بلڈوزر پر سوار ہندوستان تیزی سے ہندو فسطائیت کی راہ  پرگامزن  ہے

پہلے مسلمانوں کو سزا دینے کے لیے قتل عام کیا جاتا تھا، بھیڑ ان کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالتی تھی، ان کو نشانہ بناکر قتل کیا جاتا تھا، وہ حراستوں اورفرضی انکاؤنٹر میں مارے جاتے تھے یا جھوٹے الزامات میں قید کیے جاتے تھے۔ اب ان کی جائیدادوں کو بلڈوز سے منہدم کردینا اس فہرست میں شامل ایک نیا ہتھیار ہے۔

پہلے  مسلمانوں کو سزا دینے کے لیے قتل عام کیا جاتا تھا، بھیڑ ان کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالتی تھی، ان کو نشانہ بناکر قتل کیا جاتا تھا، وہ حراستوں اورفرضی انکاؤنٹر میں مارے جاتے تھے یا جھوٹے الزامات میں قید کیے جاتے تھے۔ اب ان کی جائیدادوں کو بلڈوز سے منہدم کردینا اس فہرست میں شامل ایک نیا ہتھیار ہے۔

الہ آباد میں جاوید محمد کا گھر منہدم کرتا شہری انتظامیہ کا بلڈوزر ۔ (تصویر: رائٹرس)

الہ آباد میں جاوید محمد کا گھر منہدم کرتا شہری انتظامیہ کا بلڈوزر ۔ (تصویر: رائٹرس)

گزشتہ چند ماہ کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی والی ریاستوں کی سرکاری ایجنسیوں اور عملے نےمسلمانوں کے گھروں، دکانوں اور ان کے کاروبار کی جگہوں پر بلڈوزر چلا کر انہیں گرانے کی شروعات کی ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کے حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہونے کے شبہ پر کیا جا رہا ہے۔ ان ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے اس پالیسی کو اپنی انتخابی مہم میں فخر یہ مشتہر کیا ہے۔

میرے ذہن میں یہ ایک ایسے لمحے کی نشاندہی ہے جب ایک انتہائی ناقص،  کمزور جمہوریت زبردست عوامی حمایت کے ساتھ کھلے عام اور ڈھٹائی سے ایک مجرمانہ ہندو فسطائی ادارے  میں  تبدیل ہو چکی ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ہم ہندو سنتوں  کا چوغہ پہنے غنڈوں کے راج میں جی رہے ہیں۔ ان کے لیے مسلمان اب دشمن نمبر ایک ہیں۔

ماضی میں جب مسلمانوں کو سزائیں دی جاتی تھیں  تو  ان کا قتل عام کیا جاتا تھا، بھیڑ ان کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالتی تھی، انہیں نشانہ بناکر قتل کیا جاتا تھا، وہ  حراستوں اور فرضی انکاؤنٹر میں مارے جاتے تھے،جھوٹے الزامات میں قید کیے جاتے تھے۔ ان کے گھروں اور کاروبار پر بلڈوزر چلا کر گرانا اس فہرست میں شامل ایک نیا اور انتہائی مؤثر ہتھیار ہے۔

جس طرح سے اس کی خبریں سنائی جا رہی ہیں اور ان کے بارے میں لکھا جا رہا ہے، اس میں  بلڈوزر کو ایک قسم کی غیبی طاقت دے دی گئی ہے، جو بدلہ لینے کے لیے آئی ہے۔ ‘دشمن کو کچلنے’ کے لیے استعمال ہو رہی لوہے کے بڑے پنجوں والی  یہ خوفناک مشین، شیطانوں کا  قتل  عام کرنے والے اساطیری دیوتا کا ایک مشینی ورژن بنا دی گئی ہے۔ یہ ایک نئے، بدلہ لینے کو بے چین  ہندو راشٹر کا آلہ  بن چکی  ہے۔

برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے اپنے حالیہ ہندوستانی دورے میں بلڈوزر کے ساتھ تصویر کھنچوائی۔ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ اصل میں کیا کر رہے ہیں اور وہ کس کی حمایت میں  کھڑے ہو رہے تھے۔ ورنہ آخر کیوں کسی ایک ملک کا سربراہ ایک سرکاری دورے پر ایک  بلڈوزر کے ساتھ تصویر کھنچوانے جیسی  بیہودہ حرکت کرے گا؟

اپنے دفاع میں سرکاری عملہ زور دیتا  ہے کہ وہ مسلمانوں کو نشانہ نہیں بنا رہا ہے، بلکہ وہ بس غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ عمارتوں کو گرا رہا ہے۔ یہ صرف ایک قسم کی میونسپل صفائی مہم ہے۔ وہ وجہ آپ کو یقین دلانے کے لیے ہےبھی نہیں۔ یہ تو مذاق اڑانے اور لوگوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔ ورنہ حکومتیں اور زیادہ تر ہندوستانی یہ بھی جانتے ہیں کہ ہندوستان کے ہر ایک قصبے اور شہر میں زیادہ تر تعمیرات یا تو غیر قانونی ہیں یا جزوی طور پر ہی قانونی ہیں۔

مسلمانوں کے گھروں اور کاروباری اداروں کو بغیر کسی نوٹس، بنا کسی اپیل یا سماعت کا موقع دیے صرف انہیں سزادینے کے لیے مسمار کرنے سے ایک ساتھ کئی مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے۔

بلڈوزر کے دور سے پہلے مسلمانوں کو سزا دینے کا کام قاتل ہجوم اور پولیس کیا کرتی تھی – جو یا تو براہ راست خود ہی انہیں سزا دیاکر تی تھی یا جرم کو نظر انداز کر دیتی تھی۔ لیکن جائیدادوں کو مسمار کرنے میں نہ صرف پولیس کا عمل دخل ہوتا ہے بلکہ اس میں میونسپل حکام، میڈیا اور عدالتوں کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔

میڈیا کا وہاں ہونا ضروری ہوتا ہے  تاکہ وہ ایسے واقعات کو شیطانوں  کی تباہی کے جشن کے طور پر مشتہر کرے۔ اور عدالتوں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ آنکھیں بند کر لیں اور  کوئی مداخلت نہ کریں۔

اس کا مطلب مسلمانوں کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ اب تم بے سہارا ہو۔ کوئی بھی تمہاری  مدد کے لیے نہیں آئے گا۔ تم اپنی فریاد لے کر کہیں نہیں جا سکتے۔ اس پرانی جمہوریت کو صحیح  راستے پر رکھنے کے لیے بنایا گیا ہر قانون اور ہر ادارہ اب ایک ہتھیار ہے جسے تمہارےخلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔

دوسری کمیونٹی کے حکومت مخالف مظاہرین کی املاک کو شاذ و نادر ہی اس انداز میں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، 16 جون 2022 کو بی جے پی حکومت کی  فوج میں بھرتی کی نئی پالیسی سے ناراض دسیوں ہزار نوجوانوں نے پورے شمالی ہندوستان میں پرتشدد احتجاج کیا۔ انہوں نے ٹرینوں اور گاڑیوں کو جلا دیا، سڑکیں بلاک کر دیں اور یہاں تک کہ ایک قصبے میں تو انہوں نے بی جے پی کا دفترتک  جلا دیا۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر مسلمان نہیں ہیں۔اس لیے ان کے گھر اور خاندان محفوظ رہیں گے۔

سال 2014 اور 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی نے یہ ثابت کیا ہے کہ اسے عام انتخابات میں پارلیامنٹ میں اکثریت کے لیے ہندوستان کی 20 کروڑ مسلم آبادی کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے۔ تواصل میں ہم  جو دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک طرح سے اس آبادی کو ہر طرح کے حق اور خصوصی طور پر ووٹ کے حق سے محروم کر دیاجاتا  ہے تب آپ کا کوئی وجود نہیں رہ جاتا۔ آپ بے معنی ہو جاتے ہیں ۔ آپ کا استعمال ہو سکتا ہے، آپ کے ساتھ بدتمیزی ہو سکتی ہے۔ آج ہم جو دیکھ رہے ہیں، وہ یہی ہے۔

جب بی جے پی کے اعلیٰ عہدیداروں نے عوامی طور پر ہر اس چیز کی توہین کی جسے مسلمان سب سے مقدس مانتے ہیں، تب بھی اپنے اصل حامیوں کے بیچ پارٹی کی حمایت پر کوئی آنچ نہیں آئی اور نہ ہی اس کی کسی طرح کی  کوئی معنی خیز تنقیدہوئی۔

اس توہین کے ردعمل میں مسلمانوں کی جانب سے اہم احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ یہ احتجاج سمجھ میں آتے  ہیں کیونکہ یہ واقعہ اس قدر تشدد اور بربریت کے پس منظر میں رونما ہوا ہے۔

بس جو بات ناقابل فہم تھی وہ یہ کہ جیسا ہوتا  ہی ہے کچھ مشتعل افراد نے توہین رسالت کے قانون کا مطالبہ کیا۔ بی جے پی تو شاید اسے خوشی سے نافذ کرنا چاہے گی، کیونکہ تب اس قانون کے تحت ہندو راشٹر واد کے بارے میں تقریباً ہر قسم کا تبصرہ جرم بن جائے گا۔ یہ ہر اس تنقید اور فکری تبصرے کو عملی طور پر خاموش کردے گا جو اس سیاسی اور نظریاتی دلدل کے بارے میں کی جاتی ہے جس میں ہندوستان ڈوب رہا ہے۔

احتجاج کرنے والے دوسرے افراد نے، جیسے کہ ایک اہم سیاسی جماعت، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) سے وابستہ ایک شخص نے پھانسی دینے اور لوگوں  کا سر قلم کرنے کا مطالبہ کیا۔یہ تمام واقعات مسلمانوں کے بارے میں بتائے جانے والے ہر اس دقیانوسی تصور کو ثابت کرنے کے لیے استعمال میں لائے گئے ، جس کو ہندو رائٹ ونگ بڑی  محنت کرکے بناتا ہے۔

توہین کی اونچی دیواروں اور دونوں طرف سے آ رہی موت کی دھمکیوں کے درمیان کسی بھی طرح کی کوئی بات چیت ممکن نظر نہیں آتی۔

ان مظاہروں کے بعد ہونے والے پولرائزیشن نے بس یہی کیا کہ  بی جے پی کی حمایت میں اضافہ ہو گیا۔ توہین کرنے والی بی جے پی ترجمان کو پارٹی سے معطل کر دیا گیا ہے، لیکن ان کے کیڈر نے انہیں کھلے عام اپنا لیا ہے۔ ان کا سیاسی مستقبل روشن نظر آتا ہے۔

آج ہم ہندوستان میں جس دور میں رہ رہے ہیں وہ ‘اسکارچڈ ارتھ پالیسی‘ کی ایک سیاسی شکل ہے۔ اس پالیسی کے تحت دشمن کے لیے مفید ہر چیز کو تباہ کر دیا جاتا ہے، تاکہ وہ انہیں استعمال نہ کر سکے۔

ہز چیز، ہر ادارہ جسے بنانے میں برسوں لگے، تباہ کیے جا رہے ہیں۔ یہ حیران کن ہے۔ نوجوانوں کی ایک نئی نسل اس طرح پروان چڑھے گی کہ انہیں کوئی حقیقت معلوم نہیں ہوگی، سوائے ان بے بنیاد باتوں کے جو ان کے ذہنوں میں بھری گئی ہوں گی۔ ان کا اپنے ملک کی تاریخ اور اس کی ثقافتی پیچیدگیوں سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔

