انٹرویو: آسامی فلم ‘راگ ‘اور بوڈو زبان کی فلم ‘جولے : دی سیڈ’کی ہدایت کار اوراداکارہ رجنی بسومتاری سے پرشانت ورما کی بات چیت۔
فلم ہدایت کار رجنی بسومتاری۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)
بوڈو زبان کی فلم جولے : دی سیڈ بنانے کی ترغیب کہاں سے ملی؟
90 کی دہائی میں نارتھ ایسٹ میں علیحدگی پسند تحریک شروع ہوئی تھی۔ اس کے خلاف فوج نے زوردار کاؤنٹر آپریشن چلایا ہوا تھا۔ فوج کے اس آپریشن میں گاؤں کے لوگوں کو بہت زیادہ تکلیف کا سامنا کرناپڑا۔ آپریشن کے نام پر رات میں چھاپا مارا جاتا تھا، لڑکوں کو اٹھا لیا جاتاتھا۔ جن کی کھوج میں چھاپا مارا جاتا تھا، وہ لوگ تو گھر میں ہوتے نہیں تھے، لیکن ان کے گھروالوں اور گاؤں کے لوگوں کو پریشان کیا جاتا تھا۔آفسپا کے تحت یہ کام چلایا جاتا تھا۔ میری فلم کی کہانی تقریباً سچے واقعات پر مبنی ہے۔ میرے گھر میں بھی یہ ہوا تھا۔ میری فیملی بھی اس سے متاثر تھی۔ میرے والدین نے بہت کچھ برداشت کیا۔اسی تکلیف سے یہ فلم بنانے کی ترغیب ملی۔
فلم کی کہانی کیا ہے اور فلم کا یہ نام کیوں رکھا گیا؟
ایک وقت پر لوگ ایسا محسوس کرنے لگے تھے کہ ہماری نسل اور کمیونٹی ختم ہورہی ہے۔ جولے مطلب ‘بیج’ ہوتا ہے۔ آسام میں دھان ہوتا ہے تو اس کا جو سب سےاچھا حصہ ہوتا ہے، اگلی بار کی فصل اگانے کے لئے اس کو الگ کر رکھ لیا جاتا ہے۔اس فلم میں ایک فیملی کی کہانی ہے۔ والد انتہا پسندوں اور فوج کے تصادم کے دوران مارے جاتے ہیں۔ ان کا بیٹا اس وقت 13 سال کا ہوتاہے۔
یہ لڑکا آگے چلکر انتہاپسندوں کے چنگل میں پھنس جاتا ہے۔ ماں اس کو روکنےکی کوشش کرتی ہے، لیکن ایسا ہو نہیں ہو پاتا۔ اس کے بعد ماں کی جدو جہد شروع ہوتی ہے۔ماں ڈر کے ساتھ جینے لگتی ہے کہ ان کی نسل ختم ہو گئی۔ ان کی فیملی اب آگےنہیں بڑھےگی۔ اسی بات کو ہم نے علامتی طور پر ‘بیج’ سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔
یہ فلم سینما گھروں میں ریلیز نہیں ہوئی ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
میری یہ فلم بوڈو زبان میں ہیں اور بوڈو بولنے والے علاقوں میں سینما ہال نہ کے برابر ہیں۔ دوردراز گاؤں میں بسے لوگ شہر یا قصبوں میں سینما دیکھنے نہیں آپاتے ہیں۔ ابھی ملٹی پلیکس بن گیا ہے، لیکن ان لوگوں کو اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ شہر آکرٹکٹ خریدکر فلم دیکھیں۔ پہلے سنگل اسکرین ہوتے تھے تو یہ لوگ دیکھ بھی لیتے تھے۔ابھی 300 کا پاپ کارن اور 200 روپے کا ٹکٹ خریدکر وہ کہاں فلم دیکھ پائیںگے۔
فلم کا خرچ تو ایک بات ہے، لیکن میں سمجھتی ہوں کہ لوگوں میں وہ خوداعتمادی یا حوصلہ نہیں ہے کہ ملٹی پلیکس میں جاکر فلم دیکھ سکیں۔ اس کے علاوہ لوگ شہروں سے بہت دور گاؤں میں رہتے ہیں۔ شہروں میں بھی سینماگھر ایک-دو جگہوں پر ہی ہیں۔ مین بوڈو علاقہ کوکراجھاڑ میں ایک سینما گھر ہے۔ادالگڑی جو دوسرا اہم علاقہ ہے، وہاں ایک بھی سینما گھر نہیں ہے۔
