بنگال ایس آئی آر 2025: پانچ اہم نکات جو بی جے پی کے دراندازی کے دعوے پر سوال اٹھاتے ہیں

04:01 PM Dec 17, 2025 | اپرنا بھٹاچاریہ

مغربی بنگال میں ایس آئی آر کے تحت الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی مسودہ ووٹر لسٹ ریاست میں طویل عرصے سے جاری سیاسی بیانیہ کو چیلنج کرتی ہے۔ اعداد و شمار ثابت کرتے ہیں کہ جنہیں ‘باہری’ کہا جاتا ہے، وہ دراصل سب سے زیادہ عرصے سے آباد ‘ٹھوس’ اور حقیقی شہری ہیں۔

علامتی تصویر: ایکس/ سی ای او مغربی بنگال

مغربی بنگال میں اسپیشل انٹینسیو ریویژن (ایس آئی آر) کے تحت الیکشن کمیشن آف انڈیا (ای سی آئی) کی جانب سے جاری کردہ نئی مسودہ ووٹر لسٹ ریاست میں طویل عرصے سے جاری سیاسی بیانیہ کو چیلنج کرتی ہے۔

ای سی آئی کی ہدایت کے مطابق، اس عمل میں  موجودہ ووٹر کو 2002  کی  ووٹر لسٹ کے اعداد و شمارسے جوڑ کر(میپ کرکے)دیکھا گیاہے۔ یہ مشق اقلیتی اکثریتی سرحدی علاقوں میں ‘غیر قانونی بنگلہ دیشی’ یا ‘روہنگیا’ ووٹروں کے بارے میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے مسلسل پروپیگنڈے کو کمزور کرتی ہے۔

ریاست کے تمام 294 اسمبلی حلقوں کے تجزیہ سے ایک متضاد تصویر سامنے آتی ہے۔ ریاست کی دیہی اقلیتی آبادی سب سے زیادہ دستاویزی گروپ کے طور پر ابھری ہے، جبکہ نام نہاد ‘شہریت کا بحران’ اب زیادہ تر ہندو پناہ گزینوں اور شہری ورکنگ آبادی تک محدود دکھائی دیتا ہے۔

ایس آئی آر 2025 کے فریم ورک کے تحت ووٹروں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی موجودگی کو ‘لیگیسی اینکر’ سے جوڑیں، جس میں 2002 کی ووٹر لسٹ اہم تاریخی  ڈیٹا بیس کے طور پر کام کرتی ہے۔

جو ووٹر اس لنک سے منسلک نہیں ہو پاتےانہیں ‘نو میپنگ’ کے زمرے میں رکھا جاتا ہے، جس کے بعد اکثر  لازمی شنوائی اور اہلیت ثابت کرنے کے لیے زیادہ دستاویزوں کا بار اٹھانا پڑتا ہے۔ وہیں، حذف شدہ ناموں کو ‘اے ایس ڈی’ زمرہ (غیر حاضر، منتقل شدہ، متوفی، یا ڈپلیکیٹ ووٹر) کے تحت الگ سے درج کیا جاتا ہے۔

مغربی بنگال میں ایس آئی آر 2025 کے ابتدائی تجزیے سے  اخذ کیے گئے پانچ اہم نکات یہ ہیں؛

اقلیت  کے پاس سب سے زیادہ دستاویز

سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ شماریاتی طور پر’غیر قانونی تارکین وطن’ کے مفروضے کی تردید کرتا ہے۔ بی جے پی کا سیاسی بیانیہ طویل عرصے سے یہ دعویٰ کرتا رہا ہے کہ اقلیتی اکثریتی سرحدی اضلاع غیر دستاویزی نقل مکانی کا گڑھ ہیں۔ لیکن ایس آئی آر ڈیٹا اس کے بالکل برعکس ثابت کرتے ہیں۔ ان اضلاع میں درست دستاویزوں کی شرح سب سے زیادہ ہے۔

