پیش نظر کتاب کی مصنف نیرجا چودھری کا نام صف اول کے ان صحافیوں میں لیا جاتا ہے، جو سیاسی نبض پرکھنا جانتے ہیں اور ان کی رپورٹس، تجزیوں کے بین السطور میں سیاست کے اونٹ کی کروٹ کا اندازہ ہوتا رہتاہے۔ 491 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں انہوں نے اندرا گاندھی سے لے کر منموہن سنگھ کے ادوار اور ان کے کام کرنے کے اسٹائل کا احاطہ کیا ہے۔ ایک انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے مودی کو کیوں نظر انداز کیا؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے ارد گرد کے افراد نے ان سے تعاون کرنے سے گریز کیا اور وہ فی الحال آن ریکارڈ نہیں آنا چاہتے۔
گو کہ 2014کے بعد سے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی نے وزارت اعظمیٰ کے دفتر کے کام کاج میں کافی تبدیلیاں کی ہیں، مگر عموماً اندرا گاندھی سےمنموہن سنگھ تک سبھی وزرائے اعظم اپنا دن کا معمول علی الصبح چھ بجے خفیہ ایجنسیوں کے سربراہان کی بریفنگ سے شروع کرتے رہے ہیں۔
گھٹنے کے آپریشن سے قبل آنجہانی اٹل بہاری واجپائی، وزیر اعظم ہاؤس کے وسیع و عریض لان میں ہر صبح واک کرتے تھے اور اسی واک کے دوران ہی پہلا آدھا گھنٹہ انٹلی جنس بیورو کے سربراہ اور پھر خارجی خفیہ ایجنسی راء کے سربراہ باری باری ان کو ملک اور دنیا بھر میں اس روز ہونے والے واقعات سے پیشگی آگاہ کرتے تھے۔یعنی جب وہ دفتر میں میز کے پاس بیٹھتے تھے، تو ان کو ملک اور دنیا بھر میں پیش آنے والے واقعات کا اندازہ ہوتا تھا اور ان پر اپنی حکومت کی طرف سے رد عمل تیار رکھتے تھے۔
مجھے یا د ہے کہ 20جون 2001کو جنرل پرویز مشرف صدر رفیق ترار سے استعفیٰ لےکر خود صدر کے عہدے پر فائز ہو رہے تھے، تو اس کی پیشگی اطلاع صبح سویرے کی بریفنگ میں راء نے واجپائی کو دی تھی۔ انہوں نے قبل از وقت ہی مشرف کو صدر بننے کی مبارکبادے دی، جس سے وہ ہکا بکا رہ گئے۔ اب یہ واجپائی کی زبان پھسل گئی تھی، یا جان بوجھ کر انہوں نے مشرف کو باور کرایا کہ ان کی ہر حرکت پر ان کی نظر ہے، کہنا مشکل ہے؟
خیر،اس وقت کالم کا موضوع ہندوستان کی معروف سیاسی رپورٹر نیرجا چودھری کی حال ہی میں شائع کتاب ہاؤ پرائم منسٹرز ڈیسائیڈ ہے۔ کئی دہائیوں سے ہندوستانی سیاست کور کرنے والے صحافیوں میں نیرجا چودھری کانام نینا ویاس، پورنیما جوشی، صبا نقوی، آرتی جیراتھ، قربان علی، رشید قدوائی، پربھو چاولہ اور ونود شرما وغیرہ کے ساتھ صف اول کے ان صحافیوں میں شامل ہے، جو سیاسی نبض پرکھنا جانتے ہیں اور جنہوں نے سیاست کی باریکیوں کو کور کرکے سمجھا بھی ہے اور ان کی رپورٹوں، تجزیوں کے بین السطور میں سیاست کے اونٹ کی کروٹ کا اندازہ ہوتا رہتاہے۔
