نئی دہلی اب اسرائیل کے ساتھ فوجی، اقتصادی اور نظریاتی تعلقات کو بھی فروغ دے رہا ہے۔ یہ مضمون تاریخی پیش رفت کا جائزہ لیتے ہوئے بتاتا ہےکہ ہندوتوا کس طرح ہندوستان کی خارجہ پالیسی اور گھریلو ردعمل کو نئی شکل دے رہا ہے۔
جہاں ہندوستان نے ایک نئے پوسٹ کالونیل اسٹیٹ کے طور پر فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کے مفاد میں سامراج مخالف یکجہتی کے جذبے کے ساتھ شروعات کی، وہیں اس نے شروع سے ہی صیہونی اقتدار کو بھی جزوی طور پر تسلیم کیا۔
اسرائیل کے تین مضبوط اتحادی -برطانیہ، فرانس اور کینیڈا – غزہ میں اس کی نسل کشی کی مہم کی وجہ سےاس کے خلاف ‘ٹھوس کارروائی’ کی دھمکی دیتے ہیں، جبکہ ہندوستان ہتھیاروں اور ڈرون کی سپلائی جاری رکھتاہے۔ یہ حقیقت صرف ان لوگوں کو حیران کرسکتی ہے،جنہوں نے آزادی کے بعد سے مسلسل ہندوستانی حکومتوں کی طرف سے فلسطینی کاز کی غیر متزلزل حمایت کی رسمی بیان بازی کو بہت ہی آسانی سے قبول کر لیا ہے۔
جہاں ہندوستان نےنئے پوسٹ کولونیل اسٹیٹ کے طور پر فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کے مفاد میں سامراج مخالف یکجہتی کے جذبے کے ساتھ شروعات کی، وہیں اس نے شروع سے ہی صیہونی اقتدار کو جزوی طور پر تسلیم کرنے اور بعض اوقات اس کی وکالت کے بیجوں کو بھی پناہ دی۔ اس کے علاوہ مغرب کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے سفارتی عزائم،یا مشرق وسطیٰ کے ممالک میں اثر و رسوخ کو بڑھا کر اور حمایت حاصل کرکے پاکستان کا مقابلہ کرنا بھی وقت کے ساتھ ساتھ اہمیت اختیار کر گیا۔
مودی حکومت کی آمد سے بہت پہلے، سوویت یونین کے زوال اور ہندوستانی معیشت کے لبرلائزیشن کے بعد، یہ ڈھلمل رشتہ اسرائیل کے ساتھ مزید کھلے تعاون میں بدل گیا۔ تاہم، پچھلی چند دہائیوں میں نو لبرل ہندوتوا کے عروج کے ساتھ اسرائیل کے جرائم کی علامتی مذمت بھی تیزی سے پرانی بات ہوتی جا رہی ہے، کیونکہ ہندوستان اور صہیونی ریاستوں کے درمیان نظریاتی صف بندی کے ساتھ ہی اقتصادی اور فوجی تعاون بڑھ رہا ہے۔
یقیناً، اس مغربی تثلیث نے بھی اسرائیل کو مادی مدد فراہم کرنا بند نہیں کیا ہے- جس میں ہتھیاروں کی فروخت شامل ہے۔ لیکن رسمی بیانات میں کتنا بڑا فرق آ گیا ہے!
