گلوبل ہنگر انڈیکس رپورٹ میں ہندوستان سے نیچے کی رینکنگ والے ممالک میں تیمور-لیستے، موزمبیق، افغانستان، ہیتی، لائبیریا، سیرا لیون، چاڈ، نائجر، کانگو، یمن، میڈگاسکر، جنوبی سوڈان، برونڈی اور صومالیہ شامل ہیں۔ ہندوستان نے اس رپورٹ کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا ہے کہ اس کو تیار کرنے کا طریقہ کار ناقص ہے۔
(علامتی تصویر بہ شکریہ: Ibrahim Rifath/Unsplash)
نئی دہلی: دو یورپی ایجنسیوں کی طرف سے جمعرات (12 اکتوبر) کو جاری کی گئی گلوبل ہنگر انڈیکس رپورٹ میں ہندوستان 125 ممالک کی فہرست میں 111 ویں نمبر پر ہے۔ ہندوستان گزشتہ سال کے مقابلے میں چار درجے نیچے آیا ہے۔
ہندوستان سے نیچے کی رینکنگ والے ممالک میں تیمور-لیستے، موزمبیق، افغانستان، ہیتی، گنی بساؤ، لائبیریا، سیرا لیون، چاڈ، نائجر، لیسوتھو، کانگو، یمن، میڈگاسکر، وسطی افریقی جمہوریہ، جنوبی سوڈان، برونڈی اور صومالیہ شامل ہیں۔
یہ تمام ممالک، جن سے بہ مشکل ہی ہندوستان کی کارکردگی بہتر رہی ہے، ہندوستان کے مقابلے میں بہت چھوٹی معیشتیں ہیں۔
ہندوستان تیزی سے ترقی کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ ان ممالک کے علاوہ جن ممالک کا جائزہ لیا گیا اس کے نتائج ہندوستان سے بہتر تھے۔
ہندوستان ان 40 ممالک کے گروپ میں ہے جہاں عالمی سطح پر بھوک (گلوبل ہنگر)کے پیمانے کو ‘شدید’ قرار دیا گیا ہے۔
موجودہ رپورٹ کے مطابق، ہندوستان کا مجموعی گلوبل ہنگر انڈیکس اسکور (جی ایچ آئی اسکور)28.7 ہے۔ اس اسکور کا حساب 100 پوائنٹ اسکیل پر کیا جاتا ہے۔ اسکور جتنا زیادہ ہوگا، ملک کی کارکردگی اتنی ہی خراب مانی جائے گی۔
آئرلینڈ اور جرمنی کی دو این جی او بالترتیب ’کنسرن ورلڈ وائیڈ‘ اور ’ویلٹ ہنگر ہیلف‘ نے یہ رپورٹ جاری کی ہے۔ ان کے مطابق، یہ ایک پیر —ریویو،رپورٹ ہے جو 2006 سے ہر سال تیار کی جاتی رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس فہرست میں زیادہ اسکور کرنے والے ملک کی غذائیت سے متعلق کئی بنیادی مسائل ہو سکتے ہیں۔ اس کے مطابق، ‘کچھ ممالک کے لیے اعلیٰ اسکور غذائی قلت کی بلند شرحوں کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں، جو آبادی کے بڑے حصوں میں کیلوری کی کمی کو ظاہر کرتے ہیں۔’
جی ایچ آئی اسکور کا حساب لگانے کے لیے چار عوامل کو مدنظر رکھا گیا: غذائیت کی کمی (پوری آبادی – بچے اور بالغ دونوں)؛ بچوں کا بونا پن (ایسے بچوں کی حصہ داری جن کی لمبائی ان کی عمر کے لحاظ سے کم ہے)؛ 5 سال سے کم عمر کے بچوں کی شرح اموات؛ اور چائلڈ ویسٹنگ (ایسےبچے جن کا وزن ان کے قد کے لحاظ سے کم ہے)۔ یہ تمام اشاریے عالمی طور پر متفقہ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف (ایس ڈی جی) کے اجزاء ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ کچھ ممالک کے لیے اعلیٰ جی ایچ آئی اسکور ‘آبادی کو درپیش چیلنجز’ کے علاوہ بچوں میں شدید غذائی قلت اور ان کی ناقص غذائیت کی سطح کی عکاسی بھی کر سکتا ہے۔
رپورٹ بتاتی ہے، ‘موٹے طور پر کہیں تو ایک اعلیٰ جی ایچ آئی ا سکور خوراک کی کمی، ناقص خوراک، بچوں کی دیکھ بھال کے نامناسب طریقے، غیر صحت مند ماحول، یا ان عوامل کا مجموعہ ہو سکتا ہے۔’
اس رپورٹ میں پیش کیے گئے تمام ڈیٹا سیٹ سیکنڈری ڈیٹا ہیں اور مختلف شائع شدہ رپورٹس سے حاصل کیے گئے ہیں۔
چار پیرامیٹرز پر ہندوستان کی کارکردگی