سب سے واضح مثال مرشد آباد کی ہے، جسے بنگلہ دیش سے متصل ہونے کی وجہ سے سیاسی تقاریر میں بار بار اجاگر کیا جاتا رہا ہے۔ تاہم، پروپیگنڈے کے برعکس، سرحد ی علاقہ ہونے اور ضلع کی اعلیٰ اقلیتی آبادی حقیقت کو نہیں بدلتی۔ کئی مسلم اکثریتی اسمبلی حلقوں میں ‘نو میپنگ’ کی شرح نہ ہونے کے برابر ہے – ڈومکل میں صرف 0.42فیصد (77.67فیصدمسلم)، رانی نگر میں 0.91فیصد (75.40فیصد مسلم)، اور ہری ہرپاڑہ میں 0.60فیصد (74.96 فیصد مسلم)۔

یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ زرعی اقلیتی آبادی کی آبائی جڑیں گہری ہیں اور ورثے کی مضبوط دستاویزات ہیں، جس کی وجہ سے 2002 کی فہرست سے ان کا ملان آسان ہو جاتا ہے۔ شماریاتی ٹیسٹ اقلیتی آبادی کے فیصد اور دستاویزوں  کی کمی کے درمیان منفی تعلق کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔ اس سے ‘غیر قانونی مہاجر’ کے بیانیہ کا کوئی بھی شماریاتی بنیادنہیں رہ جاتاہے۔

متوآ کمیونٹی کی حالت: پناہ گزینوں کے حقوق  پرخطرہ

سب سے زیادہ ‘نو میپنگ’ کی شرح متوآ برادری کے غلبہ والے حلقوں میں ہے، جو دلت پناہ گزینوں کی آبادی ہے اور سرحدی اضلاع میں بی جے پی کی سیاسی حکمت عملی کا کلیدی مرکز رہی ہے۔

نادیہ اور شمالی 24 پرگنہ کی متوآ کی اکثریت والی 17 سیٹوں کے تجزیہ سے چونکا دینے والی تصویر سامنے آتی ہے۔ ان سیٹوں پر اوسط ‘نو میپنگ’ کی شرح 9.47 فیصد ہے، جو ریاستی اوسط 4.05فیصد سے کہیں زیادہ ہے۔ ان نشستوں کی آبادیاتی حقیقت الگ ہے –  یہاں درج فہرست ذات کی آبادی نمایاں طور پر زیادہ ہے (اوسطاً 36.39فیصد)، جبکہ اقلیتی آبادی نسبتاً کم (13.66فیصد) ہے ۔

اعداد وشمار میں اس کی واضح مثالیں ہیں۔ شمالی 24 پرگنہ میں ہندوستان-بنگلہ دیش سرحد کے قریب واقع متوآ کمیونٹی کا روحانی مرکز گائے گھاٹا، جہاں اقلیتی آبادی صرف 7.61فیصد ہے، کی ‘نو میپنگ’ کی شرح 14.51فیصد (38,490 ووٹر) ہے۔ وہیں پاس کے  بگدا(ایس سی) میں یہ  شرح 12.69 فیصد (36,567 ووٹر) ہے، جبکہ وہاں  اقلیتی آبادی 11.97فیصدہے۔

سال 2002 کی کٹ آف تاریخ  ان ہندو پناہ گزینوں کے لیے ایک اسٹرکچرل رکاوٹ پیدا کرتی ہے، جو 1971 کے بعد آئے یا اس کے بعد کے سالوں میں استحصال کی وجہ سے نقل مکانی کر گئے۔ اس طرح ایس آئی آر کا عمل پناہ گزینوں کی نقل مکانی کی تاریخوں کو فلٹر کرنے والا ایک عمل بن جاتا ہے، جس سے اس آبادی کے لیے ایک وجودی بحران پیدا ہوتا ہے جس کے تحفظ کا شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) نے دعویٰ کیا تھا۔

یہ اعداد و شمارشدید قسم کی سیاسی ستم ظریفی کو بے نقاب کرتا ہے – ایس آئی آر کے وراثت پر مبنی عمل سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے وہ ‘بیرونی مسلم درانداز’ نہیں ہیں ، جن  کی امیج  بی جے پی کی تقاریر میں بنائی جاتی ہیں، بلکہ وہ ہندو پناہ گزین ہیں جو 1971 کے بعد آئے تھے یا بعد میں  ہراسانی  سے بھاگ کر آئے ۔ایس آئی آرمیں 2002 کا انضمام متوآ پناہ گزینوں کے لیے ایک طرح کا ‘شہریت کا جال’ بن جاتا ہے، جو براہ راست بی جے پی کے اپنے’سی اے اے- تحفظ’ پیغام سے متصادم ہے۔