فلم جولے :دی سیڈ کا پوسٹر(فوٹو بہ شکریہ : فیس بک)
اس لئے ہم بوڈو زبان کی فلمیں اس علاقے کے گاؤں-گاؤں میں پروجیکٹر کےذریعے دکھاتے ہیں۔ ایک کمیٹی ہوتی ہے، وہ لوگ ہماری فلموں کو گاؤں-گاؤں لےجاکر دکھاتے ہیں۔یہ تھیٹریکل ریلیز تو نہیں ہے، لیکن گاؤں میں میری فلم کو ریلیز کر دیاگیا ہے۔
فلم دکھانے والی کمیٹی مطلب؟
لوگوں کو فلم دکھانے کا ایک طریقہ ڈھونڈ لیا گیا ہے۔ اس علاقے میں یہ کافی سال سے چل رہا ہے۔ فلم دکھانے والی کمیٹیاں ہوتی ہیں۔ وہ لوگ ہمیں کرایہ دےکر ہم سے فلم لے جاتے ہیں۔فی شو فلم کا کرایہ طے ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد گاؤں میں فلم دکھانے کا پوراانتظام یہی لوگ ہی کرتے ہیں۔
ٹکٹ بیچنے سے لےکر، فلم کا پنڈال بنانے اور لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام،پروجیکٹر…یہ سارے انتظامات ان کے ہوتے ہیں اور جو بھی فائدہ ہوتا ہے، وہ ان کاہوتا ہے۔ 10 ہزار سے لےکر15یا16 ہزار روپے تک فی شو فلم کا کرایہ مل جاتا ہے۔شام کو اگر دوسرا شو بھی چل گیا تو کرایے کی آدھی رقم مل جاتی ہے۔
ان کمیٹیوں کے ساتھ ہمارے ایک یا دو لوگ جاتے ہیں، جو فلم کا پرنٹ پین ڈرائیو یا ڈی وی ڈی میں رکھتے ہیں، کیونکہ فلم کاپی ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔
مطلب یہی نظام سال بھر چلتا رہتا ہے؟
نہیں-نہیں…بوڈو فلم دکھانے کا ایک مسئلہ ہوتا ہے۔ بوڈو فلمیں پوجا کے وقت سے ہی دکھائی جانی شروع ہوتی ہیں۔ یہ وقت ستمبر سے شروع ہوتا ہے، جو زیادہ سے زیادہ نومبر میں لکشمی پوجا تک چلتا ہے۔ اس کے علاوہ گاؤں میں اس وقت درگا پورجا کے پنڈال بھی سجے ہوتے ہیں، وہاں ہماری فلمیں خوب چلتی ہیں۔ پنڈال میں بھی یہ کمیٹیاں فلم دکھا دیتی ہیں۔ پورے دن پوجا چلتی ہے اوررات کو فلم کا شو رکھ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح سے بوڈو فلموں کو زندہ رکھا جا رہا ہے۔
یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ بوڈو علاقے کے لوگوں میں وہ جرأت یا خوداعتمادی نہیں کہ وہ شہر آئیں اور سینما دیکھیں، اس لئے آپ ان کے دروازے تک سینما لے جاتےہیں؟
جرأت یا خوداعتمادی کی وجہ سے سینما نہ دیکھ پانا، یہ اہم وجہ نہیں ہے۔اصل وجہ ان کی پہنچ ہی سینما تک نہیں ہے۔ کوئی 20 سے 30 کیلومیٹر چلکرفلم دیکھنے نہیں جائےگا۔
دہلی میں آپ سینما دیکھنے 20 کیلومیٹر چلےجاتے ہو کیونکہ وہاں آنے-جانے کے ذرائع ہیں، لیکن گاؤں میں ایسا نہیں ہے۔ گاؤں میں یہ سہولت نہیں کہ لوگ اپنا سب کام چھوڑکر سینما دیکھنے شہر چلے جائیں۔ خوداعتمادی کا نہ ہونا دوسری وجہ ہے۔ ملٹی پلیکس نیا کلچر ہے۔ گاؤں کے لوگ اس سے آشنا نہیں ہیں۔ اس لئے ہم سینما ان کے دروازے تک پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس پورے عمل میں کس طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے؟
