ذرائع کے مطابق پلواما حملے کے بعد سخت دباؤ کی وجہ سے مرکزی حکومت باضابطہ طور سپریم کورٹ میں اس دفعہ پراپنا موقف رکھ سکتی ہے ۔چند میڈیا حلقوں کی مانیں تو بی جے پی اس دفعہ کے خاتمے کے لئے آڈیننس لانے پر غور کر رہی ہے ۔
جموں وکشمیر میں تناؤہے ۔ ہر گلی اور نکڑ میں دفعہ 35اے کو کالعدم قرار دیے جانے کی قیاس آرائیاں ہیں ۔گزشتہ دِنوں سرکار کی طرف سے جاری کئے گئے کئی ہنگامی حکم ناموں سے لوگوں میں خوف و تشویش پیدا ہوئی ہے جو اپنی شناخت سے متعلق اِس دفعہ کے دفاع میں کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہیں۔خدشہ یہ ہے کہ اس دفعہ سے چھیڑ چھاڑ ریاست میں سخت غیر یقینی کی وجہ بن سکتی ہے۔
دفعہ 35اے کیاہے ؟
آزادی سے قبل ریاست جمو ں و کشمیر ایک خود مختار ریاست تھی ۔ انگریزوں کے ہندوستان چھوڑنے کے بعد ریاست میں اُس وقت کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کیاجس کی رُو سے حکومتِ ہند کو ریاست میں دفاع ، خارجی امور اور مواصلات پر کنٹرول کا اختیار دیا گیا ۔مہاراجہ کی حکومت میں کشمیری پنڈت عہدیداروں کو یہ خدشہ تھا کہ غیر ریاستی باشندے اُن کے لئے خطرہ ہیں جو مہاراجہ کی حکومت میں مقامی عہدیداروں کو ہٹا کر خودعہدے سنبھالیں گے ۔
عہدیداروں کے احتجاج کے بعد مہاراجہ نے 1927ء میں ایک قانون بنایا جس کے تحت غیر ریاستی باشندوں کو ریاست میں املاک خریدنے اور نوکریوں کی اجازت نہیں دی گئی۔آزادی کے بعد ریاستی لیڈروں نے مہاراجہ کے اس قانون کو جاری رکھنے کی مانگ کی۔ سال 1952 ء میں دہلی معاہدے کے بعد پنڈت جواہر لال نہرو اور شیخ محمد عبداللہ نے دفعہ370کے تحت دفعہ 35اے کو آئین میں شامل کیا جس سے ریاستی عوام کو ملک کی شہریت کا حق ملا۔ دفعہ 35اے کے تحت ریاستِ جموں وکشمیر کے عوام کو مستقل شہریت اور دیگر مراعات کا اختیار ریاستی قانون سازیہ کو دیا گیا۔
ویڈیو: کشمیر کے خصوصی کردار میں کسی طرح کی تبدیلی سے وادی کے حالات اور پیچیدہ ہو سکتے ہیں-شجاعت بخاری
ریاستی عوام کو خصوصی شناخت دینے سے متعلق دفعہ 35اےکے تحت کوئی بھی غیر ریاستی باشندہ جموں وکشمیرمیں املاک نہیں خرید سکتا ،نہ ریاستی سرکار میں نوکری کے لئے اہل ہے ،نہ ریاست میں مستقل سکونت کا حقدار ہے ، نہ ریاست کے تعلیمی اداروں میں اندراج اور وظائف کا حقدار ہے اور نہ ہی کوئی ایسا شخص ریاست میں پراپرٹی کا حقدار بن سکتا ہے جس نے ریاست کی کسی پشتینی خاتون سے شادی کی ہو۔
اس طرح یہ دفعہ ریاستی باشندوں کو خصوصی شناخت فراہم کرتی ہے جو سپریم کورٹ میں سماعت کے لئے داخل اس خصوصی دفعہ سے کسی بھی طرح کی چھیڑ چھاڑ کو ان کی شناخت کو ختم کرنے کی سازش سے تعبیر کر رہے ہیں۔نہ صرف عوام بلکہ ریاست کی سیاسی ، سماجی اور مذہبی تنظیمیں بھی 35اے کے دفعہ کے لئے متحد ہوگئی ہیں۔
دفعہ 35اےکا خاتمہ 2014ء میں بی جے پی کے انتخابی منشور میں شامل تھا ۔دوسری طرف ریاستی اِنتخابات میں سب سے بڑی جماعت کے طور پر اُبھری پی ڈی پی نے ہمیشہ اس دفعہ کے دفاع کی حمایت کے منشور پر الیکشن لڑا۔ایسے میں دو متضاد نظریات رکھنے والی جماعتوں نے جب ریاست میں مخلوط سرکار بنائی اس بات پر لگاتار ابہام بنتا رہا کہ کیا ریاست کی مخصوص شناخت قائم رہے گی۔
بی جے پی کے کئی وزراء نے کھلم کھلا 35اےکو ختم کرنے کی وکالت کی مگر ریاست میں پی ڈی پی کے ساتھ سرکار میں شامل ہونے کے سبب سیاسی مجبوری پر بی جے پی کو ہمیشہ پی ڈی پی کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور جب بھی سپریم کورٹ میں اس کی سماعت کا وقت آیا ، بی جے پی کو سماعت کو ملتوی کرنے کی پی ڈی پی کی مانگ کی ہمیشہ حمایت کرنی پڑی ۔
