نیپال میں پرتشدد مظاہرے جاری، ہندوستان نے تحمل سے کام لینے کی اپیل کی

نیپال میں سوموار (8 ستمبر) کو پرتشدد مظاہروں کے بعد ہندوستان نے منگل کو کہا کہ ان مظاہروں میں 'متعدد نوجوانوں کی ہلاکت' کا ہمیں شدید غم ہے۔ نئی دہلی نے یہ بھی اپیل کی ہے کہ اس بحران کو 'پرامن طریقے اور بات چیت' کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔

نیپال میں سوموار (8 ستمبر) کو پرتشدد مظاہروں کے بعد ہندوستان نے منگل کو کہا کہ ان مظاہروں میں ‘متعدد نوجوانوں کی ہلاکت’ کا ہمیں شدید غم ہے۔ نئی دہلی نے یہ بھی اپیل کی ہے کہ اس بحران کو ‘پرامن طریقے اور بات چیت’ کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔

سوموار، 8 ستمبر، نیپال کے کاٹھمنڈو میں پارلیامنٹ کے باہر مظاہرین پر پولیس نے پانی کی بوچھار کی۔ تصویر:اے پی/پی ٹی آئی

نئی دہلی: نیپال میں سوموار (8 ستمبر) کو ہوئے پرتشدد مظاہروں کے بعد ہندوستان نے منگل کو کہا کہ ان مظاہروں میں متعدد ‘نوجوانوں کی ہلاکت’ کا ہمیں شدید غم ہے۔ نئی دہلی نے یہ بھی اپیل کی ہے کہ اس بحران کو ‘پرامن ذرائع اور بات چیت’ سے حل کیا جانا چاہیے۔

رپورٹ کے مطابق، نیپال نے سوشل میڈیا پر عائد پابندی ہٹا دی ہے۔ یہ قدم ان مظاہروں کے بعد اٹھایا گیا ہے جن میں 19 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

اس حوالے سے ہندوستانی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا ، ‘ہم کل سے نیپال میں جاری پیش رفت پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور متعددنوجوانوں کی ہلاکت کا ہمیں شدید غم ہے۔ ہماری ہمدردیاں اور دعائیں متاثرہ خاندانوں  کے ساتھ ہیں۔ ہم زخمی ہونے والوں  کی جلد صحت یابی کی بھی تمنا کرتے ہیں۔’

وزارت نے مزید کہا، ‘ایک قریبی دوست اور پڑوسی ہونے کے ناطے، ہم امید کرتے ہیں کہ تمام متعلقہ فریق تحمل کا مظاہرہ کریں گے اور کسی بھی مسئلے کو پرامن طریقے اور بات چیت کے ذریعے حل کریں گے۔’

وزارت نے یہ بھی کہا کہ حکام نے کاٹھمنڈو اور کئی دوسرے شہروں میں کرفیو نافذ کر دیا ہے۔ ہندوستانی حکومت نے نیپال میں ہندوستانی شہریوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ احتیاط برتیں اور مقامی ہدایات پر عمل کریں۔

معلوم ہو کہ وزیر اعظم کے پی شرما اولی کی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ کے حکم کے بعد فیس بک، ایکس اور یوٹیوب سمیت غیر رجسٹرڈ سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر پابندی  عائد کرنے کے بعد نیپال میں سوموار (8 ستمبر) کو احتجاجی  مظاہرہ شروع ہوا۔

تاہم، اس بدامنی نے بدعنوانی، بے روزگاری اور سیاسی انتشار کے سلسلےمیں نوجوانوں کے گہرے عدم اطمینان کو بھی ظاہر کردیا۔

قابل ذکر ہے کہ منگل کو نیپال کے وزیر مواصلات پرتھوی سبا گرونگ نے پابندی ہٹانے کا اعلان کیا اور کہا کہ حکومت نے وسیع پیمانے پر عوامی غصے کے پیش نظر ان پلیٹ فارم تک رسائی بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس سے قبل، ہزاروں مظاہرین، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق نام نہاد ‘جین زی’ یعنی خود کو نئی نسل بتانے والے احتجاجی گروپ سے تھا، کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کاٹھمنڈو، پوکھرا، بٹوال، بھیرہوا، بھرت پور، اٹہاری اور دمک کی سڑکوں پر نکل آئے۔

مظاہروں کے دوران کم از کم 19 افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہوئے

سیکورٹی فورسز نے واٹر کینن، آنسو گیس، ربڑ کی گولیوں، لاٹھیوں اور بعض صورتوں میں ان مظاہرین پر براہ راست فائرنگ بھی کی۔