شہری علاقوں میں خالی پن: ‘گھوسٹ ووٹر’ کی صفائی

سرحدی علاقوں سے دور مغربی بنگال کے شہری اور صنعتی مراکز میں بڑے پیمانے پر ‘خالی پن’ اقتصادی نقل مکانی کی وجہ سے  دیکھنے کو ملتا ہے نہ کہ شہریت  سے متعلق گڑبڑیوں کی وجہ سے۔ ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ کولکاتہ میں ووٹروں کو حذف کرنے کی شرح بہت زیادہ ہے، جو کہ کسی بھی دیگر دیہی ضلع سے کہیں زیادہ ہے۔

کولکاتہ کا تجارتی مرکز جوڑاسانکو، جس میں ہندی بولنے والی بڑی آبادی بھی ہے، اور انتہائی کثیر الثقافتی چورنگی، دونوں میں بالترتیب 36.85فیصد اور 35.46 فیصد کی شرح سے ووٹروں کے نام ہٹائے گئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ان علاقوں میں ایک تہائی سے زیادہ ووٹرلسٹ سے باہر ہو چکے ہیں۔

یہ رجحان ضلعی سطح پر بھی یکساں طور پر واضح ہے۔ کولکاتہ شمالی میں 25.93 فیصد اور کولکاتہ جنوبی میں 23.83فیصد  کی شرح سے ووٹروں کے نام ہٹائے گئے ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ یہ پیٹرن آبادیاتی حدود سے تجاوز کرتا ہے۔ چاہے اقلیتی آبادی بے حد کم  ہو – جیسے شیامپوکر اور راس بہاری – یا نسبتاً زیادہ ہو- جیسے کولکاتہ  پورٹ اور بالی گنج – ہر جگہ ہٹائے جانے کی شرح زیادہ ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ شہری عدم استحکام کی بنیادی وجہ مذہب نہیں ہے۔ ملی جلی زبان، تجارت اور خدمات پر مبنی یہ شہری مراکز آبادی کی مسلسل نقل مکانی کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر،  سرحدی علاقں کے بجائے شہر کا کثیر الثقافتی شہری کور ہی ایس آئی آرکےاثرات کا حقیقی مرکز بن کر ابھرتا ہے۔

تاہم، یہ وسیع انتظامی صفائی آئندہ انتخابات کی ریاضی میں اہم عدم استحکام کو بھی متعارف کراتی ہے۔ اگر حذف کیے گئے ناموں میں ڈپلیکیٹ یا دائمی طور پر غیر حاضر ووٹرز کی غیر متناسب تعداد شامل ہے، تو ان شہری نشستوں پر ووٹروں کی اصل تعداد نمایاں طور پر کم ہو سکتی ہے،  جس کی وجہ سے ووٹر ٹرن آؤٹ اور جیت ہار کے فرق کا حساب بنیادی طور پر تبدیل ہوجائے گا۔

انڈسٹریل بیلٹ میں ریورس مائیگریشن کے آثار

مغربی بنگال کے انڈسٹریل بیلٹ میں، خاص طور پر ہندی بولنے والے تارکین وطن مزدوروں کی بڑی آبادی والے علاقوں میں، ریورس مائیگریشن کے واضح آثارنظر آتے ہیں۔ ڈرافٹ ایس آئی آر ڈیٹا میں بار بار یہ  پیٹرن ظاہر ہوتا ہے  کہ ‘نو میپنگ’ کی شرح درمیانے سے زیادہ ہے اور نام ہٹانے کی شرح بھی زیادہ ہے ۔ یہ صورتحال کسی بھی سرحد سے متعلق بے ضابطگی کے مقابلے میں اقتصادی نقل مکانی اور لیبر مارکیٹ کے عدم استحکام کا نتیجہ ہے۔