چھوٹے سینما گھر بنانے کی مانگ کئی سالوں سے حکومت سے کی جا رہی ہے۔ صرف بوڈو علاقے میں ہی نہیں، یہ مانگ پورے آسام کی ہے۔ آسام میں انتہاپسندی جب انتہاپر تھی تو کافی سارے سینما گھر ڈر کی وجہ بند ہو گئے۔ ہندی سینما دیکھنے کی ممانعت تھی۔ اور اگر آپ ہندی فلم نہیں دکھاتے تو آسامی زبان کی فلمیں اکا-دکا ہی آتی ہیں۔ ان ایک-دو فلموں کے دم پر آپ سینما گھر نہیں چلا سکتے۔
اس کے علاوہ 90 کی دہائی میں ٹی وی آ گیا تھا، سیٹلائٹ آ گیا تھا، انٹرنیٹ نے بھی دستک دے دی تھی۔ اس وجہ سےبھی لوگوں نے سینما گھر میں جانا بند کر دیا۔ سینما گھر بند ہونے لگے تو کسی نے اس میں لکڑی کا مِل بنا لیا، کسی نےنرسنگ ہوم کھول لیا تو کسی نے گیسٹ ہاؤس بنا دیا۔ ہرجگہ یہی دقت ہے اور جگہ جگہ چھوٹے سینما گھر بنائے جانے کی مانگ چل رہی ہے۔ حکومت اگر اس جانب دھیان دیتی تو کافی مدد مل جاتی۔
ابھی ہم کھلے میدان میں فلمیں دکھاتے ہیں۔ بارش کے وقت بہت تکلیف ہوتی ہے۔اس علاقے کے لوگوں کو فلمیں دیکھنا پسند ہے، اس لئے اس نظام میں بھی وہ فلمیں دیکھ رہے ہیں۔
بوڈو علاقے میں فلم دکھائے جانے کی اطلاع کے لئے لگا پوسٹر(فوٹو بہ شکریہ:فیس بک)
آپ کی فیملی بھی انتہاپسندی سے متاثر رہی ہے، جس کو آپ نے اپنی فلم میں بھی دکھایا ہے۔ آپ کی فیملی کے ساتھ کیا ہوا تھا؟
جولے :دی سیڈ میں میری اپنی بھی کہانی جڑی ہوئی ہے۔ اس دوران یہاں کی تقریباً تمام فیملیوں کو اس طرح کی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ دسمبر 2003 میں میرا بھائی غائب ہو گیا تھا اور آج تک ہمیں اس کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں چل سکا۔ میرےوالدین اب نہیں رہے، لیکن جب تک رہے اس کا انتظار کرتے رہے۔ میری بہن کے دو بیٹے بھی اس دوران مارے گئے۔ یہ واقعہ میرے بھائی کے غائب ہونے کے ایک-دو سال پہلے کا ہے۔
میں نے اپنے والدین کی ٹیس کو دیکھا ہے۔ اسی تکلیف سے علاقے کی دیگر فیملی بھی گزری ہیں۔ میں ہمیشہ چاہتی تھی کہ ان کی کہانی کو دوسرے لوگوں تک پہنچاؤں۔ اس کے لئے فلم سے اچھا ذریعہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ آسام میں نالباڑی ایک ضلع ہے۔ اس وقت جب اُلفا (انتہا پسند تنظیم، دی یونائٹیڈ لبریشن فرنٹ آف آسام)اپنی انتہا پر تھی تو وہاں بہت سارے لڑکے مارے گئے۔ابھی وہاں پر ایک پوری نسل ہی نہیں ہے۔
