حال ہی میں ہندوستانی خارجی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسز ونگ یعنی راء سے وابستہ ایک آفیسر واپالا بالا چندرن نے اپنی کتاب میں دعویٰ کیا ہے کہ 1988میں جنرل ضیا نے محسوس کیا تھاکہ ہوشربا دفاعی اخراجات دونوں ممالک کی اقتصادیات پر ایک بوجھ ہیں اور اس کی وجہ سے وہ اپنی استعداد کے مطابق ترقی نہیں کر پا رہے ہیں۔اس لیے انہوں نے اردن کے اس وقت کے ولی عہد شہزادہ حسن سے ہندوستانی وزیر اعظم راجیو گاندھی کو پیغام پہنچانے اور ثالثی کی درخواست کی۔
دیکھا گیا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان متنازعہ امور پر مذاکرات کا سلسلہ جوں ہی مثبت موڑ لینا شروع کردیتا ہے، تو بد قسمتی سے کچھ ایسے حالات رونما ہوتے ہیں کہ پہنچے وہیں چلے تھے جہاں سے،کے مصداق، کشیدگی کا ایک نیا دور شروع ہو جاتا ہے۔
ایک نئی صبح کی آس لیے دونوں ممالک خاص طور پر کشمیری عوام ایک بار پھر شام غم کے چھٹنے کے انتطار میں اپنی قسمت کو کوس رہے ہوتے ہیں۔
ابھی حال ہی میں ہندوستانی خارجی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسز ونگ یعنی راء سے وابستہ ایک آفیسر واپالا بالا چندرن نے اپنی کتاب انٹلی جنس اوور سنچریز میں انکشاف کیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان فوجی آمر صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں کئی معاملات پر اہم پیش رفت ہو گئی تھی۔
اس کے علاوہ انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ کس طرح ہندوستانی لابنگ کی وجہ سے امریکی انتظامیہ پاکستان کو دشمن ممالک کی صف میں ڈالنے کی سعی کر رہی تھی اور اس کو باز رکھنے کے لیے جب وزیر اعظم نواز شریف کا مشن فیل ہوگیا، تو بے نظیر بھٹو، جو ایک پرائیوٹ دورے پر واشنگٹن میں تھی، نے ہندوستان کی اس کوشش کو ناکام بنادیا۔
انڈین پولیس سروس سے وابستہ بالا چندرن 18سال تک راء میں مختلف خدمات انجام دیتے رہے اور 1987سے 1990تک اس کے سربراہ اے کے ورما کے چیف آف اسٹاف تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ جنرل ضیا کی ایما پر پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل اور ورما کے درمیان کئی دور کے مذاکرات ہوئے، جن میں اعتماد سازی کے کئی پہلوں پر اتفاق رائے پایا گیا۔284 صفحات کی اس کتاب میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 1988میں جنرل ضیا نے محسوس کیا تھاکہ ہوشربا دفاعی اخراجات دونوں ممالک کی اقتصادیات پر ایک بوجھ ہیں اور اس کی وجہ سے وہ اپنی استعداد کے مطابق ترقی نہیں کر پا رہے ہیں۔
اس لیے انہوں نے اردن کے اس وقت کے ولی عہد شہزادہ حسن سے ہندوستانی وزیر اعظم راجیو گاندھی کو پیغام پہنچانے اور ثالثی کی درخواست کی۔ شہزادہ حسن کی شادی پاکستان کے پہلے خارجہ سکریٹری محمد اکرام اللہ کی صاحبزادی ثروت اکرام اللہ کے ساتھ ہوئی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اکرام اللہ ہندوستان کے سابق نائب صدر جسٹس ہدایت اللہ کے برادر اکبر تھے۔ ہدایت اللہ ہندوستان کے 11ویں چیف جسٹس بھی رہے ہیں۔
