انٹرویو : ’یہ وہ منزل تو نہیں ‘، ’دھاراوی ‘، ’اس رات کی صبح نہیں ‘، ’ ہزاروں خواہشیں ایسی ‘جیسی فلمیں بنانے والے نیشنل فلم ایوارڈ یافتہ ڈائریکٹر سدھیر مشرا سے پرشانت ورما کی بات چیت۔
ہندوستان اورپاکستان کو ملا لیں تو دیوداس پر تقریباً 16 فلمیں بن چکی ہیں۔ ایسی کون سی کشش ہے جو ہدایت کاروں کو دیوداس کی طرف کھینچتی ہے۔ آپ کی فلم داس دیو میں کیا خاص بات ہے جو اس کو دیوداس پر بنی دوسری فلموں سے الگ کرتی ہے؟
دیوداس کی بات کریں تو یہ کردار باقی ہیروز کے برعکس ہے۔ اس کی کشش کی بات کریں تو یہ کشش ہے ایک لوزر (ناکام شخص) کا۔ ایک شخص ہے جس سے وہ عشق کرتا ہے، پہلے اس کی زندگی برباد کرتا ہے۔ پھر اپنی زندگی بنانے کے بجائے اس کا ہیروازم یہ ہے کہ وہ خود کو ختم کر دیتا ہے۔ ایک معنی میں وہ امن پسند شخص ہے، بغاوت نہیں کرتا۔اس کے برعکس ایک ہیرو ہوتا ہے جو فیصلہ لے لیتا ہے، ثابت قدم ہے، وہ بدلے کی طرف بڑھتا ہے اور ایک دیوداس ہے۔
اب سوال ہے کہ اس کردار پر میں نے کیوں بنائی فلم، میرے دوست ہیں پریتیش نندی، بہت پہلے انہوں نے مجھے دیوداس پر فلم بنانے کے لئے بولا تھا۔ تب تک انوراگ (کشیپ) نے دیو ڈی بنا ڈالی تھی۔ مجھے اس میں بہت انٹریسٹ نہیں تھا۔پھر مجھے خیال آیا کہ دیوداس کچھ کچھ ہیملیٹ نما (شیکسپیئر کا ڈرامہ ہیملیٹ) ہے۔ مجھے خیال آیا کہ کیا دیوداس کسی سیاسی فیملی کا وارث ہو سکتا ہے؟ جیسے سیاسی فیملی کے کچھ لوگ واپس آتے ہیں اپنی وراثت سنبھالنے، جب فیملی مشکل میں ہوتی ہے۔
اگر دیوداس کو سیاسی ماحول میں رکھوں تو کیسا ہوگا؟ اگر پارو کا باپ دیوداس کے باپ کا سیاسی سکریٹری ہو اور دیو کے والد کی موت کے بعد دونوں کی فیملی بٹ جائیں، دیو امیروں کے بگڑے بچے جیسا ہوتا ہے اور اس کو فیملی سنبھالنے کے لئے بلایا جاتا ہے۔دیو اور پارو سیاسی اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے سے الگ ہوتے ہیں۔ چندرمکھی اس فلم میں اقتدار کے لئے لابی کرتی ہے۔اب پتہ نہیں یہ کتنے شرت بابو (شرت چندر چٹواپادھیائے) کے دیوداس کی طرح ہے لیکن اس کے رشتے کچھ کچھ ویسے ہی ہیں۔ یہ ایک پالیٹکل تھریلر ہے کہ کیسے اقتدار دیوداس اور پارو کے عشق کے آڑے آتا ہے۔ اقتدار کا جو نشہ ہوتا ہے اس سے آزاد ہونے کی کوشش ہے یہ فلم۔شیکسپیئر کے برابر کوئی تھریلر رائٹر ہے نہیں۔ میری فلم میں شیکسپیئر کا اثر زیادہ ہے اور شرت بابو کا کم۔ فلم کی شروعات دیوداس سے ضرور ہے لیکن اس کے ذریعے میں لوگوں سے ایک دوسری طرح کی کہانی کہنا چاہ رہا ہوں۔
داس دیو فلم کا پوسٹر۔ (فوٹوبشکریہ : فیس بک / داس دیو)
بالی ووڈ میں ابھی بھی خاتون کردار بہت ہی اسٹیریوٹائپ طریقے سے لکھے جاتے ہیں، لیکن آپ کی فلموں میں خاتون کردار بہت ہی مضبوط ہوتے ہیں۔