نیرجا فی الوقت انڈین ایکسپریس کی کنٹریبیوٹنگ ایڈیٹر ہیں اور ان کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ پچھلے10عام انتخابات انہوں نے گراؤنڈ سے کور کیے ہیں۔ 491صفحات پر مشتمل اس کتاب میں انہوں نے اندرا گاندھی سے لےکر منموہن سنگھ کے ادوار اور ان کے کام کرنے کے اسٹائل کا احاطہ کیا ہے۔
ایک انٹرویو میں جب ان سے پوچھا گیا کہ انہوں نے مودی کو کیوں نظر انداز کیا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ موجودہ وزیر اعظم کے ارد گرد کے افراد نے ان سے تعاون کرنے سے گریز کیا اور وہ فی الحال آن ریکارڈ نہیں آنا چاہتے ہیں۔
ویسے سیاسی رپورٹنگ کی تربیت کے دوران بتایا جاتا تھا کہ کسی بھی لیڈرکے انٹرویو کے آف ریکارڈ حصے یا دن بھر کی رپورٹنگ کے معمول کے دوران لیڈران کے ساتھ گفت و شنید کے ایسے حصے، جن کو اس وقت میڈیا کی زینت نہیں بنایا جاسکتا ہو، کو ایک ڈائری میں نوٹ کرلینا چاہیے۔ ایک عرصے کے بعد یہ ایک بہت بڑ اخزانہ ثابت ہو سکتا ہے۔ مختلف وزرائے اعظم کے قریبی افراد کے ساتھ گفت شنید کے علاوہ نیرجا چودھری نے اپنی کتاب میں شاید اسی ڈائری کا استعمال کیا ہے۔
ہندوستان میں تین وزرائے اعظم گلزاری لال نندہ، اندر کمار گجرال اور منموہن سنگھ کا تعلق پنجاب سے تھا۔ مرارجی دیسائی اور نریندر مودی گجرات سے سیاست میں آئے۔ ایچ ڈی دیوی گوڑا اور نرسمہا راؤ جنوبی ہندوستان کے صوبوں بالترتیب کرناٹک اور آندھرا پردیش سے دہلی وارد ہوگئے۔ 14میں آٹھ وزرائے اعظم کا تعلق ایک ہی صوبہ یعنی اتر پردیش سے تھا۔ ان میں جواہر لال نہرو، لال بہادر شاستری، اندرا گاندھی، چرن سنگھ، راجیو گاندھی، وی پی سنگھ، چندر شیکھر اور اٹل بہاری واجپائی کا تعلق اسی صوبہ سے تھا۔ یعنی مشرقی ہندوستان بنگال، اڑیسہ یا شما ل مشرقی صوبوں سے ابھی تک کوئی دہلی کی گدی پر فائز نہیں ہوا ہے۔
کتاب میں کئی دلچسپ واقعات بیان کیے گئے ہیں۔ ہندوستان کی مضبوط ترین وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ملاقاتیوں پر نظر رکھنے کے لیے ان کے وزراء وزیر اعظم دفتر کے چپراسیوں کو رقوم دیتے تھے، تاکہ وہ ملاقاتیوں کے بارے میں ان کو باخبر رکھیں۔
ہریانہ کے ایک وزیر اعلیٰ بھجن لال، جو مرکزی کابینہ میں بھی وزیر رہے، جب بھی وزیر اعظم کے دفتر یا سرکاری رہائش گاہ پر آتے، تو وہاں مالی سے لےکر چپراسیوں، کچن میں کام کرنے والوں کو خوب نوازتے تھے۔ اس کے بدلے وہ ان کے لیے بطور مخبر کام کرتے تھے اور ملاقاتیوں کے بارے میں ان کو آگاہ کرتے تھے۔
جب کبھی کوئی صحافی اندرا گاندھی کا انٹرویو لیتا، موبائل فون کا زمانہ تو نہیں تھا، دفتر پہنچتے ہی بھجن لال کا فون آتا تھا۔ صحافی حیران و پریشان اور بھجن لال بھی اپنی اہمیت جتانے کے لیے اس کو یقین دلاتے تھے کہ اس انٹرویو کے لیے اور اس کو وقت دینے سے قبل اندراگاندھی نے ان سے مشورہ کیا تھا۔