وہاں آپ کو یا تو بہت بوڑھے لوگ ملیںگے یا پھر 15-16 سال کے بچے۔ وہاں کی ایک پوری نسل ہی ختم کر دی گئی۔ مجھ سے بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ اب بس کرو …کتنا انتہاپسندی کی بات کروگے،لیکن بس کیسے کریں۔ یہ تو اتنا پرانا معاملہ بھی نہیں ہے۔ ہم تو ابھی بھی ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کی بات کرتے ہیں۔
فلم جولے : دی سیڈ کی شوٹنگ کے دوران رجنی بسومتاری(فوٹو بہ شکریہ : فیس بک)
یہ تو ابھی 20 سے 30 سال پرانی ہی کہانی ہے۔ اس کو درج کیا جانا چاہیے،کیونکہ بعد میں بھول جائیںگے۔ اس میں کس کی غلطی تھی کس کی نہیں، یہ الگ بات ہے،لیکن درج تو ہونا چاہیے۔ میں نے اپنی فلم میں بھی اس کے لئے کسی کو قصور نہیں دیا ہے۔ میں نےدکھایا ہے کہ تشدد سے کیا ہوتا ہے، ایک فیملی… اس کی آنے والی نسلوں اور خاص طور پر عورتوں پر کیا اثر پڑتا ہے۔
تشدد سے عورت سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ آدمی جب مارا جاتا ہے تو پیچھےوہ رہ جاتی ہے۔ اس کے پاس نہ تو کوئی ہنر ہے، نہ کوئی تربیت اور نہ ہی وہ اتنی تعلیم یافتہ ہوتی تھی۔ان حالات میں اس کو گھر چلانا پڑتا ہے اور بچوں کو پالنا پڑتا ہے۔ فلم میں میں نے اسی کی جدو جہد کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔
آپ آسام کے ایک چھوٹے سے قصبے سے ہیں۔ بطور کریئر فلم سازی کے میدان میں کیسے آئیں؟
میں آسام میں سونتپور ضلع کے رنگاپاڑا کی رہنے والی ہوں۔ میرے والد کسان تھے۔ رنگاپاڑا میں پڑھنے کی اتنی سہولت نہیں تھی، اس لئے مجھے وہاں سے باہر نکلناپڑا۔ میرے سب سے بڑے بھائی سول سرونٹ ہیں۔ ان کا ہی خیال تھا کہ میں پڑھنے کےلئے باہر جاؤں۔ سال 1990 میں میں گوہاٹی آ گئی۔ یہاں کےہینڈک گرلس کالج سے آسامی ادب میں پڑھائی کی۔ پانچ سال دہلی آ گئی۔ یہاں کتابوں کی ایڈیٹنگ اور اشاعت کی ٹریننگ لی۔گوہاٹی میں رہنے کے دوران ہی میں اخباروں اور رسالوں میں ایک فری لانسرکے طور پر لکھا کرتی تھی۔ کلاس نو میں تھی تبھی میری پہلی مختصر کہانی شائع ہوئی تھی۔
سینما مجھے پسند تھا۔ میری کہانیاں جب چھپنے لگیں تو ٹی وی وغیرہ میں جوکام کرتے تھے، انہوں نے کہا کہ اچھا لکھتی ہیں، ہمارے لئے ٹی وی سریز لکھ سکتی ہیں کیا؟ اس کے بعد کچھ کچھ کام ملنے لگا تو سینما کے تئیں لگاؤ اور بڑھ گیا۔ پھرسوچا کہ اگر لوگوں کو میری کہانیاں پسند آ رہی ہیں تو کیوں نہ میں خود فلم بناؤں۔
بوڈو علاقے کے ایک گاؤں میں جولے دی سیڈ فلم دیکھنے کے لئے پنڈال میں جمع بھیڑ(فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)
سال 1995 میں دہلی آکر میں نے اسکرپٹ لکھناشروع کی۔ 2004 میں آسامی زبان کی فلم ‘انوراگ ‘کی اسکرپٹ لکھی۔ پروڈیوسر نہیں ملا تو خودہی پروڈیوس بھی کیا۔میں نے اس کی ہدایت کاری نہیں کی تھی۔ دوسری فلم آسامی زبان میں ایک فیملی ڈراما تھی، جس کا نام ‘راگ ‘ تھا۔ ایک ہدایت کار کے طور پر ‘جولے : دی سیڈ’ میری دوسری فلم ہے۔یہ ایک سماجی وسیاسی فلم ہے۔