میری فلم کی خاتون کردار متاثر نہیں ہوتی ہے۔ وہ اپنی خواہشیں پورا کرنا چاہتی ہے اور اس کی وجہ سے وہ آپ کو (ہیرو) چھوڑ بھی سکتی ہے۔ وہ فلموں میں مرد کی جاگیر بنکر نہیں رہتی ہے۔ وہ عشق لفظ کے جال میں بھی نہیں پھنستی ہے۔یہ اس طرح کی عورتیں ہیں، جو اپنے میں آزاد ہیں اور کبھی کبھی جیسے مرد غلط ہوتے ہیں، وہ بھی غلط ہونے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان کی خواہش الگ ہے، وہ اپنی زندگی کو سمجھنا چاہتی ہیں۔چاہے وہ ہزاروں خواہشیں ایسی کی گیتا (چترانگدا سنگھ) ہوں، چاہے انکار کی مایا (چترانگدا سنگھ) ہوں، چاہے وہ دھاراوی کی شبانہ ہوں، چاہے میں زندہ ہوں کی دیپتی نول ہوں۔
مجھے بڑا بورنگ لگتا ہے جب خواتین کے کردار کو متاثرہ کے طور پر دکھایا جاتا ہے۔ ابھی بھی جب لکھتے ہیں تو ایک وکٹم ہڈ (متاثرہ) کی کہانی لکھی جاتی ہے، جہاں ایک مرد بچانے آتا ہے ان کو۔ ایسی کہانیاں اکثر لکھی جاتی ہیں، جس کو بڑا پروگریسو بھی بولا جاتا ہے۔میں ان سب سے تھوڑا آزاد ہوں، شاید اپنے خیالات کی وجہ سے، اپنی زندگی کی وجہ سے یا جو عورتیں مجھے ملی ہیں، ان کی وجہ سے۔
’ دھاراوی ‘، ’اس رات کی صبح نہیں ‘، ’ ہزاروں خواہشیں ایسی ‘آپ کی مشہور فلموں میں سے ہیں۔ ان فلموں کے بارے میں خیال کیسے آیا۔ اپنی فلموں کے لئے کہانی اور کردار کہاں سے لاتے ہیں؟
ہر شخص کے اندر پانچ سے سات فلمیں ہی ہوتی ہیں۔ یعنی وہ پانچ سات فلمیں ہی بنا سکتا ہے۔ آپ کا خود کا ایک اینوائرمینٹ رہتا ہے، جہاں آپ پلے بڑھے ہوتے ہیں۔ اپنی ماں کی طرف سے کہوں تو ایک سیاسی خاندان سے تعلق رکھتا تھا۔ حالانکہ سیاسی خاندان تو وہ بن نہیں سکا۔
1991 میں آئی سدھیر مشرا کی فلم دھاراوی کو ہندی میں بہترین فلم کا نیشنل ایوارڈملا تھا۔ (فوٹوبشکریہ : وکیپیڈیا)
میں ایک ریاضی داں کا بیٹا ہوں۔ تھوڑا لکھنؤ کا ہوں، تھوڑا ساگر (مدھیہ پردیش) کا ہوں، تھوڑا دہلی کا ہوں اور اب زیادہ تر ممبئی کا ہوں۔ جو بھی پڑھا لکھا، جو بھی زندگی میں سمجھا، شاید اس کا اثر بھی ہوگا۔میری فلموں کے کردار اصل میں کہاں سے آتے ہیں، یہ تو راز ہے۔ میری دادی ماں نے میرے پاپا اور ان کے چار بھائیوں کو اکیلے پالا، اس کا بھی کہیں اثر ہوگا۔ میرے نانا تھے ڈی پی مشرا (مدھیہ پردیش کے سابق وزیراعلیٰ)، انہوں نے مجھے بولا تھا کہ اقتدار تمہارا نہیں ہے۔ انہوں نے کسی طرح کی مدد کرنے سے ہی ہمیں منع کر دیا تھا۔ انہوں نے کبھی عام نانا ہونے کی بھی جو مدد ہوتی ہے وہ بھی نہیں کی۔ ان کا بھی اثر کہانی اور کرداروں میں رہا ہوگا۔کہیں لیفٹ ونگ سے جڑے تحریک کا اثر رہا تو رائٹ ونگ بھی اردگرد ہی رہا۔ کردار پتہ نہیں کہاں سے آتے ہیں، لیکن افسانہ نگار کے اندر جو کمیاں یا خالی پن ہوتا ہے وہ اس کو کہیں نہ کہیں کہانیاں لکھکر پورا کرتا ہے۔
