ہندوستان بھول گیا ایران کا احسان؟

11:43 AM Jun 17, 2025 | افتخار گیلانی

سفارتی احسان فراموشی کی اس سے بدتر مثال کیا ہوسکتی ہے، جب ایران نے نازک وقت میں ہندوستان کو عالمی رسوائی سے بچایا اور بدلے میں نئی دہلی نے اس کو بے یار و مدد گار چھوڑ کر مغربی طاقتوں اور اسرائیل کا دامن پکڑا۔

علامتی تصویر، فوٹو: وکی پیڈیا

حال ہی میں ہندوستان نے ایک بار پھر شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) میں ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی مذمت پر مبنی قرارداد سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ اس سے قبل بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے ) میں بھی ہندوستان نے ایران کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

یہ پالیسی دہلی کے واشنگٹن اور تل ابیب کے ساتھ گہرے ہوتے اسٹریٹجک تعلقات کی عکاس ضرور ہے، لیکن دہلی شاید وہ سفارتی باب فراموش کر چکی ہے، جس میں ایران نے خاموشی سے ہندوستان کو اقوامِ متحدہ کی سخت پابندیوں اور عالمی ذلت سے بچایا تھا۔ اور جب ایران خود عالمی دباؤ اور تنہائی کا شکار ہوا، تو دہلی نے یا تو خاموشی اختیار کی یا اکثر مغربی طاقتوں کے شانہ بشانہ کھڑا دکھائی دیا۔

سال 1994:ایک خفیہ سفارتی محاذ

مارچ 1994 میں اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن (جسے اب انسانی حقوق کونسل کہا جاتا ہے) میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) ایک قرارداد پیش کرنے جا رہی تھی، جس میں کشمیر میں مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہندوستان کی مذمت کی جانی تھی۔ اس قرارداد کی منظوری کی صورت میں، اسے سلامتی کونسل میں لے جانے کا منصوبہ تھا، جہاں امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک ہندوستان پر اقتصادی پابندیاں لگانے کے لیے منتظر تھے۔

برخلاف مسئلہ فلسطین، مغربی ممالک کشمیر پر نسبتاً نرم رویہ رکھتے تھے، کیونکہ ہندوستان اب تک سویت یونین کی سوشلسٹ لابی کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب سوویت یونین بکھر چکا تھا، اور اس کا جانشین روس مغرب سے معاشی امداد کی آس میں تھا۔ ایسے میں ہندوستان کے لیے سلامتی کونسل میں کسی قرارداد کو ویٹو کروانا تقریباً ناممکن ہو چکا تھا۔

جنیوا میں قرارداد پر غور و خوض جاری تھا، اور دہلی میں وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ کو اس کے ممکنہ نتائج کا بخوبی ادراک تھا۔ انہوں نے ایک خفیہ، مگر فیصلہ کن سفارتی چال چلنے کا فیصلہ کیا۔

اسپتال سے تہران تک — دنیش سنگھ کا مشن

ان دنوں ہندوستانی وزیرِ خارجہ دنیش سنگھ شدید علیل تھے اور دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) میں انتہائی نگہداشت میں زیرِ علاج تھے۔ جنیوا اجلاس سے چند روز قبل، رات کے وقت وزیراعظم راؤ اسپتال پہنچے۔ بظاہر وہ وزیرِ خارجہ کی خیریت دریافت کرنے آئے تھے، مگر اصل میں ایک خفیہ مشن کا آغاز ہو رہا تھا۔

اگلے ہی روز دنیش سنگھ ایک ہندوستانی فضائیہ کے طیارے میں سوار ہو کر تہران روانہ ہوئے۔ ان کے ہمراہ ایک ڈاکٹر اور تین معاونین تھے۔ ان کے پاس وزیراعظم راؤ کا ایرانی صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کے لیے ایک ذاتی اور خفیہ خط تھا۔

اسی دوران اعلان کیا گیا کہ جنیوا میں ہندوستانی وفد کی قیادت اپوزیشن لیڈر اٹل بہاری واجپائی کریں گے، جن کے ساتھ وزیرِ مملکت برائے خارجہ سلمان خورشید اور سابق وزیراعلیٰ جموں و کشمیر ڈاکٹر فاروق عبداللہ بھی ہوں گے۔ یہ اعلان اصل مشن سے توجہ ہٹانے کی چال تھی۔

مارچ کی ایک سرد صبح، جب ہندوستانی طیارہ تہران ایئرپورٹ پر اترا، تو دنیش سنگھ وہیل چیئر پر تھے۔ ایرانی وزیرِ خارجہ ڈاکٹر علی اکبر ولایتی پروٹوکول توڑ کر ان کا استقبال کرنے خود ایئرپورٹ پہنچے۔ انہوں نے حیرانی سے پوچھا؛

