گزشتہ 20دسمبر کو اتر پردیش کے فیروزآباد میں شہریت قانون کے خلاف احتجاج کے دوران گولی لگنے سے زخمی ہونے والے 26 سالہ یومیہ مزدور محمد ابرار کی اتوارکی رات موت ہو گئی۔ اس سے پہلے فیروزآباد میں چھ لوگوں کی موت ہوئی تھی۔
نئی دہلی: گزشتہ 20 دسمبر کو اتر پردیش کے فیروزآباد میں شہریت قانون کے خلاف احتجاج کے دوران گولی لگنے سے زخمی ہونے والے 26 سالہ ایک شخص کی اتوار کی رات موت ہو گئی۔اس موت کے ساتھ ہی اتر پردیش میں سی اے اےاحتجاج کے دوران مرنے والوں کی تعداد کم سے کم 22 ہو گئی ہے۔ وہیں، ملک بھر میں اب تک کم سے کم 32 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، یومیہ مزدور محمد ابرار کو پہلے آگرہ کے ایک سرکاری ہاسپٹل میں بھرتی کرایا گیا تھا اور پھر دہلی بھیج دیا گیا تھا۔ دہلی کے اندر پرستھ اپولو ہاسپٹل میں اس کا آپریشن کیا گیا تھا۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی میں گولی لگی تھی۔ابرار کے بھائی عبدالمطلب نے کہا، ‘ہاسپٹل میں ہمیں بتایا گیا کہ کمر کے نیچے سے وہ فالج زدہ ہو گئے ہیں لیکن ان کی جان بچ گئی ہے۔ 9 جنوری کو انہیں ہاسپٹل سے چھٹی دے دی گئی اور واپس فیروزآباد لایا گیا۔ حالانکہ، اتوار کی رات 11 بجے ان کاانتقال ہو گیا۔’
پسماندگان میں ان کی اہلیہ اور ایک چھ سال کا بیٹا ہے۔ابرار کے بھائی نے کہا، ‘پچھلے مہینے تشدد کے دن جب میرے بھائی کو گولی ماری گئی تب وہ بائیک سے گھر لوٹ رہا تھا۔ وہاں کے چشم دیدوں نے ہمیں بتایا کہ انہیں پولیس نے گولی مار دی تھی۔ شام 6 بجے کے آس پاس ہمیں پتہ چلا کہ ابرار کو ہاسپٹل لے جایا گیا ہے۔’
ابرار کی موت کے ساتھ ہی فیروزآباد میں اب تک سات لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ اس سے پہلے
فیروزآباد میں چھ لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ابرار کے بھائی نے الزام لگایا کہ جب ابرار ہوش میں تھا تب اس نے کہا تھا کہ وہ احتجاج کا حصہ نہیں تھا اور گولی مارے جانے کے بعد وہ نالی میں گر گیا تھا۔ کچھ لوگوں نے اسے نالی سے باہر نکالا تھا۔
انہوں نے کہا، ‘ابرار اپنے گھر میں اکیلاکمانے والا تھا۔ ہم نے اس کے علاج کے لیے پڑوسیوں اور رشتہ داروں سے 40 ہزار روپے ادھار لیے تھے۔ اس کے ساتھ ہی دہلی کے کچھ لوگوں نے بھی مدد کی تھی۔ ابرار کی بیوی جسمانی طورپر معذور ہے۔ اب اس کے گھر کی مدد کون کرے گا؟’