قابل ذکر ہے کہ19مئی 2025 کو جاری ہونے والے ان کے مشترکہ بیان میں اسرائیل پر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کا الزام تو نہیں لگایا گیا، لیکن یہ ضرور کہا گیا کہ غزہ میں اسرائیل کی فوجی کارروائی ‘مکمل طور پر نامناسب’ ہےاور ‘ہم اس وقت خاموش نہیں رہیں گے جب نیتن یاہو حکومت ان گھناؤنی حرکتوں کو انجام دے رہی ہے۔’ اس کے علاوہ، ان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘ہم مزید کارروائی کرنے سے نہیں ہچکچائیں گے، جس میں ہدفی پابندیاں بھی شامل ہیں۔’
اسرائیل نے 17 جنوری 2025 کو حماس کے ساتھ جنگ بندی پر دستخط کیے تھے، لیکن 18 مارچ 2025 کو اس نے جنگ بندی توڑ دی اور دوبارہ فضائی حملے شروع کر دیے۔ نیتن یاہو نے کچھ گھنٹے بعداعلان کیا کہ اسرائیل نے ‘پوری طاقت کے ساتھ جنگ دوبارہ شروع کر دی ہے۔’
دو دن بعد ہندوستان کے بیان میں حماس کے ساتھ اسرائیلی معاہدے کی کسی خلاف ورزی کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا اور متعدد غیر مؤثر اعلانات کے علاوہ، انتہائی محتاط ہو کر یہ سعی کی گئی کہ کہیں ایسا کچھ نہ نکل جائے جس میں نام لے کر اسرائیل کی تنقید (مذمت کی بات تو رہنے ہی دیجیے)ہو ۔
غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس کا قریب ترین تذکرہ یہ تھا کہ ‘ہندوستان نے جنوری 2025 میں یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کا خیرمقدم کیا۔ ہندوستان نے انسانی امداد کی محفوظ، بروقت اور بلا تعطل فراہمی کی ضرورت پر زور دیا’ (وزارت خارجہ 2025)۔ اقوام متحدہ میں ہندوستان کے مستقل نمائندے پی ہریش نے اس سال 30 اپریل کو سلامتی کونسل میں منعقدمباحثے میں جنگ بندی کی ضرورت، یرغمالیوں کی رہائی اور انسانی امداد کی بلا تعطل فراہمی کے بارے میں وہی گھسے پٹے بیان دہرائے، لیکن اس بات کو یقینی بنایا کہ (حالانکہ 20 ماہ گزر چکے ہیں) 7اکتوبر 2023 کےدہشت گردانہ حملے کی پھر سے مذمت کریں۔
مودی سرکار کےگھنونےاور دوہرے رویے کو جو چیز بے نقاب کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے بعد سے اب تک اس نے کبھی بھی غزہ میں اسرائیل کے کسی اقدام کو دہشت گردانہ کارروائی قرار نہیں دیا؛ نسل کشی کہنے کی بات تو چھوڑ ہی دیجیے، اس نے نہ ہی عام شہریوں کے قتل عام کو دہشت گردی کی مہم قرار دیا ہے۔ اگرچہ یہ درست ہے کہ ہندوستان نے نسل کشی کنونشن پر دستخط اور توثیق کی ہے، لیکن مودی حکومت نے جنوبی افریقہ کی پہل پر،جس کے تحت بین الاقوامی عدالت انصاف (جس کا ہندوستان ایک رکن ہے) سے غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کی تحقیقات اور فیصلہ کرنے کی اپیل کی، نہ تو تسلیم کیا اور نہ ہی اس پر تبصرہ کیا۔
اتنا ہی نہیں کینیڈا، امریکہ اور جرمنی سمیت کئی یورپی ممالک میں فلسطینیوں اور خاص طور پر غزہ کے لوگوں کی حمایت میں بڑے پیمانے پر عوامی مظاہرے ہوئے ہیں۔ دنیا کی نام نہاد سب سے بڑی جمہوریت ہندوستان میں، سول سوسائٹی کا ردعمل بہت زیادہ محدود رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ کسی نہ کسی شکل میں جبر کا خوف ہے —بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت والی ریاستوں اور دہلی میں جب بھی کارروائی ہوئی تو پولیس نے ان پر روک لگا دی۔ یہ ہندو قوم پرست (یا ہندوتوا) قوتوں کی جانب سے فلسطین کو نام نہاد’ہندو مخالف’ اور اس وجہ سے ‘ملک مخالف’ معاملہ بتاکر اسلامو فوبیا کو ہوا دینا ان کی کامیابی کا ثبوت بھی ہے۔