بیرک پور-ہاوڑہ صنعتی راہداری میں –  جوروایتی طور پر جوٹ ملوں، ذیلی فیکٹریوں، تعمیراتی مقامات اور گھنی کرایہ داری بستیوں پر مبنی رہاہے – بالی (19.51فیصدنام ہٹائے گئے، 17.81فیصد نو میپنگ) اور ہاوڑہ شمالی (26.95فیصد، 12.42فیصد) جیسی سیٹیں  وہی عدم استحکام ظاہر کرتی ہیں، جو بھاٹ پاڑہ (20.38فیصد، 9.3فیصد) اور آسنسول شمالی (14.71فیصد، 8.74فیصد) جیسے دوسرے مزدوروں کی اکثریت والے صنعتی علاقوں میں ظاہر ہوتی ہے ۔

جب ووٹرز کو ‘مستقل منتقلی’ کے طور پر نشان زد کیا جاتا ہے تو حذف کرنے کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ وہیں ؛نومیپنگ’ اس لیے زیادہ ہے کیونکہ کئی پرانے ووٹروں کے لیے برسوں تک کرایہ مکانوں میں رہنے، بستیوں اور کام کی جگہوں کے درمیان باربار جگہ بدلنے، یا اضلاع میں متعدد پتوں کو برقرار رکھنے کے بعد پرانی فہرست سے لنک ہونا مشکل ہوتا ہے۔ جیسے جیسے ملیں سکڑتی ہیں، مینوفیکچرنگ سرکل ختم ہو تا ہے، اور شہری کرایہ دار خاندانوں کو باہر دھکیلتے ہیں، زیادہ تر مزدور خاموشی سے ووٹر لسٹ سے باہر ہو جاتے ہیں یا اپنی آبائی ریاستوں کو لوٹ جاتے ہیں۔ ان کے  پیچھے دستاویزوں کی ایک ٹوٹی پھوٹی کڑی رہ جاتی ہے، جسےایس آئی آر پروسیس ‘میپنگ کی ناکامی’ اور بڑے پیمانے پر نام ہٹانے- دونوں کے طور پر ریکارڈ کرتا ہے۔

نتیجے کے طور پر، صنعتی اور کمیوٹر بیلٹ اس نظرثانی کے سب سے شدید انتظامی شاک زون میں سے ایک کے طور پر ابھرے ہیں، جو بڑی حد تک ریورس مائیگریشن اور مسلسل معاشی بدحالی کی وجہ سے طے ہو رہا ہے۔

ایڈمنسٹریٹو فلٹرنگ کا نشانہ’آبائی جڑوں کا ‘ نہ ہونا ہے، مذہب نہیں

بالآخر، ایس آئی آر 2025 استحکام کا امتحان ہے، مذہب کا نہیں۔ شماریاتی نمونے اس مشق کے حقیقی اثرات پر حتمی فیصلہ فراہم کرتے ہیں۔ ڈیٹا اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ ‘نومیپنگ’ کی اعلی: شرحیں — یعنی پرانے دستاویزوں کی کمی — کا تعلق شہری کاری اور مہاجرین کی آبادی سے ہے، اقلیتی آبادی کے فیصد سے نہیں۔ درحقیقت، اقلیتی اکثریت والے علاقوں میں دستاویزی غلطیاں مستقل طور پر کم پائی گئی ہیں۔

حقیقت میں، یہ عمل ‘بے جڑ’  کو فلٹر کرنے کا کام کرتا ہے۔ یہ غیر متناسب طور پر ان پناہ گزینوں کی شناخت کرتا ہے جنہوں نے نقل مکانی کے دوران دستاویز کھو دیے ، اور ان شہری مزدوروں کو  جو اکثر نقل مکانی کرتے ہیں، جبکہ دیہی آبادی کی شہریت کی توثیق کرتے ہیں۔ ‘غیر قانونی تارکین وطن’ کا بیانیہ، جب ان ٹھوس اعداد و شمار  کی کسوٹی پر کسا جاتا ہے، توپوری طرح بکھر جاتاہے۔

جیسے جیسے ریاست 2026 کے انتخابات کی طرف بڑھ رہی ہے، لڑائی کا رخ بدل گیا ہے۔ اب ایشو صرف یہ نہیں ہے کہ کس کو ووٹ دینے کا حق ملے  گا، بلکہ خود ووٹر کی تصدیق کا ہے – اور اعدادوشمار ثابت کرتے ہیں کہ جنہیں ‘باہری’   کہا جاتا ہے وہ درحقیقت طویل عرصےسےآباد سب سے ‘ٹھوس’  اور حقیقی شہری ہیں۔

انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