دفعہ 35اےکی مخالفت
سال 2014ء میں سنگھ پریوار کی مبینہ حمایت والی غیر سرکاری تنظیم ( We the People) نے سپریم کورٹ میں 35اےکو کالعدم قرار دینے سے متعلق مفادِ عامہ کی عرضداشت دائرکی جس کے بعدکئی دیگر تنظیموں نے بھی اس کے خاتمے کی حمایت میں عرضداشتیں دائر کیں۔عرضی دہندگان اس دفعہ کی اس بات پر مخالفت کر رہے ہیں کہ 35اےکو آئین کی دفعہ 368 کے مطابق پارلاشمنٹ کے ذریعے نہیں بلکہ صدارتی حکم نامے کے ذریعے لایا گیا جو ملک کی قانونی ہیئت کی خلاف ورزی ہے کیوں کہ اسے پارلاشمنٹ میں بحث کے لئے پیش ہی نہیں کیا گیا۔
مخالفین کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ یہ دفعہ شہریوں کو مساوی حقوق دینے سے متعلق آئین کی دفعہ 14 کی خلاف ورزی ہے جس سے نہ صرف ریاست میں صنعت کاری کے فروغ میں سخت رکاوٹیں پڑی ہیں بلکہ کسی بھی غیر ریاستی باشندوں کو نہ املاک خریدنے اور نہ اُن خواتین کے ورثا کو پراپرٹی سے متعلق حقوق حاصل ہیں جس نے کسی غیر ریاستی باشندے سے شادی کی ہو۔ انکا یہ بھی مطالبہ ہے کہ اگر ملک میں ایک ہی آئین رائج ہے پھر جموں وکشمیر کے لئے علاحدہ آئین کیوں ؟
دفعہ 35اےکی حمایت
دوسری طرف اس دفعہ کے حمایتی یہ دعوے پیش کر رہے ہیں کہ اسے اگر کالعدم قرار دیا گیا تو جموں وکشمیر کا ملک کے ساتھ الحاق خود بخود ختم ہوگا۔الحاق کی رُو سے مرکز کو ریاست میں صرف دفاع ، خارجی اُمور اور مواصلات پر کنٹرول حاصل ہواتھامگراب تک درجنوں صدارتی حکم ناموں کے ذریعے ریاست میں مختلف قوانین اور آئینی ترامیم کو عمل میں لایا گیاہے۔
ایک مقامی وکیل سید عاشق کے مطابق ؛’اگر چہ الحاق محض اِن تین چیزوں پر مشروط تھا مگر مرکز نے ابھی تک چالیس سے زائد صدارتی حکم ناموں کے ذریعے ریاستی آئین میں کئی ترامیم کی ہیں جن کے ذریعے صدرِریاست کے عہد ے کو گورنر اور وزیر اعظم کے عہدے کو وزیرا علیٰ کے عہدوں سے تبدیل کیا گیا ہے ‘۔
عاشق کے مطابق،’ان ہی ترامیم کے ذریعے ریاست میں سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کو بھی اختیارات تجویز کئے گئے ہیں اور ریاستی اسمبلی کو آئین میں کسی بھی ترمیم سے بھی روکا گیا ہے۔اگر 35اےکو کالعدم قرار دیا گیا تو یہ ترامیم بھی خودبخود کالعدم ہوں گی اور ملکی آئین پر ہی سوال کھڑے ہوں گے اور قانونی طور سے ریاست میں 1953 کی آئینی پوزیشن بحال ہوگی۔’
دفعہ 35اےپر 28؍ فروری کو مجوزہ سماعت اور اسے کالعدم قرار دئیے جانے کے خدشات کے بیچ ریاست میں قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ریاست کی بڑی سیاسی پارٹیوں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے ریاست کے گورنر ستیہ پال ملک کو بی جے پی کے ایجنڈا کو تقویت دینے کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ 35اےملک اور ریاست کے درمیان واحد پُل ہے جس سے چھیڑ چھاڑ ناقابل قبول ہے۔
محبوبہ مفتی کے مطابق دفعہ سے چھیڑ چھاڑ سے صورتحال بے حد سنگین رُخ اختیار کر سکتی ہے اور ریاست میں کوئی بھی شخص قومی جھنڈا نہیں لہرائے گا۔عمر عبداللہ نے کہا کہ یہ دفعہ ریاست کی شناخت ہے جسے بچانے کے لئے انہوں نے پنچایتی انتخابات کا بھی بائیکاٹ کیا۔ ادھر کانگریس کے سیف الدین سوز نے کہا کہ دفعہ سے چھیڑ چھاڑ پر وہ سیاسی پارٹیوں اور علاحدگی پسندوں کو متحد کر کے لال چوک میں احتجاج کریں گے۔