کتاب کے مطابق 1977کے عام انتخابات میں بری طرح شکست سے دوچار ہونے کے فوراً بعد ہی اندرا گاندھی نے صفدر جنگ روڑپر واقع اپنی رہائش گاہ پر صنعت کار اور اپنے معتمد ین کپل موہن اور انل بالی کو بتایا تھا کہ وہ سیاست سے ریٹائرڈ ہوکر ہماچل پردیش کے پہاڑوں میں بقیہ زندگی گزارنا چاہتی ہیں۔ ان کاکہنا تھا کہ وہ اپنی توجہ اب کتاب لکھنے پر مرکوز کرنا چاہتی ہیں۔
ان کو معلوم تھا کہ اب نئی حکومت ان کو اس بڑے سرکاری بنگلہ میں رہنے نہیں دےگی۔ وہ اس بنگلہ میں موجود قیمتی کشمیری قالینوں اور اس کی جمع کی ہوئی ہاتھ سے بنائی لاتعداد اشیاء کے بارے میں فکر مند تھیں۔ وہ اب ممبر پارلیامنٹ بھی نہیں تھیں۔ کپل موہن، جوشراب کی ایک مشہور کمپنی کے مالک تھے، نے اس مشکل کو حل کرتے ہوئےان کو آفر دیکہ وہ اس پورے ساز و سامان کو پیک کرواکے اپنی کمپنی کے گودام میں رکھوا دیں گے۔ جب وہ نیامکان لیں گیں، تو وہ اس سامان کو وہاں پہنچا دیں گے۔
خیر اندرا گاندھی کے لیے ان کے ایک دست راست محمد یونس، جو خان عبدالغفار خان کے پرائیوٹ سکریٹری رہ چکے تھے، نے ولنگٹن اسٹریٹ پر بنگلہ خالی کرواکے ان کو وہاں شفٹ کروایا۔ اس وقت کی جنتا پارٹی حکومت نے بھی اس پر کچھ زیادہ اعتراض نہیں کیا۔ اس دوران اندرا گاندھی نے اپنے بڑے بیٹے راجیو گاندھی اور ان کی فیملی کو ممبئی میں کسی دوست کے پاس رہنے کے لیے بھیجا تھا۔
ان کا خیال تھا کہ ان پر اب جو عتاب نازل ہونے والا ہے، اس کی زد میں ان کی فیملی بھی آسکتی ہے۔ وہ اس حد تک پریشان تھیں کہ راجیو، سونیا اور ان کے بچوں راہل اور پرینکا کو ملک سے باہر بھجوانے کے لیے وہ کئی صنعت کاروں کے ذریعے پرائیوٹ جیٹ کا انتظام کرنے میں لگی ہوئی تھیں۔
اس کی سن گن جب حکومت کو لگی، تو وزیر اعظم مرارجی دیسائی نے حکومتی جنتا پارٹی اتحاد کے روح رواں جئے پرکاش نارائن سے مشورہ کیا اور رات کے اندھیرے میں دونوں اندرا گاندھی کے بنگلہ پر پہنچے اور ان کو یقین دلایا کہ ان کا ان کی فیملی سے بدلہ لینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
اندرا گاندھی نے ان کو بتایا کہ و ہ اپنی پھوپھی وجے لکشمی پنڈت کی طرح پہاڑوں میں ریٹائرڈ زندگی گزارنے جا رہی ہے۔مگر دونوں لیڈرا ن نے ان کو سیاست میں مستعد اور فعال رہنے کا مشورہ دیا۔
نیرجا چودھری کے مطابق 1977کے انتخابات میں شکست کے بعد اندرا گاندھی کا سیکولرازم پر یقین متزلزل ہوگیا تھا اور انہوں نے اپنی سیاست کو ہندو قوم پرستی میں ڈھالنا شروع کر دیا۔
شاید اس کی وجہ یہ رہی ہو کہ ان انتخابات میں مسلمانوں نے یک مشت ہوکر ان کے خلاف ووٹ دےکر جنتا پارٹی کو کامیاب بنادیا تھا۔ کپل موہن کے ہی ذریعے اندرا گاندھی اور ان کے جاں نشین سمجھے جانے والے فرزند سنجے گاندھی نے ہندو قوم پرستوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ کے ساتھ روابط استوار کرنے شروع کر دیے تھے۔