رپورٹ کے مطابق، دنیا بھر میں ہندوستان کی’چائلڈ ویسٹنگ’ (قد کے لحاظ سے کم وزن) کی شرح سب سے زیادہ 18.7 فیصد ہے، جو شدید غذائی قلت کی نشاندہی کرتی ہے۔ درحقیقت ‘ویسٹنگ’ کو بچوں کی ہر قسم کی غذائی قلت کی بدترین شکل اور اشارہ سمجھا جاتا ہے۔
اگر کسی ملک میں 15 فیصد سے زیادہ بچے ‘قد کے لحاظ سے کم وزن’ والے ہیں، تو اسے رپورٹ میں ‘انتہائی اعلیٰ’ سطح کی تشویش کے طور پر نشان زد کیا گیا ہے۔ اس طرح، ہندوستان واحد ملک ہے جہاں’چائلڈ ویسٹنگ’ کو ‘بہت زیادہ’ کےخانے میں رکھا گیا ہے۔
جہاں تک بچپن میں بونے پن (عمر کے لحاظ سے کم اونچائی) کا سوال ہے، ہندوستان پھر سے ‘بہت زیادہ’ جوکھم والے ممالک کے زمرے میں آتا ہے۔ ہندوستان میں35 فیصد سے زیادہ بچوں کو بونے پن کے طور پر نشان زد کیا گیا ہے، حالانکہ بہت سے دوسرے افریقی ممالک اور کچھ مشرقی ایشیائی ممالک اس پیرامیٹر پر ہندوستان سے بدتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
کل آبادی کا تقریباً 16.6 فیصد غذائی قلت کا شکار ہونے کی وجہ سےہندوستان کی غذائیت کی سطح کو ‘درمیانے’ جوکھم والے ممالک کے طور پر نشان زد کیا گیا ہے۔ اور5 سال سے کم عمر کی اموات کی شرح کے لحاظ سے ہندوستان کی ‘کم جوکھم’ والے ملک کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے، جہاں تقریباً 3.1 فیصد بچے پانچ سال کی عمر سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔
غورطلب ہے کہ 15-24 سال کی عمر کی خواتین میں خون کی کمی (اینیما) کے پھیلاؤ کو ملک کے لیے ایک بڑا مسئلہ قرار دیا گیا ہے۔ ملک میں50 فیصد سے زیادہ خواتین اور نوعمر لڑکیاں خون کی کمی کا شکار ہیں جو کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ میں سے ایک ہے۔
ہر بار کی طرح ہندوستان نے اس رپورٹ کو بھی خارج کیا
بہرحال، گزشتہ مواقع کی طرح اس سال بھی
حکومت ہند نے اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے۔ گزشتہ جمعرات کو ایک بیان میں حکومت نے
رپورٹ کی تیاری کے طریقہ کار کو ناقص قرار دیا ہے اور استعمال کیے گئے چار پیرامیٹرز کے انتخاب پر تشویش کا اظہار کیا۔
حکومت نے کہا کہ ‘انڈیکس کا حساب لگانے کے لیے استعمال کیے جانے والے چار اشاریوں میں سے تین کا تعلق بچوں کی صحت سے ہے اور وہ پوری آبادی کی نمائندگی نہیں کر سکتے۔’
حکومت نے دعویٰ کیا کہ ‘چوتھا اور سب سے اہم اشاریہ، غذائی قلت کا شکار (پی او یو) آبادی کا تناسب 3000 کے ایک بہت ہی چھوٹے نمونے پر کیے گئے عوامی سروے پر مبنی ہے۔’
’کم غذائیت‘ سے متعلق یہ ڈیٹا اسٹیٹ آف فوڈ سکیورٹی اینڈ نیوٹریشن ان دی ورلڈ سے لیا گیا ہے، جسے
ایس او ایف آئی رپورٹ بھی کہا جاتا ہے۔ اسے اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او)، اقوام متحدہ کے بچوں کے فنڈ اور انٹرنیشنل فنڈ فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ (یونیسیف) اور انٹرنیشنل فنڈ فار ایگریکلچرل ڈیولپمنٹ (آئی ایف اے ڈی) نے تیار کیا ہے۔
ایس او ایف آئی کی رپورٹ کے مطابق، 2014 سے غذائی عدم تحفظ کا ڈیٹا 140 سے زائد ممالک میں ایک نجی پولنگ ایجنسی کے ذریعے جمع کیا گیا ہے جو جواب دہندگان سے آٹھ سوالات پوچھتی ہے۔جہاں زیادہ تر ممالک میں اس طرح کے 1000 انٹرویو کیے گئے، ہندوستان کے لیے اسی نمونے کا سائز بڑا یعنی 3000 تھا۔ حکومت ہند نے اپنے بیان میں اس اعداد و شمار کی مذمت کی ہے۔
