نجر مرڈر کیس میں پی ایم مودی کے کردار سے متعلق کینیڈین میڈیا کی رپورٹ کو ہندوستان نے خارج کیا

کینیڈین اخبار دی گلوب اینڈ میل نے بدھ کے روز ایک نامعلوم 'سینئر نیشنل سکیورٹی' اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ شائع کی ہے کہ 'کینیڈین سکیورٹی ایجنسیوں کا ماننا ہے کہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کو برٹش کولمبیا میں ایک سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل اور دیگر پرتشدد سازشوں کے بارے میں معلوم تھا۔

کینیڈین اخبار دی گلوب اینڈ میل نے بدھ کے روز ایک نامعلوم ‘سینئر نیشنل سکیورٹی’ اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ شائع کی ہے کہ ‘کینیڈین سکیورٹی ایجنسیوں کا ماننا ہے کہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کو برٹش کولمبیا میں ایک سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل اور دیگر پرتشدد سازشوں کے بارے میں معلوم تھا۔

پی ایم مودی اور ہردیپ سنگھ نجر۔ (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

پی ایم مودی اور ہردیپ سنگھ نجر۔ (تصویر بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

نئی دہلی: ہندوستان نے کینیڈین میڈیا کی اس رپورٹ کو خارج  کر دیا ہے جس میں مبینہ طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کو کینیڈا میں ایک سکھ علیحدگی پسندرہنما کو قتل کرنے کی سازش سے جوڑا گیا تھا، اس رپورٹ کو’مضحکہ خیز’ اور ہتک آمیزبتاتے ہوئے خارج کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہندوستان نے خبردار کیا کہ اس طرح کے الزامات سے دو طرفہ تعلقات اور کشیدہ ہوں گے۔

رپورٹ کے مطابق ، وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے بدھ (20 نومبر) کی رات ایک بیان میں کہا ، ‘ہم عام طور پر میڈیا رپورٹس پر تبصرہ نہیں کرتے ہیں۔تاہم، کینیڈا کے حکومتی ذرائع  کے ذریعے ایک اخبار کو دیے جانے والے ایسے مضحکہ خیز بیانات کو اس توہین کے ساتھ خارج کر دیا جانا چاہیے جس کے وہ مستحق ہیں۔’

انہوں نے کہاکہ’ایسی مہمات ہمارے پہلے سے ہی کشیدہ تعلقات کو مزید نقصان پہنچاتی ہیں۔’

کینیڈین اخبار دی گلوب اینڈ میل نے بدھ کے روز ایک نامعلوم ‘سینئر نیشنل سکیورٹی’ اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ شائع کی ہے کہ ‘کینیڈین سکیورٹی ایجنسیوں کا ماننا ہے کہ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کو برٹش کولمبیا میں ایک سکھ علیحدگی پسند رہنما کے قتل اور دیگر پرتشدد سازشوں کے بارے میں معلوم  تھا۔ اخبار نے جس سینئر افسر کا حوالہ دیا ہے ،وہ کینیڈا میں ہندوستان کی غیر ملکی مداخلت کی کارروائیوں کی انٹلی جنس تحقیقات پر کام کر چکے ہیں۔’

رپورٹ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ نہ صرف ہندوستانی وزیر داخلہ امت شاہ بلکہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال اور وزیر خارجہ ایس جئے شنکر بھی اس کے لوپ  میں تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے، ‘حالانکہ کینیڈا کے پاس اس بات کا کوئی براہ راست ثبوت نہیں ہے کہ پی ایم مودی کو اس بات کا علم تھا، لیکن اس کا اندازہ یہ ہے کہ اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کی تین سینئر سیاسی شخصیات نے آگے بڑھنے سے پہلے پی ایم مودی کے ساتھ ٹارگٹ کلنگ پر تبادلہ خیال نہیں کیا ہوگا۔’

اخبار نے پریوی کونسل آفس کا ایک بیان بھی منسلک کیا ہے، جس میں رائل کینیڈین ماؤنٹڈ پولیس (آر سی ایم پی) نے کہا ہے کہ ہندوستانی حکومت کے ایجنٹ کینیڈا میں سنگین مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں۔ لیکن اس میں کینیڈا کی حکومت نے وزیر اعظم مودی، وزیر خارجہ جئے شنکر یا قومی سلامتی کے مشیر ڈوبھال کے خلاف کوئی الزام نہیں لگایا ہے۔