اپنے والدجواہر لال نہرو کے برعکس اندرا گاندھی نے کسی بھی نظریہ سے جڑنے کے بجائے اپنے اور اپنی پارٹی کے مفاد کوبنیاد بنادیا۔1966 میں پہلی بار وزارت اعظمیٰ کا حلف لیتے ہوئے انہوں نے سنجیدگی کے ساتھ تصدیق کرتی ہوں ، کے الفاظ ادا کیے تھے، جبکہ 1980میں انہوں نے ایشوریعنی بھگوان کے نام پر حلف لیا۔
ان کی سوچ کے محرک ان کے صاحبزادے سنجے گاندھی تھے، جن کے کام کا اسٹائل بھی بہت ہی آمرانہ نوعیت کا تھا۔ اتر پردیش کے کسی علاقہ میں وہ گاڑی چلا رہے تھے اور ان کی بغل میں ویر بھدر سنگھ (جوبعد میں صوبہ کے وزیر اعلیٰ رہے) موجود تھے۔ رات کا وقت تھا، اور ان کو راستہ نہیں مل رہا تھا۔گھوم پھر کر وہ وہیں پہنچ جاتے تھے۔ آخر تنگ آکر سنجے نے ویر بھدر سنگھ کو بتایا کہ راستہ کس طرف ہے؟ انہوں نے لاعلمی ظاہر کی۔ سنجے نے ان کو گاڑی سے اترنے کا حکم دے دیا۔ جوں ہی وہ نیچے اترے، گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی چلی گئی اور ویر بھدر سنگھ پوری رات ویران بیابان میں پیدل چل کر کسی گاؤ ں میں پہنچے اور پھر بس لےکر لکھنؤ روانہ ہوگئے۔ خیریت تھی کہ کسی نے ان کو نہیں پہچانا۔
سال 1977کے انتخابات میں شکست کے بعد اندرا گاندھی کے حوصلے پست ہو گئے تھے۔ مگر چند ماہ بعد ہی ان کو احساس ہوا کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آسکتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ جنتا پارٹی کے اندر وزیر اعظم دیسائی، وزیر داخلہ چرن سنگھ اور وزیر دفاع جگجیون رام کے درمیان رسہ کشی شروع ہو چکی تھی۔کابینہ میں روزانہ ہونے والے جھگڑوں کی کہانیاں اندرا کے پاس پہنچ رہی تھیں۔ پھر آر ایس ایس کے ساتھ سلسلہ جنبانی نے بھی اپنا کام کردکھایا۔ ان کو 1980میں ہونے والے انتخابات میں 543نشستوں میں 353نشستیں حاصل ہوگئیں۔
اس جیت کے فوراً بعد وہ واپس صفدر جنگ والے بنگلے پر واپس آگئیں اور آتے ہی ہندو پجاریوں اور برہمنوں کو بلا کر ہون کروایا۔ نیرجا کے مطابق اندرا گاندھی کی قریبی دوست پاپل جیاکر رنجیدہ تھیں کہ وزیرا عظم بہت زیادہ توہم پرستی کی طرف مائل ہو گئی تھیں۔ جون 1984کو سکھوں کے مقدس مقام گولڈن ٹیمپل پر فوج کشی کرنے سے قبل اندرا نے اپنے گھرپر مہا مرتویونج یگیہ ایک ماہ تک کروایا۔
اقتدار سے بے دخلی کے دنوں کے دوران انہوں نے ہماچل پردیش کے پالم پور میں واقع چمندا دیوی کے مندر جانا شروع کردیا تھا۔ چمندا دیوی کو ہندو مت میں درگا دیوی کا ایک روپ مانا جاتا ہے۔ درگا طاقت، جنگ، تباہی اورمضبوطی کی علامت مانی جاتی ہے۔ سال 1971کی جنگ کے بعد خود اندرا گاندھی کو درگا کا خطاب دیا گیا تھا۔
اس مندر میں انہوں نے کئی بار تزک و احتشام کے ساتھ پوجا کروائی اور وہ ایک لفافہ میں ایک سو ایک روپیہ پجاری کے حوالے کرکے دہلی لوٹ جاتی تھیں۔اس کے علاوہ بھی وہ ہر دو ماہ بعد انل بالی کے ہاتھ پچاریوں کو ایک لفافہ پہنچاتی تھیں۔