یہ حکومت 400 ٹی وی چینلوں، لاتعداد ویب سائٹس اور اخباری میڈیا کی مدد سے مذہبی بنیاد پرستی اور نفرت کو ہوا دیتی رہتی  ہے۔ اس میں ہندو مسلم علیحدگی کے دونوں اطراف سے اٹھنے والے،زہر فشانی کرتے خستہ حال کردار آگ لگاتے رہتے ہیں۔

ہندو رائٹ ونگ کے کیڈر کے اندر ایک نیا، جارحانہ انتہا پسند رائٹ ونگ ہے جس میں  ایک طرح کی بے قراری نظر آ رہی ہے، جس پر قابو پانےمیں مودی حکومت کو بھی مشکل پیش آ رہی ہے۔ کیونکہ یہ حصہ بی جے پی کا حقیقی حامی ہے۔

سوشل میڈیا پر اب مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ روزمرہ کی بات بن چکی ہے۔ ہم ایک ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نظر نہیں آتی۔ اب ہمیں ، جو اس کے خلاف کھڑے ہیں اورخصوصی طو رپر ہندوستان کے مسلمانوں کو، جس بات پر سوچنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے  کہ ہم اس سے کیسے بچ  کر نکل سکتے ہیں؟ کیسے ہم اس کی مخالفت کر سکتے ہیں؟

ان سوالوں کا جواب دینا مشکل ہے، کیونکہ آج ہندوستان  میں احتجاج  کو ہی ، چاہے وہ کتنا ہی پرامن کیوں نہ ہو، دہشت گردی جیسا گھناؤنا جرم بنا دیا گیا ہے۔

Next Article

طیارہ حادثہ یا کمپنیوں کی لاپرواہی؟ اے آئی 171کا سانحہ اور بوئنگ ڈریم لائنر پر اٹھنے والے سوال

بارہ جون 2025 کو احمد آباد سے لندن جا رہی ایئر انڈیا کی پرواز اے آئی 171 گر کر تباہ ہو گئی، جس میں 241 افراد ہلاک ہو گئے۔ حادثے کا مرکز بنا ڈریم لائنر طیارہ  برسوں سے کوالٹی، اسمبلی کی خامیوں اور سابق ملازمین کی وارننگ کے حوالے سے تنازعات میں رہا ہے۔ یہ سانحہ اب ان تمام انتباہات کا بھیانک نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔

ایئر انڈیا کے تباہ شدہ طیارے کا ملبہ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: 12 جون 2025 کی دوپہر۔ احمد آباد سے لندن گیٹ وِک کے لیے روانہ ہوئی ایئر انڈیا کی پروازاے آئی 171 کچھ ہی سیکنڈ بعد شہر کے باہری علاقے میں ڈاکٹروں کے لیے ایک گیسٹ ہاؤس پر گر گئی۔ حادثے میں 241 مسافروں کی موت ہو گئی۔ 242 میں سے صرف ہندوستانی نژاد برطانوی شہری کو زندہ نکالا گیا۔ یہ حادثہ نہ صرف ہندوستان بلکہ عالمی ہوا بازی کی دنیا کے لیے بھی ایک صدمہ ثابت ہوا۔

اس وقت حادثے کی وجوہات کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں، لیکن جس طیارے سے یہ اڑان بھری گئی تھی، وہ بوئنگ 787 ڈریم لائنر اب پوری دنیا میں شکوک و شبہات کی زد میں ہے۔

حادثے سے پہلے دی گئی وارننگ

اے آئی 171میں استعمال ہوا طیارہ 12 سال پرانا بوئنگ 787-8 ڈریم لائنر تھا، جسے جنوری 2014 میں امریکہ کے ایوریٹ پلانٹ سے ایئر انڈیا کو سونپا گیا تھا۔ اس کے درمیانی اور پچھلے حصے کی اسمبلی چارلسٹن، ساؤتھ کیرولینا کے اس پلانٹ میں ہوئی تھی، جس کی کوالٹی پر برسوں سے سوال اٹھ رہے ہیں۔

دی امریکن پراسپیکٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ، جان بارنیٹ، بوئنگ کے ایک سابق کوالٹی منیجر، جنہوں نے چارلسٹن میں ڈریم لائنر کی تیاری کے دوران بے قاعدگیوں کو بے نقاب کیا تھا، اکثر کہتے تھے- ‘بس تھوڑا انتظار کیجیے۔’ ان کا خیال تھا کہ ان طیاروں کی تیاری میں خامیاں ایک دن مہلک حادثے کا باعث بنیں گی۔ مارچ 2024 میں ان کی موت پراسرار حالات میں ہوئی تھی۔ وہ اپنی موت سے دو دن پہلے اس طیارے کے حوالے سے ایک گواہی کی کارروائی  میں شامل ہو رہے تھے۔

‘ہم اپنے اہل خانہ کو ان طیاروں میں کبھی نہیں بٹھائیں گے’

چارلسٹن پلانٹ کے ایک نامعلوم کارکن کی جانب سے بنائی گئی ایک خفیہ ویڈیو میں ریکارڈ کیا گیا ہے کہ فیکٹری کے کئی کارکنان ان طیاروں کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھے۔ ایک کارکن نے کہا، ‘میں اپنے خاندان کو کبھی اس میں نہیں بٹھاؤں گا۔’

سنتھیا کچنز، جو 2009 سے 2016 تک بوئنگ میں کوالٹی منیجر تھیں، نے بتایا کہ انہوں نے 11 طیاروں کی فہرست بنائی تھی، جس کے بارے میں وہ سب سے زیادہ فکر مند تھیں۔ ان 11 میں سے 6 ایئر انڈیا کو دیے گئے تھے۔ ان میں سے ایک وہی تھا جو 12 جون کو گر کر تباہ ہوا ۔

بناوٹ میں خامی یا رکھ رکھاؤ میں لاپرواہی؟

ڈریم لائنر کی بناوٹ میں ہلکے وزن کے مرکب فائبرکا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی سطح چکنی ہوتی ہے، جس سے اندرونی ساختی دراڑیں چھپ سکتی ہیں۔ سابق ملازمین نے الزام لگایا ہے کہ بوئنگ نے بار بار’فارن آبجیکٹ ڈیبرس’ (ایف او ڈی) — جیسے دھات کے ٹکڑے، گندگی وغیرہ — ہوائی جہاز کے حصوں میں رہ جاتےہیں، جس کی وجہ سے انجن شارٹ سرکٹ یا فیل ہو سکتے ہیں۔

اے آئی 171کے پائلٹ نے ٹیک آف کے چند سیکنڈ بعد ‘انجن فیل ہونے’ کی ہنگامی رپورٹ دی تھی۔ فوٹیج میں طیارہ ٹیک آف کی پوزیشن میں آہستہ آہستہ نیچے گرتا ہوا دیکھا گیا۔ اس سے انجن یا برقی نظام میں سنگین خرابی کا اندیشہ جتایا جا رہا ہے۔

نارویجن ایئر لائن اور 787 کی تاریخ

سال 2020میں، دیوالیہ ہوچکی نارویجن ایئر لائنز نے بوئنگ پر مقدمہ دائر کرتے ہوئے کہا تھاکہ ڈریم لائنر طیاروں کے بار بار انجن بدلنے پڑےاور پروازیں رد کرنا پڑیں۔ 2023 میں ان کا ایک  10 سال پرانا 787 طیارہ اسکریپ کر دیا گیا- جو کہ ایک انتہائی غیر معمولی اور بے مثال واقعہ تھا۔

نئی شکایات

سال2025کے اوائل میں بوئنگ کے انجینئر اور وہسل بلوور سیم صالح پور نے امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) سے شکایت کی کہ 787 اور 777 طیاروں میں سنگین تکنیکی خامیاں ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ کمپنی نے ان طیاروں کے مختلف حصوں کو صحیح طریقے سے اسمبل نہیں کیا تھا۔

ایف اے اے نے پہلے 787 میں اس قسم کے ‘گیپ’ کے مسئلے کی تحقیقات کی تھی اور 2021-2023 کے درمیان دو سال کے لیے اس کی ڈیلیوری روک دی تھی۔ لیکن صالح پور کے مطابق، مسئلہ اب بھی اپنی جگہ قائم تھا۔

صالح پور نے یہ بھی کہا کہ جب انہوں نے 787 میں مینوفیکچرنگ کے نقائص کی شکایت کی تو انہیں نظر انداز کیا گیا اور پھر انہیں 777 پروگرام میں ٹرانسفر کر دیا گیا۔وہاں بھی انہوں نے خراب اسمبلی اور انجینئروں  پر دباؤ جیسے مسائل کو اجاگر کیا۔

کیا اس بار تبدیلی آئے گی؟

بوئنگ نے ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے طیاروں کی کوالٹی ور طویل مدتی سکیورٹی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ لیکن ایک کے بعد ایک حادثے، ملازمین کی شکایات، قانونی چارہ جوئی اور صحافیوں کی رپورٹس ایک وسیع تر تشویش کی علامت ہیں—خاص طور پر ان ممالک کے لیے جو امریکی طیارہ ساز کمپنی سے ‘معیاری مصنوعات’ کی توقع رکھتے ہیں۔

ایئر انڈیا کے حادثے نے اس بحث کو ایک ہندوستانی تناظر دیا ہے۔ ایک ‘پریسٹیج’ ہوائی جہاز – جو ہندوستان کی بین الاقوامی فضائی سروس کا چہرہ تھا – نے سینکڑوں جانیں لے لی ہیں۔

اے آئی 171حادثہ محض تکنیکی خرابی نہیں بلکہ ادارہ جاتی لاپرواہی کا عکاس بھی ہو سکتاہے۔ یہ ایک تکلیف دہ لمحے کی نمائندگی کرتا ہے جب انسانی زندگی کی بجائے منافع اور کارپوریٹ شہرت ترجیحات بن جاتی ہے۔

جیسے جیسے تحقیقات آگے بڑھے گی، ہندوستان اور دنیا امید کرے گی کہ اس سانحے سے سبق حاصل کیا جائے گا—نہ صرف ایئر انڈیا یا بوئنگ کے لیے، بلکہ پورے عالمی ہوا بازی کے نظام کے لیے۔

Next Article

جب ایران نے ہندوستان کو عالمی رسوائی سے بچایا، اور ہندوستان نے تہران کی دوستی کو فراموش کر دیا

وہ برف پوش تہران، جس نے  ہندوستان کو عالمی رسوائی سے بچایا، آج سفارتی تاریخ کے اوراق میں کہیں گم ہو چکا ہے — مگر تہران شاید آج بھی وہ لمحہ یاد رکھے۔اس خطے میں، جہاں یادداشت، وعدے اور احسان کی اپنی سیاست ہے، ایران کا یہ ‘احسانِ خاموش’ جنوبی ایشیا کے ان کہے سفارتی قصوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا — اور ہندوستان کی طرف سے ملی بے حسی بھی۔

علامتی تصویر، فوٹو: وکی پیڈیا

حال ہی میں ہندوستان نے ایک بار پھر شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) میں ایران کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی مذمت پر مبنی قرارداد سے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ اس سے قبل بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے ) میں بھی ہندوستان نے ایران کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

یہ پالیسی دہلی کے واشنگٹن اور تل ابیب کے ساتھ گہرے ہوتے اسٹریٹجک تعلقات کی عکاس ضرور ہے، لیکن دہلی شاید وہ سفارتی باب فراموش کر چکی ہے، جس میں ایران نے خاموشی سے ہندوستان کو اقوامِ متحدہ کی سخت پابندیوں اور عالمی ذلت سے بچایا تھا۔ اور جب ایران خود عالمی دباؤ اور تنہائی کا شکار ہوا، تو دہلی نے یا تو خاموشی اختیار کی یا اکثر مغربی طاقتوں کے شانہ بشانہ کھڑا دکھائی دیا۔