موجودہ لوک سبھا میں تقریباً 41 پارٹیوں میں سے 31 نے 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اسرائیل اور غزہ کے درمیان جو کچھ ہو رہا ہے اس کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں بولا ہے۔ کوئی خارجہ پالیسی کے معاملے کو اٹھانے کی زحمت کیوں کرے گا، خاص طور پر ایسا ایشو جسے اکثریتی ہندو برادری اور رائے دہندگان کے بہت سے طبقے ‘مسلم اپیزمنٹ’ سمجھ سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نقطہ نظر زیادہ تر سیاسی گروہوں میں موجود ہے، جو بذات خود اس بات کا اشارہ ہے کہ ہندوتوا کے جذبات سول سوسائٹی میں کتنے وسیع اور گہرے داخل ہو چکے ہیں۔ یہاں تک کہ غیر بی جے پی مقتدرہ ریاستوں میں بھی، جیسے کہ کانگریس مقتدرہ کرناٹک میں، فلسطین کی حمایت میں عوامی مظاہرے کرنے کی کوششوں کو محدود کردیا گیا ہے، اگرچہ اس کی بربریت بی جے پی کے زیر اقتدار اتر پردیش (جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کے ممالک میں پانچویں نمبر پر ہے) جیسی شدید نہیں تھی۔
اس ہندوستان کا کیا ہوا، جو کبھی جنوب میں ایک سرکردہ ملک سمجھا جاتا تھا، اور فلسطینی مفادات کے لیے اپنی مبینہ طویل مدتی اور مستقل حمایت کے لیے جانا جاتا تھا؟ جی ہاں، ہندوستان نے ماضی میں فلسطینی مفادات کی حمایت کی تھی، لیکن وہ کبھی بھی اتنا مستقل یا اصولی نہیں رہا جتنا اس کی حکومتوں اور ان کے حامی گروپوں نے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہاں، بی جے پی کے اقتدار میں آنے سے پہلے (1998-2004 اور 2014 سے اب تک)، دوسری حکومتیں، کسی نہ کسی حد تک، اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات کے لیے فلسطینی مفادات سے سمجھوتہ کرنے پر آمادہ تھیں۔
اور ہاں، بی جے پی کی زیرقیادت حکومتوں نے ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو نمایاں طور پر مضبوط کیا ہے کیونکہ بی جے پی ، اس کی کیڈر پر مبنی مربی تنظیم، آر ایس ایس (راشٹریہ سیوک سنگھ) اور اس کی کئی ملحقہ تنظیموں کی بنیاد میں مضمر ہندوتوا نے ہمیشہ صیہونیت کے ساتھ ایک مخصوص نظریاتی وابستگی
محسوس کی ہے ۔ بی جے پی، وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں، جون 2024 میں مسلسل پانچ سال کی مدت کے لیے اقتدار کے لیے منتخب ہوئی۔
یہ واضح خاکہ ہندوستان میں سرکاری تبدیلیوں کی تاریخی سمت کی عکاسی کرتا ہے، اور جو تفصیلات ہم یہاں پیش کریں گے وہ ان مرکزی حکومتی تبدیلیوں کے متوازی ہندوستان-اسرائیل-فلسطین تعلقات کے ارتقاء کو نشان زد کرے گا۔ ہندوستان کے دیگر چار ہمسایہ ممالک سری لنکا، پاکستان، نیپال اور بنگلہ دیش کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کی نوعیت کا بھی مختصراً جائزہ لیا جائے گا۔
گاندھی اور نہرو
پہلی جنگ عظیم کے خاتمے اور برطانوی نوآبادیاتی مقتدرہ کے خلاف ہندوستانی قومی تحریک کے عروج کے بعد، گاندھی اور نہرو جیسے رہنما کی دوسری جگہوں پر برطانوی سامراج کے خلاف جاری جدوجہد سے بھی وابستگی تھی۔ 1936 کی عظیم بغاوت کے بعد، جو 1939 تک
جاری رہی ، فطری طور پر فلسطینی مزاحمت کی حمایت میں اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ، گاندھی نے انگریزوں کا سب سے زیادہ مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے سلسلے میں ہندو مسلم اتحاد کی تعمیر کو اپنے نقطہ نظر کی کلید مانا تھا۔