حکومت ہند نے جی ایچ آئی رپورٹ کی تیاری کے لیے دو اشاریے کے طور پر چائلڈ اسٹنٹنگ (عمر کے لحاظ سے کم اونچائی) اور چائلڈ ویسٹنگ (اونچائی کے لحاظ سے کم وزن) کے استعمال پر بھی شک کا اظہار کیا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ ‘بھوک’ بونے پن اور کم وزن کی وجہ ہو سکتی ہے، لیکن یہ حفظان صحت، جینیات، کھانے کی مقدار کا استعمال وغیرہ جیسے عوامل کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔ لہٰذا، حکومت نے جی ایچ آئی اسکور کے لیے بھوک کو سٹنٹنگ اورویسٹنگ کے لیے ‘فیکٹر/نتیجہ’ کے طور پر استعمال کرنے پر سوال اٹھایا۔
حکومت ہندنےایک غیر معمولی دعویٰ بھی کیا۔ حکومت نے کہا، ‘اس بات کا شاید ہی کوئی ثبوت ہے کہ چوتھا اشاریہ، یعنی بچوں کی شرح اموات بھوک کا نتیجہ ہے۔’ تاہم، اس کے علاوہ بھی بہت سے شواہد موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بھوک کئی طریقوں سے بچوں کی موت کا سبب بنتی ہے۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ ‘غذائیت کی کمی کے شکار بچوں میں، خاص طور پر شدید غذائی قلت کے شکار بچوں میں اسہال، نمونیا اور ملیریا جیسی عام بچپن کی بیماریوں سے موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ غذائیت سے متعلقہ عوامل 5 سال سے کم عمر کے بچوں میں تقریباً 45 فیصد اموات کا سبب بنتے ہیں۔
حکومت نے ہندوستان میں چائلڈ ویسٹنگ کے اعدادوشمار پر بھی اعتراضات اٹھائے ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ حکومت کے ‘نیوٹریشن’ ٹریکر کے مطابق 7.3 فیصد بچے ‘ویسٹیڈ’ (قد کے لحاظ سے کم وزن) ہیں، جبکہ جی ایچ آئی کی شرح 18.7 فیصد ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک انٹر ایجنسی نے اندازہ لگایا تھا کہ چائلڈ ویسٹنگ کاپھیلاؤ 18.7 فیصدہے، جو ہندوستان کے لیے جی ایچ آئی کی چائلڈ ویسٹنگ شرح کا ذریعہ ہے۔ 2019-21 کے لیے حکومت کے اپنے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس ) —5ڈیٹا میں کہا گیا تھا کہ متعلقہ اعداد و شمار 19.3 فیصد تھے۔
دیگر رپورٹ
جی ایچ آئی رپورٹ غذائیت کے شعبے میں ہندوستان کی خراب کارکردگی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ ماضی میں ایس او ایف آئی کی رپورٹوں میں مستقل طور پر ایسا دکھایا گیا ہے۔
ایس او ایف آئی 2023— کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 74.1 فیصد ہندوستانی آبادی مقوی غذالینے سے قاصر ہے۔ صرف نیپال، پاکستان، سیرا لیون، نائیجیریا، نائجر، برکینا فاسو، گھانا، لائبیریا، گنی اور گنی بساؤ جیسے ممالک کی آبادی کا حصہ ہندوستان کے مقابلے میں زیادہ تھا، جو صحت مند خوراک کےاخراجات برداشت کرنےکے متحمل نہیں تھے۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں 24 کروڑ لوگ ‘غذائی قلت کا شکار’ ہیں۔ اس کے مطابق، کم غذائیت کو ایک ایسے شخص کی حالت کے طور پر بیان کیاگیا ہے، جس کی عادتاً خوراک کی کھپت اوسطاً، ایک نارمل، فعال اور صحت مند زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری غذائی توانائی فراہم کرنے کے لیے ناکافی ہو۔
دی وائر نے جی ایچ آئی کی رپورٹ تیار کرنے والی دونوں یورپی ایجنسیوں کو خط لکھ کر ہندوستان کے اعتراضات کا جواب طلب کیا ہے۔ ان کے جواب موصول ہونے کے بعد اس رپورٹ کو اپ ڈیٹ کیا جائے گا۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