کاٹھمنڈو پوسٹ میں مذکور ہسپتال کی رپورٹس کے مطابق، مظاہروں کے دوران کم از کم 19 افراد ہلاک اور 300 سے زائد زخمی ہوئے۔ ان میں سے 17 اموات کاٹھمنڈو کے اسپتالوں میں اور دو اٹہاری کے اسپتالوں میں ریکارڈ کی گئیں۔

حکومت کے اس اقدام کے سیاسی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ نیپال کے وزیر داخلہ رمیش لیکھک نے سوموار کو اخلاقی بنیادوں پر استعفیٰ دے دیا، جبکہ وزیر زراعت رام ناتھ ادھیکاری نے ایک دن بعد استعفیٰ دے دیا۔

انہوں نے پرامن مظاہروں پر آمرانہ ردعمل پر تنقید کی۔

سوشل میڈیا پر سے پابندی ہٹائے جانے کے باوجود منگل کو کاٹھمنڈو وادی کے کچھ حصوں میں احتجاج جاری رہا ، جن میں نیو بانیشور، کلنکی اور چاپاگاؤں شامل ہیں، جہاں مظاہرین نے بدعنوانی کے خلاف نعرے لگائے اور ٹائروں کو آگ لگا دی۔

اسی دوران پولیس نے وفاقی پارلیامنٹ کی عمارت کے قریب سے متعدد افراد کو گرفتار کیا۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر اور نیپال کے قومی انسانی حقوق کمیشن سمیت بین الاقوامی اور قومی حقوق کی تنظیموں نے ان ہلاکتوں کی مذمت کی اور فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

ان تنظیموں نے حکومت سے متحد ہونے اور اظہار رائے کی آزادی کا احترام کرنے کی اپیل کی ہے۔

حالات پھر سے خراب ہوتے جا رہے ہیں!

دارالحکومت کاٹھمنڈو میں ایک بار پھر حالات کشیدہ ہوتے دیکھ کر نیپال کے وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے منگل (9 ستمبر) کو شام 6 بجے تمام جماعتوں کی میٹنگ بلائی ہے۔ دی کاٹھمنڈو پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق، مظاہرین نے للت پور کے سانیپا علاقے میں نیپالی کانگریس پارٹی کے مرکزی دفتر کو آگ لگا دی۔

کاٹھمنڈو ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن آفس نے صبح 8:30 بجے سے غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو کے احکامات جاری کیے۔ کاٹھمنڈو پوسٹ کے مطابق،بڑھتی ہوئی بدامنی کے مدنظر ہندوستانی سیکورٹی فورسز نے 1,751 کلومیٹر طویل ہندوستان-نیپال سرحد پر چوکسی بڑھا دی ہے۔

خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق، منگل (9 ستمبر) کو مظاہرین نے نیپال کے صدر رام چندر پاؤڈیل کے گھر کو آگ لگا دی۔ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت نیپالی کانگریس کے رہنما شیر بہادر دیوبا کے گھر کو بھی آگ لگا دی گئی۔ اس کے علاوہ مظاہرین نے دیوبا کی اہلیہ اور موجودہ وزیر خارجہ ارجن دیوبا رانا کے زیر ملکیت ایک پرائیویٹ اسکول کو بھی نذر آتش کردیا ہے۔

ہمال پریس نے رپورٹ کیا کہ منگل (9 ستمبر) کو نیپال کے براٹ نگر میں اس وقت صورتحال کشیدہ ہوگئی جب مظاہرین نے کوشی صوبائی اسمبلی کی عمارت میں داخل ہونے کی کوشش کی۔

اطلاعات کے مطابق، سینکڑوں نوجوانوں کی ودھان سبھا سکریٹریٹ کی حفاظت پر تعینات پولیس اہلکاروں سے جھڑپ ہوئی۔ جب مظاہرین نے بیریکیڈ توڑنے کی کوشش کی تو پولیس نے حالات پر قابو پانے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا اور بعض مقامات پر لاٹھی چارج بھی کیا۔

پولیس نے تصدیق کی کہ جلجلہ چوک پر واقع ایک پولیس چوکی اور ایک موٹر سائیکل کو بھی آگ لگا دی گئی۔

کاٹھمنڈو پوسٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق، روتہٹ پولیس نے منگل (9 ستمبر) کو چندرنیگاہ پور میں مظاہرین پر گولی چلائی۔ سوموارکو ان کے خلاف پولیس کی کارروائی کے خلاف احتجاج کیا جا رہا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں، جس دوران مظاہرین نے پولیس کی ایک گاڑی کو بھی آگ لگا دی۔ صورتحال پر قابو پانے کے لیے اہلکاروں نے درجنوں ہوائی فائرنگ کی۔

اطلاعات کے مطابق چندر نگا پور میں حالات بدستور کشیدہ ہیں۔