سال 1994:ایک خفیہ سفارتی محاذ

مارچ 1994 میں اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن (جسے اب انسانی حقوق کونسل کہا جاتا ہے) میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) ایک قرارداد پیش کرنے جا رہی تھی، جس میں کشمیر میں مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ہندوستان کی مذمت کی جانی تھی۔ اس قرارداد کی منظوری کی صورت میں، اسے سلامتی کونسل میں لے جانے کا منصوبہ تھا، جہاں امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک ہندوستان پر اقتصادی پابندیاں لگانے کے لیے منتظر تھے۔

برخلاف مسئلہ فلسطین، مغربی ممالک کشمیر پر نسبتاً نرم رویہ رکھتے تھے، کیونکہ ہندوستان اب تک سویت یونین کی سوشلسٹ لابی کا حصہ سمجھا جاتا تھا۔ مگر اب سوویت یونین بکھر چکا تھا، اور اس کا جانشین روس مغرب سے معاشی امداد کی آس میں تھا۔ ایسے میں ہندوستان کے لیے سلامتی کونسل میں کسی قرارداد کو ویٹو کروانا تقریباً ناممکن ہو چکا تھا۔

جنیوا میں قرارداد پر غور و خوض جاری تھا، اور دہلی میں وزیراعظم پی وی نرسمہا راؤ کو اس کے ممکنہ نتائج کا بخوبی ادراک تھا۔ انہوں نے ایک خفیہ، مگر فیصلہ کن سفارتی چال چلنے کا فیصلہ کیا۔

اسپتال سے تہران تک — دنیش سنگھ کا مشن

ان دنوں ہندوستانی وزیرِ خارجہ دنیش سنگھ شدید علیل تھے اور دہلی کے آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس) میں انتہائی نگہداشت میں زیرِ علاج تھے۔ جنیوا اجلاس سے چند روز قبل، رات کے وقت وزیراعظم راؤ اسپتال پہنچے۔ بظاہر وہ وزیرِ خارجہ کی خیریت دریافت کرنے آئے تھے، مگر اصل میں ایک خفیہ مشن کا آغاز ہو رہا تھا۔

اگلے ہی روز دنیش سنگھ ایک ہندوستانی فضائیہ کے طیارے میں سوار ہو کر تہران روانہ ہوئے۔ ان کے ہمراہ ایک ڈاکٹر اور تین معاونین تھے۔ ان کے پاس وزیراعظم راؤ کا ایرانی صدر علی اکبر ہاشمی رفسنجانی کے لیے ایک ذاتی اور خفیہ خط تھا۔

اسی دوران اعلان کیا گیا کہ جنیوا میں ہندوستانی وفد کی قیادت اپوزیشن لیڈر اٹل بہاری واجپائی کریں گے، جن کے ساتھ وزیرِ مملکت برائے خارجہ سلمان خورشید اور سابق وزیراعلیٰ جموں و کشمیر ڈاکٹر فاروق عبداللہ بھی ہوں گے۔ یہ اعلان اصل مشن سے توجہ ہٹانے کی چال تھی۔

مارچ کی ایک سرد صبح، جب ہندوستانی طیارہ تہران ایئرپورٹ پر اترا، تو دنیش سنگھ وہیل چیئر پر تھے۔ ایرانی وزیرِ خارجہ ڈاکٹر علی اکبر ولایتی پروٹوکول توڑ کر ان کا استقبال کرنے خود ایئرپورٹ پہنچے۔ انہوں نے حیرانی سے پوچھا؛

‘ایسی کیا افتاد آ گئی ہے کہ آپ اس حال میں تہران آئے ہیں؟’

سنگھ نے مسکرا کر وزیراعظم کا خط ان کے حوالے کر دیا۔

اسی روز دنیش سنگھ نے ایرانی صدر، وزیرِ خارجہ اور اسپیکر ناطق نوری سے ملاقاتیں کیں، اور کشمیر پر ہندوستانی موقف پیش کیا۔ صدر رفسنجانی نے نہ صرف ان کی بات غور سے سنی، بلکہ وزیراعظم راؤ کے لیے یہ پیغام بھی دیا کہ ایران ہندوستان کو ہر ممکن سفارتی تحفظ فراہم کرے گا۔

جنیوا میں ایران کا یوٹرن

تین دن بعد جنیوا میں جب پاکستانی وفد نے قرارداد کو آگے بڑھانے کی کوشش کی، تو ایران کے نمائندے نے — تہران کی براہِ راست ہدایت پر — اس کی حمایت سے انکار کر دیا۔ ایران نے موقف اختیار کیا کہ وہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کا دوست ہے، اور یہ مسئلہ نوآبادیاتی طاقتوں کی مداخلت کے بغیر حل ہونا چاہیے۔

یوں یہ قرارداد وہیں دم توڑ گئی، اور اقوامِ متحدہ میں کشمیر پر پاکستان کی سب سے سنجیدہ سفارتی کوشش ناکام ہو گئی۔

تہران مشن سے ایک ہفتہ قبل نئی دہلی میں ایرانی سفیر علی شیخ رضا عطار نے کشمیری حریت رہنماؤں سید علی گیلانی اور عبدالغنی لون کے اعزاز میں عشائیہ دیا تھا۔ دو دن بعد وہ دوبارہ گیلانی صاحب سے ملاقات کے لیے آئے اور یقین دہانی کروائی کہ کشمیر ایرانی خارجہ پالیسی کا مستقل جز ہے۔

مگر جیسے ہی جنیوا میں ایرانی موقف بدلا، دہلی میں پاکستانی سفیر ریاض کھوکھر اور حریت رہنما گم سم رہ گئے۔ سفیر عطار بھی حیرت زدہ تھے، لیکن اتنا ضرور کہہ رہے تھے؛

‘ہندوستان نے ایک بڑی پیشکش کی ہے، جسے رد کرنا ایران کے لیے ممکن نہیں۔’

اسی کے بعد ایران-پاکستان-ہندوستان گیس پائپ لائن کا منصوبہ سامنے آیا، جسے ‘امن کی پائپ لائن’ کہا گیا۔ چند ماہ بعد وزیراعظم راؤ نے برکینا فاسو میں غیر وابستہ تحریک(این اے ایم) کی سربراہی کانفرنس میں کہا کہ کشمیر پر ‘آزادی سے کم کسی آپشن پر بات ہو سکتی ہے’۔ ان کا جملہ؛

“Sky is the limit for Kashmir”

خاصا مشہور ہوا — مگر جیسے ہی عالمی دباؤ ختم ہوا، نہ پائپ لائن رہی، نہ کشمیری آپشن۔

وہ احسان جو یاد نہ رکھا گیا

جنیوا میں ایرانی موقف کی تبدیلی کا کریڈٹ واجپائی اور فاروق عبداللہ لیتے رہے، جبکہ اصل کارنامہ دنیش سنگھ کا تھا، جو تہران مشن کے بعد کچھ ہی عرصے میں اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کا یہ سفارتی مشن دہلی کے سفارتی حلقوں میں کئی دہائیوں بعد بھی ایک ‘ٹاپ سیکرٹ آپریشن’ کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے ایران کی اس احسان مندی کا ہندوستان نے کبھی باضابطہ اعتراف نہیں کیا۔ جب ایران پر جوہری پروگرام کے باعث مغربی پابندیاں لگیں، یا جب امریکہ نے اس کی تیل برآمدات پر دباؤ ڈالا، تو ہندوستام نے نہ صرف ایرانی تیل کی درآمدات کم کر دیں، بلکہ تل ابیب اور واشنگٹن سے تعلقات مزید گہرے کیے۔

وہ برف پوش تہران، جس نے ہندوستان کو عالمی رسوائی سے بچایا، آج سفارتی تاریخ کے اوراق میں کہیں گم ہو چکا ہے — مگر تہران شاید آج بھی وہ لمحہ یاد رکھے۔

اس خطے میں، جہاں یادداشت، وعدے اور احسان کی اپنی سیاست ہے، ایران کا یہ ‘احسانِ خاموش’ جنوبی ایشیا کے ان کہے سفارتی قصوں میں ہمیشہ زندہ رہے گا — اور ہندوستان کی طرف سے ملی بےحسی بھی۔

Next Article

بانو مشتاق کو کیوں پڑھیں؟

بکر انعام کی بدولت سہی، بانو مشتاق پڑھی جا رہی ہیں۔ ساتھ ہی کم یا زیادہ تنقید کا نشانہ بھی بن رہی ہیں۔میرے خیال میں اردو (مسلم؟) سوشل میڈیا پر جو لعن طعن ہو رہی ہے اس میں نہ صرف پدر شاہی طرزِ فکر کا عکس جھلکتا ہے بلکہ مذہبی عصیبت کا وہ پہلو بھی نمایاں ہے جو عورتوں کو ان مسائل پر بات کرنے سے روکنا چاہتا ہے جن کا تعلق مذہب کے ادارے سے ہے۔

بانو مشتاق، فوٹو: پی ٹی آئی

ممتازادیبہ اور مترجم ارجمند آرا نے جہاں بخوبی یہ استدلال کیا ہے کہ بانو مشتاق کو کیوں پڑھا جانا چاہیے، وہیں انہوں نے بانو کی ایک کہانی ‘فائر رین’ میں تخلیقیت پر اصرار کرتے ہوئے بے حد خوبصورت ترجمہ بھی پیش کیا ہے۔

امید ہے قارئین کو ہماری یہ پیش کش پسند آئے گی۔(ادارہ)

میں ان دنوں بانو مشتاق اور دیپک شرما کی کہانیاں پڑھ رہی ہوں۔ کبھی کنڑ ادیبہ بانو مشتاق کی  کوئی کہانی انگریزی ترجمے کی مدد سے پڑھ لیتی ہوں، اور کبھی ہندی ادیبہ دیپک شرما کی کہانی ہندی میں۔ اس طرح ادل بدل کر، کوئی آٹھ آٹھ کہانیاں دونوں کی ابھی تک پڑھی ہیں۔ بانو مشتاق، بکر نام کی جادو کی چھڑی کے سبب، کنڑ علاقے سے نکل کر دنیا کے کونے کونے میں اچانک ظہور پذیر ہوئی ہیں جبکہ دیپک شرما کو ہندی کی دنیا سے باہر شاید ہی کوئی جانتا ہو۔ہو سکتا ہے وہ ہندی کی بھی کچھ زیادہ معروف ادیبہ نہ ہوں۔

کہانی کو ہم آج جن معیاروں پر پرکھنا چاہتے ہیں، خصوصاً انعام یافتہ کہانیوں کو، تو اس کسوٹی پر پرکھنے سے یہ تحریریں مجھے کچھ زیادہ متاثر نہیں کر رہی ہیں، لیکن کیا کروں، یہ واپس شیلف میں جانے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ کچھ تو بات ہے کہ دونوں کا ذکر  ایک ساتھ کر رہی ہوں۔ کچھ تو  دونوں میں مشترک ہے جو ٹھہر کر، سنجیدگی سے غور کرنے پر اکسا رہا ہے!

