کیا حب الوطنی کی فخریہ نمائش ضروری ہے؟

12:23 PM Aug 17, 2020 | نرمل چندر استھانا

حب الوطنی پر سوشل میڈیا ٹرالز کی اجارہ داری نہیں ہو سکتی ۔ انہیں یہ حق ہر گز نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ان لوگوں کو پاکستان چلے جانے کو کہیں جو وطن پرستی کومختلف چشمے سے دیکھتے ہیں۔

فوٹو: رائٹرس

(یوں تو وطن پرستی  اور اس کی نمائش کے حوالے سے  پورے سال تنازعات ہوتے رہتے ہیں، مگر 15 اگست کے آس پاس ایسے واقعات کی تعداد لامحالہ بڑھ جاتی ہے۔ وطن سے محبت ایک فطری عمل ہے۔لیکن کیا اس کا مظاہرہ  اور فخریہ نمائش ضروری ہے؟ اس مضمون  میں اس سوال کا معقول جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ لہذا اس کا اردو ترجمہ آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ اس کوانگریزی میں پڑھنے کے لئے آپ یہاں کلک کر سکتے ہیں) سید کاشف

      میں نے  ایک دن ٹوئٹر پرموجود بہت سارے ٹرالز کے پروفائل کو کھنگا لا۔ میں نے دیکھا کہ ان میں سے زیادہ تر لوگوں نے اپنے بایو (تعارف) میں‘پیٹریوٹ’ ‘پراؤڈانڈین’ ‘نیشن فرسٹ’   ‘ترنگا فرسٹ’‘نیشنز ویلفیئرفرسٹ’‘اسٹاؤنچ نیشنلسٹ’ ‘ان اپولوجیٹک نیشنلسٹ’  اور   ‘بھارت ماتا کی جئے’  وغیرہ  لکھ رکھا ہے۔  ان میں سے بہتوں کے پروفائل فوج سےبھی اپنی محبت کا اظہار کر رہے تھے۔جیسے ‘فین آف انڈین آرمڈ فورسز’ ‘مائی آرمی مائی پرائیڈ’ ‘جئے ہند کی سینا’    وغیرہ وغیرہ۔

سوال یہ ہے کہ ان لوگوں پر اپنے دیش پریم  کی نمائش کا جنون کیوں  کر سوار ہوتا ہے؟ کیا  یہ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ باقی سب غدار ہیں؟ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ  ان لوگوں (ٹرالز)نے ملک کی خدمت کرتے ہوئے کوئی نمایاں کام انجام دیا ہے۔ میں نے آج تک ایسا کوئی  ہندوستانی نہیں دیکھا ہے جو ملک کے لئے بد دعائیں کرتا ہو۔دیش  کے لئے کیا اچھا  ہے، اس حوالے سے ان کی رائے  ان ٹرالز سے مختلف ہو سکتی ہے، لیکن بہر حال وہ بھی اپنے ملک کو خوشحال ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ ‘حب الوطنی’پر ان ٹرالز کی اجارہ داری نہیں ہو سکتی ۔ انہیں یہ حق ہر گز نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ان لوگوں کو پاکستان چلے جانے کو کہیں جو وطن پرستی کومختلف چشمے سے دیکھتے ہیں۔

عام طور پر یہ سمجھا جا تا ہے کہ پیٹریاٹ ازم(حب الوطنی) اور نیشنلزم (قوم پرستی) ایک ہی چیز ہے۔ مگر یہ سچ نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے با لکل مختلف ہیں۔  حب الوطنی  کی تاریخ دو ہزار سال پرانی ہے، جبکہ  قوم پرستی /نیشنلزم کا جنم انیسویں صدی میں ہوا۔  دی اسٹین فورڈ انسائیکلو پیڈیا کے مطابق حب الوطنی کا مطلب ہے اپنے ملک سے محبت کرنا، اس کے ساتھ اپنی پہچان کا اظہار کر نا  اور اس کی ( بشمول اس کے باشندے)کی فلاح و بہبود کی تمنا کرنا۔

دی اسٹین فورڈ انسائیکلو پیڈیا نے قوم پرستی کو اس عمل سے تعبیر کیا ہے جس میں  کسی قوم کا فرداپنی قومی شناخت کے تئیں بہت پرجوش ہوتا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹا نیکا  کے مطابق قوم پرستی کا مطلب ہےقوم کے تئیں وفادار ہونا، اس سے عقیدت رکھنا اور   اور اس کی  اطاعت کرنا؛ لیکن اس میں انفرادی یا دیگر گروہی مفادات کے  تئیں ہمدردی  کی  کوئی جگہ نہیں ہے۔

