طے تھا۔

مگر نیتن یاہو ایک بار پھر پلٹی کھانے کےلیے پر تول رہے تھے۔ امریکی نمائندہ کو ایک بار پھر سخت الفاظ میں ان کو انتباہ کرنا پڑا، جس کے بعد یعنی معاہدہ کے اعلان کے چوبیس گھنٹہ کے بعد اسرائیلی وفد اور حماس کے نمائندوں نے اس پر دستخط کرکے سیز فائر ڈیل کو حتمی اور قانونی شکل عطا کی۔

یہ معاہدہ یرغمالیوں اور قیدیوں کی رہائی، جنگ بندی، اور انسانی امداد کی فراہمی جیسے نکات پر مشتمل ہے۔ ہر قدم پر اختلافات کے باوجود، دوحہ میں اس رات جو طے پایا، وہ نہ صرف سفارت کاری کی ایک کامیاب کہانی تھی بلکہ خطے میں امن کی ایک نئی امید بھی اور اسرائیل کے غرور کے بت کو پاش پاش کرنے کی شروعات بھی تھی۔

ٹرمپ کے نمائندے نے اس سے قبل سنیچر کو اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو تل ابیب میں  واضح اور سخت پیغام پہنچایا تھا۔ سنیچر یا سبت کے دن اسرائیلی وزیر اعظم کسی مہمان سے ملنے سے گریز کرتے ہیں۔ مگر ویٹکوف نے ان سے مل کران کو ٹرمپ کی طرف سے پیغام پہنچایا کہ اگر وہ سیز فائر کےمذاکرات میں اڑچن ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں، تو اس کا ان کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا اور خیال رہے کہ اگلے چار سال وہائٹ ہاوس میں ان کو ٹرمپ سے ڈیل کرنا ہے۔

یہ بھی باور کیاگیا کہ اسرائیلی کی سیکورٹی کی صورت حال تاریخی لحاظ سے سب سے زیادہ مضبوط ہے۔ ایران کا مزاحمتی اتحاد دم توڑ چکا ہے۔ شام اور لبنا ن کی طرف سے کسی مداخلت کا خطرہ نہیں ہے۔ لہذا سرحدی عدم تحفظ کو جواز بناکر سیز فائر میں دیری نہیں کی جاسکتی ہے۔

مذاکراتی عمل کے قریبی ذرائع کے مطابق، اس دباؤ نے مذاکرات میں نئی رفتار پیدا کی۔ تاہم، ایک اور رکاوٹ اس وقت سامنے آئی جب حماس نے یرغمالیوں کی فہرست مکمل طور پر فراہم کرنے سے معذوری ظاہر کی۔ حماس کا کہنا تھا کہ اسرائیل کی مسلسل بمباری کی وجہ سے وہ گراؤنڈ پر اپنے عسکریوں سے رابطہ کرنے میں دشواری محسوس کر رہی ہے۔

اس کے علاوہ ان کو خدشہ تھا کہ یرغمالیوں کی شناخت و دیگر کوائف ظاہر کرنے سے اسرائیل ان کی موجودگی کا پتہ لگا کر ان کو سیز فائر سے قبل بازیاب کرنے کا آپریشن کرسکتا ہے یا پھر ان کو قتل بھی کرسکتا ہے۔ اسرائیلی فوج کی ہنی بال ڈاکٹرئین کے مطانق ان کو اپنے شہریوں کو قتل کرنے کا حق حاْصل ہے، اگر وہ اغوا ہو رہے ہوں یا دشمن کے قبضہ میں ہوں۔ حماس کی طرف سے ایک ہفتہ کی مہلت کو اسرائیل نے مسترد کردیا۔

اس موقع پر امریکی ثالث میز سے اٹھ گئے اور مصر و قطر کو پیغام دیا کہ حماس کو فہرست دینے پر آمادہ کریں۔

اسرائیلی حکام کا اندازہ تھا کہ ایک تہائی یرغمالی ہلاک ہو چکے ہیں۔

معاہدے کے تحت ابتدائی 42 دنوں میں 33 اسرائیلی یرغمالیوں کو سات مراحل میں رہا کیا جائے گا، جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل ہیں۔ بدلے میں، اسرائیل 2,000 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرے گا، جن میں خواتین، بچے اور انسانی بنیادوں پر قیدی شامل ہوں گے۔ اکتوبر 7 کے حملوں میں ملوث قیدی اس معاہدے سے مستثنیٰ ہوں گے۔

رفح بارڈر کراسنگ دوبارہ کھول دی جائے گی تاکہ اہم انسانی امداد فراہم کی جا سکے۔ امدادی سامان میں خوراک، دوائیں، اور بنیادی ضروریات شامل ہیں، جو جنگ زدہ علاقے میں قلت کو ختم کریں گی۔ زخمی فلسطینی شہریوں کو مصر کے اسپتالوں میں منتقل کرنے کا انتظام بھی کیا جائے گا۔ بے گھر مہاجرین کی واپسی کے لیے ابتدائی طور پر پیدل راستہ فراہم کیا جائے گا، جس کے بعد گاڑیوں کے ذریعے واپسی کی اجازت دی جائے گی۔

معاہدے کی ایک اہم شرط کے تحت، اسرائیلی دفاعی فورسز (آئی ڈی ایف) بتدریج اہم علاقوں سے انخلا کرے گی، جن میں نتزریم اور فلادلفی راہداری شامل ہیں۔ پہلے 50 دنوں کے دوران ان علاقوں سے آئی ڈی ایف کی مکمل واپسی متوقع ہے، جبکہ مصر رفح کراسنگ کی حفاظت کی ذمہ داری سنبھالے گا۔