اس ’کچھ‘ کا تعلق یقیناً افسانہ نگاری کے لوازم سے، فصاحتِ زبان و بیان سے، اسلوب اور تکنیک کے تجربوں وغیرہ سے نہیں ہے۔ بلکہ ان خوبیوں کو تلاش کرنے والا میرے اندر کا نام نہاد ’تربیت یافتہ قاری‘ مجھے بار بار کچوکے لگا رہا ہے کہ ان کہانیوں میں ایسا کچھ بھی تو نہیں ہے جس سے محظوظ ہوا جائے، رکھ دو بس۔

لیکن میرے اندر کی غیر تربیت یافتہ، غیر روایتی عورت مجھے سمجھا رہی ہےکہ ان عورتوں کی تحریریں کیا تم بھی نظرانداز کروگی؟ ان دانشور (مرد حضرات) کی طرح جو بنیادی سماجی رشتوں کو، ان کی پیچیدگیوں اور ان میں مضمر تشدد اور ناانصافیوں کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھتے؟ ان نام نہاد دانشور نقادوں کی نقل میں جو ان پر بات کرنا، ان پر لکھنا، ان پر لکھے کو پڑھنا تک تضیعِ اوقات سمجھتے ہیں؟

تو بس یہی بات ہے کہ یہ خواتین شیلف پر جانے کو تیار نہیں کیوں کہ یہ سماجی رشتوں کو اپنی مخصوص نظر سے دیکھ رہی ہیں، خواہ ان کے موضوعات گھسے پٹے ہی کیوں نہ کہلائیں۔ نادر قسم کی، اَن چھوئی، نئی اپج کی حامل، انسائیکلوپیڈک علمیت کی پریڈ کراتی، جادوئی حقیقت نگاری اور پوسٹ ٹُروتھ تجربوں کی حامل کہانیوں سے بے شک انھیں کوئی مَس نہ ہو (جس کی تلاش میں بانو مشتاق کو تجسس سے پڑھنا شروع کرنے والا قاری بری طرح مایوس ہوا ہے، یہ سوشل میڈیا کی بعض پوسٹوں سے مجھے اندازہ ہو چکا ہے)، لیکن کہانی کیا ہم محض اسی نئے پن اور تجربوں کی تلاش میں پڑھتے ہیں؟

اس طرح تو ہم پریم چند کو، اور منٹو کو بھی، جلد ہی ماضی کی کباڑ کوٹھری میں ڈال کر بھول جائیں گے۔

 لیکن لوگ جانتے ہیں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ معاشرے کی ہر نئی پود میں تالستائی، دوستوئفسکی اور چیخوف سے لےکر شرت چند، ٹیگور، ویکوم محمد بشیر، پریم چند، عصمت، بیدی اور منٹو کو قاری ملتے رہتے ہیں، اس لیے کہ یہ ادیب انسانی سماج، اس سماج میں موجود رشتوں کی پیچیدگیوں اور انسانی نفسیات کے نباض ہیں؛ اور جب تک انسان کی وہ سرشت باقی ہے (جو باقی رہے گی بھی) جس کی کہانیاں یہ ادیب بیان کرتے رہے ہیں، ان کو قارئین بھی ملتے رہیں گے۔

چنانچہ بانو مشتاق اور دیپک شرما جیسی ادیبوں کو بھی کیوں نہ پڑھا جائے جو بھلے ہی مذکورہ بالا عظیم مصنفین کی صف میں شامل نہیں، لیکن انہی کی طرح ایسے موضوعات پر لکھتی ہیں جو فرسودہ اور گھسے پٹے سہی لیکن مطلق الوجود اور قدیمی ہیں— سورج اور ہوا کی مانند، جو محض اپنی ہمہ گیر موجودگی سے اور بے طلب حاصل ہونے کے سبب کسی کی نظروں میں نہیں سماتے۔

لیکن ایک بات اور بھی ہے، جو غور طلب ہے۔ یہ خواتین رشتوں کی ان پیچیدگیوں کو، جو اپنی ہرجا اور ہمہ گیر موجودگی کے سبب نظروں میں نہیں سماتیں، کس زاویے یا کن زاویوں سے نمایاں کر رہی ہیں؟

اردو میں خواتین کی تحریروں پر اگر پیچھے مڑ کر نظر ڈالیں تو فکشن کی خاتونِ اوّل رشید النساء (’اصلاح النسا‘ 1883) سے لے کر محمدی بیگم، رشید جہاں، عصمت چغتائی اور  قرۃ العین حیدر تک کی تحریروں کے مرکز میں آخر عورتیں ہی کیوں ہیں؟

کیا ان کے سوال، عورتوں کی ماہواری کی طرح،  خالص زنانے سوال ہیں جن پر مردوں کو سوچنے اور بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا وہ صرف اصلاحِ نسواں اور آگے چل کر تانیثی، یعنی حقوقِ نسواں کے سوال اٹھا رہی ہیں؟

اگر ہمارے ادیب، نقاد اور قاری ایسا سمجھتے ہیں تو پھر اصل مسئلہ عورتوں کی تحریروں کے موضوعات کے خالص زنانہ ہونے کا نہیں بلکہ مردانہ کوتاہ نظری اور احمق پن کا ہے کہ انھیں ماہواری کے مسائل میں اپنی نسلوں کے مستقبل کا مسئلہ نظر نہیں آتا، حالانکہ قوتِ مردانگی بڑھانے والے اشتہاروں کی دیواروں، اخباروں اور دیگر ترسیلی ذرائع پر ہمہ وقت اور ہمہ گیر موجودگی میں پورے مرد معاشرے کی پدرشاہی نفسیات بھی خود کو مشتہر کرتی رہتی ہے اور اپنی نسلوں کی بقا کی تشویش بھی۔ پھر وہ عورتوں کی صحت (جسمانی، سماجی، نفسیاتی، تہذیبی) کے سوالوں سے بدکتے کیوں ہیں؟

کبھی غور کیا ہے کہ رشتوں کی بنیادی پیچیدگیوں، ان میں پوشیدہ بے انصافیوں اور تشدد نے، اس نفسیاتی اور ذہنی کرب نے جو عورتوں کی مجموعی اور عمومی ماتحتی سے پیدا ہوا ہے،  خود مردوں کی دنیا اور نفسیات میں کیا گل کھلائے ہیں؟ آخر ان سوالوں کو مخاطب کیے بغیر وہ ایک مثالی گھر اور بستی، مثالی سماج اور سماجی ادارے، سیاسی اور اقتصادی اداروں کو کیسے وجود میں لا سکتے ہیں جو اُن کے اجارے ہیں؟

عورتوں کی تحریروں یا ان کے موضوعات کو ناقابلِ اعتنا اور غیر معیاری گرداننے پر یاد آیا کہ جب دلت ادب منظرِ عام پر آنا شروع ہوا تھا، خاص طور سے آپ بیتیوں کی شکل میں، تو ہندی جگت میں طویل بحث چھڑی تھی (گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں)، اور ہندی کے کئی بڑے نقادوں نے ان تحریروں کو ادب کی صفوں سے خارج کیا تھا—اور ستم ظریفی یہ کہ اعلیٰ ذاتوں والے ادیبوں کے قائم کردہ ادبی معیاروں پر پرکھ کر خارج کیا تھا۔

ظاہر ہے کہ یہ معیار دلتوں نے طے نہیں کیے تھے، انھوں نے تو ابھی لکھنا شروع ہی کیا تھا، اور ان کے ادب کی معیار بندی اور اصولِ نقد کی کوئی شکل ابھرنے میں ابھی وقت تھا۔ ایک مختلف معاشرت و تہذیب کے اصولوں پر انھیں پرکھنا ایسا ہی تھا جیسے کوئی کرکٹ کے اصول ٹینس یا فٹ بال کے کھلاڑیوں پر تھوپے۔ ظاہر ہے یہ ایک گمراہ کن بحث تھی جس کا اصل مقصد دلتوں کو اسی احساسِ کمتری اور احساسِ محکومیت میں مبتلا رکھنا تھا جس میں انھیں ہزاروں سال سے گرفتار رکھا گیا ہے۔

میرے خیال میں بالادست اور پدرسری معاشرہ یہی سلوک عورتوں کی تحریروں کے ساتھ بھی کرتا رہا ہے۔ اور کر رہا ہے۔


بکر انعام کی بدولت سہی، بانو مشتاق پڑھی جا رہی ہیں۔ ساتھ ہی کم یا زیادہ تنقید کا نشانہ بھی بن رہی ہیں کہ ان کی کہانیاں ’معمولی‘ ہیں، یا ان معمولی موضوعات اور واقعات پر مرکوز ہیں جو ہمارے ارد گرد ہمہ وقت موجود ہیں، بلکہ اتنے زیادہ موجود ہیں کہ قابلِ اعتنا نہیں ٹھہرتے۔

میرے خیال میں اردو (مسلم؟) سوشل میڈیا پر جو لعن طعن ہو رہی ہے اس میں نہ صرف پدر شاہی طرزِ فکر کا عکس جھلکتا ہے بلکہ مذہبی عصیبت کا وہ پہلو بھی نمایاں ہے جو عورتوں کو ان مسائل پر بات کرنے سے روکنا چاہتا ہے جن کا تعلق مذہب کے ادارے سے ہے۔

کسی نقاد نے یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کی کہ محلے میں مسجد کے متولی کی مقتدر حیثیت، اس کے ذریعے شریعت کی عورت مخالف تعبیر، حقِ وراثت اور موروثی جائیداد میں عورت کے حصے کے مسائل کسی حاشیے کے نہیں بلکہ معاشرے کے مرکزی سوال ہیں جن پر بات کرنے کے بجائے بانو مشتاق کے معمولی افسانہ نگار ہونے پر بحث کی جا رہی ہے۔


Heart Lamp: Selected Stories
Penguin, 2025

اسی صورتِحال نے مجبور کیا کہ بانو مشتاق کی کچھ کہانیاں ضرور ترجمہ کروں، اس توقع کے ساتھ کہ انھیں پڑھ کر اردو کے قارئین بھی ان مسائل کی طرف متوجہ ہوں گے جن کو وہ نمایاں کرنا چاہتی ہیں۔

بے شک وہ کنڑ زبان میں کنڑ علاقے کی کہانیاں بیان کرتی ہیں لیکن ان کا اطلاق سارے برصغیر پر، اور خصوصاً برِ صغیر کے مسلم معاشرے پر ہوتا ہے۔ یہ کہانیاں ہمیں غورو فکر پر مجبور کریں گی، قدرے حساس اور عقلمند، اور نسبتاً بہتر انسان بننے پر مائل کریں گی۔

آخر میں واضح کرنا چاہوں گی کہ بانو مشتاق کو پڑھنے کی ضرورت میرے نزدیک ادبی نہیں بلکہ سماجی ہے۔ وہ جن مسائل کو اٹھاتی ہیں، جن پر بولنا اور لکھنا ضروری سمجھتی ہیں وہ مسائل اہم ہیں۔ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ مسلم معاشرے کی نمائندگی کرنے والے اردو اخبارات و رسائل ان مسائل پر کبھی کوئی فکر انگیز یا معمولی مضمون بھی نہیں چھاپتے۔

یعنی ایک بلیک ہول ہے جس میں مسلمانوں کے طرز معاشرت سے وابستہ ہر مسئلہ سماتا جاتا ہے اور اس کا وجود عنقا تصور کر لیا جاتا ہے۔ اس صورتِ حال میں بانو مشتاق کا دم غنیمت ہے کہ وہ بعض مسائل کو اہمیت دے رہی ہیں۔