یہاں تک کہ کانگریس پارٹی نے فلسطین کی حمایت میں آل انڈیا مسلم لیگ جیسی سرکردہ مسلم تنظیموں کا ساتھ دیا تھا۔ لیکن یہودی قوم پرستی کے عروج اور فلسطین میں یہودی اکثریتی ریاست کے قیام کے صہیونی عزائم کے باب میں کیا ہو رہا تھا؟
اس مقصد کے کئی ممتاز حامیوں نے گاندھی کی حمایت کی کوشش کی۔ گاندھی کے جنوبی افریقہ میں قیام کے دوران (1893-1914) ہرمن کیلن باخ اور ہنری پولک جیسے کئی یہودیوں کے ساتھ ان کےقریبی سیاسی اور ذاتی تعلقات تھے، جو بعد میں صیہونی کاز سے متاثر ہوئے۔ نتیجتاً، وہ گاندھی کو بورڈ میں لانے کے لیے غیر سرکاری سفیر بن گئے۔
سال 1931میں، گاندھی نے ہندوستان میں ممکنہ سیاسی اصلاحات پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے لندن میں دوسری گول میز کانفرنس میں شرکت کی، جہاں انھوں نے ہفتہ وار جیوش کرانیکل کو انٹرویو دیا۔ اس انٹرویو میں، انہوں نے صہیونیت، یا ‘صیہون کی طرف واپسی’ کو اندرونی روحانی اطمینان کی تلاش کے طور پر بیان کیا، جو کہیں بھی پایا جا سکتا ہے، اور وہ ‘فلسطین پر دوبارہ قبضہ’ کرنے کے جغرافیائی دعوے سے الگ ہے، جہاں ہجرت کے لیے عربوں کی رضامندی ضروری ہے۔
تاہم، 1937 کے وسط میں کیلن باخ نے بامبے (اب ممبئی) کے باہر ایک آشرم میں گاندھی سے ملاقات کی اور وہاں ایک ماہ سے زیادہ قیام کے بعد، گاندھی کو قائل کیا کہ صہیونی روحانی تسکین کو فلسطین میں آباد کاری سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس واقعے نے گاندھی کی سوچ میں ایک مخمصہ پیدا کیا، جو بعد میں بھی برقرار رہا، حالانکہ انھوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ بالفور اعلامیہ اس کا جواز پیش نہیں کر سکتا اور یہ صرف اس وقت کیا جانا چاہیے جب ‘عرب رائے اس کے لیے تیار ہو’۔
آج ہندوستان میں بائیں بازو کی جماعتیں اور ان کے دانشور، جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ گاندھی کبھی مخمصہ میں نہیں تھے، ہمیشہ ہریجن اخبار میں ان کے 26 نومبر 1938 کے اداریے کا حوالہ دیتے ہیں، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ فلسطین عربوں کا اتنا ہی ہے جتنا انگلینڈ انگریزوں کا ہے اور فرانس فرانسیسی کا۔ کچھ عرصہ پہلے تک، ہندوستان-اسرائیل-فلسطین تعلقات کی تاریخی سمت پر تبصرہ کرنے اور لکھنے والے زیادہ تر دانشوروں کا یہ غالب اور بنیادی طور پر غیر سوالیہ نظریہ رہا ہے۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی، اس سے وابستہ کچھ دانشور ‘بابائے قوم’ کی وراثت کی دوبارہ تشریح کرنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں تاکہ آج کی مضبوط اسرائیل نواز پالیسی کو زیادہ بھروسے مند ظاہر کیا جاسکے۔
مارچ 1946 میں گاندھی نے ورلڈ جیوش کانگریس کے رکن مسٹر ہانک اور برطانوی لیبر پارٹی ایک یہودی ایم پی ایس سلورمین سے ملاقات کی۔ اس بحث کے دوران گاندھی سے ایک سوال پوچھا گیا، جو ان کے پرسنل سکریٹری پیارے لال نیر نے درست طریقے سے ریکارڈ کیا-‘کیا ہم یہ مان لیں کہ آپ کو یہودیوں کے لیے ایک قومی آباد کاری قائم کرنے کے ہمارے عزائم سے ہمدردی ہے؟’
گاندھی کا جواب ریکارڈ نہیں کیا گیا۔ دراصل، 1948 میں گاندھی کی موت کے بعد پیارے لال نے فلسطین سے متعلق کچھ دستاویزوں کو منتخب طور پر تباہ کر دیا۔ تاہم، سلورمین نے بعد میں اس جواب کو امریکی صحافی لوئس فشر کے ساتھ شیئر کیا، جنہوں نے اس بحث کے تقریباً تین ماہ بعد گاندھی سے رابطہ کیا اور اس جواب کی صداقت کی تصدیق کی۔