فلموں کی کامیابی باکس آفس پر اس کی نمائش پر طے ہوتی ہے۔ آپ نے اس پیمانے کو درکنار کرتے ہوئے فلمیں بنائی ہیں۔ کبھی کسی مسالہ یا کامرشیل فلم پر داؤ کیوں نہیں لگایا؟
کلکتہ میل کے ذریعے میں نے کامرشیل فلم بنانے کی کوشش کی تھی، لیکن یہ بری طرح سے فیل ہوئی تھی۔ اچھی بات یہ ہے کہ الگ طرح کی فلموں سے ناظرین واقف ہوئے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ پہلے ایسا نہیں تھا۔ پہلے بھی لیک سے ہٹکر فلمیں بنتی تھیں لیکن جو آپ کی فطرت ہوتی ہے اس میں آپ رہیں، کیونکہ فلم بنانا آپ کے کنٹرول میں اتنا نہیں ہے۔ آپ جس فطرت کے ہیں، آپ وہی کر سکتے ہیں۔اگر آپ اس فطرت سے ہٹیںگے تو آپ فیل ہوںگے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ انسان کو اپنی حد بھی پہچاننی پڑتی ہے۔ آپ سب کچھ نہیں کر سکتے۔ جو آپ بہتر کر سکتے ہیں جس ٹرف پر آپ اچھا کھیل سکتے ہیں، اسی پر ہی کھیلنا چاہئے۔ بیچ میں میں ڈگمگایا تھا لیکن اب میں اپنی فطرت کی طرف اور جانے کی کوشش میں ہوں۔
بطور ڈائریکٹر 1987 میں آئی سدھیر مشرا کی پہلی فلم ‘ یہ وہ منزل تو نہیں ‘ کے لئے ان کو نیشنل فلم ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔
مجھے آج کل کے نوجوان فلم ساز اچھے لگتے ہیں۔ مجھے امت مسورکر (نیوٹن) بھی امپریش ہے اور النکرتا شریواستو (لپسٹک انڈر مائی برقع) بھی۔ انوراگ (کشیپ) تو امپریش کرتا تھا ہی اور وشال (بھاردواج) کرتے ہی ہیں۔ آپ اپنے حساب سے ہی کام کر سکتے ہیں، وہ آپ کی فطرت میں ہے۔ آپ کی ایک سمجھ ہے، اس کے حساب سے آپ فلم بنا سکتے ہیں۔
آپ کی پیدائش اور پرورش لکھنؤ کی ہے، لکھنؤ کے ایک نوجوان کے لئے بالی ووڈ تک کا سفر کیسا رہا، خاص کر تب جب اس کو ہیرو نہیں ڈائریکٹر بننا تھا؟
مجھے تو ہمیشہ سے ہی ڈائریکٹربننا تھا۔ میں خوش قسمت تھا کہ میں یہاں (ممبئی) آیا اور کندن شاہ، ودھو ونود چوپڑا اور سعید مرزا جیسے ہدایت کار ملے۔ میں بائیس ساڑھے بائیس سال (1980) کا تھا۔ کسی نے بولا کہ تم اس اسکرپٹ پر کام کروگے، وہ کندن شاہ تھا۔ تو کوئی گانا وانا نہیں تھا۔ وہ پہلی فلم بنا رہا تھا۔ فلم کا نام جانے بھی دو یارو تھا۔
لوگوں کو یہ فلم بہت پسند آئی اور ہم اپنی طرح کی فلمیں بنانے لگے۔ میں ہمیشہ سے ہدایت کار بننا چاہتا تھا اور خوش قسمتی سے یہ ہو گیا۔ کبھی کبھی سوچکر گھبراہٹ ہوتی ہے کہ وہ لڑکا جو لکھنؤ سے ممبئی آیا تھا، وہ کیا سوچکر آیا تھا لیکن کچھ چیزیں ٹھیک ہی ہو گئیں۔ اور ابھی بھی یہاں ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ برا بھی نہیں ہوا کچھ۔تو ابھی تک جو ہوا یا کیا اس سے اچھا ہو سکتا تھا، لیکن یہ تو سبھی کے لئے ہو سکتا تھا۔ دنیا بھی بہتر ہو سکتی تھی اور ملک بھی بہتر ہو سکتا تھا اور ہو سکتا ہے۔