اور آخری بات یہ، بلکہ پہلی بات یہیں سے شروع ہونی چاہیے تھی، کہ ترجمہ کا بُکر عموماً ناول پر دیا جاتا ہے، کسی افسانوی مجموعے کو پہلی بار دیا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ سپاٹ بیانیے پر مبنی، ان عام سی کہانیوں کو آخر کیوں منتخب کیا گیا؟ یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ہم سرسری نگاہ میں بھانپ لیتے ہیں کہ انگریزی ترجمہ زبان کے اعتبار سے خاصا معمولی اور ناقص ہے۔ پھر وہ کون سے پیمانے رہے ہوں گے کہ کہانیوں کو بھی بہترین سمجھا گیا اور ترجمے کو بھی ۔

اس کی ایک توجیہہ یہ ہو سکتی ہے کہ جو کتابیں بکر انعام کے لیے فراہم ہوئیں سب غیر معیاری تھیں، جن میں سے بہترین کو چن لیا گیا۔ دوسری یہ ہو سکتی ہے کہ اچھی کہانیوں کے دن لد گئے اور عالمی ادب بحران کے دور میں ہے۔ دونوں ہی دلیلیں خود میرے لیے بھی بودی اور ناقابلِ قبول ہیں۔

تب سوال رہ جاتا ہے کہ بُکر کی کوئی ایسی پالیسی ہے جسے ہم جانتے تو نہیں لیکن اس پر قیاس آرائی ضرور کر سکتے ہیں۔ البتہ یہ بات حتمی طور پر جانتے ہیں کہ بکر انعام صرف انگلینڈ یا آئرلینڈ سے شائع ہونے والی کتابوں پر ملتا ہے۔ چنانچہ ایک بات تو  طے ہو گئی کہ مسابقت میں شریک ہونے والے ادیب منصوبہ بندی کرکے وہاں سے کتاب شائع کرائیں انھیں میں سے کسی کو انعام ملے گا،  ساتھ ہی یہ بھی طے ہو گیا کہ مسابقت کا دائرہ عالمی نہیں رہ گیا، اور نام میں عالمی ہوتے ہوئے بھی یہ کسی طرح عالمی ایوارڈ نہیں ہے، البتہ عالمی سطح پر معتبر ضرور ہے۔

قیاس آرائی اس نکتے پر کی جا سکتی ہے کہ  اس کا ایک مقصد شاید کم معروف زبانوں اور خطّوں کے ادب کی حوصلہ افزائی کرنا، یا مخصوص فرقوں اور گروہوں کے طرزِ زندگی اور مسائل پر مبنی ادب کو روشنی میں لانا وغیرہ ہو۔

ایک  اور وجہ کتابوں کے کاروبار کو وسعت دینے کے لیے قارئین کے نئے گروہوں کی تلاش بھی  ہو سکتی ہے۔ جس طرح ایک زمانے میں عالمی حسن کے مقابلوں میں ہندوستان کو لگاتار سبقت ملتی رہی (ظاہر ہے ان کا مقصد واضح طور پر فیشن پروڈکٹس کی مارکیٹنگ کے لیے نئے  نئےعلاقوں تک پہنچنا ہوتا ہے)، اسی طرح انگریزی کتابوں کی عالمی صنعت میں ہندوستان  ایک بڑا بازار تصور کیا جاتا ہے۔

غالباً اسی لیے بہت کم عرصے میں دو دو بکر ہندوستان کے حصے میں آ گئے۔ یہ بات دوسری ہے کہ سوال گیتانجلی شری کے ناول ریت سمادھی کے معیار پر بھی اٹھے تھے اور بانو مشتاق کے تخلیقی جوہر پر بھی اٹھ رہے ہیں۔

♦♦♦

بہرحال، معیار کے تنازعات سے قطع نظر بانو مشتاق کی ایک کہانی ’رین فائر‘ کا ترجمہ پیشِ خدمت ہے جس کا موضوع بھی دلچسپ ہے اور اس میں تخلیقیت بھی ہے۔

اس کہانی میں موروثی جائیداد میں بہنوں کے حصہ کے سوال کو مرکز میں رکھا گیا ہے۔ حصہ نہ دینے والا ایک متولی ہے، جس کو مرکزی کردار بنانا، ہماری معاشرتی تنگ نظری کے باعث، کم حوصلے کی بات نہیں۔

یاد کیجیے بدنامِ زمانہ خواتین رشید جہاں ’انگارے والی‘ اور عصمت چغتائی ’لحاف والی‘ کو، سجاد ظہیر اور محمود الظفر کے ان افسانوں کو جن کے ناگفتنی موضوعات پر لکھے افسانوں کے سبب ’انگارے‘ پر پابندی لگی، نیز یاد کیجیے سلام بن رزاق کے افسانے (زندگی افسانہ نہیں) کو جس میں اپنے خاندان کی پرورش اور دیگر ذمہ داریوں سے پہلو بچاکر تبلیغی جماعت میں چلے جانے والا کردار تخلیق کرنے کی پاداش میں انھیں حقیقی دھمکیوں اور حملوں کا سامنا کرنا پڑا اور ان کے پبلشر، ’نیا ورق‘ کے مدیر ساجد رشید کو بھی۔

سوشل بائیکاٹ  بانو مشتاق کا بھی ہوا اور وہ بھی معتوبین کی لیگ میں شامل ہوئیں، جیسا کہ وہ خود اپنے کسی انٹرویو میں بتاتی ہیں۔ ایکٹوسٹ ہونا اور اپنی تحریروں سے بھی سماجی تبدیلی کا کام لینا، سمجھ میں نہ آنے والے تجریدی تجربوں کے طوطا مینا بنانے سے بہتر کام ہے۔ ان جیسے باحوصلہ اور باضمیر ادیب سماجی مسائل پر لکھتے رہیں، یہ بھی ایک کارِ خیر ہے تاکہ معاشرہ ان مسائل کے حل کی طرف متوجہ ہو۔


انگار کا مینہ

(دیپا بھاستی کے انگریزی ترجمے فائر رین پر مبنی)

فجر کی نماز کے لیے جیسے ہی مسجد سے اذان کی آواز بلند ہونا شروع ہوئی، متولی عثمان صاحب اپنے بستر پر اٹھ بیٹھے۔ یہ دیکھ کر کہ ان کی بیوی عارفہ ان کے پہلو میں نہیں ہے،  وہ کمرے سے نکل کر ہال کمرے میں آئے اور دیکھا کہ وہ اور ان کا بیٹا انصار گہری نیند میں قالین پر پڑے ہیں۔ ایک سرسری نظر نے ان پر یہ واضح کر دیا کہ تین سال کے بچے کی سانسیں ناہموار ہیں۔ اس کی پیشانی پر رکھی گیلی پٹّی، بکھرے برتن—دودھ کی بوتل، کپ،  چمچ، پانی کا جگ اور گرم پانی کا فلاسک — دیکھ کر وہ سمجھ گئے کہ کیا ہوا ہے۔

عارفہ یقیناً ساری رات جاگتی رہی تھی اور تھکن سے چور اپنے بستر پر نہیں، بلکہ اس ہال میں تھی اور اب بے خبر سوئی پڑی تھی۔ انھیں اپنے سینے میں احساسِ جرم کا خنجر اترتا محسوس ہوا لیکن دوسرے ہی لمحے یاد آیا کہ ان کی چھوٹی بہن جمیلہ اور اس کا شوہر برابر والے کمرے میں سوئے ہوئے ہیں،  اور وہ بے چین ہو اٹھے۔ پہلے خیال آیا کہ عارفہ کو کمبل اڑھا دیں لیکن پھر جمیلہ کے شوہر کا خیال کر کے ان کی پیشانی پر بل پڑ گئے اور بدن میں اینٹھن ہونے لگی۔ انہوں نے جھنجھوڑ کر عارفہ کو جگایا۔ وہ اپنی تھکن کے باعث گہری نیند سے فوراً بیدار نہیں ہوئی، جس سے متولی صاحب کا پارہ چڑھنے لگا۔

چھوٹا سا ایک گیت جو ایک فقیر گایا کرتا تھا، ان کے ذہن میں گونجنے لگا۔

ہاندی اینڈیکے ہیگلی یووے

مناڈَلّی ہاندی، مَنے یَلّی ہاندی

مائی یَلّی ہاندی ہوتتا وانےـــ

سور کا گوشت حرام ہے۔ اسی کی مانند غصہ بھی۔ متّقی مسلمان یہ مانتے ہیں کہ اگر سور پر نظر بھی پڑ جائے تو آدمی ناپاک ہو جاتا ہے۔ اس گیت میں اس غصے کو، جو انسان کے قلب و قالب اور گھر میں سرایت کر جاتا ہے، سور کے مساوی بتایا گیا ہے۔ متولی نے بھی گیت کو بار ہا گنگنایا تھا۔ لیکن یہ وہ صبح تھی کہ ان کے نامعقول غصے کے آگے گیت بھی چمپت ہو گیا۔ اضطراب کے عالم میں انہوں نے ادھر ادھر ٹٹولتی نظروں سے دیکھا اور پھر اچانک گویا عرفان ہوا  ہو، انہوں نے عارفہ کی ٹانگوں پر زور سے ٹھوکر ماری۔ وہ معاً  اٹھ بیٹھی۔

’’تم اندر نہیں سو سکتیں‘‘، انہوں نے کرخت آواز میں کہا، اور جواب کا انتظار کیے بغیر باہر نکل گئے۔

مسجد ان کے گھر سے فرلانگ بھر کے فاصلے پر تھی۔ وہ تیز قدموں سے چل رہے تھے، لمبے لمبے ڈگ بھر کر صبح کی دُھند کے  پردے کو چاک کرتے ہوئے۔ ان کا جسم گو کہ مسجد کی جانب بڑھ رہا تھا، تاہم ذہن مستقل پیچھے کی طرف، گھر کی جانب بھاگتا رہا۔

ان کی سب سے پیاری، سب سے چھوٹی بہن—وہ بہن جس کو انہوں نے سیکنڈری اسکول تک کرامت و شفقت سے پڑھایا تھا، وہ بہن جس کی شادی پر اب سے پانچ سال پہلے انہوں نے اٹھارہ  ریشمی ساڑیاں، سونے کا زیور،  اور اس کے شوہر کے لیے موٹر بائیک دی تھی — وہی بہن اب موروثی جائیداد میں حصہ مانگنے آئی تھی۔ اس کے اعزاز میں  بریانی اور سوئیوں کی خاص کھیر ’شاویگے پایَسا‘  تیار کرائی گئی تھی، جس میں اب تلخی آ گئی تھی۔ ’ہونہہ۔ یہ کس قسم کا رویّہ ہوا؟‘ ان کا بدن دوبارہ غصے سے سلگ اٹھا۔

اس پر مستزاد یہ کہ اس نے جرح بھی شروع کر دی تھیں۔ ’’اَناّ! میرا اتنا ہی حصہ ہے جس پر اللہ اور اس کے رسول کی شریعت نے مجھے حق عطا کیا ہے۔ میں اُس جائیداد میں سے حصہ نہیں مانگ رہی ہوں جو آپ نے اپنی محنت سے کمائی ہے۔ ‘‘

وہ کون سی جائیداد ہے جو انہوں نے اپنی محنت سے کمائی ہے؟ کیا وہ محض اسی جائیداد کا انتظام نہیں سنبھالے ہوئے تھے جو ان کے والد نے جمع کی تھی؟