گاندھی نے کہا تھا، ‘میں نے سلورمین سے کہا کہ فلسطین میں یہودیوں کا معاملہ مضبوط ہے۔ اگر عربوں کا دعویٰ ہے تو یہودیوں کا ان سے پہلے کا دعویٰ بھی ہے۔’
بعد میں ہریجن کے 21 جولائی کے شمارے میں گاندھی نے کہا، ‘یہ سچ ہے کہ میں نے اس موضوع پر مسٹر لوئس فشر کے ساتھ طویل گفتگو کے دوران کچھ ایسا ہی کہا تھا۔’ اس کے بعد انہوں نے صیہونیوں کے بارے میں کہا کہ وہ دہشت گردی ترک کر دیں اور مکمل طور پر عدم تشدد پر آمادہ ہو جائیں۔’وہ فلسطین میں زبردستی داخل ہونے کے لیے دہشت گردی کا سہارا کیوں لیں؟ اگر وہ عدم تشدد کے بے مثال ہتھیار کو اپناتے ہیں تو… ان کا معاملہ دنیا کا معاملہ ہوگا… یہ سب سے بہتر اور روشن ہوگا۔’
بہر حال، گاندھی کی مجموعی پوزیشن کا سب سے متوازن اندازہ یہ ہے کہ انہوں نے فلسطین کو عرب کنٹرول میں ایک خودمختار اور آزاد ریاست بننے کی حمایت کی۔ اس کے ساتھ ہی یہودیوں کی وہاں منتقل ہونے کی خواہش کو وہ فطری مانتے تھے اور ان کے ثقافتی حقوق کے تحفظ کی بات کرتے تھے۔ بعد میں کیا انہوں نے یہودیوں کی مسلسل امیگریشن کی مخالفت کی یا نہیں، معلوم نہیں ہے ،لیکن یہ ممکن ہے کہ انہوں نے یہ شرط شامل کی ہو کہ کسی بھی ہجرت کے لیے عربوں کی رضامندی ہونی چاہیے۔
نہرو، گاندھی کی طرح ہی دوسری جنگ عظیم سے پہلے اور اس کے دوران یہودیوں کے ساتھ ہوئے سلوک کو دیکھتے ہوئے ان کے لیے گہری ہمدردی رکھتے تھے۔ لیکن ان کی یہ ہمدردی برطانوی سلطنت کے ساتھ مل کر صہیونی ریاست کے قیام کی کوششوں کی حمایت کرنے تک نہیں پہنچی۔
ہندوستان مئی 1947 میں فلسطین کے سوال پر تشکیل دی گئی اقوام متحدہ کی خصوصی کمیٹی (یو این ایس سی او پی) کے 11 اراکین میں سے ایک تھا اور اس نے برطانیہ کے ذریعے ذمہ داری تفویض کرنے پر جنرل اسمبلی کو اپنی رپورٹ بھی پیش کی تھی۔ اس وقت ہندوستان (ایران اور یوگوسلاویہ کے ساتھ) نے وفاقی اتحاد کو برقرار رکھنے کے لیے ایک منصوبہ تجویز کیا تھا۔ مزید برآں، اس نے اکثریتی منصوبے کے خلاف ووٹ دیا، جس میں فلسطین کی تقسیم کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ اس سے 55فیصد علاقہ یہودیوں کو مل جاتا (جو اس وقت تقریباً 30فیصدآبادی پر مشتمل تھا)، لیکن زیادہ تر بوجھ فلسطینیوں پر آتا۔ بہر صورت یہ منصوبہ محض ایک سفارش تھی اور اسے مسلط نہیں کیا جانا تھا۔
اس کے علاوہ، فلسطینی فریق نے اسے مسترد کر دیا تھا، کیونکہ یہ مکمل آزادی دینے کے عزم کی خلاف ورزی تھی۔ اس کے باوجود، 1950 میں، نہرو نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا، حالانکہ تقسیم کے منصوبے کے برعکس، اس نےاس وقت 78 فیصد علاقے پر زبردستی قبضہ کر لیا تھا۔ ستمبر 1950 میں یہودی ایجنسی نے بامبے (اب ممبئی) میں ایک امیگریشن آفس بھی کھولا، کیونکہ تقریباً 60,000 (بینی اور بغدادی) یہودی 18ویں-19ویں صدی میں ہندوستان ہجرت کررہے تھے یا یہودیت اختیار کر چکے تھے۔ اس دفتر کو بعد میں تجارتی دفتر اور پھر 1953 میں ایک چھوٹے سے قونصل خانے میں تبدیل کر دیا گیا۔
پہلا، 1947-49 کے نقبہ کے بعد کوئی حقیقی آزاد اور نمائندہ سیاسی ادارہ نہیں تھا جو حقیقی معنوں میں فلسطینی مفادات کو ترجیح دیتا ہو۔ دوسرا، تقسیم کے بعد ہندوستان نے پاکستان کو تسلیم کیا تو اسرائیل کوکیوں نہیں؟ دو مسلم اکثریتی ممالک ایران اور ترکی پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کر چکے تھے۔ مزید برآں، اسرائیل کو مئی 1949 میں اقوام متحدہ میں داخل کیا گیا اور داخلے کی شرط کے طور پر بے گھر فلسطینیوں کے ‘حق واپسی’ سے متعلق قرارداد 194 کو قبول کیا، جس کو اس نے کبھی لاگونہیں کیا۔