پانچ مخصوص زونز میں آئی ڈی ایف کی موجودگی 400 میٹر تک محدود ہوگی، جبکہ فلادلفی راہداری سے انخلا مکمل طور پر کر لیا جائے گا۔ اسرائیلی حکومت کے اندرونی اختلافات کے باوجود، معاہدہ نافذ کرنے کے لیے مختلف اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔

دالیا شینڈلن نے اسرائیلی اخبار ‘ہاآرٹز’ میں لکھا ہے کہ بہت سے اسرائیلی فوجیوں کے لیے یہ جنگ بندی ایک بڑی راحت کا باعث بنی ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کے واقعات کے بعد اسرائیلی ریزرو فوجی اپنی بقا کی جنگ سمجھ کر بڑی ہمت اور جوش کے ساتھ میدان میں اترے۔ متعدد فوجیوں نے حکم نامہ ملنے سے پہلے ہی اپنی خدمات پیش کر دیں، جس کے نتیجے میں حاضری کی شرح 100 فیصد سے بھی بڑھ گئی۔

جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک ایک تہائی ریزرو فوجی 150 دن سے زیادہ ڈیوٹی کر چکے ہیں۔ تاہم، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوبارہ ڈیوٹی کے احکامات پر عمل کرنا ان کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے، خاص طور پر وہ فوجی جو کئی بار طویل مدت تک خدمات انجام دے چکے ہیں۔ ان میں سے کئی کے لیے یہ وقت سینکڑوں دنوں پر محیط ہے۔ ایک لیفٹیننٹ کرنل نے بتایا کہ کئی فوجیوں کی شریک حیات مزید کسی طویل ڈیوٹی کے دباؤ کو برداشت کرنے کے قابل نہیں۔

آئی ڈی ایف کے مطابق، جنگ کے دوران بلائے گئے 295000 ریزرو فوجیوں میں سے 118000 والدین ہیں، جن میں سے 115000 والد ہیں۔ مائیکل ملشٹائن، جو تل ابیب یونیورسٹی کے دیان سینٹر کے فلسطینی اسٹڈیز فورم کے سربراہ ہیں اور آئی ڈی ایف انٹلی جنس کے سابق اہلکار ہیں، کا کہنا ہے کہ کئی ریزرو فوجی اب گھر واپس آنے کے خواہشمند ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘خاندان اسرائیل کی شناخت کا ایک اہم حصہ ہیں۔’

جنگ کے آغاز سے اب تک 75000 کاروبار بند ہو چکے ہیں، جن میں سے 59000 صرف 2024 کے دوران بند ہوئے۔ یہ تعداد کووڈ-19 وبا کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ ڈاکٹر شیری ڈینیئلز، جو کہ ایک غیر سرکاری تنظیم کی قومی ڈائریکٹر ہیں، نے کہا کہ ان کی تنظیم کو 40000 سے زیادہ مدد کی درخواستیں موصول ہوئیں، جو گزشتہ برسوں کے مقابلے میں 100 فیصد اضافہ ظاہر کرتی ہیں۔ دوسری تنظیموں، جیسے ناتال، نے خودکشی کے رجحانات رکھنے والے افراد کی طرف سے رابطوں میں 145 فیصد اضافہ رپورٹ کیا۔ آئی ڈی ایف کے مطابق، 2024 میں 21 فوجیوں نے اپنی جان لے لی، جو ایک دہائی کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔

ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ جنگ بندی کا برقرار رہنا غیر یقینی ہے، کیونکہ عدم اعتماد اور غیر حل شدہ مسائل کسی بھی وقت کشیدگی کو دوبارہ ہوا دے سکتے ہیں۔ ان حالات میں، کچھ تجزیہ کار چھوٹی کامیابیوں کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ یعقوب کاتز لکھتے ہیں،’کبھی کبھی ہمارے لوگوں کی واپسی ہی کافی ہوتی ہے۔’یہ بیان ایک قوم کی تلخ حقیقت کی عکاسی کرتا ہے، جو امن کی خواہش کے باوجود مستقبل کی جنگوں کے لیے تیار رہتی ہے۔

غزہ میں انسانی بحران بدستور ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق، غزہ کے صحت کے نظام کی بحالی کے لیے اگلے پانچ سے سات سالوں میں کم از کم 10 ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی۔ غزہ کے نصف سے کم ہسپتال اس وقت کام کر رہے ہیں، جس کے باعث جنگ بندی کی کامیابی فوری اور پائیدار انسانی امداد پر منحصر ہے۔

بہت سے اسرائیلیوں کے لیے جنگ بندی تنازعے کے طویل اور بے رحم دورانیے کے بعد سکون کا ایک مختصر لمحہ ہے۔ یرغمالیوں کی واپسی نے خاندانوں کے لیے سکون اور عارضی ریلیف کا احساس پیدا کیا ہے۔ تاہم، اسرائیل کو  حماس کو ختم کرنے کے مقصد سے جنگ شروع کی تھی و ہ ہدف حاْصل نہیں ہوا۔

امریکہ کے سابق وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کے مطابق جتنے عسکری حماس کے اسرائیل نے ہلاک کیے، اتنے ہی وہ دوبارہ بھرتی کرنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ دیکھنا ہے کہ کیا دنیا اب سنجیدگی کے ساتھ مسئلہ فلسطین کوفلسطینی عوام کی خواہشات اور خطے کے اطمینان کے مطابق حل کرنے کی طرف گامزن ہوگی؟ تاکہ ایک پائیدار امن قائم ہوسکے گا۔