امید سحر کی بات سنو…

کچھ عرصے سے ہندوستان سے بہت دکھ دیوا باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ کبھی کسی کو گائے کا گوشت کھانے پر مار دیا جاتا ہے تو کبھی کسی کشمیری مسلمان کو کرائے پر گھر دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کا نام ایک گالی بن چکا ہے کہ جس سے ذرا سا بھی مسئلہ ہو اسے پاکستان جانے کا مفت مشورہ یا یوں کہیے دھمکی دے دی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی مذہبی منافرت اپنے عروج پر ہے۔ اقلیتوں کے حالات ان دونوں ملکوں میں کچھ خاص اچھے نہیں۔

کچھ عرصے سے ہندوستان سے بہت دکھ دیوا باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ کبھی کسی کو گائے کا گوشت کھانے پر مار دیا جاتا ہے تو کبھی کسی کشمیری مسلمان کو کرائے پر گھر دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کا نام ایک گالی بن چکا ہے کہ جس سے ذرا سا بھی مسئلہ ہو اسے پاکستان جانے کا مفت مشورہ یا یوں کہیے دھمکی دے دی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی مذہبی منافرت اپنے عروج پر ہے۔ اقلیتوں کے حالات ان دونوں ملکوں میں کچھ خاص اچھے نہیں۔

عللامتی تصویر، فوٹو:، پی ٹی آئی

عللامتی تصویر، فوٹو:، پی ٹی آئی

ہماری عمر قریب چونتیس برس ہے۔عورت ہوں۔ زمانے کا کہنا ہے کہ عمر بتانا نسوانیت کے شایان شان نہیں۔ لیکن آگ لگے زمانے کو۔ اب تک اس سے کس جنت کی نوید سن لی جو آج کے دن سنائے گا۔ ہمیں اس بات سے چنداں فرق نہیں پڑتا کہ ہم اس کے کس معیار پر پورے اترتے ہیں۔ آپ سب اپنے ہیں۔ مانا کہ یہ آپ سے پہلی ملاقات ہے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ آپ ہم سے دوبارہ ملنا مناسب نہ سمجھیں۔ کچھ بھی ممکن ہے۔

اجی، بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ ہم ایسے ہی ہیں۔ تو عمر کا ذکر کچھ یوں آیا کہ آپ سے پہلی ملاقات ہے۔ آپ سے ملنے سے پہلے جو زندگی گزاری اس کے بارے میں جاننا آپ کا بنیادی حق ہے۔ ہم نے زندگی کے انتیس سال پاکستان کے مختلف شہروں میں گزارے۔ ہندوستانی فلموں میں دکھائے جانے والے پاکستانیوں کے برعکس ہم نہ تو بہت مذہبی تھے اور نہ ہی آنکھوں کو سرمے سے تر کیے رکھتے تھے۔ بس آپ جیسے ہی تھے۔

والدہ کا خاندان بٹوارے کے بعد پاکستان آیا تھا۔ روہتک کے ایک شہر جھجھر کا نام ہم نے اس قدر سن رکھا تھا کہ لگتا تھا یہیں لاہور کے عقب میں ہے۔ ہجرت کر کے آنے والے ان تمام رشتے داروں نے پاکستان کے ایک شہر سرگودھا میں منی جھجھر آباد کر رکھا تھا۔ یہاں کا رہن سہن، زبان، بودو باش، کھانا پکانا سب یوں ہی تھا جیسے جھجھر میں ہوا کرتا ہو گا۔ یوسف زئی قبیلے سے تعلق رکھنے والے اس خاندان کو اپنی زباندانی اور تعلیم پر بہت ناز تھا۔ ان کی کوشش یہی ہوتی تھی کہ رشتے بھی اپنے جیسے مہاجروں میں ہی کریں۔ ہمیشہ تو یہ نہیں ممکن تھا لیکن اکثر کامیابی مل بھی جاتی تھی۔ یوں منی جھجھر کی ایک گلی سے دوسری گلی میں بارات پیدل ہی چل پڑتی تھی۔

ہماری نانی جان کو اپنا پرانا گھر ازبر تھا۔ باوجود اس کے کہ ہماری نانی مشتری بیگم بہت مضبوط اعصاب کی مالک تھیں اور حال میں رہنا پسند کرتی تھیں، اپنے گھر اور مٹی کو نہ بھول پائی تھیں۔ ایک نئے دیس میں انہوں نے مکان تو کھڑا کر لیا تھا لیکن اس بودو باش کو مکمل طور پر اپنانا ان کے بس میں نہ تھا۔ ساٹھ سال تک ٹھیٹھ پنجابیوں کے شہر  رہنے کے باوجود آج بھی اپنی ہی بولی بولتی تھیں۔ ان کے بچوں نے مقامی زبان سیکھ لی تھی لیکن نانی جان کا فخر ان کو اس بات کی اجازت نہ دے پایا۔

راقم کی والدہ کی پیدائش موجودہ پاکستان کی تھی لیکن اس کے باوجود ان کو بھی ہمیشہ یہی کہتے سنا کہ پاکستان سے باہر جانے کا شوق نہیں۔ اگر موقع ملا تو بس دلی اور آگرہ دیکھوں گی۔ ہم بھی ان کی دیکھا دیکھی یہی سوچتے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ خدا نے بعد میں دنیا کے کئی رخ دکھائے لیکن دلی دیکھنا نصیب میں نہ تھا۔

ہمارا بچپن ضیا الحق کے زمانے کے بعد کا ہے۔ ملک ایک ڈکٹیٹر کے تسلط سے نیا نیا آزاد ہوا تھا لیکن ابھی بھی کہیں نہ کہیں اس عہد رفتہ کی باقیات زندہ تھیں۔ مطالعہ پاکستان میں یہ تو پڑھایا جا رہا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان دشمن ملک تھے لیکن یہ زہر ابھی رگوں میں سرائیت نہ کر پایا تھا۔ جب کبھی انار کلی بازار میں سکھ یاتری شاپنگ کرتے نظر آتے تو والد صاحب انہیں ضرور ملتے اور گھر آنے کی دعوت دیتے۔ وہ ہمیں امرتسر اور چنڈی گڑھ کا بلاوا دیتے۔ اگلے سال وہ یاتری نظر نہ آتے لیکن والد صاحب کی دعوت وہی رہتی۔

جب بڑے ہوئے تو دونوں ملکوں میں نفرت اور پروپیگنڈہ  بہت حد تک ناسور کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ ہمارا دل ابھی بھی یہی کہتا تھا کہ یہ سب چار صاحب اختیار لوگوں کے مفاد کا گیم ہے۔ لیکن دل کا کیا ہے۔ دل تو پاگل ہے۔ دلی جانا ناممکن تھا۔

خدا کا کرنا کیا ہوا کہ وقت کم بخت بدل گیا۔ اچھا ہی ہوا۔ ہم نے نئی دنیائیں دیکھ لیں۔ ملک سے باہر جا کر معلوم ہوا کہ جو نفرتیں ہم اپنے دلوں میں بسائے بیٹھے تھے وہ تو جھٹ سے بھسم ہوئیں۔ ہماری ہمسائی جس کا تعلق ہماری والدہ کے محبوب شہر دلی سے تھا اسی نے ہمیں نئے ملک کے بارے میں ہر چیز سے آگاہ کیا۔ بعد میں اس نے بھی بتایا کہ ہم پہلے پاکستانی تھے جس سے اس کی بات چیت ہوئی۔ جو اس کے ذہن میں تھا ہم اس کے برعکس نکلے۔ بالکل اسی جیسے نکلے۔

یہاں نہ صرف ہمارے کئی ہندوستانی دوست بنے بلکہ کئی ایسے لوگوں سے بھی ملاقات ہوئی  جن کے لیے ہم سے پہلی ملاقات ایک ہوا تھی۔ ہمیں آج بھی اپنی عزیز از جان سہیلی پریہ کے ساتھ اس کی ایک سہیلی سلکشنا کو ملنا یاد ہے جس نے پریہ سے فرمائش کی تھی کہ وہ اسے اپنی ‘پاکستانی ‘سہیلی سے ملوائے۔ پریہ نے ہمیں بتایا تو ہم دونوں مل کر خوب ہنسے۔ سلکشنا کو یقیناً ہم سے مل کر خوب مایوسی ہوئی ہو گی کہ نہ تو ہم برقع پہنے ہوئے تھے اور نہ ہی فرشی آداب بجا لاتے تھے۔