آپ علاقائی سینما سے جڑی ہوئی ہیں۔ آپ کی فلم ‘انوراگ ‘ کو سات آسام ریاستی فلم انعام ملے تھے۔ آسامی سینما کو حکومت سی کتنی مدد مل پاتی ہے؟
حکومت سے مدد ملنے کی بات کریں تو جو تفریحی ٹیکس ہوتا ہے، اس میں تھوڑی راحت مل جاتی ہے۔ ناظرین سے جو تفریحی ٹیکس لیا جاتا ہے، وہ فلمساز کو مل جاتا ہے۔ آسام حکومت نے 2014 میں آئی میری فلم ‘راگ ‘ کے لئے 60 فیصد فنڈ کیاتھا۔ ‘جولے : دی سیڈ’کو میں نے خودہی پروڈیوس کیا۔
فلم ‘راگ ‘پی وی آر کے تعاون سے آسام سے باہر بھی ملک کے کچھ چنندہ سینما گھروں میں ریلیز ہوئی تھی۔ حالانکہ ایک ہی ہفتے بعد اس کو سینما گھروں سےاتار دیا گیا تھا، کیونکہ کسی بڑے بینر کی فلم آ گئی تھی؟
ہاں، یش راج بینر کی’غنڈے ‘آ گئی تھی۔ بڑے بینر فلم ڈسٹری بیوٹر سے بولتےہیں کہ ہمیں چار شو نہیں دوگے تو فلم کا ایک بھی شو نہیں ملےگا۔ اس لئے ہماری فلمیں سینما گھروں میں ٹک نہیں پاتی ہیں۔ کیونکہ ہماری فلموں سے ان کو کوئی خاص فائدہ تو نہیں ہوتا اور ان پر ایسا کوئی اخلاقی دباؤ بھی نہیں ہوتا، ان کو تو بس پیسہ کمانے سے مطلب ہوتا ہے۔
ہر ریاست کے سینما گھروں میں ایک شو علاقائی سینما کے لئے طے ہونا چاہیے،لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے۔ ہم لوگ اس کی مانگ بھی کرتے رہتے ہیں۔ علاقائی سینما کاسب سے بڑا چیلنج بھی یہی ہوتا ہے۔ دوسرے چیلنج کی بات کریں تو جتنی تعداد میں سینما گھر ہونے چاہیے، اتنےنہیں ہیں۔ سنگل اسکرین سینما گھر بہت ہی ضروری ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت کو فلموں کےلئے اور زیادہ فنڈنگ کرنی چاہیے۔
آپ نے پرینکا چوپڑا کی فلم ‘میری کام ‘ میں ان کی ماں کا کردار نبھایاتھا۔ یہ فلم کیسے ملی تھی؟
اس فلم کی کاسٹنگ ڈائریکٹر شروتی مہاجن نے کسی طرح مجھے فیس بک پر دیکھاتھا۔ انہوں نے مجھ سے فیس بک پر ہی رابطہ کیا تھا۔ اس وقت میری اپنی فلم کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ تقریباً ایک مہینے بعد وہ پیغام میں دیکھ پائی تھی۔ پھر میں نے ان کو جواب دیا تھا کہ اب تو کافی دیر ہو گئی ہے، لیکن ابھی اگر فلم کی کاسٹنگ نہیں ہوئی ہو تو میں یہ رول کرنے کے لئے تیار ہوں۔ پھر دہلی سےہی دو راؤنڈ میں میرا آڈیشن ہوا اور مجھے یہ رول مل گیا۔
انتہاپسندی نے نارتھ ایسٹ کی ریاستوں سمیت آسام کو کافی متاثر کیا ہے۔ آج کی بات کریں تو کیا یہ حل ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے یا حالات اورخراب ہیں؟
یہ مدعا حل ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایسا اس لئے کہہ رہی ہوں کیونکہ تشددکے واقعات کافی کم ہو گئے ہیں۔ ابھی کافی کھلا پن آ گیا ہے۔ لوگ باہر آنے-جانے لگے ہیں۔ اب لوگ اپنی زندگی کو لےکر الگ نظریہ رکھ رہے ہیں۔ لوگوں کو یہ پتہ چل گیا کہ تشدد سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔
جولے :دی سیڈ کی شوٹنگ کے دوران فلم کا کرو(فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)
حالانکہ ابھی کچھ نئی دقتیں شروع ہو گئی ہیں، اس سے مجھے ڈر لگتا ہے۔ نئی حکومت آنے کے بعد ہمارا جو تنوع ہے، اس کے تئیں احترام کم ہو رہا ہے۔ ابھی جو کچھ چل رہا ہے اس کو ہوا تو اقتدار ہی دیتی ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اپنی زبان، تہذیب اور مذہب تھوپنا نہیں چاہیے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ ایک تہذیب، ایک زبان سے یکجہتی قائم ہوگی، لیکن ایسا کرنے سے لوگوں میں علاحدگی کاجذبہ ہی بڑھےگا۔
ایسا نہ ہو کہ کچھ سال پہلے یہاں جو ہوا تھا، ویسے ہی حالات پھر پیدا ہوجائیں۔ اس لئے ہمیں محتاط رہنا چاہیے۔اصل مدعوں سے دھیان بھٹکاکر ایک دوسرے کولڑانے کی جو ذہنیت ہے، لوگوں کو اس کو سمجھنا چاہیے۔ یہاں کے لوگوں کو بھی میں یہی کہنا چاہتی ہوں کہ کچھ بھی ہو لیکن تشدد کاراستہ نہیں ہونا چاہیے۔
آسام میں این آر سی کی آخری فہرست جاری ہوئی ہے۔ اس میں 19 لاکھ سے زیادہ لوگ باہر ہو گئے ہیں۔ اس پوری قواعدپر کیا سوچتی ہیں۔
آسام این آر سی کی جو کارروائی ہے، وہ ایک ناکام کارروائی ہے۔ ٹیکس پیئرس کے کروڑوں روپے اس میں خرچ کر دیے گئے۔ اس کو لےکر کہنے کے لئے میرے پاس زیادہ کچھ نہیں ہے۔
‘جولے: دی سیڈ’بوڈو زبان کی فلم ہے۔ بوڈولینڈ کو آسام سے الگ کرنے کی مانگ اکثر اٹھتی ہے۔ اس پر کیا کہنا چاہیںگی؟
میرے حساب سے بوڈولینڈ کا الگ ہونا آسام کے لئے بھی بری بات نہیں اور بوڈوکمیونٹی کے لوگوں کے لئے تو بہت ہی اچھا ہے۔ بوڈو لوگوں کو بوڈولینڈ ملنے سے وہ ابھرکر سامنے آئیںگے۔ ایک مثال سےمیں سمجھانا چاہوںگی۔ آسام کے باہر کوئی پروگرام ہوتا ہے، جیسے دہلی میں یوم آزادی یا یوم جمہوریہ کی تقریب ہو تو اس میں آسام کے رقص کے نام پر بیہو اور کچھ دیگر مشہوررقص کو ہی بھیجا جاتا ہے۔
آسام کی تہذیب میں بوڈو کی جو تہذیب ہے، اس کو نمائش کے لئے کبھی نہیں بھیجا جاتا۔ اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کیونکہ آدیواسیوں کی جو تہذیب ہے، اس کو ہمیشہ کمتر سمجھا جاتا ہے۔ کہیں فیشن شو ہوتا ہے اور اس میں آسام کی نمائش کی بات ہو تو چادر میکھلا (آسام کا ایک روایتی پوشاک) ہی بھیجتے جاتے ہیں۔ اس کے لئے آپ ان کو (اقتدار ) قصوروار نہیں ٹھہرا سکتے ہیں، کیونکہ پچھلے تمام سالوں سے اسی آرائش کو اہم مانا جاتا رہا ہے۔ بوڈو لوگوں کی تعداد کم نہیں ہے۔ تقریباً 25 لاکھ کی آبادی ہے۔ اپنی زندگی جینے اور اپنی شناخت قائم کرنے کا ان کو بھی حق ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہندوستانی آئین کے تحت ان کو ایک الگ ریاست ملنا کوئی بری بات نہیں ہے۔