میرے والد لکھنؤ میں فلم سوسائٹی چلاتے تھے، ان کا بھی اثر رہا ہوگا یہاں تک آنے میں۔ لکھنؤ سے دہلی گیا تھا تو بادل سرکار جیسے بڑے لوگ ملے تھے۔ انہوں نے اسٹیج کے شعبے میں دماغ کھول دیا تھا۔ تو دماغ اگر آپ کا کوئی کھول دیتا ہے نہ تو چیزیں آسان ہو جاتی ہیں۔اس سفر میں جو لوگ بھی ملے، ان کی باتیں سنی، ان سے ترغیب لی۔ ان کا بھکت نہیں بنا، ویسا رجحان نہیں تھا اندر، کیونکہ ریاضی داں کا بیٹا تھا۔ بچپن میں جو ماحول ملتا ہے اس سے تھوڑا آزاد خیال ہو جاتے ہیں آپ۔
1989 میں آئی سدھیر مشرا کی فلم ‘ میں زندہ ہوں ‘ کو سماجی مدعوں پر بنی بہترین فلم کا نیشنل ایوارڈ ملا تھا۔ (فوٹوبشکریہ،سنیماز آف انڈیاڈاٹ کام
میرے خیال سے جس لکھنؤ کو میں جانتا ہوں یا جو میری فیملی کا لکھنؤ ہے، وہ کافی پڑھالکھا اور سمجھدار ہے۔ آپ جب لکھنؤ سے ہوتے ہو تو آپ ہندی شاعری سے بھی آشنا ہوتے ہو، اردو سے بھی ہوتے ہو۔ وہ تھوڑا اربن (شہری) تھا، روشن خیال تھا۔ تو ذہنی طور پر یہاں تک کا سفر کوئی مشکل نہیں تھا۔
آپ تقریباً 35 سالوں سے بالی ووڈ میں فعال ہیں۔ اتنا لمبا وقت گزارنے کے بعد بالی ووڈ کو کس طرح سے دیکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہاں آج بھی فلمی گھرانوں کا دبدبہ ہے۔ اس بات سے کتنا اتفاق رکھتے ہیں؟
بھئی، ہم تو باہر سے ہی آئے تھے۔ شروعات میں جو بھی ممبئی آئے، وہ باہر سے ہی آئے تھے۔ فلمی گھرانوں کی اجارہ داری ہے، لیکن وہ تو قانون کے شعبے میں بھی ہے اور ڈاکٹری میں بھی ہے، تعلیم کے شعبے میں بھی ہے اور بزنس کے شعبے میں بھی ہے۔ یہاں (بالی ووڈ) بھی ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ لوگ گھس نہیں پاتے اور ان کی جگہ نہیں بنتی۔
آج کل تو اور بہتر ہو گیا ہے۔ جو متوسط گھرانے کے نوجوان آئے ہیں وہ آزاد خیال ہیں۔ اس ذریعہ (سینما) کو سمجھ رہے ہیں اور کنٹرول بھی کر رہے ہیں۔ لڑائی تھوڑی زیادہ ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ پورا اندھیرا ہے۔ یہاں ٹیلینٹ ہونا چاہئے اور مشکلیں اور رجیکشن جھیلنے کی ہمت ہونی چاہئے۔ جو پانچ سات سال لگتے ہیں، اگر آپ خوش قسمت نہیں ہیں تو یہ لڑائی مشکل ہے۔ اگر اس کو جھیل لو تو پھر سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔
آپ دیکھ لو چاہے راج کمار ہیرانی ہوں، وشال بھاردواج، چاہے انوراگ کشیپ، امتیاز علی یا چاہے آنند ایل رائے ہوں آج جو بھی فلمیں بنا رہے ہیں سب باہر کے ہی ہیں۔ تھوڑا وقت لگتا ہے۔ جدو جہد میں جو وقت لگتے ہیں اس میں آپ بنتے ہیں، آپ تیار ہوتے ہیں۔جو جدو جہد آپ کرتے ہیں اس میں اچھائیاں بھی ہیں۔ مشکلیں ہیں، تھوڑا غیر مناسب بھی ہے لیکن یہ تو پورے ہندوستان میں ہے۔ ٹیلینٹ کو آپ لعنت مانئے تو آپ بہتر سمجھیںگے۔ اگر آپ میں ہے وہ تو سوائے یہ کرنے کے آپ کے پاس چارا بھی تو نہیں ہے۔ تو مشکلیں آئیںگی لیکن آپ اس کے علاوہ کروگے کیا۔
فلم ایڈیٹر کو سینما کا اَن سنگ ہیرو کہا جا سکتا ہے۔ ان کے بارے میں لوگ زیادہ نہیں جانتے۔ فلم ایڈیٹر رینو سلوجا آپ کی بیوی تھیں اور ان کو تین تین نیشنل ایوارڈ بھی مل چکے ہیں۔ فلم ایڈیٹر کے کام اور رینو سلوجا کے بارے میں کیا کہنا چاہیںگے؟
رینو افسانہ نگار تھی۔ فلم ایڈیٹر اسکرپٹ کا لاسٹ ڈرافٹ لکھتا ہے، وہی فلم کو فائنل کرتا ہے۔ فلم ایڈیٹر کا کام ہوتا ہے کہ وہ ہدایت کار کو بتائے کہ اس نے کون سی فلم بنائی ہے۔ اس طرف فلم کو لے جانا جس طرف آپ (ہدایت کار) نے سوچا ہے۔ جو آپ کے خیال میں ہے وہ الگ فلم ہے اور جو بنی ہے وہ الگ۔
سدھیر مشرا، فلم داس دیو میں چاندنی کا کردار نبھا رہی آدیتی راؤ حیدری، پارو بنی رچا چڈھا اور دیوداس کا کردار نبھانے والے راہل بھٹ۔فوٹوبشکریہ : ٹوئٹر
رینو کو فلموں کی بہت ہی کمال کی سمجھ تھی۔ اس شعبےمیں اس سے مشہور لڑکی کوئی ہوئی نہیں ہے۔ اسّی کی دہائی میں مردوں کے پیشے میں اکیلے اس نے اپنی جگہ بنائی۔ آپ ایک بار اس کے ساتھ کام کر لو تو مشکل ہوتا تھا کسی اور کے ساتھ کام کرنا۔ وہ کمیٹیڈ تھی اور اڑیل بھی بہت تھی۔
آپ کی فلموں میں گالی گلوچ کا بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے میں سینسر بورڈ سے کیسے تعلقات رہے۔ آج کے وقت میں سینسر بورڈ کے کام کاج کو کیسے دیکھتے ہیں؟
نہیں نہیں میری فلموں میں گالی گلوچ بہت کم ہوتی ہے۔ یہ کردار کے حساب سے ہوتی ہے۔ جہاں تک سینسر بورڈ کے اعتراض کی بات ہے تو میں نے ہرجگہ اس کے خلاف بات کی ہے۔ سینسر بورڈ کی ضرورت ہے ہی نہیں، میرے خیال سےسی بی ایف سی کی ضرورت ہے۔وہ سینسر بورڈ کیوں بننا چاہتا ہے مجھے سمجھ نہیں آتا۔ وہ سی بی ایف سی رہے اور سرٹیفیکیشن کا کام کرے۔ وہ خاندان کے دقیانوسی باپ کی طرح نہ بنے۔
یہ گالی مت دو ،ایسی بات کرو ایسے نہ کرو یہ زبان مت استعمال کرو وہ کہانی مت سناؤ یہ مت بولو، یہ کہو ہمارے عوام اس کے لئے تیار ہے، اس کے لئے تیار نہیں آپ کون ہوتے ہیں، یہ طے کرنے والے۔ہمارا رشتہ آزاد رہنے دو۔ میں تو حکومت سے یہ بھی کہتا ہوں کہ ہم پر ٹیکس مت لگاؤ۔ میں یہ بھی کہتا ہوں کہ صرف انکم ٹیکس ہونا چاہئے۔ جو پیسے کمائے، آپ اس پر ٹیکس لو۔ باقی سارے ٹیکس آپ ہٹا دو۔
آپ ایک سیاسی فیملی سے تعلق رکھتے ہیں؟ آپ کے نانا ڈی پی مشرا مدھیہ پردیش کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں۔ ایسے میں کیا آپ نے کبھی سیاست میں آنے کے بارے میں سوچا؟