خفیہ پس پردہ مذاکرات کے لیے جب صدر ضیا نے جنرل حمید گل کا انتخاب کیا، توہندوستان میں اس پر تذبذب کی کیفیت تھی، کیونکہ گل کوہندوستان کے تئیں نہایت ہی سخت گیر اور پنجاب سے لےکر کشمیر تک ہونے والی شورش کی پشت پناہی کے لیے مورد الزام ٹھہرایا جاتا تھا۔ مگر بقول بالا چندرن، جو ان دنوں ورما کے اسٹاف میں شامل تھے، گل نے پہلی ہی ملاقات میں ہندوستانی وفد کو اپنا گرویدہ بنادیا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنا موقف بغیرکسی لاگ و لپیٹ کے مذاکرات کی میز پر رکھا اور سفارتی زبان کے بجائے کھرے لفظوں میں بتایا کہ پاکستان ہی نہیں بلکہ جنوبی ایشیا کے اکثر ممالک ہندوستان کے رقبہ اور اس کے رویہ سے خائف ہیں اور سری لنکا کی مثا ل دےکر کہا کہ ہندوستان کا رویہ متکبرانہ ہے۔ ان دنوں ہندوستان سری لنکا میں تامل علیحدگی کو براہ راست مدد دے رہا تھا۔
انہوں نے ورما کو کہا کہ ہندوستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ خطے میں اعتماد پیدا کرے، ورنہ پاکستان اور دیگر ممالک کو بھی اپنے ترکش کے تیر آزمانے کا حق حاصل ہے۔ بالا چندرن کا کہنا ہے کہ ورما کی واپسی پر جب اس گفتگو کا تجزیہ کیا گیا تو نتیجہ اخذ کیا گیا کہ اس چینل کے ذریعے دونوں ممالک اہم پیش رفت حاصل کرسکیں گے، کیونکہ دونوں مذاکرات کار بے جھجھک ایک دوسرے کے ممالک میں ہونے والی کارروائیوں کوتسلیم کررہے تھے۔
اس کے علاوہ ان کو بند کروانے کے عوض اعتماد سازی کے اقدامات کی بھی نشاندہی کررہے تھے۔ اس لیے نئی دہلی میں طے ہوا کہ اس سعی کو جاری رکھنا چاہیے، ورنہ سفارتی سطح پر اس طرح کی پیش رفت حاصل کرنے میں ایک عمر درکار ہوتی ہے۔
کئی میٹنگوں کے بعد خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان، جو صرف سربراہان مملکت کو ہی رپورٹ کر رہے تھے، متنازعہ امورکو سلجھانے کے لیے ایک فریم ورک ترتیب دینے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ اس سے قبل کہ یہ عمل آگے بڑھ کر خفیہ مذاکرات سے سفارتی میز تک پہنچ جاتا کہ صدر ضیاء الحق ہوائی حادثہ میں ہلاک ہوگئے۔
دہلی میں امریکی سفیر جان گنتھر ڈین نے جب امریکی محکمہ خارجہ کو بتایا کہ ان کے تجزیہ اور اطلاعات کے مطابق اس ہلاکت میں مشترکہ طور پر ہندوستان، اسرائیل، کے جی بی اور افغان سیکرٹ سروس خاد کا ہاتھ ہے، تو اس کو فوراً واشنگٹن واپس بلایا گیا۔
مئی 1989میں گل کو نئی حکومت نے آئی ایس آئی کی ذمہ داریوں سے فارغ کرکے ملتان میں اسٹرائک کور کا کمانڈر مقرر کردیا۔ادھر ہندوستان میں دسمبر 1989میں راجیو گاندھی انتخابات ہار گئے اور اگلے سال تامل انتہا پسندوں نے ان کا قتل کردیا۔
ان دنوں ہندوستان میں پاکستان کے سفیر نیاز اے نائیک ان خفیہ مذاکرات کے واحد گواہ تھے۔ بعد میں 1999 میں لاہور میں جب دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم نے مذاکرات کا احیاء کیا تو پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے نائیک کو ہی واجپائی کے مذاکرات کار آرکے مشرا کے ساتھ پس پردہ مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لیے منتخب کیا۔ان مذاکرات کا حشر بھی وہی ہوا۔
