بچوں کے لئے کام کرنے والی اقوام متحدہ کی ایجنسی یونیسیف کی رپورٹ کےمطابق، تین ممالک-فلپنس، انڈونیشیا اور ملیشیا میں پانچ سال سے کم عمر کے اوسطاً40 فیصد بچے غذائیت کے شکار ہیں، جبکہ اس معاملے میں عالمی اوسط تین میں سے ایک بچہ غذائیت کا شکار ہے۔
نئی دہلی: جنوب مشرقی ایشیا میں لاکھوں بچے انسٹینٹ نوڈلس جیسے جدید کھان پان کی وجہ سے پتلے یا کم وزن کے رہ جاتے ہیں، جن سے پیٹ تو بھر جاتا ہے لیکن جسم کو ضروری غذا کی فراہمی نہیں ہوتی۔ ماہرین کے مطابق فلپنس، انڈونیشیا اور ملیشیا تیزی سے بڑھ رہی معیشت ہے اور یہاں معیار زندگی بھی اوپر اٹھ رہا ہے۔ ایسے میں بہت سے کام کرنے والےوالدین ہیں جن کے پاس وقت کی کمی ہے۔ بچوں کے لئے کام کرنے والی ایجنسی یونیسیف کی رپورٹ کےمطابق، ان تین ممالک میں پانچ سال سے کم عمر کے اوسطاً 40 فیصد بچے غذائیت کے شکار ہیں، جبکہ اس معاملے میں عالمی اوسط تین میں سےایک بچہ غذائیت کا شکار ہے۔
انڈونیشیا میں صحت عامہ کے ماہر حسیب اللہ تھبرانی نے کہا، ‘والدین کولگتا ہے کہ ان کے بچوں کا پیٹ بھرنا سب سے ضروری چیز ہے۔ وہ مناسب مقدار میں پروٹین، کیلشیم یا فائبرکے استعمال کے بارے میں واقعی نہیں سوچتے۔ ‘رپورٹ کے مطابق، انڈونیشیا میں گزشتہ سال دو کروڑ 44 لاکھ بچے، فلپنس میں ایک کروڑ 10 لاکھ اور ملیشیا میں 26 لاکھ بچے پانچ سال سے کم عمر کے تھے۔یونیسیف کی ایشیا ئی نیوٹریشنسٹ موینی موٹنگا نے اس مسئلے کی بنیاد میں فیملی کا کفایتی، آسانی سے دستیاب جدید کھانے کے لئے روایتی غذا کو چھوڑنا پایا۔انہوں نے کہا، ‘نوڈلس بنانا آسان ہے۔ یہ سستے ہوتے ہیں۔ نوڈلس ایک متوازن غذا کے آسان اور فوری بدل بن جاتے ہیں۔ ‘
موٹنگا نے خبر رساں ایجنسی
اے ایف پی سے بات چیت میں میں کہا، نوڈل کاایک پیکٹ منیلا (فلپنس کی راجدھانی)میں23 امریکی سینٹ کی کم قیمت میں مل جاتا ہے، جبکہ ان میں آئرن جیسے ضروری مقوی مادوں کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔ان میں پروٹین بھی نہیں ہوتا، وہیں زیادہ مقدارمیں چربی اور نمک پایا جاتا ہے۔ورلڈ انسٹنٹ نوڈلس تنظیم کی رپورٹ کے مطابق، چین کے بعد انڈونیشیا دوسراایسا ملک ہے، جہاں نوڈلس کی سب سے زیادہ کھپت ہوتی ہیں۔ سال 2018 میں یہاں نوڈلس کے 12.5 سرونگس (کھانےکا ایک بار میں پروسا حصہ)پروسی گئیں۔ یہ اعداد و شمار ہندوستان اور جاپان میں کھپت ہونے والے کل نوڈلس کے دو گنے سے زیادہ ہے۔
یونیسیف کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دیہی آبادی کے شہروں میں نوکری کی وجہ سے نقل مکانی کرنے سے کھانے میں غذائیت سے بھرپور پھل، سبزیاں، انڈا، دودھ مصنوعات،مچھلی اور گوشت وغیرہ غائب ہو چکے ہیں۔ حالانکہ ورلڈ بینک کے مطابق، فلپنس، انڈونیشیا، ملیشیادرمیانی آمدنی والا طبقہ کاملک سمجھا جاتا ہے، لیکن ان ممالک کے لاکھوں لوگ خاطر خواہ پیسہ کمانے کےلئے جدو جہد کرتے ہیں۔ملیشیا میں صحت کے ماہر ٹی جئے بالان نے کہا، ‘غریبی اہم مدعا ہے۔ ‘ انہوں نے کہا، ‘ایسے گھر جہاں میاں-بیوی دونوں کماتے ہیں، وہاں جلد تیار ہونے والےکھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ملیشیا کی کم آمدنی والی فیملی کھانے کے لئے ریڈی میڈنوڈلس، سویٹ پوٹیٹوز اور سویا مبنی مصنوعات پر منحصر رہتے ہیں۔ ‘
ماہرین کے مطابق، ان ممالک میں چینی سے بھرپور بسکٹ، مشروبات اور فاسٹ فوڈکی وجہ سے بھی مسئلے بڑھ رہےہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جنوب-مشرقی ایشیا میں لوگوں کی روزمرہ کی زندگی اور صحت پر انسٹنٹ نوڈلس کے پڑنے والے اثر کو فوراً کم کرنے کےلئے سرکاری مداخلت کی ضرورت پڑےگی۔ صحت عامہ کے ماہر حسیب اللہ تھبرانی کہتے ہیں،’نوڈلس کی تشہیر اور اشتہار بےحد جارحانہ ہیں اور بہت بڑےپیمانے پر ان کی تقسیم ہوتی ہے۔ انسٹنٹ نوڈلس ہرکہیں یہاں تک کہ دوردراز علاقوں میں بھی دستیاب ہیں۔’
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)