دی وائر کو دیے ایک انٹرویو میں اندرون منی پور سے نو منتخب کانگریس ایم پی بِمول اکوئیجام نے ریاست میں جاری تشدد کے لیے براہ راست وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور بی جے پی کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے کہا کہ یہ تشدد سیاسی فائدے کے لیے کی گئی بڑی سازش کا حصہ ہے۔
نئی دہلی: دی وائر کو دیے گئے ایک بے باک انٹرویو میں اندرون منی پور سے نو منتخب کانگریس ایم پی بِمول اکوئیجام نے ریاست میں جاری تشدد کے لیے براہ راست وزیر اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ امت شاہ اور بی جے پی کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
اکوئیجام نے لاگ لپیٹ کے بغیر شمال— مشرقی ریاست میں 500 دنوں سے زائدسے جاری بدامنی کو بڑھاوادینے والی پیچیدہ پیش رفتوں کا تجزیہ کیا۔انہوں نے کہا، ‘یہ تشدد بی جے پی اور پارٹی کی قیادت والی ہندوستانی حکومت کے معاشرے میں پولرائزیشن کا نتیجہ ہے۔ اور وہ مشتبہ طور پر اپنے آپ کومیتیئی لوگوں کے محافظ کے طور پر پیش کر رہے ہیں، جبکہ کُکی لوگوں کے درمیان بھی یہی جذبات بھڑکا رہے ہیں۔’
اکوئیجام کے مطابق، یہ تشدد سیاسی فائدے کے لیے نسلی کشیدگی کوبھڑکانے کی ایک بڑی سازش کا حصہ ہے۔
انہوں نے کہا، ‘میرا اپنا تجزیہ ہے کہ بی جے پی نے کُکی مسلح گروپوں کو انتخابات کے دوران ان کی حمایت کے عوض ایک علیحدہ انتظامیہ یا ریاست دینے کا وعدہ کیا تھا۔ یہ منی پور کے نظریہ کو تباہ کرنے کی ایک کوشش ہے، منی پور کے سیاسی مسلح گروپوں کی نمائندگی والے تاریخی طور پر وابستہ سیاسی مسائل کا مقابلہ کرنے کی کوشش ہے۔ درحقیقت اب ہم جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ ان گروپوں کو بے اثر کرنے کی کوشش ہے، جو حکومت کے ساتھ مذاکرات سے مسلسل انکار کر رہے ہیں۔‘
اکوئیجام نے تشدد کے پس پردہ ایک اور بھی گہری جغرافیائی سیاسی حکمت عملی کی جانب اشارہ کیا – جو ریاست کی اندرونی سیاست سے باہر تک پھیلی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘میں نے پہلے دن سے محسوس کیا ہے کہ اس بحران کی جیو اسٹریٹجک جہت ہے۔ کُکی مسلح گروہوں کا استعمال بنگلہ دیش اور میانمار میں ہندوستانی ریاست کی جانب سےاثر و رسوخ والے علاقہ کے طور پر کیاجا رہا ہے، جو پہلے ہی چینی اثر و رسوخ والے علاقے ہیں۔ اگر ہندوستان خلیج بنگال کے قریب بفر زون قائم کرسکتا ہے تو اس سے ملک کو اس خطے پر اپنا کنٹرول قائم کرنے میں آسانی ہوگی۔‘
جیسا کہ کئی مصنفین نے نشاندہی کی ہے، ان کُکی گروپوں کو ہندوستانی ریاست کی طرف سے ناگا مسلح گروپوں اور بعد میں میتیئی گروپوں کا مقابلہ کرنے کے لیے طویل عرصے سے حمایت حاصل رہی ہے۔ یہ اس وسیع تر جغرافیائی سیاسی حکمت عملی میں بالکل فٹ بیٹھتا ہے جسے میں ہمیشہ سے سمجھاتا رہا ہوں۔‘
ایک نئی تقسیم؟