داس دیو جو فلم ہے یہ کچھ ویسی ہی ہے کہ اگر میں سیاست میں گیا ہوتا تو کیا ہوتا۔ میں نے یہ فلم تین لوگوں کومنسوب کی ہے۔ شرت بابو، دوسرے شیکسپیئر اور تیسرے میرے نانا، جنہوں نے ہمیں اپنی زندگی سے نکال پھینکا تھا۔
فلم ‘ ہزاروں خواہشیں ایسی ‘ سدھیر مشرا کی مشہور فلموں سے ایک ہے،فوٹوبشکریہ جسٹ واچ ڈاٹ کام
اگر پھینکا نہیں ہوتا تو شاید میں بھی کسی سیاسی خاندان کا ممبر ہوتا۔ سیاست ایک دوسری ہی فطرت کے لوگوں کا کام ہے۔ مجھے کسی جماعت یا کسی لیڈرکے ماتحت رہنے کی عادت نہیں ہے۔
آج کی سیاست کو کس طرح سے دیکھتے ہیں۔ ابھی کے سیاسی ماحول کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ایمرجنسی جیسے حالات ہیں۔ آرٹ اور سینما کے لئے خراب وقت ہے۔
اس ماحول سے، سینسر بورڈ سے مجھے ہمیشہ ہی کچھ نہ کچھ دقت ہوئی ہے اور ہمیشہ ہوگی بھی۔ میں تو ہر بار لڑنے کو تیار ہوں۔ کسی بھی طرح کی فلم پر روک ہوتی ہے تو میں جھگڑا کرنے کے لئے تیار ہوں۔مجھے لگتا ہے کہ آپ کو اس میں حصہ لینا چاہئے، بھاگنا نہیں چاہئے۔ اگر ماحول خراب ہے تو پھر آپ اس میں اور دخل دیجئے۔ صرف شکایت کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ پھر آپ الگ الگ طریقے سے فلم بنائیے۔اپنی بات کو اس طرح سے نہیں تو اس طرح سے کہئے۔ بہت ساری جگہوں پر ایسا ہوا ہے۔ ایران میں ایسا ہوا ہے تو لوگوں نے وہاں اسی طرح سے فلمیں بنائی ہیں۔آپ کو ہر وقت دخل تو دینا پڑےگا اور آپ کھڑے رہیںگے تو بات بنےگی۔ میرے خیال میں انوراگ کشیپ، وشال بھاردواج جس ہمت سے فلم بناتے تھے، ابھی بھی اسی ہمت سے بنا رہے ہیں۔
سپریم کورٹ سے ہری جھنڈی ملنے کے بعد بھی پدماوت فلم کی ریلیز میں کرنی سینا جیسی تنظیم نے کافی مشکل کھڑی کی۔ اسی طرح ایک فلم نانک شاہ فقیر کو بھی سینسر بورڈ اور سپریم کورٹ سے ریلیز کی اجازت مل گئی ہے لیکن یہ فلم کسی سینما گھر نے نہیں لگائی۔ ان حالات کے بارے میں آپ کیا کہیںگے؟
سینما گھر حساس ہوتے ہیں۔ اگر حکومت فلم سازوں اور سینما گھروں کو تحفظ نہیں دےگی تو پھر وہ کیسے فلم کو ریلیز کر پائیںگے۔ یہ باتیں اتنی بار کہیں جا چکی ہیں کہ اب بار بار یہی بات کہیں، یہ عجیب لگتا ہے۔ہمارا سماج بہت حساس سماج ہے اور سماج کے ٹھیکے دار اور زیادہ حساس ہیں۔ کچھ غیر آئینی تنظیم ہیں جیسے کہ کرنی سینا جو کبھی کہتی ہے کہ فلم دیکھو، کبھی کہتی تھی کہ فلم نہ دیکھو۔ان سب کے خلاف تو جھگڑے چلیںگے۔ یہ ایک پیچیدہ ملک ہے اور ایسے ملک میں تھوڑی سی دقتیں بھی ہوںگی ہی، لیکن اس کے خلاف آگے بڑھتے رہنا پڑےگا۔
The post
’داس دیو‘میں ایک الگ طرح کی کہانی کہنے کی کوشش کی ہے : سدھیر مشرا appeared first on
The Wire - Urdu.