لال قلعہ، فوٹو: ششانک سنہا/دی وائر

لال قلعہ، فوٹو: ششانک سنہا/دی وائر

کچھ عرصے میں ہمیں اور ہماری سب سہیلیوں کو یہ معلوم ہو گیا کہ ہم ایک ہی جیسے ہیں۔ اپنے ملکوں میں نصابی کتب اور میڈیا کے پروپیگنڈہ کے برعکس ہمارا بہت کچھ ملتا جلتا تھا۔ جیسے ہمیں بیسن ہمیشہ انڈین اسٹور سے ملا اس طرح انہیں بھی بریانی کے لیے شان کا مصالحہ ہی بھاتا تھا۔ کچھ عرصے میں ہمیں بھی ڈوسہ اور سانبھر بھانے لگا تھا۔ ہماری ہندوستانی سہیلیاں ہم سے فرمائش کر کے پالک گوشت بنوانے لگیں ( جی ہاں، ان سب کو گوشت سے مسئلہ نہیں تھا)۔

دونوں اطراف کے اسٹیریو ٹائپ یوں گرنے لگے جیسے نمک کی دیوار پر گرم پانی کا اسپرے ہو گیا ہو۔ ان سب کو لاہور دیکھنے کا شوق تھا اور ہمارے سپنوں میں دلی کے بعد آگرہ اور جے پور بھی شامل ہو چکا تھا۔ وہ ہم سے افطار پر بلانے کا اصرار کرتے اور ہمیں دیوالی کے لڈو ضرور کھانے تھے۔ کبھی کبھی ایسا لگنے لگتا کہ شاید زمانہ پیچھے کی طرف جا رہا ہے۔ ہم دبئی میں نہیں بلکہ جھجھر میں رہتے ہیں جہاں فسادات سے پہلے سب اکٹھے تھے۔

کچھ عرصے سے ہندوستان سے بہت دکھ دیوا باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ کبھی کسی کو گائے کا گوشت کھانے پر مار دیا جاتا ہے تو کبھی کسی کشمیری مسلمان کو کرائے پر گھر دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ پاکستان کا نام ایک گالی بن چکا ہے کہ جس سے ذرا سا بھی مسئلہ ہو اسے پاکستان جانے کا مفت مشورہ یا یوں کہیےدھمکی دے دی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی مذہبی منافرت اپنے عروج پر ہے۔ اقلیتوں کے حالات ان دونوں ملکوں میں کچھ خاص اچھے نہیں۔

یوں لگتا ہے کہ جیسے ہم کبھی دلی نہیں دیکھ پائیں گے۔ ہماری سہیلی پریہ کبھی لاہور نہیں دیکھ پائے گی۔ ہم چاندنی چوک نہ جا سکیں گے اور وہ انارکلی میں بانو بازار کی چاٹ نہ کھا پائے گی۔ ہم صرف اپنے ملکوں سے باہر ہی امن و آشتی سے رہ پائیں گے۔ اپنے ملکوں میں رہتے ہوئے ہم ایک دوسرے کے دشمن ہی رہیں گے۔

امن اس وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کے سامنے غربت کا عفریت کسی بھی بم سے کہیں بڑا ہے۔ کیا ہماری انا ہمارے عوام کی امن کی خواہش اور ضرورت سے زیادہ بڑی ہے؟ کیا اپنے ملک میں اپنے ہی لوگوں کو ہم ایک دوسرے کو نیچا دکھا پائیں گے؟ دونوں اطراف کی وہ عوام جو ایک دوسرے سے نفرت نہیں کرتی بلکہ اپنے اجداد کا آبائی مکان دیکھنا چاہتی ہے وہ اس آگ میں ہر دم کیوں جھلسے؟

اگر یہ سب یوں ہی چلتا رہا اور ہم دونوں ممالک کے امن پسند عوام یوں ہی پستے رہے تو ہم روٹھ جائیں گے۔ ان ملکوں سے دور ایک نیا جہاں بسائیں گے۔ عید اور دیوالی پر ایک دوسرے کو مبارک باد دیں گے۔ گائے کا گوشت کھانے پر کسی کا خون نہیں بہنے دیں گے۔ آپ اپنی جہنم آپ بسائیے۔ ہم اپنی جنت کا بندوبست خود کر لیں گے۔ انارکلی نہ سہی دبئی میں چاٹ کھا لیں گے لیکن آپ کے بہکاوے میں ہر گز نہ آئیں گے۔ امید سحر کی بات سننے کا وعدہ کیجئے تو ہم آپ کے ساتھ ہیں ورنہ بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا۔

(مضمون نگارکا تعلق پاکستان سےہے ، ان دنوں آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔ @khwamkhwahان کا ٹوئٹر ہینڈل ہے۔)

Next Article

بیانیہ، بیداری اور فیصلے: استنبول میں اسلامی دنیا کی نئی صف بندی

 مسلم دنیا میں یہ سوچ پنپ رہی ہے کہ طاقت اب صرف سیاست اور احتجاج میں نہیں، بلکہ تعلیم، ابلاغ اور ادارہ جاتی صلاحیت میں بھی پنہاں ہے۔

اسلامی کانفرنس کی تعاون تنظیم کے اجلاس کی ایک تصویر، فوٹو بہ شکریہ: ترک وزارت خارجہ

اسلامی کانفرنس کی تعاون تنظیم کے اجلاس کی ایک تصویر، فوٹو بہ شکریہ: ترک وزارت خارجہ

بیسویں صدی کے اوائل میں متحدہ ہندوستان کے دور میں مرحوم احمد شاہ پطرس بخاری اپنے ایک طنزیہ مضمون ’مرید پور کا پیر‘ میں رقمطراز ہیں کہ جس شہر میں وہ مقیم تھے، وہیں کانگریس والوں نے اپنا سالانہ اجلاس منعقد کرنے کی ٹھان لی اور جب ایسا جلسہ بغل میں ہو رہا ہوں، تو کون متقی وہاں جانے سے گریز کرے۔

یہی صورتحال کم و بیش حال ہی میں مجھے پیش آئی۔ معلوم ہوا کہ ترکیہ کے عروس البلاد استنبول میں ستاون اراکین پر مشتمل اسلامی کانفرنس تنظیم کے وزرائے  خارجہ کا اکیاون واں اجلاس منعقد ہو نے والا ہے۔ اب ترکیہ میں مقیم  کون صحافی اس موقع کو ضائع ہونے دیتا۔

ایک تو خطے کی صورتحال ایران- اسرائیل جنگ، غزہ کی صورتحال، دوسرا اس کانفرنس کے دوران افریقی ملک برکانو فاسو کے وفد سے ملاقات کی لالچ تھی، جس کے صدر ابراہیم ترورے نے  استعماری طاقتوں کے خلاف افریقی ممالک کو متحد کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔

میں نے اس کانفرنس کےلیے رجسٹر کرکے انقرہ سے استنبول کی راہ لی۔ بتایا گیا کہ حکومت ترکیہ سے ایکرڈیٹڈ صحافی ہونے کا ناطے کانفرنس کےلیے رجسٹر کرنا بس ایک رسمی کاروائی ہے۔

ترکیہ کے شہر استنبول کی داد دینی پڑے گی کہ شہر میں ستاون وزرائے خارجہ اور ان کے وفود کی موجودگی کے باوجود کہیں ٹریفک میں خلل تھا نہ معمولات زندگی میں رخنہ ڈالا گیا تھا ۔ کانفرنس بلڈنگ تک  معلوم ہی نہیں پڑا، کہ شہر میں اتنی بڑی تعداد میں وی وی آئی پییز جمع ہیں ۔

کوئی سڑک بند، نہ پولیس کے دستے نظر آرہے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ بس ایک یا دو غیر ملکی سربراہان کی آمد پر تو نئی دہلی میں  کئی اہم شاہراہیں بند ہو جاتی ہیں۔جن سے میلوں دور تک ٹریفک جام لگتا تھا۔ اسلام آباد میں پچھلے سال شنگھائی تعان تنظیم کے اجلاس کے وقت تو پورا شہر ہی بند کردیا گیا تھا۔

حتیٰ کہ شہر کے نواح میں کانفرنس ہال سے میلوں دور شادی ہالوں تک کو بند رکھنے کی ہدایت دی گئی تھی۔ چونکہ استنبول میں آئے دن غیر ملکی مہمانوں کے آنے کا تانتا بندھا ہوا ہوتا ہے، اس لیے بھی شاید یہ ایک روٹین سا بن گیا ہے۔ پھر اسی کانفرنس بلڈنگ کے پاس ہی ایک نیم دائرہ میں ہوٹلوں کی ایک قطار تھی۔ وفود کے اکثر اراکین کو پیدل ہی ہوٹل سے کانفرنس ہال تک آتے دیکھا۔