تیسرا، سوویت یونین پہلا ملک تھا جس نے مئی 1948 میں اسرائیل کو قانونی حیثیت دی، اس لیے کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی)، جو اس وقت کی اہم اپوزیشن قوت تھی، نے نہرو کی مخالفت نہیں کی۔ جزوی طور پر عرب جذبات کے پیش نظر انہوں نے مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے سے گریز کیا۔ یہ عملی حقیقت پسندی تھی جس نے پہلے نہرو کو تسلیم کرنے پر اکسایا اور پھر انہیں پیچھے روکے رکھا۔
قابل ذکر ہے کہ1956میں اسرائیل، برطانیہ اور فرانس کی جانب سے سویز پر حملے اور جنگ کے بعد، ہندوستان کے اسرائیل کے ساتھ گہرے تعلقات کی طرف بڑھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ یہ سفارتی جمود نہرو کے پورے دور میں 1964 سے 1984 تک رہا، جس میں 1967 اور 1973 کی اسرائیل عرب جنگ اور 1982 میں لبنان پر اسرائیلی حملہ بھی شامل تھا۔
تاہم، اس سفارتی توقف کے باوجود ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان پس پردہ اہم رابطے جاری رہے۔ مئی 1964 میں نہرو کا انتقال ہو گیا، لیکن ہندوستان نے 1962 کی چین جنگ کے دوران اسرائیل سے بھاری توپ خانے (مارٹر) اور گولہ بارود حاصل کیا اور 1965 اور 1971 کی ہندوستان-پاکستان جنگوں کے دوران اسرائیل سے مزید ہتھیار خریدے۔
انتہائی دائیں بازو کا عروج
جون 1996 میں 13 جماعتوں والی ایک غیر کانگریسی اور غیر بی جے پی مخلوط متحدہ محاذ کی حکومت بنی،لیکن مارچ 1998 تک یہ حکومت گر گئی۔ اسی دوران اسرائیل کو بغیر پائلٹ کے فضائی گاڑیاں (یو اے وی)، گرین پائن رڈار سسٹم اور طویل فاصلے تک زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل فراہم کرنے کے معاہدے طے پائے۔
اس کے بعد 1998-99 میں پہلی بار بی جے پی کی زیرقیادت حکومت بنی، جو پھر 1999 سے 2004 تک پانچ سالہ مدت کے لیے منتخب ہوئی، دونوں بار وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں۔ یہ 2003 میں ان کے دور میں تھا جب ایریل شیرون نے کسی اسرائیلی وزیر اعظم کا ہندوستان کا پہلا سرکاری دورہ کیا تھا۔
اس سے قبل پاکستان کے ساتھ 1999 کی کارگل جنگ میں اسرائیل نے ہندوستان کو فوجی مدد فراہم کی تھی، جبکہ واشنگٹن نے اسلام آباد پر دباؤ ڈال کر اس کی فوج کو پیچھے ہٹنے کومجبور کیا تھا۔ مئی 1998 میں ہندوستان کے جوہری تجربات پر امریکہ کا ابتدائی غصہ جلد ہی کم ہو گیا اور ہندوستان-اسرائیل اور امریکہ کے درمیان ایک نیا اسٹریٹجک اتحاد بننا شروع ہو گیا۔
غور طلب ہے کہ 26 نومبر 2008 کو ممبئی میں پاکستان میں مقیم دو اسلامی گروپوں کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد، اسرائیل نے سینٹرل مانیٹرنگ سسٹم کے تحت ایک نگرانی کا انفراسٹرکچر قائم کرنے میں ہندوستان کی مدد کی، جس نے ہدفی نگرانی سے لے کر بڑے پیمانے پر نگرانی تک کی صلاحیتیں تیار کیں(ایسسا 2023: 48)۔ نومبر 2008 کے حملوں کے وقت اور اس کے فوراً بعد، اعلیٰ سطحی سیاسی مکالمےکے علاوہ، اسرائیل نے انٹلی جنس افسران، پیرامیڈیکس، ریزروسٹ، اور کچھ رضاکاروں کی ایک ٹیم بھیجی، جنہوں نے مشورے، مادی مدد فراہم کی، اور اس طرح کے دہشت گردانہ خطرات سے نمٹنے کے لیے ہندوستان کی ناکافی تیاری پر تنقید کی۔
اس موقع پر اسرائیلی اہلکاروں کی موجودگی نے ایک وسیع اتفاق رائے کو فروغ دینے میں مدد کی کہ ہندوستان میں سنگین خامیاں ہیں جن کے لیے اسرائیل کی خصوصی مہارت کی ضرورت ہے۔ یہ استدلال کیا گیا تھا کہ اب ایک قابلیت کے لحاظ سے نیا اور گہرا اتحاد قائم ہو چکا ہے(میک ہولڈ 2024)۔