‘ایسی کیا افتاد آ گئی ہے کہ آپ اس حال میں تہران آئے ہیں؟’

سنگھ نے مسکرا کر وزیراعظم کا خط ان کے حوالے کر دیا۔

اسی روز دنیش سنگھ نے ایرانی صدر، وزیرِ خارجہ اور اسپیکر ناطق نوری سے ملاقاتیں کیں، اور کشمیر پر ہندوستانی موقف پیش کیا۔ صدر رفسنجانی نے نہ صرف ان کی بات غور سے سنی، بلکہ وزیراعظم راؤ کے لیے یہ پیغام بھی دیا کہ ایران ہندوستان کو ہر ممکن سفارتی تحفظ فراہم کرے گا۔

جنیوا میں ایران کا یوٹرن

تین دن بعد جنیوا میں جب پاکستانی وفد نے قرارداد کو آگے بڑھانے کی کوشش کی، تو ایران کے نمائندے نے — تہران کی براہِ راست ہدایت پر — اس کی حمایت سے انکار کر دیا۔ ایران نے موقف اختیار کیا کہ وہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کا دوست ہے، اور یہ مسئلہ نوآبادیاتی طاقتوں کی مداخلت کے بغیر حل ہونا چاہیے۔

یوں یہ قرارداد وہیں دم توڑ گئی، اور اقوامِ متحدہ میں کشمیر پر پاکستان کی سب سے سنجیدہ سفارتی کوشش ناکام ہو گئی۔

تہران مشن سے ایک ہفتہ قبل نئی دہلی میں ایرانی سفیر علی شیخ رضا عطار نے کشمیری حریت رہنماؤں سید علی گیلانی اور عبدالغنی لون کے اعزاز میں عشائیہ دیا تھا۔ دو دن بعد وہ دوبارہ گیلانی صاحب سے ملاقات کے لیے آئے اور یقین دہانی کروائی کہ کشمیر ایرانی خارجہ پالیسی کا مستقل جز ہے۔

مگر جیسے ہی جنیوا میں ایرانی موقف بدلا، دہلی میں پاکستانی سفیر ریاض کھوکھر اور حریت رہنما گم سم رہ گئے۔ سفیر عطار بھی حیرت زدہ تھے، لیکن اتنا ضرور کہہ رہے تھے؛

‘ہندوستان نے ایک بڑی پیشکش کی ہے، جسے رد کرنا ایران کے لیے ممکن نہیں۔’

اسی کے بعد ایران-پاکستان-ہندوستان گیس پائپ لائن کا منصوبہ سامنے آیا، جسے ‘امن کی پائپ لائن’ کہا گیا۔ چند ماہ بعد وزیراعظم راؤ نے برکینا فاسو میں غیر وابستہ تحریک(این اے ایم) کی سربراہی کانفرنس میں کہا کہ کشمیر پر ‘آزادی سے کم کسی آپشن پر بات ہو سکتی ہے’۔ ان کا جملہ؛

“Sky is the limit for Kashmir”

خاصا مشہور ہوا — مگر جیسے ہی عالمی دباؤ ختم ہوا، نہ پائپ لائن رہی، نہ کشمیری آپشن۔

وہ احسان جو یاد نہ رکھا گیا

جنیوا میں ایرانی موقف کی تبدیلی کا کریڈٹ واجپائی اور فاروق عبداللہ لیتے رہے، جبکہ اصل کارنامہ دنیش سنگھ کا تھا، جو تہران مشن کے بعد کچھ ہی عرصے میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کا یہ سفارتی مشن دہلی کے سفارتی حلقوں میں کئی دہائیوں بعد بھی ایک ‘ٹاپ سیکرٹ آپریشن’ کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے ایران کی اس احسان مندی کا ہندوستان نے کبھی باضابطہ اعتراف نہیں کیا۔ جب ایران پر جوہری پروگرام کے باعث مغربی پابندیاں لگیں، یا جب امریکہ نے اس کی تیل برآمدات پر دباؤ ڈالا، تو ہندوستان  نے نہ صرف ایرانی تیل کی درآمدات کم کر دیں، بلکہ تل ابیب اور واشنگٹن سے تعلقات مزید گہرے کیے۔

وہ برف پوش تہران، جس نے ہندوستان کو عالمی رسوائی سے بچایا، آج سفارتی تاریخ کے اوراق میں کہیں گم ہو چکا ہے — مگر تہران شاید آج بھی وہ لمحہ یاد رکھے۔

اس خطے میں، جہاں یادداشت، وعدے اور احسان کی اپنی سیاست ہے، ایران کا یہ ‘احسانِ خاموش’ جنوبی ایشیا کے ان کہے سفارتی قصوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا — اور ہندوستان کی طرف سے ملی بےحسی بھی۔