اس کے چند ما ہ بعد ہی دونوں ممالک نے کرگل کے بلند و بالا پہاڑوں پر جنگ لڑکر ان کو دفن کردیا۔ 2009میں اسلام آباد میں نائیک کی پراسرار حالات میں موت ہوئی۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ کے مطابق ہلاکت سے قبل ان کا ٹارچر کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے ان کی پسلیاں اور جبڑا فریکچر ہو گیا تھا۔روایتی طور پر پاکستان میں دیگر ہائی پروفائل ہلاکتوں کی طرح اس پر بھی تفتیش آگے بڑھ نہیں پائی۔
سابق ہندوستانی خفیہ افسر کے مطابق اپریل 1993میں ہندوستان کی شدید لابنگ کی وجہ سے امریکی محکمہ خارجہ اس نتیجہ پر پہنچ گیا تھا کہ پاکستان کو لیبیا، شمالی کوریا جیسے ممالک کی صف میں رکھا جائے۔ ہندوستان کا اصرار تھا کہ پاکستان کو دہشت گرد ملک ڈیکلیر کیا جائے۔ہندوستان کے سفارت کاروں جن میں ڈاکٹر عابد حسین اور سدھارتھ شنکر رے قابل ذکر ہیں، نے وزیرا عظم نرسمہا راؤ کی ایما پر اس پر خاصہ کام کیا تھا۔ پاکستان میں اس وقت نواز شریف بر سر اقتدار تھے۔ انہوں نے نثار علی خان، جو بعد میں وزیر داخلہ بنے، کو خصوصی نمائندے کے طور پر واشنگٹن میں معاملات کو سلجھانے کے لیے بھیجا۔
ا ن کا دوسرا بریف تھا کہ نواز شریف اس وقت صدر غلام اسحاق خان سے دوبدو کرنا چاہتے تھے، اور اس کے لیے ان کو امریکی انتظامیہ کی مدد درکار تھی۔ 7اپریل 1993کو خان کی ملاقات امریکی وزیر خارجہ وارن کرسٹوفر کے ساتھ ہوئی اور انہوں نے کرسٹوفر کو ایک ریشمی قالین تحفہ میں دے دیا۔ گو کہ عوامی طور پر خان نے اس ملاقات کو مفید بتایا، مگر بالا چندر کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر خارجہ نے خان کو ایسا جھڑک دیا، جس کی مثال نہیں ملتی ہے اور خبردار کیا کہ عنقریب ہی پاکستان کو کیوبا، لیبیا، عراق، شمالی کوریا اور ایران کے ساتھ نتھی کرکے اس کے خلاف اقدامات کیے جائیں گے۔
بالا چندرن کے مطابق خان کے مشن کی ناکامی کے بعد ہندوستانی سفارت کاری کو پر لگ گئے تھے۔ مگر ان ہی دنوں پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ ایک پرائیوٹ دورے پر واشنگٹن آگئی تھیں اور ان کو اس کی سن گن لگ چکی تھی۔ اس نے مختلف سطحوں پر کلنٹن انتظامیہ کے کلیدی افسران کے ساتھ میٹنگیں کی اور ان کو خبردار کیا کہ پاکستان کو دشمن ممالک کی صف میں کھڑا کرنا امریکی مفاد میں نہیں ہے۔ اس طرح امریکہ پاکستان میں اپناگڈول اور رہی سہی سا کھ اور اثر و نفوذ کھو دےگا۔
خان جس مشن میں ناکام ہوکر واپس اسلام آباد جا رہے تھے، بے نظیرنے اپنے پرائیوٹ دورے میں ہی وہ کام کر دکھایا۔
سال 1998میں ہندوستان کی ایما پر ایک بار پھر امریکی محکمہ خارجہ کے انسداد دہشت گردی کے کوآرڈینیٹر نے آئی ایس آئی کی طرف سے بین الاقوامی دہشت گردی کی مبینہ پست پناہی کی وجہ سے پاکستان کو دہشت گردی کو مدد دینے والے ممالک کی فہرست میں رکھنے کی سفارش کی، مگر اس کو اس وقت کی وزیر خارجہ میڈلین البرائٹ نے مسترد کردیا۔