جب وہ 1980میں دوبارہ اقتدار میں آئیں تو بالی نے ان کو یاد دلایا کہ ان کو مندر میں حاضری دینی چاہیے۔ آخر مئی 1980کو اندرا گاندھی کے سکریٹری آر کے دھون نے بالی کو اطلاع دی کہ 20جون کی دوپہر کو وزیر اعظم پالم پور پہنچ رہی ہیں۔ بتایا گیا کہ وزیر اعظم کو جموں جانا ہے اور وہاں سے وہ ہیلی کاپٹر میں سیدھے پالم پور چمندا دیوی کے مندر میں حاضری دیں گی۔ اس روز ہماچل پردیش کے وزیرا علیٰ اور دیگر کئی اعلیٰ افسران اور وزیر بھی ان کے استقبال میں پالم پور پہنچ چکے تھے۔ پجاری نے پوجا کرنے کے لیے تمام تیاری مکمل کر لی تھیں کہ اسی دوران اطلاع آئی کہ وزیر اعظم نے دورہ ملتوی کردیا ہے۔
پجاری آپے سے باہر ہوگیا۔ مندر کے دروازے پر اس نے وزیر اعلیٰ اور بالی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دیوی کا اپمان ہوا ہے، اس کا بدلہ وزیر اعظم کو چکانا پڑیگا۔ ”ماتا درگا ان حکمرانوں کو معاف نہیں کرتی ہے، جو اس کی بے عزتی کرتے ہیں۔“بالی نے کسی طرح پچاری کو شانت کرواکے پوجا مکمل کروائی۔ اس کے تیسرے دن اس کا سکریٹری دوڑتا ہوا آیا اور خبر سنائی کہ دہلی میں اندرا گاندھی کے فرزند اور جاں نشین سنجے گاندھی ہوائی حادثہ میں ہلاک ہو گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ خبر ریڈیو پاکستان سے سنی ہے۔ انل بالی دہلی کے لیے روانہ ہوگئے اور دیر رات گئے وزیر اعظم ہاؤس پہنچ گئے۔ سنجے گاندھی کی لاش کے سرہانے اندرا گاندھی سمیت فلم اداکار سنیل دت اور ان کی اہلیہ نرگس موجود تھیں۔ بالی کو دیکھتے ہی اندرا نے اس کو سائڈ پر لے جاکر پوچھا کہ کیا دیوی ناراض ہو گئی ہے۔ ”مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میرا پروگرام کیسے اور کس نے کینسل کروایا۔مجھے بتایا گیا کہ پالم پور میں موسم خراب ہے، اس لیے ہیلی کاپٹر اتر نہیں سکتا ہے۔“ بالی نے ان کو کہا کہ وہاں موسم تو بالکل ٹھیک تھا۔ وزیر اعلیٰ بھی تو ہیلی کاپٹر سے ہی وہاں آکر انتظار کر رہے تھے۔
یہ کبھی پتہ نہیں چل سکا کہ جموں کے ایرٹاور کو کس نے پالم پور میں موسم کے خراب ہونے کی خبر دی تھی۔ سنجے کی موت کے بعد اندرا ٹوٹ چکی تھیں۔
دسمبر میں وہ چمندا دیوی کے مندر پہنچی اور بقول پجاری کے وہ اندر زار و قطار رونے لگی اور کئی گھنٹوں تک سر جھکا کر آنسو بہاتی رہیں۔ پجاری نے ان کو تسلی دےکر کہا کہ”آپ کے تو 60کروڑ بیٹے ہیں، آپ ان کا خیال رکھیں۔“ مندر سے واپسی کے بعد وہ بالکل مختلف اندرا تھی۔ وہ ماں سے پھر واپس وزیر اعظم بن چکی تھیں۔ ان کا اعتماد بحال ہو چکا تھا۔
دہلی واپس آکر وہ سیدھے کانگریس کے اخبارنیشنل ہیرالڈ اور اس کے اردو روزنامہ قومی آواز کی تقریب میں شرکت کرنے پہنچ گئیں۔ اسی تقریب میں راجیو گاندھی نیچے ہال میں کرسی پر برا جمان تھے۔ اندرا نے ان کو اسٹیج پر بلا کر ان کے لیے کرسی رکھوائی، یعنی یہ ایک اعلان تھا کہ انہوں نے اپنا جاں نشین اور دہلی کے تخت کا وارث ڈھونڈ لیا ہے۔