خیر کانفرنس کے استقبالیہ پر معلوم ہوا کہ میرا نام لسٹ میں موجود ہی نہیں تھا۔ وجہ بتانے کےلیے کوئی موجود نہیں تھا۔ دو گھنٹہ منت سماجت کرنے اور یہ دہائی دینے کے بعد کہ میں انقرہ سے بس اسی کانفرنس کو کور کرنے کےلیے چلا ہوں اور ہوٹل میں مقیم ہوں، تو اسکارٹ کرکےمجھے پریس گیلری میں لے جایا گیا، جو اسٹیج سے کافی دور اوپر کی منزل میں تھی۔

بتایا گیا کہ صرف افتتاحی سیشن ہی پریس کےلیے اوپن ہے۔ترک افسران بار بار معذرت اور پشیمانی کا ٓاظہار  کررہے تھے کہ رجسٹریشن کے باوجود او آئی سی کے سکریٹریٹ کے اجازت نامے کی لسٹ میں میرا نام نہیں تھا۔ معلوم ہو اکہ میرا ہندوستانی پاسپورٹ اور شہریت دیکھ کر آو آئی سی سکریٹریٹ نے میرا نام لسٹ میں شامل نہیں کیا تھا۔ ان کو ہدایت تھی کہ ہندوستانی اور اسرائیلی صحافیوں کو اس کانفرنس تک رسائی نہیں دینی ہے۔

 افتتاحی سیشن ، جس کو ترک صدر رجب طیب ایردوان نے خطاب کیا، کے بعد صحافیوں کو دوسری بلڈنگ میں میڈیا سینٹر لے جایا گیا اور بتایا گیا کہ اب کانفرنس کے جائے وقو ع تک ان کی رسائی بند ہے۔ یہ ایک نیا ٹرینڈ ہے۔

پچھلے تیس برسوں سے سارک سربراہ یا وزرائے خارجہ کانفرنس، ناوابستہ ممالک کا اجلاس،برکس، شنگھائی تعاون تنظیم، افریقہ چوٹی اجلاس یا اقوام متحدہ کی ماحولیات سے متعلق وغیرہ ایسی ان گنت کانفرنسیں کور کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس میں ایک یا دو سیشن آن ریکارڈ میڈیا کےلیے کھول دیے جاتےتھے، مگر پھر صحافی وہیں بلڈنگ کے آس پاس یا لابی وغیر میں ہی گھومتے پھرتے تھے۔

باہر سے آئے مہمان بھی ناشتہ، لنچ کے وقت ان سے ملنے اور اس ملک کے متعلق جاننے کے خواہشمند ہوتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ دہلی میں افریقہ سمٹ کے موقع پر ایک افریقی ملک کے وزیر  بہار کے صوبائی انتخابات کے بارے میں جاننے کےلیے بیتاب تھے۔

اس طرح جب صحافیوں کا کانفرنس کے مندوبین کے ساتھ تعامل ہوتا تھا، تو خبرو ں کے حصول کے علاوہ ان کے شعور اور عالمی امور کی سوجھ بوجھ  میں اضافہ ہوجاتا تھا اور تجزیہ کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی تھی۔ یہ تعامل چونکہ غیر رسمی ہوتا تھا ، مندوبین بھی کھل کر اپنی علمی مہارت شئیر کرتے تھے۔

صحافیوں کےلیے یہ اب ایک سنجیدہ معاملہ بن چکا ہے۔پوری دنیا میں مسند حکومت پر برا جمان افراد کو لگتا ہے کہ اب ان کو میڈیا کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ سوشل میڈیا نے ان کی رسائی پبلک تک براہ راست کر دی ہے۔  اس لیے میڈیا کو اب رسمی یا غیر رسمی رسائی دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اب صحافیوں کی موجودہ جنریشن کو علمی مہارت یا تجزیہ کاری کا تجربہ حاصل ہو تو کیسے ہو۔ اس میں صحافی خود بھی قصوروار ہیں۔ الکٹرانک میڈیا کے آنے سے بس مائک اور کیمرہ رپورٹروں کو کسی مندوب کے آگے کرکے بریکنگ نیوز لانی ہوتی ہے۔ اس پر خاصے جھگڑے بھی ہوتے تھے۔ اس وجہ سے بھی رسائی بند کر دی گئی۔

ارباب اقتدار اور صحافیوں کو اس معاملے پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انفارمیشن حاصل کرنے کےلیے ایک غیر رسمی بریفنگ  اور انٹر ایکشن کا ہونا ضروری  ہے، جو بعد میں مضامین یا ایڈیٹوریل میں جھلکتا ہے۔ ورنہ وہی حال ہوگا، جس کا مظاہرہ حال کی ہندوستان-پاکستان جنگ میں ہندوستانی میڈیا خاص طور پر ٹی وی چینل کر چکے ہیں۔

خیر اس کانفرنس کے پہلے روز کے اختتام کے بعد ہی امریکہ نے ایران پر حملہ کرکے اس کی نوعیت ہی بدل دی۔ اگلے روز ایرانی وزیر خارجہ نے پریس کانفرنس سے خطاب کیا اور اپنا دورہ ادھورا ہی چھوڑ کر صلاح و مشورہ کےلیے ماسکو چلے گئے۔ چونکہ شام کی جنگ میں ایران نے روس کی خاصی مدد کی تھی اور مشرق وسطیٰ میں ایک عرصے کے بعد روس کو قدم جمانے اور بحری اڈہ قائم کرنے میں مدد کی تھی، اس لیے امید تھی کہ روس اس احسان  کا کچھ بدلہ تو ضرور چکائے گا۔

اس کانفرنس کے دوران احساس ہوا کہ پاکستان، سعودی عرب اسلامی ملک کی لیڈرشپ کے کردار میں واپسی کر رہے ہیں۔کئی دہائی قبل ایک بڑی تبدیلی یہ رونما ہو گئی تھی کہ اسلامی ممالک کی سربراہی دھیرے دھیرے  پاکستان اور سعودی عرب کے ہاتھوں سے نکل کر ترکیہ اور ایران کے پاس چلی گئی تھی۔

جب سے او آئی سی کا قیام عمل میں آیا، تب سے ہی پاکستان میں وزارت خارجہ کی نکیل چونکہ ذولفقار علی بھٹو سے لےکر شاہ محمود قریشی بشمول صاحب زادہ یعقوب خان وغیر جیسے زیرک اور انگریزی جاننے والے افراد کے ہاتھوں میں ہوتی تھی، اس لیے کانفرنس کا ایجنڈہ اور اعلامیہ اکثر وہی ڈرافٹ کرتے تھے۔

سعودی عرب میں اس تنظیم کا سکریٹریٹ تھا اور مالی طور پر سب سے زیادہ بار وہی اٹھاتا تھا۔ اس لیے ان دو ممالک کا رتبہ اسلامی تنظیم میں وہی تھا، جو اقوام متحدہ میں امریکہ اور سویت یونین کا ہوتا تھا۔ مگر تین دہائی قبل ہی آہستہ آہستہ پاکستان اس تنظیم کےلیے غیر متعلق ہوتا گیا اور یہ سیٹ ترکیہ کے پاس آتی گئی، جو اب خاصا فعال ہو گیا تھا۔ اس کے ساتھ ایردوان کی حکومت آنے کے بعد یہ رول کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا۔

 سعودی عرب خو د ہی لیڈرشپ رول سے پیچھے ہٹتا گیا، جس کا خاطر خواہ فائدہ قطر، متحدہ امارات، ملیشیا اور ایران کو حاصل ہوا۔ نظریاتی وجوہات کی بناکر ایران کا رول محدود ہی رہا۔ مگر اس نے لیڈرشپ حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

موجودہ حالات میں خاص طور پر ہندوستان کے ساتھ محدود جنگ میں ہارڈ پاور کا استعمال کرکے پاکستان کے لیے لیڈرشپ کا رول پھر استوار ہو رہا ہے۔ اسرائیل کے ساتھ جنگ کی وجہ سے ایران کا بھی پیمانہ بھاری ہو گیا ہے۔

اس کانفرنس میں محسوس ہوا کہ سعودی عرب لیڈرشپ کے حصول کےلیے واپسی کر رہا ہے۔ مصر بھی ایک بار لیڈرشپ رول میں تھا، مگر وہ پھر پوری طرح غیر متعلق ہوگیا ہے۔عرب ممالک میں قطر اور افریقی ممالک میں برکینو فاسو اس بار بہت ہی سرگرم تھے۔

کانفرنس کے دوسرے دن جب خاصی تگ و دو کے بعد اعلامیہ جاری ہوا، تو مایوس کن بات یہ تھی کہ اس میں ایران پر اسرائیل کے حملوں کا تو ذکر تھا، مگر امریکہ کا کہیں نام شامل نہیں تھا۔