ٹرالز  کے  جو خیالات ہیں   وہ  ان زمروں میں آتے  ہیں: جنگوئزم ، شاونزم ،  الٹرا نیشنلزم  یا     ہائپرنیشنلزم۔ ایک ہائپر نیشنلسٹ کا یقین اس بات میں شدت سے ہوتا ہے کہ اس کا ملک اور اس کے ملک کا موقف دونوں صد فیصد درست ہیں؛ اور وہ کبھی بھی  غلط نہیں ہو سکتے۔ اس کے برعکس ،ایک محب وطن (پیٹریاٹ)اپنے ملک سے محبت بھی کرتا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ اس کے ملک میں بھی خامیاں اور برائیا ں ہو سکتی ہیں۔  اپنے ملک سے محبت کرنا ایک شہری کا فرض تو ہے، مگر دوسروں سے بے تحاشہ نفرت کرنا اور انہیں ماردینے کی خواہش کرنا  جرم (انسانیت کے خلاف) ہے۔

تنقید اور حب الوطنی

رابندر ناتھ ٹیگور اور مہاتما گاندھی کے درمیان حب الوطنی /قوم پرستی کے حوالے سے جومشہور زما نہ  بحث ہے، اس میں  ٹیگور نے گاندھی جی کو انتباہ کیا تھا کہ نیشنلزم اور زینو فوبیا (اجنبیوں/غیر ملکیوں سے نفرت)کے درمیان جو لائن ہے وہ بڑی نازک ہے۔  مزید یہ کہ غیر ملکیوں سے نفرت کا جوجذبہ ہے  وہ ایک دن ایک ہندوستانی کو دوسرے ہندوستانی (جو اس سے مختلف ہے) سے بھی نفرت کرنے پر  آمادہ کر سکتا ہے۔ ٹیگور نے اپنے دوست اےایم بوس کو لکھا تھا: ‘جب تک میں زندہ ہوں ، حب الوطنی کو  انسانیت پر غالب نہیں آنے دوں گا۔ ‘

ویت نام جنگ میں امریکی شمولیت کے خلاف، امریکی شہریوں کے ذریعے کیے گئے احتجاج کو ملک کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔  لیکن اس کے باوجود جنگ مخالف مظاہرین کو کبھی بھی برا بھلا نہیں کہا گیا۔ انہیں کبھی بھی یہ نہیں کہا گیا کہ وہ غدار ہیں یا یہ کہ وہ ملک سے محبت نہیں کرتے ہیں۔

فوج میں جبراً بھرتی کیے جانے کے بعد،ان لوگوں نے بھی  شدت سے جنگ لڑی جنہوں نے  آئیڈیا لوجی کی بنیاد  پر ویت نام جنگ کی مخالفت کی تھی۔ جیمس ای۔ ویستھیڈر اپنی کتاب ‘دی ویت نام وار’ میں لکھتے ہیں کہ  1968 میں،    ویت نام میں موجود فوج میں سے صرف 42 فیصد فوجی  ایسے تھے جنہیں جبراً بحال کیا گیا تھا، لیکن اہم بات یہ ہےکہ ہلاک ہونے والے فوجیوں کی کل تعداد میں ان کی حصہ داری 58 فیصد تھی۔لہذا یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ان کی حب الوطنی ان  فوجیوں سے کسی بھی لحاظ سے  کم نہیں تھی جنہوں نے جنگ کی مخالفت نہیں کی تھی۔

علامتی تصویر،فوٹو: رائٹرس

بھارت ماتا کا مسئلہ

دسمبر 2019 میں ایک مرکزی وزیر نے  کہا تھا: ‘بھارت میں وہی لوگ رہ سکتے ہیں جو  ‘بھارت ماتا کی جئے’بولیں گے۔’ کرن تھاپر نے  ٹھیک نشاندہی کی ہے کہ آئین میں بھارت کا ذکر ہے نہ کہ بھارت ماتا کا۔دی پریونشن آف انسلٹس ٹو نیشنل آنر ایکٹ 1971،(2005 میں ترمیم شدہ) صرف ہندوستانی قومی پرچم اور آئین کی بات  کرتا ہے، اور یہ کہتا ہے کہ ان کی حرمت  کو لازمی طور پر برقرار رکھا جانا چاہیے۔

ہم جانتے ہیں کہ ایک خیالی دیوی کی شکل میں بھارت ماتا کے تصور کا جنم  انیسوی صدی کے اواخر میں  کرن چندرا بنرجی  کے ڈرامہ  ‘بھارت ماتا’ اور بنکم چندر چٹوپادھیائے کے ناول ‘ آنند مٹھ’ کی اشاعت کے بعدسے ہوا۔ یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ ان خیالی باتوں کا(ظاہر ہے)متذکرہ قانون میں کہیں کوئی ذکر نہیں ہے، کیونکہ بھارت ماتا کے تصور کی کوئی قانونی یا آئینی حیثیت نہیں ہے۔  لہذا وہ لوگ جو ملک کو ایک دیوی کے روپ میں دیکھنے کے مخالف ہیں (مذہبی یا اور کسی بنیاد پر)، انہیں ملک کے کسی بھی موجودہ قانون کے تحت مجرم نہیں گردانا جا سکتا۔