فلسطینیوں اور کشمیریوں دونوں کو سیاسی خود ارادیت کے حق سے محروم کرتے ہوئے، بھاری فوجی موجودگی نے کشمیر کو مستقل فوجی قبضے کے علاقے میں تبدیل کر دیا، جیسا کہ فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں ہے۔ فلسطینیوں اور کشمیری مسلمانوں دونوں کے خلاف تشدد ایک مشترکہ اور قانونی طور پر جائز عمل ہے، جس کے ساتھ انتہائی غیر جمہوری اور جابرانہ قوانین کا استعمال کیا جاتا ہے۔ کشمیر میں ہندوؤں کے لیے ان کی زمینوں پر قبضے کے ذریعے اور مرکزی حکومت کے مختلف منصوبوں کے لیے بستیاں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ ہندو مسلم علیحدگی کا یہ نمونہ اسرائیل کی مغربی کنارے کی پالیسی سے مطابقت رکھتا ہے (ایسسا 2022)۔
سال 2003 سے 2013 کے درمیان ہندوستان اسرائیل کا سب سے بڑا ہتھیاروں کا گاہک بن گیا۔ فروری 2014 میں، جب عام انتخابات کے چند ماہ باقی تھے اور کانگریس پارٹی ابھی بھی اقتدار میں تھی، ایک رسمی معاہدہ طے پایا (جس کومئی 2014 میں مودی کی انتخابی کامیابی کے بعد نافذ کیا گیا)کہ ہندوستانی پولیس اور سیکورٹی اہلکاروں کو ‘انسداد دہشت گردی’، ‘ہجوم کنٹرول،’ اور ‘بارڈر مینجمنٹ’ کی تربیت دی جائے، یعنی انہیں اپنے ملک میں، خاص طور پر شمال-مشرقی کے شورش زدہ علاقوں اور کشمیر میں مسائل سے نمٹنے کے طریقے سکھائے جائیں۔
صیہونیت کے ساتھ ہندوتوا کی نظریاتی رشتہ داری مودی کے دور میں، مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کے دشمنوں کے ساتھ اسرائیل کے سلوک کی زیادہ واضح تعریف اور حقیقت میں تقلید میں بدل گئی ہے۔
مودی دور
جون 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد مودی نے جلد ہی دکھا دیا کہ وہ اسرائیل کو مختلف نظروں سے دیکھیں گے۔ 2017 میں مودی اسرائیل کا تین روزہ سرکاری دورہ کرنے والے پہلے ہندوستانی وزیر اعظم بنے۔ اس تین روزہ دورے کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو باضابطہ طور پر ’اسٹریٹجک پارٹنرشپ‘ کا درجہ دیا گیا۔ انہوں نے فلسطینی قیادت سے ملاقات نہ کرکے اس روایت کوبھی توڑ دیا جس میں ہندوستانی لیڈر ہمیشہ فلسطینی قیادت سے ملاقات کرتے تھے ۔ اس سے جان بوجھ کر یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ فلسطین کا سوال اب غیر متعلق ہے اور اب ہندوستان اسرائیل تعلقات کا سوال ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق، اسی وقت، مودی حکومت نے پیگاسس کو خریدنے کا معاہدہ کیا، جو کہ ایک اسرائیلی فرم کی طرف سے تیار کردہ ملٹری اسپائی ویئر ہے جسے خصوصی طور پر حکومتوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔
سال2018میں یونیورسٹی آف ٹورنٹو کی سٹیزن لیب نے پایا کہ اسے ہندوستان سمیت 45 ممالک میں میلویئر انسٹال کرنے اور نگرانی کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا۔ 2021 میں اسے کم از کم 300 ہندوستانیوں کے خلاف غیر قانونی طور پر استعمال کیا جا رہا تھا، جن میں انسانی حقوق کے کارکن، مودی حکومت پر تنقید کرنے والے صحافی، اور کانگریس پارٹی کے رہنما راہل گاندھی شامل تھے۔ ہندوستانی حکومت نے کبھی بھی اس کی تردید نہیں کی اور اعتراف بھی نہیں کیا اور سپریم کورٹ نے بھی واضح جواب مانگنے کی اپنی ذمہ داری سے گریز کیا ۔
