حب الوطنی پر سوشل میڈیا ٹرالز کی اجارہ داری نہیں ہو سکتی ۔ انہیں یہ حق ہر گز نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ان لوگوں کو پاکستان چلے جانے کو کہیں جو وطن پرستی کومختلف چشمے سے دیکھتے ہیں۔
میں نے ایک دن ٹوئٹر پرموجود بہت سارے ٹرالز کے پروفائل کو کھنگا لا۔ میں نے دیکھا کہ ان میں سے زیادہ تر لوگوں نے اپنے بایو (تعارف) میں‘پیٹریوٹ’ ‘پراؤڈانڈین’ ‘نیشن فرسٹ’ ‘ترنگا فرسٹ’‘نیشنز ویلفیئرفرسٹ’‘اسٹاؤنچ نیشنلسٹ’ ‘ان اپولوجیٹک نیشنلسٹ’ اور ‘بھارت ماتا کی جئے’ وغیرہ لکھ رکھا ہے۔ ان میں سے بہتوں کے پروفائل فوج سےبھی اپنی محبت کا اظہار کر رہے تھے۔جیسے ‘فین آف انڈین آرمڈ فورسز’ ‘مائی آرمی مائی پرائیڈ’ ‘جئے ہند کی سینا’ وغیرہ وغیرہ۔ سوال یہ ہے کہ ان لوگوں پر اپنے دیش پریم کی نمائش کا جنون کیوں کر سوار ہوتا ہے؟ کیا یہ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ باقی سب غدار ہیں؟ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ان لوگوں (ٹرالز)نے ملک کی خدمت کرتے ہوئے کوئی نمایاں کام انجام دیا ہے۔ میں نے آج تک ایسا کوئی ہندوستانی نہیں دیکھا ہے جو ملک کے لئے بد دعائیں کرتا ہو۔دیش کے لئے کیا اچھا ہے، اس حوالے سے ان کی رائے ان ٹرالز سے مختلف ہو سکتی ہے، لیکن بہر حال وہ بھی اپنے ملک کو خوشحال ہی دیکھنا چاہتے ہیں۔ ‘حب الوطنی’پر ان ٹرالز کی اجارہ داری نہیں ہو سکتی ۔ انہیں یہ حق ہر گز نہیں دیا جا سکتا کہ وہ ان لوگوں کو پاکستان چلے جانے کو کہیں جو وطن پرستی کومختلف چشمے سے دیکھتے ہیں۔ عام طور پر یہ سمجھا جا تا ہے کہ پیٹریاٹ ازم(حب الوطنی) اور نیشنلزم (قوم پرستی) ایک ہی چیز ہے۔ مگر یہ سچ نہیں ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے با لکل مختلف ہیں۔ حب الوطنی کی تاریخ دو ہزار سال پرانی ہے، جبکہ قوم پرستی /نیشنلزم کا جنم انیسویں صدی میں ہوا۔ دی اسٹین فورڈ انسائیکلو پیڈیا کے مطابق حب الوطنی کا مطلب ہے اپنے ملک سے محبت کرنا، اس کے ساتھ اپنی پہچان کا اظہار کر نا اور اس کی ( بشمول اس کے باشندے)کی فلاح و بہبود کی تمنا کرنا۔ دی اسٹین فورڈ انسائیکلو پیڈیا نے قوم پرستی کو اس عمل سے تعبیر کیا ہے جس میں کسی قوم کا فرداپنی قومی شناخت کے تئیں بہت پرجوش ہوتا ہے۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹا نیکا کے مطابق قوم پرستی کا مطلب ہےقوم کے تئیں وفادار ہونا، اس سے عقیدت رکھنا اور اور اس کی اطاعت کرنا؛ لیکن اس میں انفرادی یا دیگر گروہی مفادات کے تئیں ہمدردی کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ ٹرالز کے جو خیالات ہیں وہ ان زمروں میں آتے ہیں: جنگوئزم ، شاونزم ، الٹرا نیشنلزم یا ہائپرنیشنلزم۔ ایک ہائپر نیشنلسٹ کا یقین اس بات میں شدت سے ہوتا ہے کہ اس کا ملک اور اس کے ملک کا موقف دونوں صد فیصد درست ہیں؛ اور وہ کبھی بھی غلط نہیں ہو سکتے۔ اس کے برعکس ،ایک محب وطن (پیٹریاٹ)اپنے ملک سے محبت بھی کرتا ہے اور ساتھ ساتھ یہ بھی تسلیم کرتا ہے کہ اس کے ملک میں بھی خامیاں اور برائیا ں ہو سکتی ہیں۔ اپنے ملک سے محبت کرنا ایک شہری کا فرض تو ہے، مگر دوسروں سے بے تحاشہ نفرت کرنا اور انہیں ماردینے کی خواہش کرنا جرم (انسانیت کے خلاف) ہے۔ تنقید اور حب الوطنی رابندر ناتھ ٹیگور اور مہاتما گاندھی کے درمیان حب الوطنی /قوم پرستی کے حوالے سے جومشہور زما نہ بحث ہے، اس میں ٹیگور نے گاندھی جی کو انتباہ کیا تھا کہ نیشنلزم اور زینو فوبیا (اجنبیوں/غیر ملکیوں سے نفرت)کے درمیان جو لائن ہے وہ بڑی نازک ہے۔ مزید یہ کہ غیر ملکیوں سے نفرت کا جوجذبہ ہے وہ ایک دن ایک ہندوستانی کو دوسرے ہندوستانی (جو اس سے مختلف ہے) سے بھی نفرت کرنے پر آمادہ کر سکتا ہے۔ ٹیگور نے اپنے دوست اےایم بوس کو لکھا تھا: ‘جب تک میں زندہ ہوں ، حب الوطنی کو انسانیت پر غالب نہیں آنے دوں گا۔ ‘ ویت نام جنگ میں امریکی شمولیت کے خلاف، امریکی شہریوں کے ذریعے کیے گئے احتجاج کو ملک کی سیاسی تاریخ میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ لیکن اس کے باوجود جنگ مخالف مظاہرین کو کبھی بھی برا بھلا نہیں کہا گیا۔ انہیں کبھی بھی یہ نہیں کہا گیا کہ وہ غدار ہیں یا یہ کہ وہ ملک سے محبت نہیں کرتے ہیں۔ فوج میں جبراً بھرتی کیے جانے کے بعد،ان لوگوں نے بھی شدت سے جنگ لڑی جنہوں نے آئیڈیا لوجی کی بنیاد پر ویت نام جنگ کی مخالفت کی تھی۔ جیمس ای۔ ویستھیڈر اپنی کتاب ‘دی ویت نام وار’ میں لکھتے ہیں کہ 1968 میں، ویت نام میں موجود فوج میں سے صرف 42 فیصد فوجی ایسے تھے جنہیں جبراً بحال کیا گیا تھا، لیکن اہم بات یہ ہےکہ ہلاک ہونے والے فوجیوں کی کل تعداد میں ان کی حصہ داری 58 فیصد تھی۔لہذا یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ان کی حب الوطنی ان فوجیوں سے کسی بھی لحاظ سے کم نہیں تھی جنہوں نے جنگ کی مخالفت نہیں کی تھی۔(یوں تو وطن پرستی اور اس کی نمائش کے حوالے سے پورے سال تنازعات ہوتے رہتے ہیں، مگر 15 اگست کے آس پاس ایسے واقعات کی تعداد لامحالہ بڑھ جاتی ہے۔ وطن سے محبت ایک فطری عمل ہے۔لیکن کیا اس کا مظاہرہ اور فخریہ نمائش ضروری ہے؟ اس مضمون میں اس سوال کا معقول جواب دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ لہذا اس کا اردو ترجمہ آپ کی خدمت میں پیش ہے۔ اس کوانگریزی میں پڑھنے کے لئے آپ یہاں کلک کر سکتے ہیں) سید کاشف
یہ بھی پڑھیں:آخر وندے ماترم کہنے میں کیا حرج ہے؟
اکتوبر2012 میں ہندوستانی فوج نے ایک حکم جاری کیا تھا، جس میں یہ کہا گیا تھا کہ گڈ مارننگ/گدآفٹرنون کے بجائے ، ہر فوجی ‘جئ ہند’ کہہ کر ایک دوسرے کو مخاطب/خیرمقدم کرےگا۔ پیرا ملیری فورسز (نیم فوجی دستہ)یہ کام بہت زمانے سے کر رہے ہیں۔ ہندوستانی فوج نے ایک اچھا قدم اٹھا یا تھا۔ لیکن اس کااس بات پراصرار کرنا کہ ہرباہری تقریب کا اختتام ‘بھارت ماتا کی جئے’ کے نعرے (تین بار بلند کرنا)سے ہو، قانونی لحاظ سے کوئی جواز نہیں رکھتا ہے۔ فوج نے شاید یہ نہیں سوچا کہ ڈپارٹمنٹ کے ذریعے جاری کیے گئےحکم اور کورٹ مارشل کے خوف سے اس کی پیروی کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ وہ جوڈیشیل اسکروٹنی سے اوپر ہے۔ مثال کے طور پر، کولکاتا ہائی کورٹ نے ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف ڈیموکریٹک رائٹس اینڈ دیگر بنام اسٹیٹ آف ویسٹ بنگال کے معاملے میں ، پولیس ریگولیشن، بنگال 1943 (جس میں یہ حکم جاری کیا گیا تھا کہ پولیس ہوا میں کبھی بھی فائرنگ نہیں کرےگی)کے ریگولیشن 155 (ب) کو یہ کہہ کر خارج کر دیا تھا کہ یہ آئین کے آرٹیکل 14، 19 اور 21 کے برعکس ہے۔ ٹرالز یہ مانتے ہیں کہ ایک فوجی سب سے بڑا وطن پرست ہوتا ہے۔ اسی لئے وہ فوجیوں کو ‘پوجتے ‘ ہیں۔ہر دن ہمیں کچھ نہ کچھ جذباتی درس/نصیحت سے نوازا جا تا ہے ، جیسے؛ ‘جب تم اپنے گھر جانا، تم گھر والوں سے ہمارے بارے میں ضرور بتانا اور کہنا کہ ان کے کل کے لئے ہم نے اپنا آج قربان کیا ہے’یا’ہم اپنے گھروں میں اطمینان سے سو پاتے ہیں کیونکہ ہمارے فوجی سرحد پر پوری رات کھڑے رہتے ہیں’وغیرہ وغیرہ۔