دسمبر 2017میں سپریم کورٹ کی سہ رکنی بنچ کے سامنے ایک اپیل دائر کی گئی  اور یہ گزارش  کی گئی  کہ جو قانونی تحفظ قومی ترانہ ‘جن من گن’ کو حاصل ہے، وہی قانونی تحفظ ‘وندے ماترم’ کو بھی دیا جائے۔لیکن سپریم کورٹ نے اس کوخارج کر دیا اور دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کو برقرار رکھا جس میں اس نے کہا تھا  کہ کسی گیت  کے مقبول ہونے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اس کوقانون  کے زور پر  دوسروں سے بھی گوا یا جائے۔آپ کو یہ بھی یاد ہوگا کہ نومبر 2017 میں ہی  مدراس ہائی کورٹ نے اپنے ہی ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کو خارج کر دیا تھا، جس کے ذریعے اسکول اور  دفاتر وغیرہ میں وندے ماترم کا گانا لازمی قرار دیا  گیاتھا۔  فروری 2017 میں، سپریم کورٹ نے یہ  فیصلہ سنا یا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 51-اے میں صرف نیشنل فلیگ اور نیشنل اینتھم کا ذکر ہے؛ یعنی آئین میں  نیشنل سانگ (قومی گیت) جیسے کسی تصور کا کوئی ذکر نہیں ہے۔

متعد ایسی مثالیں ہیں جن میں عدالتوں نے قومی گیت کے گائے جانے کو لازمی قرار دیے جانے کی مخالفت کی ہے۔عام طور سے یہ مانا جاتا ہے کہ این آئی اے کے میجر زین العابدین حسن صفرانی نے  ‘جئے ہند’ نعرہ کا ایجاد کیا تھا، جس کو سبھاش چندر بوس نے اپنا یا۔ یہ نعرہ نہ صرف بہت معنی خیز ہے بلکہ بہت جامع بھی ہے۔

 اگر ہر ہندوستانی ‘جئے ہند’کے نعرہ کو بلند کرے تو اس میں کسی کو بھی کو ئی ہرج نہیں ہو گا۔ اس نعرے سے نہ تو حب الوطنی کی نفی ہو تی ہے اور نہ ہی قوم پرستی کے جذبہ کو کوئی ٹھیس پہنچتا ہے۔  میرا یہ مشورہ ہے کے  ‘جئے ہند’ کے نعرہ کی خوب تشہیر ہو اور اسے قانونی درجہ دیا جائے۔


یہ بھی پڑھیں:آخر وندے ماترم کہنے میں کیا حرج ہے؟


اکتوبر2012 میں ہندوستانی فوج نے ایک حکم جاری کیا تھا، جس میں یہ کہا گیا تھا کہ گڈ مارننگ/گدآفٹرنون کے بجائے ، ہر فوجی  ‘جئ ہند’ کہہ کر ایک دوسرے کو مخاطب/خیرمقدم کرےگا۔  پیرا ملیری فورسز (نیم فوجی دستہ)یہ کام بہت زمانے سے کر رہے ہیں۔ ہندوستانی فوج نے ایک اچھا قدم اٹھا یا تھا۔ لیکن اس کااس بات پراصرار کرنا کہ ہرباہری تقریب کا اختتام ‘بھارت ماتا کی جئے’ کے نعرے  (تین بار بلند کرنا)سے ہو،  قانونی لحاظ سے کوئی جواز نہیں رکھتا ہے۔

فوج نے شاید یہ  نہیں سوچا کہ ڈپارٹمنٹ کے ذریعے جاری کیے گئےحکم اور کورٹ مارشل کے خوف سے اس کی پیروی کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ وہ جوڈیشیل اسکروٹنی سے اوپر ہے۔ مثال کے طور پر،  کولکاتا ہائی کورٹ نے ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف ڈیموکریٹک رائٹس اینڈ دیگر بنام اسٹیٹ آف ویسٹ بنگال کے معاملے میں ، پولیس ریگولیشن، بنگال 1943 (جس میں یہ حکم جاری کیا گیا تھا کہ پولیس ہوا میں کبھی بھی فائرنگ نہیں کرےگی)کے ریگولیشن 155 (ب) کو یہ کہہ کر خارج کر دیا تھا کہ یہ  آئین کے آرٹیکل 14، 19 اور 21 کے  برعکس ہے۔