اکوئیجام نے ریاست میں جاری تشدد کا موازنہ تقسیم سے بھی کیا۔ دی وائر نے پوچھا، ‘کیا آپ کو لگتا ہے کہ وہ الگ ملک بنانا چاہتے ہیں؟’ اس کے جواب میں اکوئیجام نے کہا کہ اس کے لیے دباؤ ڈالنے والے کچھ عناصرموجود ہیں، لیکن منی پور کے مستقبل کو لے کر تنازعہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘یہ سب ایک اسکرپٹ کا حصہ ہے۔ بس خبریں دیکھیں – کہانی کبھی نہیں بدلتی۔ کیا آپ نے کبھی کُکی ایم ایل اے کو امن و امان کی بات کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ میں نے نہیں دیکھا۔ لیکن امن وامان کی اپیل کرنے کے بجائے ان سیاستدانوں نے 3 مئی (2023) کو تشدد پھوٹنے کے چند دن بعد ہی ایک علیحدہ انتظامیہ کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔ یہ مسلم لیگ کے ڈائریکٹ ایکشن ڈے کی طرح ہے جس نے 1946 میں تشدد کا آغاز کیا تھا۔‘
اکوئیجام کا خیال ہے کہ سیاسی جوڑ توڑ کی ذمہ داری اعلیٰ سطح تک جاتی ہے۔ انہوں نے 31 مئی 2023 کو لیے گئے ایک اہم فیصلے کی طرف اشارہ کیا، جب منی پور حکومت کے سکیورٹی مشیر کلدیپ سنگھ کو ریاست میں فوج اور پولیس دونوں کی نگرانی کرنے والے متحدہ کمانڈ کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا ۔
اکوئیجام کے مطابق، یہ اقدام منی پور کے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کو کنٹرول سے محروم کرنے کے لیے کیا گیا تھا، جبکہ اس تشدد کے ذمہ دارفرد کے طور پرانہی کو پیش کیا—مودی اور شاہ کو کسی بھی تنقید سے بچانے کے لیے، خاص طور پر لوک سبھا کے انتخابات سے پہلے انہیں قربانی کا بکرا بنا یا گیا۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 355 کے مبینہ استعمال کے حوالے سے بھرم پھیلا کر اس قدم کو چھپایا گیا ہے۔ واضح رہے کہ آرٹیکل 355 ریاستوں کو ‘بیرونی جارحیت اور اندرونی خلفشار’ سے بچانے کے لیے مرکزی حکومت کے فرض سے متعلق ہے۔
انہوں نے کہا، ‘اس قدم کے پیچھے امت شاہ اور نریندر مودی تھے۔ اگر بیرین سنگھ نے کمان سنبھال لی ہوتی، تو ان کی حکومت اس بحران کی مکمل طور پر ذمہ دار ہوتی اور حکومت ہند کو آرٹیکل 355 میں مذکور فرض کو انجام دینے کے لیے آرٹیکل 352 یا 356 کو قانونی طور پر استعمال کرنا پڑتا۔‘
انہوں نے آئینی دفعات کا حوالہ دیا جو مرکزی حکومت کو ریاست سے کنٹرول حاصل کرنے کی اجازت دیتی ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 352 اور آرٹیکل 356 ہنگامی دفعات اور ریاستوں پر مرکزی حکومت کے کنٹرول سے متعلق ہے۔
قومی ایمرجنسی سے نمٹنے والے آرٹیکل 352 کے تحت صدر جمہوریہ جنگ، بیرونی جارحیت یا مسلح بغاوت کے دوران ایمرجنسی کا اعلان کر سکتے ہیں، شہریوں کے حقوق معطل کر سکتے ہیں اور مرکزی حکومت کو ریاستوں پر زیادہ اختیارات دے سکتے ہیں۔ اس کے لیے ایک ماہ کے اندر پارلیامنٹ کی منظوری کی ضرورت ہوتی ہے۔
آرٹیکل 356 صدر راج کی وکالت کرتا ہے۔ اگر کوئی ریاستی حکومت آئین کے مطابق کام کرنے میں ناکام رہتی ہے تو صدرجمہوریہ صدر راج نافذ کر سکتے ہیں۔ ریاستی مقننہ کو معطل یا تحلیل کر دیا جاتا ہے اور مرکزی حکومت اقتدار سنبھالتی ہے، جسے تین سال تک بڑھایا جا سکتا ہے۔