’’ہمارے والد کی جائداد کے چھٹے حصے پر میرا حق ہے۔‘‘

اوفوہ!  اس نے پہلے ہی سارا حساب لگا رکھا ہے۔  وہ اس کے منہ پر تھپڑ جڑتے ہوئے کہنا چاہتے تھے،  ’یہ لو اپنا چھٹا حصہ!‘  لیکن انہوں نے سؤر کو قابو میں رکھنے کی پوری کوشش کی جو ان کے بدن میں سرایت کر چکا تھا اور اب عالمِ  اضطراب میں کود پھاند مچا رہا تھا۔ جمیلہ کا چھ فٹا شوہر بھی قریب ہی رکھی ایک کرسی پر گویا اس کا محافظ بنا بیٹھا تھا۔

’’آپ محلے بھر کے مسئلوں کے فیصلے کرتے رہتے ہیں۔ آپ کو چاہیے تھا کہ مجھے بلاتے اور کہتے:  لو جمیلہ، اپنا حصہ لے لو۔ چلیے میری بات چھوڑیے، سکینہ اَکّا معاملہ ہی لیجیے۔ نہ تو ان کے شوہر زندہ ہیں اور نہ بچے ہی اتنے بڑے ہیں کہ کوئی کام دھندا کرسکیں ۔ وہ اپنی دو دو جوان بیٹیوں کی شادی کا انتظام کس طرح کریں گی؟‘‘

متولی صاحب بیٹھے فرش کو گھورتے  رہے۔  یہ کتنی تعجب خیز بات تھی کہ جمیلہ یوں فرفر بولے جا رہی تھی ۔ اس کی خاموشی کی عادت کیا ہوئی؟ آم اور ناریل کے باغیچے، کھیت کھلیان اور وہ ساری جگہیں جہاں ریشم کے کیڑے پالے جاتے تھے،  اور شہر بھر میں بکھرے بے شمار مکانات— ان کی آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگے۔ ان میں سے کچھ بھی کیا وہ اپنی بہنوں کو حصے کے طور پر دے سکتے تھے؟

جمیلہ مینڈک کی طرح سے ٹرّاتی رہی، ’’اَنّا،  ایک اچھے خاندان میں آپ نے میری شادی کی ہے،  میں یہ تو نہیں کہہ رہی کہ آپ نے ایسا نہیں کیا۔  لیکن مہربانی کر کے ذرا سوچیے، ابّا کے انتقال کو دس سال گزر چکے ہیں۔ اگر آپ نے مجھے تبھی میرا حصہ مجھے دے دیا ہوتا تو اب تک میں نے اس سے دس گنا  پیسہ کما لیا ہوتا جو آپ نے میری شادی پر خرچ کیا تھا۔ میں اب وہ سارا پیسہ تو آپ سے نہیں مانگ رہی ہوں نا۔ لیکن…‘‘

متولی صاحب کے صبر کا باندھ پھٹ پڑا۔  عارفہ دروازے کے سہارے کھڑی یہ ساری گفتگو بے چینی سے سن رہی تھی۔ اس کے خیال میں جمیلہ کے سارے الفاظ، اس کا لہجہ اور جرح کا انداز، سب کچھ بہت افسوسناک تھا، لیکن اس کا مطالبہ تو بالکل جائز تھا۔ کیا ایسا نہیں تھا؟ اس کی دلیلوں کو کوئی نہیں کاٹ سکتا تھا۔

وہ گھر جس سے متولی کو چار ہزار روپے ماہانہ کرایہ ملتا تھا اور ساتھ میں ایک کافی کا باغ، کیا عارفہ کو اس کے والدین کی جانب  سے اس کے  حصے کے طور پر  نہیں ملے تھے؟ عارفہ کو اپنا حصہ بغیر مطالبے کے ملا تھا ۔ اس کے والدین نے اسے اور متولی کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی،  انہیں عمدہ کھانا کھلایا ، ایک نئی ساڑی اور بلاؤز تحفے میں دیا، اور جو جائیداد اس کے نام منتقل کی تھی اس کی رجسٹری کے کاغذات ان کے حوالے کیے اور بہت شفقت سے انہیں رخصت کیا۔ لیکن یہاں جمیلہ کو اپنے حق کے لیے لڑنا پڑ رہا تھا۔

متولی صاحب کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا، وہ گھُرگھُراتے ہوئے کھڑے ہو گئے اور جمیلہ کو گھورتے رہے۔  اپنے بڑے بھائی کو اس طرح گھورتے دیکھ کر وہ تھوڑی سی سہم گئی لیکن پھر اس نے اپنے شوہر کی طرف دیکھا، تھوڑا سا حوصلہ بٹورا اور اس طرح جیسے جملہ رٹ کر آئی ہو، اس نے جلدی سے اپنی بات ختم کی؛ ’’اگر آپ مجھے میرا جائز حق نہیں دیں گے تو میں عدالت میں حاصل کروں گی۔‘‘

متولی صاحب سُنّ رہ گئے اور دَم سادھے تیزی کے ساتھ اپنے بیڈ روم کی جانب بڑھے۔ ان کے قدموں کی مغضوب دھمک سے سہم کر عارفہ تیزی سے دروازے سے ہٹ گئی اور انہیں نکلنے کا راستہ دیا۔

کمرے میں وہ مورت بنے بیٹھے رہے، یہاں تک کہ انہیں اپنی ٹوپی تک اتارنے کا خیال نہیں آیا۔ عارفہ نے آکر پنکھا چلا دیا۔

واقعے  کی ساری تفصیلات ان کے ذہن میں ایک ایک کرکے گزرنے لگیں۔  سردی کا موسم تھا  اور مسجد کے عقب میں غسل خانے میں پانی گرم ہو رہا تھا۔ عادت کی اٹکل کر انہوں نے غائب دماغی سے وضو کے مراحل طے کیے، اور نماز کے بھی۔ گو کہ انہوں نے اپنے اعضا کو دھو کر پاک صاف کر لیا تھا، لیکن کرب ذہن میں پنجے گاڑے بیٹھا رہا۔ ایک تو جمیلہ کی ڈھٹائی  کچو کے لگا رہی تھی، اور دوسرے جائیداد میں حصہ دینے کا خیال کچوٹ رہا تھا۔ ان کی اصل تشویش یہ تھی کہ وہ اس ڈھٹائی پر اسے کس طرح سزا دیں اور ساتھ میں جائداد پر قبضہ بھی برقرار رکھیں۔

مسجد کشادہ تھی اور اس کا صحن وسیع و عریض۔ جو لوگ صبح کی نماز ادا کرنے آتے تھے وہ انھیں اپنی انگلیوں پر شمار کر سکتے تھے۔ اس وقت ان کے حلقہ احباب میں سے کوئی بھی موجود نہ تھا۔ چنانچہ مجبور ہو کر انہوں نے گھر کا رخ کیا۔

لیکن وہ سیدھے گھر نہیں گئے۔ جب تک وہ  دھیرے دھیرے چلتے ہوئے قصبے کے گول چکر تک پہنچے، مدینہ ہوٹل کے  دروازے کھل چکے تھے۔ وہ ہوٹل میں داخل ہوئے اور ایک کپ چائے پی۔ لیکن قرار نہیں آیا۔ وہ ہوٹل سے باہر نکلے اور نہایت بے دلی سے چلتے ہوئے گول چکر کے بیچوں بیچ جا کھڑے ہوئے جہاں دراصل ٹریفک پولیس والے کو ہونا چاہیے تھا۔ انہوں نے سیٹی نہیں بجائی اور نہ ٹریفک کو راستہ دکھایا۔ وہ چاروں سمتوں میں کچھ یوں دیکھتے رہے جیسے فیصلہ نہ کر پا رہے ہوں کہ کون سے راستے پر چل پڑیں۔ ان کا حال قابلِ رحم تھا۔ اور تبھی وہ ناممکن الوقوع حادثہ وقوع پذیر ہو گیا۔

دھپّ!!! ایک آواز ان کی سماعت سے ٹکرائی۔ اس سے قبل کہ وہ دیکھتے کہ کیا ہوا ہے، ایک کوّا بجلی کے تار سے لڑھکا اور درخت سے ٹوٹے خشک پتے کی مانند سڑک پر آن گرا۔  متولی صاحب نے اس کو چند گز کے  فاصلے سے دیکھا اور چلنے کو ہوئے۔ تبھی ایک اور کوا جانے کہاں سے کائیں کائیں کرتا نمودار ہوا۔ اس کی آواز گونجی  تو مزید  کوے جمع ہونے لگے،  جیسے جادو سے ظاہر ہو رہے ہوں۔

انھوں نے محسوس کیا کہ ان میں سے بعض کی کائیں کائیں درد آمیز تھی،  بعض میں جارحیت  تھی اور بعض میں غصہ۔ بعض میں تساہل تھا،  گویا فرض سے مجبور ہوکر کانکنا  پڑ رہا ہو۔  کچھ آوازیں ایسی تھیں گویا گہری سانس بھر کر لعنت بھیج رہی ہوں،  کچھ جشنِ آزادی کی تُرہی بجا رہی تھیں اور مسرت آمیز چیخوں کی مانند تھیں۔ متولی گویا ہر طرح کی چیخیں محسوس کرنے لگے اور انھوں نے وہاں سے نکل جانے کا فیصلہ کیا۔  لیکن کوّے ان کے سر پر منڈلانے لگے، جیسے ان پر حملہ کرنے والے ہوں۔ کنفیوزڈ ہو کر انھوں نے ایک قدم آگے بڑھایا۔ آنکھ کے گوشے سے انھوں نے بے حرکت کوّے پر نگاہ ڈالی۔  ارے!  نفوذ ناپذیر سیاہ رنگ میں دھنک کے اتنے سارے رنگ؟

جب تک وہ گھر پہنچے—اب تک اسی غائب دماغی کے ساتھ، اور اپنے بیڈ روم میں داخل ہوئے، متولی صاحب کو نیند کا غلبہ محسوس ہونے لگا۔ عارفہ گھر کے کام کاج میں مصروف تھی، بیمار بچے کی دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ  دوسرے بچوں کے لیے ناشتے اور لنچ کا اہتمام، ان کے بستے اور جوتے موزے وغیرہ۔ نیز جمیلہ اور اس کے شوہر کے لیے خصوصی کھانوں کا انتظام۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس گھر کی بیٹی کوستی پیٹتی، ناراض ہوکر مائیکے سے جائے۔اسے اپنی ماں کے الفاظ یاد تھے : حقدار ترسے تو انگار کا نوہ برسے۔ یعنی اگر حقدار ناخوش ہوا تو انگاروں کا مینہ برسے گا۔

گزشتہ رات اس نے متولی صاحب سے دھیمی سرگوشیوں میں باتیں کی تھیں۔  ’’رائی (اجی)، گھر کی بیٹی کو کبھی تکلیف نہ دو۔ قرآن میں صاف کہا گیا ہے کہ لڑکی  بھی اپنے حصے کی حقدار ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کیا؟ اپنی چاروں بہنوں کو بلالو اور ان کا جو حق بنتا ہے، دے کر اپنا دامن صاف کرلو۔ ہمارے پاس جو کچھ بچے گا اللہ اسی میں ہمیں برکت دے گا۔‘‘

عارفہ عموماً انھیں مشورے نہیں دیتی تھی۔ وہ اندر سے ڈری ہوئی تھی، پھر بھی اس موضوع پر اس نے اپنی بات کی۔ متولی صاحب نے سکیڑوں فیصلے کیے تھے۔ وہ انھیں ایسا کیا بتا رہی تھی جسے وہ پہلے سے نہیں جانتے تھے؟ وہ ایسی عورت کے الفاظ کیوں برداشت کریں جو برقعہ اوڑھتی ہے اور معمولی حیثیت رکھتی ہے۔