2014ء سے ابھی تک چودہ بار 35اے پرسماعت ملتوی کر دی گئی ہے ۔ ریاست کے سابق گورنر این این ووہرا اور موجودہ گورنر ستیہ پال ملک نے بھی 35اےکی سماعت کو ملتوی کر نے کی سپریم کورٹ میں اپیلیں داخل کیں مگر 14؍ فروری کو پلواما میں ہوئے خود کش بم دھماکے کے بعد حالات تبدیل ہوئے ہیں اور مرکز پر اس دفعہ کو ہٹا نے کا دباؤ لگاتار بڑھ رہا ہے ۔مرکزی سرکار نے سپریم کورٹ کی نوٹس پر ابھی تک جواب نہیں دیا ہے۔
حالانکہ محبوبہ مفتی نے گزشتہ برس کئی کابینہ وزراء کو دہلی بھیج کر مرکز کو اس بات پرمائل کرنے کی کوشش کی تھی کہ نئی دلی عدالت میں اپنا موقف سامنے رکھے تاکہ معاملے پر ابہام ختم ہو۔اگر چہ ایسانہیں ہوامگر معاملے پر سماعت ملتوی ہونے کا سلسلہ جاری رہا۔ذرائع کے مطابق پلواما حملے کے بعد سخت دباؤ تلے اب مرکز باضابطہ طور سپریم کورٹ میں اس دفعہ پراپنا موقف سامنے رکھ سکتی ہے ۔چند میڈیا حلقوں کے مطابق بی جے پی اس دفعہ کے خاتمے کے لئے آڈیننس لانے پر غور کر رہی ہے ۔
ویڈیو: کیا دفعہ 35اے ہٹانے پر ہندوستان سے کشمیر کا رشتہ ٹوٹ جائے گا؟
26 سے28؍ فروری کے درمیان ہونے والی سماعت اور سرکار کے حالیہ چند ہنگامی حکم ناموں نے ریاست میں افواہ بازی کو جنم دیا ہے۔ریاستی سرکار نے کئی حکم ناموں میں اشیائے ضروریہ کو فوری طور سٹاک کرنے ، ہسپتالوں میں عملے اور ادویات کی فوری دستیابی کو یقینی بنانے اورتما م گزیٹیڈ افسران کی چھٹیوں کو منسوخ کرنے سمیت لازمی خدمات کو تیار رکھنے کا حکم جاری کیا ہے ۔ مرکزی سرکار نے بھی ایک حکم نامے کے تحت کشمیرمیں فوری طورپر 10000اضافی حفاظتی اہلکاروں کی تعیناتی کا حکم جاری کیا۔ ریاستی عوام میں بڑھ رہی تشویش پر ریاستی سرکار کے ترجمان نے عوام کو افواہ بازی پر کان نہ دھرنے کی اپیل کی مگر عوام میں تذبذب برقرار ہے۔
ادھر پاکستان نے اپنے ردِّعمل میں 35اےکے ساتھ کسی بھی طرح کی چھیڑ چھاڑ کو بین الاقوامی اور اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی صریحاً خلاف ورزی اور کشمیر کی جغرافیائی ہئیت کو تبدیل کرنے کی کوششیں بتاتے ہوئے اسے ناقابلِ قبول قرار دیا ہے۔
پلواما حملے کا جواب دینے کے سخت دباؤ تلے سوموار کو علی الصبح ہندوستانی فضائیہ نے پاکستان میں بالا کوٹ میں ایک درجن جنگی طیاروں کے ذریعے جیش محمد کے ٹھکانوں پر سخت بمباری کرکے تقریباََ 300 دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کادعویٰ کیا جس کی پاکستان یہ کہہ کر نفی کر رہا ہے کہ ہندوستانی جنگی طیارے پاکستانی حدودمیں غیر قانونی طور داخل تو ہوئے مگر پاکستانی فضائیہ کی بروقت جوابی کارروائی کے بعد واپس لوٹے اور جاتے جاتے بالاکوٹ میں پے لوڈ گرایا ۔پاکستان نے اُس کی حدود میں غیر قانونی طور پرداخل ہونے کا سخت اعتراض کرتے ہوئے مناسب جواب دینے کی ہندوستان کو دھمکی دی ہے۔
ایسے میں ریاستی عوام کے سخت احتجاجی ردعمل ، کشمیر کی جغرافیائی ہیئت کو تبدیل کرنے کے پاکستان کے الزامات اور دونوں ملکوں میں کشمیر پر اُبھر رہی جنگی صورتحال کے دو طرفہ چیلنج پر کیا مرکز اپنا موقف سامنے رکھ کر 35اے کے خاتمے کی وکالت کرے گی یا ایک بار پھر اس کی سماعت مؤخر ہوگی، اس اضطراب اور دورانِ شب آسمان میں منڈلاتے جنگی طیاروں کی گنو گرج نے کشمیری عوام کی نیند اُڑا دی ہے۔
(نصیر احمد سرینگر میں مقیم ملٹی میڈیا صحافی اور تجزیہ کار ہیں۔)