اکوئیجام نے کہا، ‘بیرین سنگھ اس گیم پلان کا حصہ ہیں-وہ منصوبہ جومودی اور شاہ کے پاس ہے – کیونکہ انہوں نے خود کلدیپ کو مقرر کیا اور انہیں متحدہ کمانڈ کا اختیار دیا، تاکہ ان پر کوئی الزام نہ آئے اور وہ اپنی کرسی بچا سکیں۔‘
پوشیدہ حکمت عملی؟
اکوئیجام کے الزامات تشدد تک محدود نہیں ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ منی پور میں تشدد ایک وسیع اسکرپٹ کا حصہ ہے – ایک ایسی حکمت عملی جس پر فرقہ پرست طاقتیں برسوں سے منی پور کے نظریے کو تباہ کرنے اور اسٹریٹجک اور فرقہ وارانہ منصوبوں کو آگے بڑھانے کےلیے برسوں سےعمل پیرا ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘اگر آپ کوئی بھی خبر سنیں، تو کہانی ہمیشہ ایک جیسی ہی ہوگی۔ کوئی بھی امن و امان کی بات نہیں کر رہا اور یہ اتفاق نہیں ہے۔ یہ فرقہ وارانہ عناصر کے ساتھ ملی بھگت سے اقتدار میں رہنے والوں کی طرف سے منصوبہ بند سازش ہے۔ اور منی پور کے لوگ اس کی قیمت چکا رہے ہیں۔‘
وزیراعظم کا دورہ
دی وائر نے اندرون منی پور کے رکن پارلیامنٹ سے یہ بھی پوچھا کہ کیا وزیر اعظم کا دورہ منی پور کے حالات کو بدل سکتا ہے، کیونکہ دونوں فریقوں نے ان کی موجودگی کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے کہاانہیں کیوں نہیں جانا چاہیے؟ لیکن انہیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ فیصلہ کن کارروائی ہو۔ پہلے مسلح افواج کو واضح ہدایات کے ساتھ تعینات کریں کہ وہ مضبوطی اور انصاف سے کام لیں۔ وزیراعظم کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ افسران اپنے اپنے علاقوں میں سکیورٹی کے لیے جوابدہ ہوں گے۔ اس نقطہ نظر سے تشدد منٹوں میں ختم ہو جائے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا،’دوسرا، فرقہ وارانہ خطوط پر کسی بھی مطالبے پر غور نہیں کیا جانا چاہیے، لیکن میں جمہوری شراکت اور سامان اور خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے مقصد سے اصلاحات پر بات کرنے کے لیے تیار ہوں ۔’
تیسرا، تمام بی جے پی ایم ایل اے کو اکٹھا کریں، انہیں ایک ساتھ بٹھائیں اور بات چیت میں شامل کریں۔ اگر یہ اقدامات کیے جائیں تو دو ہفتوں میں امن بحال ہو سکتا ہے۔‘
سیٹلائٹ امیج سے گاؤں دیہات کی تباہی کا پتہ چلتا ہے
دی وائر نے ریاست سےآنے والی سیٹلائٹ امیج اکوئیجام کو دکھائیں، جس میں چوڑا چاند پور میں میتیئی کے مکانات دکھائے گئے ہیں، جنہیں کُکی لوگوں کے ذریعے جلائے جانے کے بعد تباہ کر دیا گیا تھا،اس کے ساتھ ہی فینوم کُکی گاؤں کوبھی دکھایا گیا ہے، جسےمیتیئی برادری کے لوگوں نے جلا دیا تھا۔
