عرضی میں الزام لگایا گیا ہے کہ یہ بل آئین کے مساوات کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔
نئی دہلی: انڈین یونین مسلم لیگ (آئی یو ایم ایل) نے شہریت (ترمیم) بل کو جمعرات کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ اس سے ایک دن پہلے یہ بل راجیہ سبھا میں پاس ہو گیا۔ اس میں پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش میں مذہبی استحصال سے پریشان ہوکر بھاگکر ہندوستان آئے غیر مسلم پناہ گزینوں کو شہریت دینے کا اہتمام ہے۔ آئی یو ایم ایل نے الزام لگایا کہ یہ بل آئین کے مساوات کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ اس بل کو سوموار کو لوک سبھا میں پاس کیا گیا تھا۔
لائیو لا ءکے مطابق، آئی یو ایم ایس کے رکن پارلیامان پی کے کنہالکٹی، ای ٹی محمد بشیر، عبدالوہاب اور کےنواس کنی نے بھی آئین کے آرٹیکل 32 کے تحت دائر کی گئی عرضی میں حصہ لیا ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ وہ پناہ گزینوں کو شہریت دینے کے خلاف نہیں ہیں بلکہ وہ مذہب کی بنیاد پر جانبداری اور غیر قانونی درجہ بندی سے دکھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بل سے مسلمانوں کو باہر کرنا مذہب کی بنیاد پر جانبداری ہے۔
وکیل ہیرس بیرن اور پلوی پرتاپ کے ذریعے دائر کی گئی عرضی میں کہا گیا، ‘ غیر قانونی مہاجر اپنے آپ میں ایک طبقہ ہیں اس لئے ان پر نافذ ہونے والا کوئی بھی قانون کسی بھی مذہب، ذات یا قومیت سے پرے ہونا چاہیے۔ ‘ عرضی کے مطابق، اس ایکٹ کے ذریعے بنائی گئی مذہبی علاحدگی بنا کسی مناسب وجہ کے ہے اور اس کے نتیجے میں آرٹیکل 14 کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور یہ ایک ملک کے طور پر ہندوستان کے تصور پر حملہ ہے جو تمام مذاہب کے لوگوں کے ساتھ یکساں عمل کرتا ہے۔
اس بل میں افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے مذہبی استحصال کی وجہ سے ہندوستان آئے ہندو، سکھ، بودھ، جین، پارسی اور عیسائی کمیونٹی کے لوگوں کو ہندوستانی شہریت دینے کا اہتمام کیا گیا ہے۔ شہریت ترمیم بل میں ان مسلمانوں کو شہریت دینے کے دائرے سے باہر رکھا گیا ہے جو ہندوستان میں پناہ لینا چاہتے ہیں۔
اس طرح تعصب آمیز ہونے کی وجہ سے اس کی تنقید کی جا رہی ہے اور اس کو ہندوستان کے سیکولر تانے-بانے کو بدلنے کی سمت میں ایک قدم کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ ابھی تک کسی کو ان کے مذہب کی بنیاد پر ہندوستانی شہریت دینے سے منع نہیں کیا گیا ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)