فوٹو بہ شکریہ: ترک وزارت خارجہ

 ستاون ممالک میں کوئی بھی امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی ناراضگی مول نہیں لینا چاہتا تھا۔ پاکستان کی افواج کے سربراہ فیلڈ مارشل عاصم منیر ٹرمپ کے ساتھ اپنی ملاقات کے بعد ایردوان کو بریف کرنے پہنچ گئے تھے، انہوں نے بھی افتتاحی سیشن میں شرکت کی۔

ایک اہم انکشاف یہ تھا کہ مسلم دنیا میں اب یہ سوچ پنپ رہی ہے کہ طاقت اب صرف سیاست اور احتجاج میں نہیں، بلکہ تعلیم، ابلاغ اور ادارہ جاتی صلاحیت میں بھی پنہاں ہے۔

اس کانفرنس میں استنبول میں ہی ایک میڈیا فوم کے قیام کو منظوری دی گئی۔ اس کا خاکہ ایک دہائی قبل دیا گیا تھا، مگر ابھی بھی اس کا قیام باقی تھا۔ بتایا گیا کہ اسلامو فوبیا کے خلاف یہ ایک مؤثر فورم کا کام کرےگا اور مسلم دنیا کےلیے بیانہ وضع کرنے کا بھی کام کرےگا۔

 ایک ایسے عہد میں جب تاثرات کی جنگ سفارتی میدانوں سے پہلے ڈیجیٹل دنیا میں لڑی جاتی ہے، مسلم دنیا کے لیے اپنی کہانی خود سنانا — بغیر مسخ، تعصب یا بیرونی مفروضات کے — نہ صرف ثقافتی ضرورت ہے بلکہ ایک سیاسی ہتھیار بھی ہے۔

فورم کے تحت تربیتی پروگراموں کا آغاز، کردار کشی پر فوری ردعمل کے نظام، اور عوامی نشریاتی اداروں و میڈیا ایجنسیوں کے درمیان ہم آہنگی کا فروغ متوقع ہے۔

ایسے وقت میں جب ایک وائرل کلپ یا جھوٹی خبر بین الاقوامی پالیسی کو کمزور کر سکتی ہے یا نفرت انگیزی کو ہوا دے سکتی ہے، تو یہ پہل علامتی نہیں بلکہ ایک تزویراتی ضرورت بن چکی ہے۔

اسلاموفوبیا سے نمٹنے کی حکمت عملی کے طور پر شفارش کی گئی کہ اشتعال انگیز تقاریر کو قابل سزا جرم بنانا اور مذہبی تعصب کے خلاف تعلیمی اصلاحات کرنا اور اقوام متحدہ کی شراکت سے ایسے عالمی نظام کی تشکیل کرنا، جو مذہبی امتیاز کی تفتیش اور نگرانی کرکے اس پر فوری کاروائی بھی کرے۔ جس بھی ملک سے کوئی شہری اس ادراہ کے پاس امتیاز کی شکایت کرے، تو اس کا فوری ازالہ کیا جائے۔

اگر یہ اقدامات عملی شکل اختیار کر لیں تو یہ بین الاقوامی قانون میں مذہبی رواداری سے متعلق اسلامی دنیا کا پہلا بامعنی کردار ہو گا۔

دہائیوں سے اسلامی ممالک تعصب اور نفرت کی نشاندہی کرتے رہے ہیں، اب وہ ان کا تدارک پیش کر رہے ہیں — ایک ایسی پیش رفت جسے مغربی جمہوریتیں نظرانداز نہیں کر سکتیں۔

اعلامیہ میں ایک حیران کن چیز یہ دیکھنے کو ملی  کہ جہاں برما کے روہنگیا وغیر کا تذکرہ کیا گیا تھا، اس میں چین کےشین جیانگ یا چینی ترکستان کے اویغور آبادی کا تذکرہ نہیں تھا۔

 چونکہ یہ اجلاس ہی استنبول میں منعقد ہو رہا تھا، جہاں جلا وطن ایغور آبادی آچھی خاصی ہے، تو ان کا ذکر نہ کرنا عجیب ہی لگا۔ معلوم ہوا کہ پچھلے اعلامیوں میں جب ایغور آبادی کا تذکرہ ہوتا تھا تو چین اس پر سیخ و پا ہوتا تھا، جیسے ہندوستان کشمیر کے ذکر پر اسلامی تنظم کو آڑے ہاتھوں لیتا ہے۔

 چند برس قبل چین نے اس کا توڑ یہ نکالا کہ جدہ میں او آئی سی سکریٹریٹ کےلیے ایک خصوصی سفیر کا تقرر کیا۔ جس کی وجہ سے اس کو اسلامی تنظیم کے اندر رسائی حاصل ہوئی اور اس نے تنظیم کو آفر دی کہ وہ ہر سال اسلامی ممالک کے وفد کو شین جیانگ کا دورہ کرنے کی اجازت دیں گے اور اگر وہاں عوام کی بہبودی کےلیے ان کو کوئی سفارش کرنی ہو، تو براہ راست اسلامی تنظیم میں متعین چینی سفیر کو دیا کریں۔

اس کے بعد اعلامیہ میں ایغور آبادی کا ذکر آنا بند ہوگیا۔ یہ شاید ہندوستان کےلیے بھی ایک سبق ہے۔ بجائے اسلامی تعاون تنظیم کے اعلامیوں کو ہدف تنقید بنانے کے، انٹرایکشن کا ماحول ترتیب دینے کی کوشش کرے۔

 اسی کانفرنس کے دوران او آئی سی سکریٹریٹ نے چین کی وزارتِ تعلیم کے ساتھ ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے۔ جس کا مقصد وظائف، تعلیمی تبادلے اور مشترکہ تحقیق کے ذریعے انسانی وسائل کی ترقی ہے۔ جہاں او آئی سی عشروں سے مغربی اداروں سے منسلک رہی ہے، وہاں یہ شراکت ایک نئی جہت کی طرف اشارہ ہے — ترقی کے ایسے ماڈلز تیار کیے جائیں گے جو مغربی امداد کی شرائط سے آزاد ہوں گے۔

او آئی سی  ممالک کے لیے یہ ایک نایاب موقع ہے کہ وہ اپنی نوجوان نسل کو تعلیم، سائنس اور تحقیق کے میدان میں مغربی انحصار سے باہر نکلنے کے راستے فراہم کرے۔ چینی سفیر چانگ ہوا نے اس معاہدے کو دونوں فریقوں کے درمیان تعلقات میں’اہم سنگِ میل’ قرار دیا اور تعلیم، سائنس و ٹیکنالوجی، اور دیگر مشترکہ شعبوں میں مزید تعاون کے عزم کا اظہار کیا۔

اسلامی دنیا میں اعلیٰ تعلیم، سائنسی تحقیق، علمی تبادلہ اور ادارہ جاتی تعاون کو فروغ دینے کے لیے ایک اسٹریٹجک فریم ورک قائم کرنے کا بھی اعلان کیا گیا۔جس میں بیس سے زائد ترک اعلیٰ تعلمی ادراے شامل ہوں گے۔

 اس کے ذریعے مشترکہ تحقیق، تربیتی پروگرام، اور رکن ممالک کی جامعات کے درمیان نیٹ ورکنگ کو تقویت ملے گی۔

اسی طرح او آئی سی مرکز برائے پولیس تعاون کے قیام کا اعلان کیا گیا۔ جس میں ابتدا میں سات رکن، ترکیہ ، قطر، موریتانیا، بینین، گنی بساؤ، گیمبیا اور لیبیا شامل ہوں گے۔ یہ مسلم ممالک میں داخلی استحکام اور بین الاقوامی قانون نافذ کرنے کےلئے طریقہ کار وضع کرے گا۔

یہ مرکز ایک رضاکارانہ ماہر ادارے کے طور پر تربیت، انٹلی جنس شیئرنگ اور سرحد پار تعاون کو فروغ دے گا۔ دہشت گردی، سائبر جرائم اور انتہا پسندی جیسے چیلنجز کے لیے مشترکہ ردعمل کی ضرورت ہے، اور اگر اس مرکز کو وسعت دی جائے تو مسلم ممالک مغربی سکیورٹی سانچوں اور ٹکنالوجی پر انحصار کم کر سکتے ہیں۔

اگر ان تمام اعلانات کو ایک ساتھ دیکھا جائے تو یہ او آئی سی کے نقطۂ نظر میں ایک خاموش لیکن فیصلہ کن تبدیلی کی نشان دہی کرتے ہیں۔

صدر ایردوان نے افتتاحی خطاب میں کہا کہ مسلم دنیا کو صرف ردعمل دینے والا نہیں، بلکہ رہنمائی فراہم کرنے والا کردار ادا کرنا ہو گا۔ اس قیادت کا اندازہ تقریروں یا پریس ریلیز سے نہیں، بلکہ اُن اداروں، مراکز اور معاہدوں کے عملی اطلاق سے ہو گا جن کا  اعلان کیا گیا۔