پریوی کونسل آفس کے بیان میں شاہ کا ذکر نہیں تھا، حالانکہ کینیڈا کے نائب وزیر خارجہ ڈیوڈ موریسن نے گزشتہ ماہ ایک پارلیامانی پینل کو بتایا تھا کہ انہوں نے ایک امریکی اخبار کو اس بات تصدیق کی تھی کہ وزیر داخلہ شاہ کینیڈین شہریوں کی قتل کی سازش میں ‘ملوث’ تھے۔ ‘

معلوم ہو کہ   14 اکتوبر کو  امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ‘کینیڈا کے ایک اہلکار’ کے حوالے سے رپورٹ شائع کی تھی کہ امت شاہ نے کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسندوں کے خلاف مہم چلانے کا حکم دیا تھا۔

دی واشنگٹن پوسٹ    کے مطابق  کینیڈین حکام نے بتایا تھا کہ جن ہندوستانی سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا ہے، ان کی بات چیت  اور پیغامات میں  مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ اور ہندوستان کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (را) کے ایک سینئر افسر کا ذکر ملتا ہے، جنہوں نے سکھ علیحدگی پسندوں پر حملے کی اجازت دی تھی۔

اس پر سخت اعتراض کا اظہار کرتے ہوئے ہندوستان نے کینیڈا کے قائم مقام ڈپٹی ہائی کمشنر جیفری ڈین کو طلب کیا تھا اور موریسن کے بیانات کو ‘مضحکہ خیز’ اور ‘بے بنیاد’ قرار دیتے ہوئے انہیں احتجاجاً ایک سفارتی نوٹ سونپا تھا۔ ہندوستان نے کینیڈا کو خبردار کیا ہے کہ ‘اس طرح کے غیر ذمہ دارانہ اقدامات کے دو طرفہ تعلقات پر سنگین نتائج ہوں گے’۔

دو  نومبر کو ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران ہندوستانی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا تھا کہ ‘ہم نے کینیڈین ہائی کمیشن کے نمائندے کو 1 نومبر کو طلب کیا تھا۔ انہیں 29 اکتوبر کی پارلیامانی کارروائی کے حوالے سے ایک سفارتی نوٹ بھی دیا گیا ہے۔ نوٹ میں کہا گیا ہے کہ حکومت ہند ہندوستان کے مرکزی وزیر داخلہ کے خلاف نائب وزیر ڈیوڈ موریسن کی طرف سے کمیٹی کے سامنے لگائے گئے بیہودہ اور بے بنیاد الزامات کی سخت ترین الفاظ میں مخالفت کرتی ہے۔’

غورطلب ہے کہ ہندوستان اور کینیڈا کے درمیان سفارتی تعطل پچھلے مہینے اکتوبر میں بڑھ گیا تھا، جب دونوں ممالک نے اعلیٰ سفیروں سمیت چھ سفارت کاروں کو ملک بدر کر دیا تھا۔

اس حوالے سے 14 اکتوبر کو ہندوستان نے اعلان کیا تھا کہ کینیڈا نے مطلع کیا ہے کہ ہندوستانی ہائی کمشنر سنجے کمار ورما اور دیگرہندوستانی سفارت کاروں کو کینیڈین شہریوں کے خلاف مبینہ ٹارگیٹڈ کارروائیوں سےمتعلق تحقیقات میں’پرسن آف انٹریسٹ’ بنایا گیا ہے۔

اس کے فوراً بعد، ہندوستان کی وزارت خارجہ نے کینیڈا میں قائم مقام ہائی کمشنر کو احتجاجاً طلب کیا اور کینیڈا میں ہندوستان کے ہائی کمشنر سمیت چھ ہندوستانی سفارت کاروں کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔ جہاں ایک طرف ہندوستان نے کینیڈا سے اپنے سفارت کاروں کو واپس بلالیاتھا، وہیں دوسری جانب کینیڈا نے اعلان کیا ہے کہ وہ چھ ہندوستانی سفارت کاروں اور قونصلر اہلکاروں کو پہلے ہی ‘ڈی پورٹیشن نوٹس’ جاری کر چکا ہے۔

اسی دن، آر سی ایم پی نے ایک پریس بریفنگ میں یہ انکشاف کیا کہ ان کی تفتیش ہردیپ سنگھ نجر کے قتل سے آگے بڑھ گئی ہے اور اس میں کینیڈین شہریوں کو نشانہ بنانے کے لیے جیل میں بند گینگسٹر لارنس بشنوئی کے گینگ کو مبینہ طور پر استعمال کرنے میں ہندوستانی سفارت کاروں کے کردار کےثبوت ملے ہیں۔