’’چپ رہو، اور اپنے کام سے کام رکھو،‘‘ انھوں پھٹکارا تھا ، اور بستر پر دراز ہو کر جلد ہی خراٹے لینے لگے تھے۔

عارفہ چپاتیاں بیل رہی تھی،  اور نہایت مضطرب تھی۔ ’’اے پروردگار، انھیں تھوڑی سی  سمجھ عطا کر،‘‘ اس نے دل ہی دل میں رو کر کہا۔  وہ ابھی ابھی انصار کی پیشانی پر گیلا تولیہ رکھ کر آئی تھی۔ وہ حالانکہ مشینی انداز میں آٹا  بیلتی اور توے پر روٹیاں  سینکتی رہی تاہم اسے احساس تھا کہ انصار تکلیف میں ہے، اور بار بار ہال کی طرف دوڑتی تھی جہاں اس نے انصار کو لٹا رکھا تھا۔

اسی دوران میں اس کی نظر اس عورت پر پڑی۔ اس نے حالانکہ برقعہ اوڑھ رکھا تھا اور اس کے چہرے پر نقاب تھی، تاہم عارفہ نے اسے فوراً پہچان لیا۔ برقعے کے سوراخوں میں سے ایک   گندی سی ساڑی جھانک رہی تھی جس کا رنگ کبھی سیاہ رہا ہوگا  لیکن اب فرسودہ  ہوکر بھوری ہو چکی تھی۔ ایڑیاں کٹی پھٹی، جلد کا رنگ اڑا ہوا، پیروں میں ٹوٹی ہوئی ہوائی چپلیں جن کو سیفٹی پن لگا کر مرمت کی گئی تھی۔

عارفہ نے ایک ہی نظر میں اس کی حالتِ زار کو بھانپ لیا اور خود کو پریشان ہوتے محسوس کیا۔وہ عورت اندر نہیں آئی بلکہ برآمدے میں ہی رک گئی، ان لوگوں کے ساتھ جو متولی صاحب سے ملاقات کے لیے آئے ہوئے تھے۔ اس کو ایک گوشے میں یوں کھڑی دیکھ کر عارفہ نے اپنے حلق میں ایک گولا سا اٹکتا محسوس کیا۔ پردے کے پیچھے سے،  جو ہال کمرے کو برآمدے سے الگ کرتا تھا، اس نے اتنی اونچی آواز میں کہ عورت تک پہنچ جائے، سرگوشی کے انداز میں کہا، ’’سکینہ اَکّا، تم سے بِنتی کرتی ہوں، اندر آ جاؤ۔ باہر کیوں کھڑی ہو؟‘‘

عارفہ پردے کے پیچھے سے عورت کے تاثرات نہیں دیکھ سکی کہ اس نے سن لیا ہے یا نہیں۔ تاہم، اس کے پاس کھڑے لڑکے نے تقریباً بے رحم لہجے میں جواب دیا تھا،  ’’ہم ٹھیک ہیں مامی، آپ اپنا کام کیجے۔ ماما آئیں گے تو ہم ان سے بات کر کے چلے جائیں گے۔

سکینہ، اس کی سب سے بڑی نند، نہایت خوددار عورت تھی۔ جب وہ بیوہ ہوگئی تو اپنے تین بچوں کی پرورش اور گھریلو اخراجات اٹھانے کے لیے اس نے سلائی کا کام شروع  کر دیا تھا۔ اپنے مائیکے سے وہ پانی کی ایک بوند کی بھی روادار نہ تھی۔ وہ تیج تہوار کے موقعے پر  کبھی کبھار آتی اور اپنے بڑے بھائی کی دعا لیتی۔

لیکن اس دن وہ ایک اجنبی کی طرح دوسروں کے ساتھ قطار میں کھڑی تھی۔ عارفہ حیرت زدہ تھی کہ کیا وہ بھی جمیلہ کی طرح جائیداد میں حصہ مانگنے آئی ہے۔  لیکن اس نے جلد ہی  اپنے خیال کو جھٹک دیا  اور سکینہ کو دوبارہ اندر آنے کو کہا۔ اپنے شوہر کے باہر آنے سے پہلے سکینہ کو بلا کر کمرے میں بٹھانے کی اس کی یہ کوشش بے سود رہی۔

متولی صاحب اپنے بدن میں بھاری پن محسوس کر رہے تھے لیکن نیند ان کو اچھی آئی تھی۔ وہ عارفہ کو برآمدے میں کھڑے لوگوں کو جھانکتے دیکھ کر حیرت زدہ ہوئے، کیونکہ وہ پہلے کبھی یوں تاک جھانک اور اشارے کرتے  نہیں دیکھی گئی تھی۔ نادانستہ ان کی آواز اونچی ہوگئی، ’’عارفا اااا؟‘‘

گھبرا  کر عارفہ نے پردہ گرا دیا اور بڑبڑائی، جیسے اپنے آپ سے مخاطب ہو، ’’سکینہ اکّا باہر  والوں کی طرح ، مردوں کے ساتھ کھڑی ہیں۔ میں ان سے اندر آنے کو کہہ رہی تھی۔‘‘

’’کیا؟‘‘  متولی صاحب باہر نکلے توسکینہ اور اس کے بیٹے کو دیکھ کر ان کا چہرا سرخ ہو گیا۔

سکینہ نے اپنی ہتھیلیاں آپس میں جوڑیں اور اجنبی لہجے میں اپنی درخواست گزاری؛’’بھائی صاب، مجھ جیسی بے سہارا بیوہ کی مدد کیجیے۔ اللہ آپ کو اور آپ کے خاندان کو خوشیاں اور خوشحالی عطا فرمائے۔ میرا بیٹا  بی اے کے پہلے سال میں پڑھ رہا ہے۔  ایک انجینئرنگ کالج میں اٹینڈر کی نوکری کے لیے اس کا انٹرویو ہے۔ سنا ہے آپ وہاں کی کمیٹی کے رکن ہیں۔ میرے بیٹے کا نام سید ابرار ہے۔ مہربانی کرکے  اسے یہ نوکری دلوا دیجیے۔ یہ اس کی درخواست ہے، دیکھیے۔  اگر میرے بیٹے کو یہ نوکری مل گئی تو وہ ہمارے خاندان کا بڑا سہارا بن جائے گا، حالانکہ وہ مجھ جیسی بدنصیب عورت کے ہاں پیدا ہوا  ہے۔سب کہتے ہیں  کہ اگر آپ کہیں گے تو اسے کام پر ضرور رکھ لیا جائے گا۔ آپ غریبوں کی خوشی  غمی کے شریک ہیں۔ مجھ پر بھی مہربانی کیجیے۔‘‘  اس سے پہلے کہ متولی صاحب کچھ کہتے، اس نے نوکری کی درخواست ان کے ہاتھ میں تھما دی، ان کے پیر چھوئے  اور جلدی سے باہر نکل گئی۔

متولی صاحب کے دماغ میں کوّوں نے چیخنا شروع کر دیا ۔ اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہو گیا۔ سردی کے باوجود ان کی پیشانی پر پسینے کی بوندیں چھلک اٹھیں۔ وہ ایک گدی دار کرسی پر ڈھہہ گئے۔ پردے کے پیچھے عارفہ کی آنکھیں بھی چھلک پڑیں۔

دروازے کے پاس ایک نوجوان عورت اپنے بچے کو سینے سے چپکائے ہوئے کھڑی تھی۔ ساڑی کے پلّو کو اپنے سر پر درست کرتے ہوئے وہ ان  سے تھوڑے فاصلے  پر کھڑی ہو  گئی اور بولی، ’’انّا، اس بچے کے باپ کے پاس بیل گاڑی تھی۔ پندرہ دن پہلے اس کا آپریشن ہوا۔ آپریشنے کے لیے میں نے اس کی گاڑی اور دونوں بیل  بیچ دیے تھے۔ اب پتا چلا اسے ایک اور آپریشن کی ضرورت ہے! ڈاکٹر نے یہی بتایا۔ میرے پاس اب کچھ نہیں بچا۔ آپ… آپ…‘‘  اس کا گلا رندھ گیا اور آنکھیں دھندلا گئیں۔ وہ ہچکیوں سے رونے لگی۔

متولی صاحب نے اس سے ہسپتال اور ڈاکٹر کا نام، اور دیگر تفصیلات پوچھیں۔ پھر کہا کہ وہ اس کے شوہر کے آپریشن کا انتظام کریں گے اور اسے رخصت کر دیا۔ ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، عورت اپنے دل کی گہرائیوں سے دعائیں دیتی ہوئی چلی گئی۔

اب ایک اسکولی بچے نے اپنی نوٹ بک ان کی جانب بڑھا ئی۔ ہائر پرائمری اسکول کی ہیڈ مسٹریس نے اپنے مدوّر خط میں متولی صاحب سے درخواست کی تھی کہ وہ اس دن سہ پہر تین بجے اسکول ڈویلپمنٹ کمیٹی کی میٹنگ میں شریک ہوکر شکریے کا موقع عطا فرمائیں۔ انھوں نے نوٹ  پر دستخط کرکے لڑکے کو رخصت کیا۔ اب وہ مسائل سننے کے لیے مردوں کی طرف مڑنے ہی والے تھے کہ طوفان کی طرح داؤد داخل ہوا۔

السٹریشن: پری پلب چکرورتی

داؤد ان کا دایاں بازو تھا۔ وہ ان کے لیے اتنا ہی ضروری ہو چکا تھا جتنا غیر ارادی سانس لینا ہوتا۔ یہ بات  کہ ان کے خیالات ایک ہی سمت میں چلتے تھے، ان کی دوستی کا ثبوت کہی جا سکتی ہے۔ متولی صاحب کے چہرے کے اتار چڑھاؤ، ان کی بھنووں کی حرکات کے طول و ارض، ان کی مونچھوں کی تھرتھراہٹ، ناک کی نہج اور دہانے کے گوشوں کی لکیروں سے وہ ان کے مزاج کا اندازہ لگانے میں مہارت حاصل کر چکا تھا۔ وہ اپنے الفاظ، اپنے سلوک، اور اپنی کمر کے  جھکاؤ میں ان کے مزاج کے مطابق تبدیلی کر لیتا۔ اس میں ایک چالاکی بھری بے شرمی تھی اور ساتھ ہی عزتِ نفس کا فقدان بھی۔ بہرحال…

وہ صبح کی نماز میں شامل نہیں ہوا تھا۔’یہ حرامزادہ اب آیا ہے؟ حیران ہوں کہ اپنا وقت کہاں ضائع کر رہا تھا…‘ متولی نے سوچتے ہوئے دانت پیسے، لیکن پرسکون رہنے کا ڈراما کیا اور پوچھا،  ’’داؤد صاحب،  کہاں چلے گئے تھے؟ آپ کا تو کچھ اتا پتا ہی نہیں۔‘‘

داؤد ان کے سوال اور ان کے لہجے، دونوں کو سمجھ گیا۔ دھیرے سے ہنستے ہوئے جواب دیا، ’’السلام علیکم، متولی صاحب!‘‘  اور ظاہری شائستگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک طرف بیٹھ گیا۔