استنبول کا یہ اجلاس ممکن ہے ایک ایسے لمحے کے طور پر یاد رکھا جائے، جب او آئی سی نے ایک اخلاقی آواز سے بڑھ کر ایک منظم قوت بننے کی طرف پہلا قدم اٹھایا ۔ایک ایسا قدم جو محض ردعمل پر مبنی نہیں بلکہ بھرپور اقدامات کی طرف گامزن ہے۔

مگر اعلامیے کافی نہیں؛ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا کی دوسری سب سے بڑی بین الحکومتی تنظیم اپنی آبادیاتی قوت کو ادارہ جاتی طاقت میں تبدیل کرے۔

ایران پر اسرائیل کے حملے کے حوالے سے وزرائے خارجہ نے ایک کھلے مینڈیٹ والے رابطہ گروپ کے قیام پر اتفاق کیا، جو دنیا کی بڑی طاقتوں سے رابطہ قائم کر کے کشیدگی میں کمی، اور اسرائیلی جارحیت کے احتساب کے لیے اقدامات کرے گا۔

اسرائیل کی ‘عدم استحکام پھیلانے والی پالیسیوں’ کی مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا گیا کہ اگر ان پر قابو نہ پایا گیا تو اس کے خطرناک انسانی، معاشی اور ماحولیاتی نتائج پوری دنیا کو متاثر کریں گے۔

وزرائے خارجہ نے ان کوششوں کی مذمت کی جو اسرائیلی حکام کی جانب سے القدس الشریف کی تہذیبی شناخت کو مسخ کرنے اور مسجد اقصیٰ کی قانونی و تاریخی حیثیت بدلنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔

اعلامیے میں اردن کی ہاشمی حکومت کی کوششوں کو سراہا گیا، جو یروشلم میں اسلامی و مسیحی مقدس مقامات کی متولی ہے۔ بیت المال القدس ایجنسی اور القدس کمیٹی کے کردار کی بھی تعریف کی گئی۔

او آئی سی نے یونیسکو کی ان قراردادوں کا خیرمقدم کیا جن میں مسجد اقصیٰ کو اسلامی عبادت گاہ قرار دیا گیا اور اردن کی انتظامی بالادستی کو تسلیم کیا گیا۔

ایردوان نے کہا کہ اسلامی تنظیم کے رکن ممالک کو صرف اپنے ہی مسائل کا حل نہیں نکالنا، بلکہ پوری دنیا کے مظلوموں کی آواز بھی بننا ہے۔انہوں نے کہا کہ مسلم اقلیتیں، او آئی سی اور باقی دنیا کے درمیان ایک پل کا کام کرتی ہیں۔

 ان کا اشارہ مغربی اور دیگر ممالک میں مسلم اقلیت کی طرف تھا، جو ایک پل کا کام کرسکتے ہیں اور ان ممالک میں تنظیم کےلیے ایک اثاثہ ہیں۔ بدلے میں ان کی مفادات کا بھی خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے فلسطینی دھڑوں کے مابین اختلافات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا؛

یہ ہمارے لیے تکلیف دہ ہے کہ پوری اسلامی دنیا فلسطین کی حمایت میں متحد ہے مگر ہمارے بھائی آپس میں تقسیم کا شکار ہیں۔

وحدتِ امت پر زور دیتے ہوئے ایردوان نے کہا؛

 استنبول سے لے کر القدس تک، ترکوں سے لے کر کردوں تک، سنیوں سے لے کر شیعوں تک — ہمارا قبلہ ایک ہے، تو ہمارا مقدر بھی مشترک ہے۔

ایک اہم پیش رفت میں، او آئی سی نے اقوامِ متحدہ میں مشترکہ سفارتی اقدام شروع کرنے کا فیصلہ کیا، جس کا مقصد اسرائیل کے جوہری پروگرا م کو دنیا کے سامنے کھولنے اور اس کو جوہری عدم پھیلاو کے معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کروانا ہے۔

یہ فیصلہ ایک بند کمرہ اجلاس میں کیا گیا، جو ایران کی درخواست پر منعقد ہوا۔ اس میں اسرائیل کو اپنے خفیہ جوہری ہتھیاروں کو بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی(آئی اے ای اے) کے تحت مکمل معائنہ کے لیے پیش کرنے پر مجبور کرنے کے لیے عالمی کوششیں تیز کرنے کا عزم کیا گیا۔

ایردوان نے مغربی طاقتوں پر دوہرے معیار برتنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا؛

 ایران جیسے این پی ٹی پر دستخط کنندہ ممالک پر دباؤ ڈالنے والے یہ کیسے نظرانداز کر سکتے ہیں کہ اسرائیل نہ صرف اس معاہدے سے باہر ہے، بلکہ معائنے کو بھی رد کرتا ہے؟

لگتا ہے کہ استنبول میں منعقدہ یہ اجلاس صرف تقاریر یا قراردادوں تک محدود نہیں رہا۔ اس نے امتِ مسلمہ کے لیے ایک نیا راستہ متعین کیا — ایسا راستہ جو جوہری توازن کی بحالی، مظلوموں کے دفاع، اور عالمی انصاف کے قیام پر مبنی ہے۔

آنے والے دن اور ہفتے اس بات کا امتحان ہوں گے کہ اسلامی کانفرنس کی تعاون تنظیم صرف آواز بنے گی یا  اپنے کسی اعلان پرعمل بھی کرے گی۔

Next Article

جب علی خامنہ ای نے ہندوستانی صحافی سے کہا: ایرانی انقلاب کی غلط تصویر پیش کی جاتی ہے

اس نایاب انٹرویو میں ایران کے اس وقت کے صدر علی خامنہ ای نے ہندوستانی مسلمانوں کے خدشات، مغربی میڈیا کے رویے، ایران کی خارجہ پالیسی، کردوں کے مطالبات اور فرانس جیسے ممالک کے کردار پر کھل کر بات کی ہے۔ یہ بات چیت اسلامی انقلاب کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لیے ایک کمیاب دستاویز ہے۔

تصویر بہ شکریہ:خامنہ ای ڈاٹ آئی آر


سال1979کے ایرانی انقلاب کے چند سال بعد جب اسلامی جمہوریہ ایران دنیا کے سامنے اپنی شناخت قائم کر رہا تھااور سمت طے کر رہا تھا، معروف ہندوستانی ادیبہ اور صحافی ناصرہ شرما نے اس وقت کے ایرانی صدر آیت اللہ علی خامنہ ای کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کیا تھا۔ یہ بات چیت نہ صرف ہندوستان اور ایران کے تعلقات کے بارے میں ایک اہم اور تاریخی حوالہ ہے بلکہ اسلامی انقلاب، آزادی صحافت، کردوں کے مسئلے اور مغربی طاقتوں کے کردار جیسے پیچیدہ سوالوں کے ضمن میں بھی اس کی غیر معمولی اہمیت  ہے۔

لہذا،آج جب ایران کے بارے میں ایک بار پھر دنیا بھر میں بحث چھڑ گئی ہے، یہ تاریخی انٹرویو نئی روشنی ڈالتا ہے ۔


♦♦♦

ایرانی انقلاب ہندوستان کے 12 کروڑ مسلمانوں کے لیے نہایت اہم ہے۔ وہ اس کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ اس وقت وہ لاتعداد قتل اور نوجوانوں کی پھانسی سے فکرمند ہیں۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آج ایران میں کیا ہو رہا ہے؟

ہمارے حقیقی  مسائل کو کوئی نہیں سمجھتا۔ ہندوستان کے مسلمان اس قلیل مدت میں ہوئے انقلاب کے دوران ہماری حصولیابیوں سے ناواقف ہیں۔ میڈیا ہر جگہ ادھوری خبریں دیتا ہے، چاہے وہ ہندوستان ہو یا دنیا کا کوئی اور حصہ۔ پریس پھانسیوں کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے اور سچائی کو چھپاتا ہے۔ ہمارے مقاصد کو غلط طریقےسے پیش کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں، میں ہندوستان گیا تھا اور وہاں کے لوگوں سے بات کی تھی۔ میں نے دیکھا کہ وہ ہمارے انقلاب سے خوش ہیں۔ انہیں ایران میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں درست معلومات کی ضرورت ہے۔ اگر کچھ لوگ ان پھانسیوں پر تنقید کرتے ہیں تو میرے خیال میں ان کے پاس مکمل معلومات نہیں ہیں۔ جب دوسرے لوگ ہتھیار اٹھا لیتے ہیں تو کوئی بھی خاموش کیسے بیٹھ سکتا ہے۔ بیرونی طاقتوں نے ہمارے انقلاب کے خلاف سازش کی ہے اور وہ اقتدار کو براہ راست یابلاواسطہ  دھمکی دے رہے ہیں۔