  ٹرالز  یہ مانتے ہیں کہ ایک فوجی سب سے بڑا وطن پرست ہوتا ہے۔ اسی لئے وہ فوجیوں کو ‘پوجتے ‘ ہیں۔ہر دن ہمیں کچھ نہ کچھ جذباتی  درس/نصیحت سے نوازا جا تا ہے ، جیسے؛  ‘جب تم اپنے گھر جانا، تم گھر والوں سے ہمارے بارے میں ضرور بتانا اور کہنا کہ ان کے  کل کے لئے ہم نے اپنا آج قربان کیا ہے’یا’ہم اپنے گھروں میں اطمینان سے سو پاتے ہیں کیونکہ ہمارے فوجی سرحد پر  پوری رات کھڑے رہتے ہیں’وغیرہ وغیرہ۔

فوٹو: پی ٹی آئی

ملک کے فوج کی اہمیت ہے۔ لیکن  ساتھ ساتھ ملک کے دوسرے لوگ بھی اتنے ہی اہم ہیں۔عام لوگوں کی زندگی  اور ان کی بات چیت/مباحث میں فوج کا غیر معمولی طور  پر شامل ہونا اچھا شگون نہیں ہے۔اس امر سے فوج کی غیر سیاسی شبیہ اور اس کی غیر جانبداری  پر اثر پڑ سکتا ہے۔  یہی چیز پولیس (ایک ایسا آرگنائزیشن جو تاریخی طور پر نیم فوجی رہا ہے)کے لئے مہلک ثا بت ہو ئی ہے۔

یہ کتنے حیرت کی بات ہے کہ سوشل میڈیا کا ہر واریئر وطن پرست ہے، اس کے باوجود ہندوستانی فوج میں 45634 فوجیوں کی کمی ہے ، بشمول 7399 آفیسرز۔ گزشتہ تین مالی سالوں میں ہندوستانی فوج نے 8 کروڑ روپے صرف اشتہار پر خرچ  کیے ہیں تاکہ نو جوانوں کو آرمی جوائن کرنے کے لئے راغب کر سکے۔ یہ ‘دیش بھکت’ لوگ آرمی کیوں نہیں جوائن کرتے؟ یہ بات جان لینے کی ہے کہ آج بھی فوج میں زیادہ تر دیہی علاقوں کے لوگ بھرتی ہوتے ہیں، اور  ان علا قوں میں ٹرالز کی تعداد کم ہے۔

ہر شہری کی اپنی خدمات ہیں

 ملک کا ہر شہری  کسی نہ کسی شکل میں  ملک کی خدمت کر رہا ہوتا ہے۔ اور  ایک ایک فرد  اس حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔  وہ لوگ جو دہلی میں رہ چکے ہیں انہیں یہ اندازہ ہوگا کہ صفائی ملازمین کے ہڑتال پر چلے جانے سے صرف دو دنوں میں پورا شہر کس قدربدبو دار ہو جاتا ہے۔ سماج کا کوئی بھی طبقہ یا کسی بھی ایک پیشہ سے جڑا شخص ، کسی بھی دوسرے پیشہ سے جڑے شخص سے زیادہ یا کم اہم نہیں گردانا جا سکتا۔

ذرا تصور کریں وہ منظر کیسا ہوگا اگر یہ لازمی قرار دیا جائے کہ ملک کا ہر شہری فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کے سامنے اپنا سر جھکا کر اس بات کے لئے ان کا شکریہ اداکرے کہ وہ سرحد کی حفاظت کرتے ہیں/ بدمعاشوں سے انہیں بچاتے ہیں۔

ملک کا کوئی بھی شہری قانونی طور پر اس بات کے لئے مجبور نہیں ہے کہ وہ کسی بھی دوسرے شخص کے سامنےاپنی حب الوطنی  کا مظاہرہ کرے یا اسے  ثابت کرے، ٹرالز کی بات تو دور۔  اگر کوئی شخص کسی ملک مخالف سرگرمی  میں ملوث ہوتا ہے(جن کا ذکر ان فیصلوں میں ہوا ہے؛کیدار ناتھ سنگھ بنام اسٹیٹ آف بہاریا پریہ پرمیشورن پلائی بنام یونین آف انڈیا اینڈاو آر ایس )تو انہیں ضرور سزا دینی چاہیے۔ تاہم، ہم  کسی کو محض اس بنیاد پر سزا نہیں دے سکتے کہ اس کے دماغ میں ملک مخالف سوچ کے ہونے کا خدشہ ہے۔ یہ جارج آرویل کا نائنٹین ایٹی فور نہیں ہے اور نہ تو  ہماے یہاں ‘تھاٹ کرائم‘کا کوئی تصور  ہے۔ حب الوطنی کے نام پر ان لوگوں کو ہر گز نہیں  ستا یا جا سکتا جو محض مختلف سیاسی نظریہ کے حامی ہیں۔

(مضمون نگار ریٹائرڈ آئی پی ایس افسرہیں اور کیرل کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اور بی ایس ایف و سی آر پی ایف میں ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل رہے ہیں۔ )