قابل ذکر ہے کہ10فروری 2018 کو مودی نے رام اللہ کے تین گھنٹے کے دورے کے دوران فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کے صدر محمود عباس سے ملاقات کی۔ وہیں، طویل عرصے سے جاری ہندوستانی بیان میں ایک ‘خودمختار اور آزاد’ فلسطینی ریاست کی حمایت کا اعادہ کیا گیا۔ تاہم، پہلی بار، مشرقی یروشلم کے ساتھ ایک ‘متحد’ فلسطینی ریاست کا ذکر نہیں کیا گیا۔
اس کا مطلب واضح تھا؛ نئی دہلی مستقبل میں دو ریاستی حل کو آسانی سے قبول کرے گا، جیسا کہ اسرائیل چاہتا ہے۔ ہندوستان نہ تو اخلاقی طور پر اور نہ ہی سیاسی طور پر اسرائیلی تشدد سے پریشان تھا، چاہے اس میں غزہ کی ناکہ بندی ہو یا مغربی کنارے میں غیر قانونی بستیوں کی توسیع۔ نئی دہلی نے 2020 ابراہیم معاہدے کا ایک مثبت قدم کے طور پر خیرمقدم کیا۔
غور طلب ہے کہ14جولائی 2022 کو آئی2یو2(انڈیا-اسرائیل-یو اے ای-یو ایس) گروپ قائم کیا گیاتاکہ مشترکہ اقتصادی مقاصد کے حصول کو ممکن بنایا جاسکے ۔ چند ہی گھنٹوں بعد حیفہ بندرگاہ اڈانی پورٹس کو فروخت کر دی گئی، تاکہ اسرائیلی کمپنی گاڈور کے ساتھ اس کوچلایا جا سکے۔
قابل ذکر ہے کہ7اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد مودی حکومت نے مذمت کی اور اسرائیل کی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ غزہ میں قتل عام کے درمیان مودی حکومت جنگ بندی اور انسانی امداد کے حوالے سے کمزور اور مبہم باتیں کرتی رہی ہے۔ ہندوستانی کمپنیوں نے، حکومت کی رضامندی سے اسرائیل کو 900 ہرمیس ڈرون اور گولہ بارود فراہم کیا۔ اسرائیل کے تعمیراتی شعبے میں فلسطینی مزدوروں کی جگہ لینے کے لیےہزاروں ہندوستانی مزدور بھیجے ۔
تازہ ترین منصوبہ اقوام متحدہ کی ایجنسیوں کو خارج کرنا اور صرف چند منتخب تقسیم مراکز کو کم سے کم امداد فراہم کرنا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد غزہ کے باشندوں کی بنیادی ضروریات، جیسے خوراک، صحت اور رہائش کو پورا کرنا نہیں ہے۔ اصل مقصد یہ ہے کہ اسرائیل کے اتحادیوں کو خاموش رکھا جائے تاکہ وہ ’ بہتر ضمیر‘کے ساتھ خاموش رہ سکیں جبکہ نسلی تطہیر کا عمل جاری رہے۔ اس طرح، حالات اس مقام تک برقرار رہیں کہ غزہ کے لوگ ‘رضاکارانہ ہجرت’ کا انتخاب کریں اور دوسرے ممالک میں آبادہوجائیں۔
ٹرمپ انتظامیہ یہاں بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہےاور سوڈان، صومالیہ، صومالی لینڈ (منقسم خطہ)، لیبیا، انڈونیشیا سمیت کئی ممالک تک پہنچ رہی ہے اور ممکنہ طور پر انہیں مالی اور دوسرے لالچ دیے جارہے ہیں ۔ مغربی کنارے میں غیر قانونی بستیاں مزید پھیلیں گی اور فلسطینی رہنماؤں پر جبر اور رشوت ستانی کے ہتھکنڈوں کو’منظم’کرنے کے لیے تیز کیا جائے گا۔
تل ابیب اور واشنگٹن کی طرف سے ‘جارڈن آپشن’کے خصوصی ورژن پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ان کے حکمرانوں کے لیے ڈنڈا اور گاجر کی یکساں حکمت عملی لاگو کرکے اردن کو جزوی یا مکمل طور پر ایک نئی فلسطینی بستی میں تبدیل کیا جائے گا ۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ مغربی کنارے کے باشندوں کو حکمرانوں کو خرید کر یا مجبور کرکے نکال باہر کرنے کے منصوبے کا حصہ ہے۔ پھر بھی، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ منصوبے کتنے ہی چالاکی سے بنے ہوئے ہیں، غزہ اور مغربی کنارے دونوں کے لیے ان اسرائیلی عزائم میں خواہش اور حقیقت کے درمیان ایک وسیع خلیج موجود ہے۔
ہندی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