انہوں نے ایران میں اسلام مخالف جذبات کو پھیلایا ہے۔ تاہم، اسلامی جمہوریہ نے متعدد لوگوں کو معاف کیا ہے اور انہیں اسلامی اخلاق سکھایا ہے اور انہیں اسلامی روحانیت سے متاثر کیا ہے۔ ٹیلی ویژن پروگرام ایسی مثالیں دکھاتے ہیں، جہاں لوگوں نے اپنے جرائم کا اعتراف کیا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو لوگوں کو مارتے ہیں، بسیں جلاتے ہیں، سرکاری املاک کو نقصان پہنچاتے ہیں اور مسلح مظاہرے کرتے ہیں۔ وہ مجرم ہیں اور انہیں اسلامی قانون کے تحت پھانسی دی جانی چاہیے۔ حال ہی میں ایسے عناصر کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ ایسے میں ملک کمزور ہو جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ہندوستان اور دیگر جگہوں پر ہمارے دوست ہماری مذمت نہیں کریں گے اگر ان کے پاس تمام حقائق ہوں۔

میری سمجھ میں ایران کی خارجہ پالیسی بہت سے تجربات اور واقعات کا نتیجہ ہے۔ مثال کے طور پر، ابوالحسن بنی- صدر (1979 میں ایرانی انقلاب کے بعد پہلے صدر جو 1981 میں فرانس چلے گئے) کےپیرس آنے سے پہلے، فرانس اگر دوست نہیں تھا، تو دشمن ملک بھی نہیں تھا۔ ایران کی خارجہ پالیسی کو عموماً کمزور اور تغیر پذیرماناجاتا ہے۔

ہماری خارجہ پالیسی یقینی طور پر کمزور نہیں ہے، حالانکہ ہماری سفارتی سرگرمیاں جتنی ہونی چاہیے، اتنی نہیں ہیں۔ ہماری ترجیحات واضح ہیں، اور ہم نے دنیا کو گروہوں میں تقسیم کیا ہے – برادر ممالک، دوست ممالک، غیر جانبدار ممالک اور دشمن ممالک۔ دشمن ممالک وہ ہیں جو ہم پر حملہ کرتے ہیں اور اسلام کے خلاف ہیں۔ باقی یا تو برادرانہ، دوستانہ یا غیر جانبدار ہیں۔ آپ نے فرانس کا ذکر کیا۔ بنی-صدر کے وہاں پناہ لینے سے پہلے ہی فرانس نے ہمارے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ یہ نہ تو ہمارا دوست تھا اور نہ ہی غیر جانبدار، لیکن ہمارے خلاف پابندیاں لگانے والے بڑے یورپی ممالک میں پہلا ملک تھا۔ فرانس کے بارے میں ہمارا کوئی بُرا ارادہ نہیں ہے، خاص طور پر ہمارے معزز امام کے وہاں قیام کی خوبصورت یادوں کے پیش نظر۔ لیکن فرانس نے بارہا اپنے انقلاب مخالف اور ایران مخالف ارادوں کو ثابت کیا ہے۔ اس نے سامان اور فوجی ساز و سامان فراہم نہیں کیا ہے۔ اس نے اسرائیل کی حمایت کی ہے۔ اس لیے یہ ملک ہمارا دوست نہیں ہو سکتا۔ فرانس نے ہمارے ملک کے سیاسی حتیٰ کہ غیر سیاسی مجرموں کو بھی پناہ دی ہے۔ اس نے ہمارے دشمن عراق کو ہتھیار بھی فراہم کیے ہیں۔ ان دنوں ایرانی فضائیہ فرانسیسی میراج طیاروں کو مار گرا رہی ہے۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ دشمن صرف وہ ملک ہے جو ہم پر براہ راست حملہ کرتا ہے؟ نہیں، حملہ صرف ایک ‘مسلح حملہ’ نہیں ہوتا، بلکہ یہ سیاسی حملہ، اقتصادی حملہ یا کچھ بھی ہو سکتا ہے جو حقیقت میں ایران کے مفادات کو نقصان پہنچاتا ہے۔ فرانس ہمارا دشمن ہے۔

زیادہ تر ممالک دوستانہ ہیں۔ ایران اور ہندوستان دو عظیم ممالک ہیں جو دوستانہ تعلقات پر یقین رکھتے ہیں۔ ہندوستان نے ہماری کوئی مدد نہیں کی اور نہ ہی ہمیں کسی مدد کی امید ہے، چاہے وہ سیاسی ہو یا کوئی اور، پھر بھی ہماری دوستی گہری ہے۔

فرانس نے ایرانی مخالفین کا ایک مرکز بنا رکھا ہے، یہاں تک کہ شاہی خاندانوں کی ایک انجمن بھی، لیکن فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کو ایران میں آزادانہ کام کرنے کی اجازت ہے، جبکہ دیگر ایجنسیوں کو یہ سہولت حاصل نہیں ہے۔ یہ متضاد صورتحال کیوں ہے؟

ہم سمجھتے ہیں کہ دنیا بھر میں نیوز ایجنسیاں خود مختار ہیں۔ ہمارے یہاں دنیا بھر کی خبر رساں ایجنسیاں کام کرتی ہیں، جن میں اے ایف پی بھی شامل ہے۔ کچھ ایجنسیاں خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کرتی ہیں۔ وہ اپنے مفادات کے مطابق خبریں پیش کرتی ہیں۔ ہم ان تمام ایجنسیوں کو کام کرنے دیتے ہیں۔ ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ ہمارے ملک میں آزادی کو ظاہر کرتا ہے۔ بعض اوقات ہمیں بعض ایجنسیوں کی سرگرمیوں پر سخت موقف اختیار کرنا پڑتا ہے، مثال کے طور پر ہم نے ایک امریکی صحافی کو یہ ظاہر کرنے کے لیے ملک سے نکال دیا کہ ہم ملک دشمن سرگرمیوں کو برداشت نہیں کریں گے۔

کردستان اور دیگر اقلیتی علاقوں کے مسئلے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا انہیں خود مختاری دی جائے گی؟

یہ کرد نہیں، بلکہ امریکہ ہے جو خود مختاری کا مطالبہ کر رہا ہے۔ کرد صرف روزگار، روٹی اور اچھی زندگی چاہتے ہیں۔ ہمارے لیے کرد، ترک، بلوچ اور فارسی سب ایک ہیں۔ ہماری حکومت سب کے لیے خوشحالی اور خوشی لانے کے لیے پرعزم ہے، خواہ ان کی ذات، مذہب یا نسل کچھ بھی ہو۔ ہم سب کے لیے روٹی، فلاح، مکمل روزگار، مکان اور ان کی اخلاقی اور روحانی اقدار کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ وہ بھی ہم سے یہی چاہتے ہیں۔ جو لوگ اپنے آپ کو کردوں کے لیڈر کہتے تھے اور خود مختاری چاہتے تھے انہیں کردوں نے خود ہی نکال دیا ہے۔ آج تمام کرد شہر جمہوری اسلامی کے کنٹرول میں ہیں، اور کرد خود ان ملک دشمن عناصر کے خلاف لڑ رہے ہیں جو غاروں اور سڑکوں کے کنارے چھپ کر لوگوں کو یرغمال بنا لیتے ہیں۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے مفید انسانی وسائل میں سے ایک ‘ پیشمرگان کرد مسلمان ‘ ہے۔ وہ ان لوگوں کے خلاف لڑتے ہیں جو بین الاقوامی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں اور حقیقی کرد نہیں ہیں۔

ایران علیحدگی پسند تحریکوں سے نبرد آزما ہے اور اس بات کا خطرہ ہے کہ ملک متحد نہ رہے۔ افواہیں ہیں کہ اس میں سوویت یونین کا ہاتھ ہے؟

ہم اصل دشمن کو جانتے ہیں۔ ہم نے دیکھا ہےکہ اس میں مغربی اور امریکی ہاتھ زیادہ نظر آتا ہے۔ وہ کسی حد تک عراق اور دیگر کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ ہم الرٹ ہیں اور ان سےاپنی قوم کی حفاظت کرتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ انقلاب مخالف عناصر ایران سے باہر بہت سرگرم ہیں اور سامراجیوں کی واپسی کی تیاری کر رہے ہیں۔ دوسری طرف ایران میں انقلابی ترقی پسند عناصر کو روزانہ پھانسی دی جا رہی ہے۔ اس طرح ملک سامراج کے بڑھتے ہوئے خطرے کا مقابلہ کرنے کی طاقت کھو رہا ہے۔ آپ کا اندازہ کیا ہے؟