اکوئیجام نے جواب دیا،’ایسا ہوا ہوگا، لیکن مجھے بتائیے- یہ کیسے ممکن ہے کہ آسام رائفلز اور منی پور پولیس کی موجودگی کے باوجود چوڑاچاند پور سےمیتیئی گھروں کو پوری طرح سے نیست و نابود کردیا گیا؟ شہر کے قلب (چوڑا چاند پور) میں ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ تشدد شروع میں چوڑا چاند پور اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں ہوا اور پھر امپھال تک پھیل گیا۔میتیئی کے لوگوں کو فوراً چوڑا چاند پور چھوڑنا پڑا، جبکہ کُکی خاندان امپھال میں ہی رہ گئے۔‘
دی وائر نے 29 جولائی 2023 کوبتایا کہ کُکی—جو کے لوگ اب بھی امپھال وادی میں نیو لیمبولین علاقے میں پولیس کی حفاظت میں رہ رہے ہیں ۔ تاہم، ستمبر تک منی پور پولیس اور آسام رائفلز نے انہیں اپنے گھر خالی کرنے اور پہاڑی علاقوں میں منتقل ہونے کا حکم دیا ۔
تشدد کو کور کرنے میں میڈیا کا کردار
منی پور میں جاری تشدد میں کم از کم 237 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اکوئیجام نے دونوں طرف سے ہونے والی ہلاکتوں کو کور کرنے میں میڈیا کے کردار پر مایوسی کا اظہار کیا، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ اموات کو ‘میتیئی’ یا ‘کُکی’ کے طور پر پیش کرنے سے برادریوں کے درمیان تقسیم مزید گہری ہو گئی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘دونوں طرف کے چند لوگوں کی حرکتوں کے لیے پوری کمیونٹی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جانا چاہیے۔’
‘ہم کیوں سنتے ہیں کہ لوگ کُکی یا میتیئی کو نشانہ بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ‘انہوں نے ایسا کیا’ یا ‘انہوں نے ویسا کیا’؟ باقی ہندوستان میں جب فرقہ وارانہ تشدد ہوتا ہے، اگر کوئی مسلمان یا ہندو ملوث ہوتا ہے، تو ہم محتاط رہتے ہیں کہ ان کی حرکت کو ان کی پوری کمیونٹی سے نہ جوڑیں۔ منی پور میں بھی یہی معیار کیوں نہیں اپنایا جا رہا ہے؟‘
ایم پی نے مزید کہا، ‘یہ منصوبہ کا حصہ ہے۔ کُکی کی طرف سے آپ یہی سنتے ہیں کیونکہ وہ فعال طور پراس پر کام کر رہے ہیں۔ لیکن میتیئی نے بھی یہی کیا ہے۔ تاہم، میتیئی کمیونٹی کے اندر، کمیونٹی کی اس طرح کی شیطانیت کے خلاف اختلاف کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ بدقسمتی سے،مجھے لگتا ہے کہ کُکی کے بارے میں ایسا نہیں کہا جا سکتا۔ میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ پوری کمیونٹی کو مورد الزام نہ ٹھہرائیں، اشرافیہ اور ان کی تقسیم کی سیاست کو مورد الزام ٹھہرائیں۔ اس سانحہ کا درد کسی بھی برادری سےاوپر اٹھ کر محسوس کیا جاتا ہے۔‘
دی وائر نے اکوئیجام سے حال ہی میں شائع ہونے والے مضامین کی ایک سیریز پر ان کے ردعمل کے بارے میں پوچھا، جس میں مبینہ طور پر وزیر اعلیٰ بیرین سنگھ کی آواز پر مشتمل آڈیو ریکارڈنگ شامل ہیں۔ ان میں سے ایک ریکارڈنگ میں تشدد میں سرکار کے ذریعے بموں کے استعمال کی بات سنی جا سکتی ہے۔
اکوئیجام نے کہا، ‘میرے لیے یہ ایک معمولی مسئلہ ہے۔ وزیر اعلیٰ اور دہلی میں بیٹھے ان کے آقاؤں کے لیے میرا پیغام سادہ ہے: بیانیہ بدلنا بند کرو اور تشدد کو فوراً بند کریں۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس طرح کا تشدد یوپی یا بہار میں ہونے دیا جاتا؟ بالکل نہیں ، تشدد کوبہت پہلےہی روک دیا گیا ہوتا۔ یہ حکومت فیصلہ کن طور پر کام کرنے میں ناکام رہی ہے کیونکہ انہیں منی پور کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔‘
امن وامان کے امکانات پر تبادلہ خیال
امن و امان کے امکان پر بات کرتے ہوئے اکوئیجام نے کہا، ‘اگر شناخت سے متعلق خدشات کی وجہ سے علیحدہ انتظامیہ یا کوئی خصوصی انتظام کیا جاتا ہے، تو ہندوستان کو ایک اہم مسئلے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ حکومت کو شناخت، خاص طور پربائیکاٹ اور فرقہ وارانہ مطالبات کے خلاف سخت موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے،لیکن گورننس اور منصفانہ تقسیم کے بارے میں جائز خدشات کو نظر انداز کیے بغیر۔ ان مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا، ‘پولیس اور آسام رائفلز کو منی پور میں ہونے والے واقعات پر غیر جانبدارانہ موقف اپنانا چاہیے۔’
اکوئیجام نے مزید کہا، ‘میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ آئی پی ایس آفیسر ہیں یا آرمی جنرل – منی پور پولیس سمیت 60000 سے زیادہ ملازمین ہیں۔ آپ کی نگرانی میں 60000 لوگ اپنے گھروں سے کیسے محروم ہوئے؟ آرمڈ فورسز (خصوصی اختیارات) ایکٹ کے علاوہ، سی آر پی سی کی دفعہ 131 بھی ہے، جو انہیں حکومت کی اجازت کے بغیر بھی کارروائی کرنے کی اجازت دیتی ہے، پھر بھی ان کی موجودگی میں 60000 افراد اپنے گھروں سے محروم ہوئے۔’
منی پور تشدد میں کانگریس کا کردار
جاری تشدد میں ان کی پارٹی کے کردار کے بارے میں پوچھے جانے پر کانگریس کے رکن پارلیامنٹ نے اعتراف کیا کہ ان کی پارٹی کا اس وقت محدود اثر و رسوخ ہے۔
انہوں نے کہا کہ صرف پانچ ایم ایل اے کے ساتھ ‘کانگریس’ کی نمائندگی بہت کم ہے، لیکن ہم اپوزیشن کو مضبوط کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اب، منی پور سے ان اہم مسائل کو اٹھانے کی ایک مضبوط آواز ہے، جبکہ سابقہ ممبران پارلیامنٹ خاموش رہے – اور ایسا ہی کرتے رہے۔ کانگریس نے ہمیں اپنی مایوسیوں کا اظہار کرنے اور اپنے خدشات کو سامنے لانے کا پلیٹ فارم دیا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ کس طرح منی پور کے ایم ایل ایز نے جب امت شاہ سے ملاقات کی تو سرخیاں بنیں، لیکن انہیں ڈانٹ پلا کر واپس بھیج دیا گیا۔‘
جب ان سے ان کے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں پوچھا گیا اور اگر کانگریس منی پور میں اقتدار میں ہوتی تو وہ حالات سے کیسے نمٹتی، انہوں نے کہا، ‘میں پارلیامنٹ کے اندر اور باہر منی پور سے متعلق مسائل کو مسلسل اٹھاتا رہا ہوں، تاہم مجھے شاذ و نادر ہی تسلی بخش جواب ملے ہیں۔ پھر بھی میں حکومت کو جوابدہ ٹھہراتا ہوں۔‘
انہوں نے کہا، ‘اگر کانگریس منی پور میں اقتدار میں ہوتی اور تشدد کو جاری رہنے دیتی تو میں اگلے ہی دن ایم پی کے عہدے سے استعفیٰ دے دیتا۔’
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)