میں آپ سے متفق نہیں ہوں۔ آپ اپنے آپ کو انقلابی کہنے والوں کو انقلاب مخالف سمجھتے ہیں۔ پرانے ساواکی (ایران کے شاہی ریاست کی خفیہ پولیس) اور وہ لوگ جنہوں نے ان کے خلاف لڑائی لڑی  اور اب جمہوری اسلامی کے خلاف بھی وہی کر رہے ہیں، دونوں ہی انقلاب مخالف ہیں۔ ہم ان لوگوں کو انقلابی سمجھتے ہیں جو دراصل انقلابی ہیں اور ان کا انقلاب مخالفوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ جن کے کردستان کے جنگجوؤں سے روابط ہیں اور جو فرانس جیسے ممالک میں بھاگ گئے ہیں ان کو آپ ایران مخالف سمجھتے ہیں۔

ایک محقق کی حیثیت سے میرا تجربہ یہ ہے کہ یہ رائلسٹ  مختلف شکلوں میں انتشار پھیلاتے ہیں، کبھی اسلام کے نام پر اور کبھی مارکسزم کے نام پر، اور مجاہدین اور کمیونسٹوں (گوریلوں) جیسے لوگوں کو بدنام کرتے ہیں۔ آپ کی کیا رائے ہے؟ خواہ ایک پاسدار مارا جائے یا ایک مجاہد ، میں اسے ایران کا نقصان سمجھتی ہوں۔

آپ محقق ہیں، مجھے بتائیں کیا مسعود رجوی رائلسٹ ہیں؟ اگر وہ ایک رائلسٹ ہیں تو آپ کا سوال درست ہے اور اگر وہ ان انقلابی لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے کئی سال جیل میں گزارے اور آج کردستان کے جاگیرداروں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں،سعودی عرب سے پیسے لےرہے ہیں اور فرانس جیسے ملک میں پناہ لے رہے ہیں تو یقین مانیں کہ صرف رائلسٹ ہی انقلاب مخالف نہیں ہیں بلکہ وہ تمام لوگ جو آج اسلامی انقلاب کے خلاف برسر پیکار ہیں، چاہے وہ آج کا مسعود رجوی ہویا کل کا علی امیری،بختیار اور اویسی،  ان کے نام اور لقب پر مت جائیے۔ یہ انقلاب کے دشمن ہیں۔

(ہندی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے)

Next Article

ظہران ممدانی کی جیت پر ڈونالڈ ٹرمپ کا تلخ تبصرہ، انہیں ’سو فیصد کمیونسٹ پاگل‘ کہا

نیویارک میئر الیکشن کی ڈیموکریٹک پرائمری میں ظہران ممدانی کی جیت نے امریکی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ ٹرمپ نے انہیں ‘کمیونسٹ پاگل’ کہا ہے تو برنی سینڈرز نے ان کی تعریف کی ہے۔ نیویارک سٹی کے مرکزی میئر کے انتخابات (عام انتخابات) نومبر 2025 میں ہونے والے ہیں۔

ظہران ممدانی اور ڈونالڈ ٹرمپ (فوٹو: سوشل میڈیا)

نئی دہلی: نیویارک کے میئر کے عہدے کے لیے ڈیموکریٹک پرائمری  میں ظہران ممدانی نے کامیابی حاصل کی ہے، یعنی ممدانی اب ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے نیویارک کے میئر کے انتخاب کے لیے امیدوار بن گئے ہیں۔ جمعرات (26 جون) کو ممدانی کی جیت پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کہا کہ ڈیموکریٹک پارٹی اب تمام حدیں پار کر چکی ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ٹروتھ سوشل’ پر پوسٹ کرتے ہوئے ٹرمپ نے ممدانی کو ‘سوفیصد کمیونسٹ پاگل’ کہا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ میئر بننے  کی سمت میں ان کا اقدام’مضحکہ خیز’ہے۔

ٹرمپ کی پوسٹ میں ممدانی کے بارے میں یہ بھی کہا گیاہے؛

اس کا چہرہ بے حد خراب ہے، آواز اچھی نہیں ہے، دماغ بھی تیز نہیں ہے، اس کے ساتھ اے او سی+3 (الیگزینڈریا اوکاسیو کورٹیز اور اس کے ترقی پسند اتحادی) جیسے احمق لوگ  کھڑے ہیں۔

ظہران ممدانی ہندوستانی نژاد فلمساز میرا نائر کے بیٹے ہیں۔ وہ ایک 33 سالہ سوشلسٹ ہیں، اور انہیں ڈیموکریٹک سوشلسٹ آف امریکہ(ڈی ایس اے) پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔

نیویارک کے میئر کے عہدے کے لیے ان کی امیدواری کو ڈیموکریٹک پارٹی کے مستقبل کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

نیویارک سٹی کے عام انتخابات نومبر 2025 میں ہوں گے۔ اگر ممدانی یہ انتخاب جیت جاتے ہیں تو وہ نیویارک شہر کے پہلے مسلمان میئر بن جائیں گے۔ اب وہ اس عہدے کے قریب ہیں اور ان کے حریف نیویارک کے سابق گورنر اینڈریو کوومو پہلے ہی شکست تسلیم کر چکے ہیں۔

ڈیموکریٹک پرائمری جیتنے کے بعد اپنی تقریر میں ممدانی نے حامیوں سے کہا، ‘آج رات ہم نے تاریخ رقم کی۔’ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ کی تنقید کے بعد ممدانی نے طنزیہ انداز میں لکھا، ‘ہاں، یہ ہماری ملکی تاریخ کا ایک بڑا لمحہ ہے!’

یوگانڈا میں پیدا ہونے والے ظہران ممدانی نیویارک کی اسٹیٹ اسمبلی کے رکن ہیں۔ وہ اکثر اسرائیل اور وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو پر تنقید کرتے رہے ہیں اور فلسطینیوں کی حمایت میں آواز بلند کرتے رہے ہیں۔

ممدانی کے سب سے بڑے حریف 67 سال کے اینڈریو کوومو ہیں جو نیویارک کے سابق گورنر رہ چکے ہیں۔ ان کے پاس کافی وسائل اور مقبولیت تھی، لیکن ان کی امیج پر 4 سال پرانے جنسی ہراسانی کے الزامات کا سایہ تھا۔ نیویارک کے میئر کے عہدے کا انتخاب ان کی واپسی کی کوشش تھی۔

تاہم، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 95فیصد ووٹوں کی گنتی کے بعد کوومو کو صرف 36فیصد ووٹ ملے جبکہ ممدانی کو 43فیصد ووٹ ملے۔ اس کے بعد کوومو نے کہا کہ انہوں نے اپنے حریف کو فون کرکے شکست قبول کرلی ہے۔

ممدانی کی جیت پر پارٹ کا ردعمل

جہاں ظہران ممدانی کی امیدواری کو بہت سے لوگوں نے سراہا ہے، وہیں ڈیموکریٹک پرائمری میں ان کی جیت نے پارٹی کے اندر کچھ دراڑیں بھی کھول دی ہیں۔

سابق صدر براک اوباما کے دور میں وزیر خزانہ رہے لارنس سمرز نے ممدانی کی جیت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘میں ڈیموکریٹک پارٹی اور ملک کے مستقبل کے بارے میں سخت تشویش میں مبتکا ہوں۔’

تاہم، ڈیموکریٹک پارٹی کے کئی رہنما ممدانی کی تعریف  بھی کر رہے ہیں۔ انہوں نے نیویارک میں رہنے کے اخراجات کو کم کرنے کو اپنی مہم کا اہم مسئلہ بنایا تھا۔ سینیٹر برنی سینڈرز نے خبر رساں ایجنسی اے پی کو بتایا؛

کئی معنوں میں ممدانی کی مہم یہ ظاہر کرتی ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کو کس سمت جانا چاہیے – ارب پتیوں کی فکر چھوڑ کر عام محنت کشن  لوگوں کی فکر کرنی چاہیے۔

سینڈرز نے پارٹی کے اندر ممدانی پر تنقید کرنے والوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور ریپبلکن  پارٹی کو متنبہ کیا کہ ظہران ممدانی ان کے لیے’سب سے بڑا درد سر’ بن سکتے ہیں۔

Next Article

سنگھ کا آئین سے ’سوشلسٹ، سیکولر‘ لفظ ہٹانے کا مطالبہ، کانگریس نے کہا – آئین مخالف سوچ

ایمرجنسی پر ایک پروگرام میں خطاب کرتے ہوئے آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوسبلے نے آئین کے دیباچے میں تبدیلی کا مطالبہ کیا تھا۔ اس پر تنقید کرتے ہوئے کانگریس نے کہا کہ آر ایس ایس نے امبیڈکر کے آئین کو کبھی قبول نہیں کیا اور ان کا مطالبہ اسے تباہ کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔

(تصویر بہ شکریہ: Wikimedia Commons)

نئی دہلی: آئین کے دیباچے میں ‘سوشلسٹ’ اور ‘سیکولر’ الفاظ پر نظرثانی کا مطالبہ کرنے پر راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی تنقید کرتے ہوئے کانگریس نے جمعہ (27 جون، 2025) کو الزام لگایا کہ آر ایس ایس نے بابا صاحب امبیڈکر کے آئین کو کبھی قبول نہیں کیا اور ان  کا مطالبہ اس کو تباہ کرنے کی سازش کا حصہ ہے۔

آر ایس ایس نے جمعرات (26 جون 2025) کو آئین کے دیباچے میں ‘سوشلسٹ’ اور ‘سیکولر’ الفاظ پر نظرثانی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایمرجنسی کے دوران شامل کیے گئے تھے اور یہ کبھی بی آر امبیڈکر کے تیار کردہ آئین کا  حصہ نہیں تھے۔

کانگریس جنرل سکریٹری (کمیونی کیشن انچارج) جئے رام رمیش نے کہا کہ آر ایس ایس نے ہندوستان کے آئین کو کبھی قبول نہیں کیا ہے۔

ایکس پر ایک پوسٹ میں انہوں نے کہا، ‘آر ایس ایس نے کبھی بھی ہندوستان کے آئین کو پوری طرح سے قبول نہیں کیا۔ 30 نومبر 1949 سے ہی اس نے ڈاکٹر امبیڈکر، نہرو اور آئین سازی سے وابستہ دیگر لوگوں پر حملے کیے۔ خود آر ایس ایس کے الفاظ میں، یہ آئین منواسمرتی سے متاثر نہیں تھا۔’

انہوں نے کہا، ‘آر ایس ایس اور بی جے پی نے بار بار نئے آئین کا مطالبہ اٹھایا ہے۔’

رمیش نے کہا، ‘یہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں وزیر اعظم مودی کا انتخابی نعرہ تھا۔ لیکن ہندوستان کے عوام نے فیصلہ کن طور پر اس نعرے کو مسترد کر دیا۔ اس کے باوجود، آئین کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کرنے کا مطالبہ آر ایس ایس کے ایکوسسٹم کی طرف سے مسلسل کیا جاتا رہا ہے۔’

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس آف انڈیا نے خود 25 نومبر 2024 کو اسی معاملے پر فیصلہ دیا تھا، جسے اب آر ایس ایس کے ایک سرکردہ عہدیدار نے دوبارہ اٹھایا ہے۔ کیا وہ کم از کم اس فیصلے کو پڑھنے کی زحمت اٹھائیں گے؟

کانگریس نے ایکس پر الزام لگایا کہ آر ایس ایس-بی جے پی کا نظریہ آئین کے خلاف ہے۔

کانگریس نے کہا، ‘اب آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری دتاتریہ ہوسبلے نے آئین کے دیباچے میں تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے۔ ہوسبلے کہتے ہیں- آئین کے دیباچے سے ‘سوشلسٹ’ اور ‘سیکولر’ الفاظ کو ہٹا دینا چاہیے۔ یہ بابا صاحب کے آئین کو تباہ کرنے کی سازش ہے، جسے آر ایس ایس-بی جے پی ہمیشہ سے تیار کرتی رہی ہے۔’

کانگریس نے کہا کہ جب آئین نافذ ہوا تو آر ایس ایس نے اس کی مخالفت کی تھی۔

پارٹی نے کہا، ‘لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے لیڈر کھلے عام کہہ رہے تھے کہ ہمیں آئین میں تبدیلی کے لیے پارلیامنٹ میں 400 سے زیادہ سیٹوں کی ضرورت ہے۔ آخر کار عوام نے انہیں سبق سکھا دیا۔ اب ایک بار پھر وہ اپنی سازشوں میں مصروف ہیں، لیکن کانگریس ان کے ارادوں کو کسی بھی قیمت پر کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ آئین زندہ باد۔’

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق، ایمرجنسی پر منعقدہ ایک پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے آر ایس ایس کے جنرل سکریٹری ہوسبلے نے کہا کہ یہ الفاظ بابا صاحب امبیڈکر کے بنائے ہوئے آئین کے دیباچے میں کبھی نہیں تھے، یہ الفاظ ایمرجنسی کے دوران اس وقت شامل کیے گئے تھے جب بنیادی حقوق معطل  کر دیے گئے، پارلیامنٹ کام نہیں کر رہی تھی، عدلیہ معذور ہوگئی تھی۔’

انہوں نے کہا کہ بعد میں اس مسئلے پر بات ہوئی، لیکن تمہید سے اسے ہٹانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ لہٰذا غور کیا جائے کہ آیا یہ تمہید میں رہیں یا نہیں۔

ہوسبلے نے کہا، تمہید ابدی ہے۔ کیا سوشلزم کے نظریات ہندوستان کے لیے ایک نظریہ کے طور پر ابدی ہیں؟’

آر ایس ایس کے دوسرے سب سے سینئر عہدیدار نے ایسے وقت میں دونوں الفاظ کو ہٹانے پر غور کرنے کا مشورہ دیا ہے جب انہوں نے ایمرجنسی کے دوران ہونے والی زیادتیوں پر کانگریس کو نشانہ بنایا اور پارٹی سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔

Next Article

جموں: اسرائیل مخالف تصویر بنانے پر نابالغ لڑکیوں سے پولیس پوچھ گچھ کے خلاف سری نگر ایم پی کا احتجاج

جموں و کشمیر پولیس نے تین نابالغ لڑکیوں سے اسرائیل مخالف گرافیٹی بنانے پر پوچھ گچھ کرتے ہوئے ان کی کونسلنگ کی تھی۔ سری نگر کے ایم پی آغا روح اللہ مہدی نے لڑکیوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ نسل کشی کی مخالفت کرنے والوں کو نہیں، بلکہ انہیں  روکنے والوں کو کونسلنگ کی ضرورت ہے۔

السٹریشن: پری پلب چکرورتی/ دی وائر

نئی دہلی: سری نگر کے رکن پارلیامنٹ آغا روح اللہ مہدی نے بدھ کے روز تین نابالغ لڑکیوں کی حمایت میں ایک ریلی نکالی، جن سے پولیس نے مبینہ طور پر اسرائیل مخالف سرگرمیوں کے لیے پوچھ گچھ  اور کونسلنگ کی۔

مہدی نے کہا کہ ان لڑکیوں کو سمجھائے جانے کی ضرورت نہیں ہے ، بلکہ  ان لوگوں کو ہے جوانہیں دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق، منگل کو پولیس نے بتایا کہ انہیں امام باڑہ زادیبل کے مرکزی دروازے کے باہر سڑک پر غیر ملکی پرچم (اسرائیلی) سے مشابہ گرافیٹی پینٹ کیے جانے کی اطلاع ملی تھی۔

ایک بیان میں کہا گیا، ‘فوری کارروائی کرتے ہوئے ایک پولیس ٹیم موقع پر پہنچی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن عامہ کو برقرار رکھنے کے لیے  گرافیٹی کو ہٹا دیا۔’

بعد ازاں تحقیقات میں تین مقامی بچیوں کے ملوث ہونے کا انکشاف ہوا۔ ترجمان نے کہا، ‘ان کی عمر اور واقعے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے ان کے والدین کو پولیس اسٹیشن بلایا گیا اور ان کی موجودگی میں نابالغوں کی کونسلنگ کی گئی۔’ انہوں نے مزید کہا،’انہیں اس طرح کی کارروائیوں کے نتائج اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ذمہ دارانہ شہری رویے کو برقرار رکھنے کی ضرورت سے آگاہ کیا گیا ۔’

اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے مہدی نے ایکس پر لکھا، ‘جب نابالغ لڑکیاں نسل کشی کے خلاف احتجاج کرتی ہیں تو انہیں کونسلنگ کی ضرورت نہیں ہوتی، لیکن جو لوگ انہیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں انہیں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں صرف ہماری، ہم کشمیریوں کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی بگڑرہی ہے۔’

دی ہندو کی رپورٹ کے مطابق،اس سے قبل سوموار (23 جون) کو سری نگر شہر کے مضافات میں واقع بلہامہ میں دو مقامی نوجوانوں کو امریکی اور اسرائیلی پرچم آویزاں کرنے پر حراست میں لیا گیا ۔

پولیس ترجمان کا کہنا تھا کہ دونوں نوجوان رات کے وقت غیر ملکی جھنڈے دکھا رہے تھے جو کہ امن و امان کو خراب کرنے کی واضح کوشش تھی۔