بہت سے لوگ اب بھی ان سے بات کرنے کے لیے اپنی باری کے منتظر تھے۔ لیکن انھیں داؤد سے ایک ضروری کام تھا۔ انھوں نے ایک مرتبہ پھر بینچ پر بیٹھے بےچین لوگوں کی طرف دیکھا اور اٹھنے کو ہوئے۔ بوڑھا صابجان جیسے ٹھوکر کھاتا ہوا آگے بڑھا اور موتیابند کے سبب دھندلی آنکھوں اور سفید بھنووں کے درمیان سے دیکھنے کی کوشش کرنے لگا، ’’صاب، صاب… میری سب سے  چھوٹی بیٹی کی اگلے ہفتے شادی ہونے والی ہے۔ میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔ مہربانی کیجے صاب۔ اگر اس کی شادی ہو جائے تو میں سکون سے آنکھیں موند سکوں گا۔ مائی باپ! آپ میرے باپ سمان ہیں… آپ کو مجھ بوڑھے پر رحم کھانا ہوگا۔‘‘  کہتے ہوئے وہ متولی صاحب کے قدموں میں گرنے کو ہوا۔

’’آہا! تو تمھارے بہت سے بچے ہیں!  آخری بیٹی، بتایا نا تم نے؟ یعنی جب تم ساٹھ سال کے تھے تو کیا وہ تب پیدا ہوئی ؟ آخر کار، تمھیں ہوش آ رہا ہے۔‘‘ متولی کے دماغ کے ایک گوشے میں بیٹھا شیطان ہنس پڑا۔ ایک بڑی کشادہ جگہ کی تصویر ان کے تصور میں ابھری جس کے بیچوں بیچ ایک ڈھیتا ہوا مکان کھڑا تھا۔ وہ جب بھی اس قطعۂ زمین سے گزرتے تھے، اس پر ایک شاپنگ کمپلیکس بنانے کا تصور کرتے تھے۔

’’آپ کو مجھ سے کیا چاہیے، صابجان چِکپّا؟‘‘  کسی بھی قسم رحمدلی نہ دکھاتے ہوئے انھوں نے پوچھا۔

’’زیادہ کچھ نہیں…‘‘  پریشان حال صابجان نے ایک ثانیے کے لیے توقف کیا اور بات جاری رکھی۔ ’’اللہ کی رحمت ہو آپ پر… میں… میں… مجھے اس کی شادی کے لیے کوئی چالیس ہزار روپے درکار ہیں۔‘‘

متولی صاحب نے چونکنے کا مظاہرہ کیا ۔

’’چالیس ہزار روپے… کس واسطے…اتنا  پیسا کہاں سے لاؤگے؟‘‘

وہ گہری سوچ میں ڈوبے ہوے نظر آئے۔ داؤد آہستہ  سے کھانسا۔

’’انّاوری۔ ایک معاملہ ہے … سوچا  آپ کے علم میں لے آؤں …  اگر آپ کو کچھ فرصت ہو تو …  نہیں، جب خیال آتا ہے تو …   دنیا کو کیا ہو گیا ہے۔  قانون، اخلاقیات، دھرم! کیا ان میں سے کچھ بچا بھی ہے؟‘‘

’’ہوں۔ کیا ہوا ہے، داؤد؟‘‘

’’کیا آپ اس مسئلے سے واقف نہیں ہیں؟  کیا واقعی؟‘‘

یہ دیکھ کر کہ کسی جانب سے کوئی جواب نہیں آ رہا، داؤد نے بات جاری رکھی، ’’اسلام کو ختم کیا جا رہا ہے، انّاوَرے… مسلمانوں کی کوئی توقیر باقی نہیں رہی…‘‘

اس کی تمہید طویل ہو رہی تھی۔

’’کیا سیدھے سیدھے بیان نہیں  کرسکتے کہ معاملہ کیا ہے؟‘‘  متولی صاحب نے چِڑ کر پوچھا۔

’’اناوری، آپ عمر کو جانتے  ہیں نا… وہی جو گھوڑوں کی نعلیں بناتا ہے؟ اس کی دوسری بیٹی کی شادی نیلامنگلا میں کسی سے ہوئی ہے۔ ہے نا، لیکن لڑکے نے دوسری لڑکی سے شادی کر رکھی تھی۔ آپ کو یاد ہے؟ بہرحال پہلی لڑکی کا بڑا بھائی-‘‘

’’وہ کون  لعنتی ہے؟‘‘  متولی صاحب سے بڑھتے ہوئے غصے کے ساتھ  پوچھا۔ ان میں رشتوں کے جال کو سلجھنانے کا صبر نہیں تھا۔

’’اس کا نام نثار ہے۔  پینٹر ہے۔ وہی جس نے کہا تھا کہ مسجد کا رنگ روغن کرے گا اور دو سو روپے لے کر بھاگ گیا تھا۔ یاد ہے، پچھلے رمضان میں؟‘‘

’’اوہ، ہاں، ہاں۔ سمجھ گیا۔‘‘

اب متولی صاحب کو سب کچھ یاد آگیا۔ انھیں یاد آگیا کہ مسجد کے پیسے ڈکار جانے کے جرم میں پینٹر کو ایک درخت سے باندھ کر پیٹا بھی گیا تھا۔

’’وہ تالاب میں گر کر مر گیا تھا۔  کوئی ڈیڑھ مہینے پہلے اس کی لاش ملی۔ پولیس والوں نے اسے باہر نکالا۔‘‘

’’ہمم۔ پھر کیا ہوا؟‘‘

’’ ہونا  کیا تھا۔ سب کچھ برباد ہوگیا۔ پولیس نے نثار کی لاش قبضے میں لے کر ہندو قبرستان میں دفنا دی۔‘‘

داؤد نے خبر کو آہستہ آہستہ،  بتدریج ظاہر کیا تھا، پھر  بھی ایسا لگا گویا کسی نے گولی داغ دی ہو۔ کیا واقعی ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا کبھی ایسا سنا گیا؟ ایک لمحے کو متولی صاحب کو لگا جیسے ان کے دل کی دھڑکن  رک گئی ہو۔ ان کی پیشانی پر شکنیں ابھر آئیں اور وہ پسینے سے عرق آلود ہو گئی۔ ہر شخص بھول گیا  کہ وہ کس مقصد سے یہاں آیا تھا، یہاں تک کہ صابجان بھی۔ اگر چہ بیٹی کی شادی کا معاملہ اس کے دل میں چبھے جا رہا تھا لیکن اس نے ذکر نہیں کیا۔ اس خبر نے سب کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔

یہ بات تصور سے بعید تھی کہ کسی مسلمان کی لاش بلاکفن ، بلا غسل ، حتیٰ کہ نمازِ جنازہ کے بغیر، قبرستان کے بجاے شمسان میں بلا رسوم دفن کر دی جائے!  متولی صاحب کے ذہن میں ایک سوال کوندا، ’’لیکن، داؤد، کیا نثار کا ختنہ نہیں ہوا تھا؟‘‘

داؤد کے پاس اس تکنیکی سوال کا جواب نہیں تھا۔

’’چھی، چھی… کیا آخری رسوم نہیں ہونی چاہییں تھیں؟ لیکن پولیس یہ سب  کیوں سوچتی؟  وہ تو بس اتنا چاہتے ہوں گے کہ جلدی سے دفنائیں اور  چھٹی پائیں۔ معاملہ ختم۔‘‘

لیکن سوالات اور بھی تھے—تجسس کو ہوا دینے والے۔ ’’انہیں کیسے پتہ چلا کہ لاش نثار کی ہی ہے؟‘‘

’’لاپتہ ہونے کے کئی دن بعد اس کی بیوی شکایت درج کرانے پولیس کے پاس گئی تھی۔ پولیس نے اسے وہ کپڑے دکھائے جو نامعلوم لاش کے بدن پر ملے تھے، اور اس کی بیوی نے پہچان لیے۔ پھر انہوں نے لاش کی تصویر دکھائی۔ بدن پھولا ہوا تھا مگر نثار کا تھا۔ یا…‘‘

’’یا  پھر پولیس نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہوگا، جیسے کچھ جانتے ہی نہ ہوں! چاہیے تھا کہ وہ مسجد میں آتے اور ہمیں بتاتے کہ ہمارے کسی آدمی کی لاش ملی ہے۔  ہم اسے فوراً یہاں لا کر مناسب طریقے سے دفنا دیتے۔‘‘

داؤد نےمشکوک انداز میں کہنا شروع کیا، ’’جہاں تک میں جانتا ہوں، مصیبت کی جڑ شنکر ہے۔ اسی نے پولیس کو اطلاع دی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ لاش ہندو قبرستان میں دفن کی جائے۔‘‘

 وہاں موجود ہر شخص شدید صدمے میں  تھا۔ ’’چھی! کیسا خوفناک زمانہ ہے۔ جب کوئی مرتا ہے تو ہزاروں لوگ قبرستان تک میت کو کندھا دینے کو تیار رہتے ہیں۔ لیکن اس غریب کو دیکھو ! بیچارے کے لیے مناسب کفن دفن تک کا اہتمام نہیں ہو سکا۔‘‘

سال میں دو بار، رمضان عید اور بقرعید کی نماز کے علاوہ نثار نے کبھی نماز نہیں پڑھی، مسجد میں کبھی قدم نہیں رکھا۔ وہ سینکڑوں لوگوں سے ان کے گھروں کے رنگ روغن کے لیے ایڈوانس لے کر  غائب ہو جاتا تھا اور انھیں دھوکا دیتا تھا۔ وہ پیسا ڈکار کر بھی دندناتا پھرتا تھا۔ ایک بار تو وہ مسجد کے رنگ روغن کے لیے  جماعت سے بھی پیسہ لے گیا اور ہضم کر گیا۔ اب اس کی مناسب تدفین کرنا انھی لوگوں کو مقدس ترین فریضہ لگ رہا تھا جنھیں وہ دھوکا دیا کرتا تھا۔ اس کی لاش کو شہید کا درجہ ملنا شروع ہو گیا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر تو یہ لگ رہا تھا کہ نثار کے جسدِ خاکی کی تدفین کے لیے مناسب رسومات کو یقینی بنانے سے ہی متولی کے بھی بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ وہ اذیت میں مبتلا ہونے کا انداز اختیار کرتے ہوئے نوحہ خواں ہوا، ’’کیا کیا جا سکتا ہے؟ ہر ایک کو اپنے اپنے گناہوں کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔‘‘

وہاں جمع سارے لوگ ، جن میں داؤد بھی شامل تھا، جوں جوں اس سانحے پر غور  کرتے، مزید پریشان ہوتے جاتے تھے۔

’’توبہ، توبہ۔‘‘ صابجان نے اپنے گال پیٹے، ’’موت ہر ایک کی طے ہے، لیکن ایسی بھیانک موت کسی کو نہ ملے۔ نہ کلمہ،  نہ درود ، نہ سلام۔ کل کو ہماری میتیں بھی کوئی جہاں چاہے دفنا دے گا۔ جہاں چاہیں گے، ہماری لاشیں پھینک دیں گے۔‘‘

داؤد نے لقمہ دینے کا موقع نہیں گنوایا۔’’متولی صاحب،  وہ تو بھلا ہوا کہ آپ ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہیں، اسی لیے ہم ابھی تک انسان ہیں- وہ  کبھی بھی کورٹ چلے جاتے ہیں، قرآن سے متعلق کوئی معاملہ لے کر۔ اب اس عورت، شاہ بانو کے مقدمے کو ہی لے لیجیے۔ اسے اتنا بڑا مسئلہ بنا دیا اور بار بار ہماری توہین کی۔ اور اب مسلم لاشیں اٹھا کر ہندو قبرستانوں میں دفن کر رہے ہیں؟ ہمارے ساتھ اس سے بڑی ناانصافی اور کیا ہوگی؟‘‘

داؤد اب اسے ایک سنگین مسئلے  کے طور پر دیکھ رہا تھا۔ سب اضطراب میں تھے، حتیٰ کہ متولی بھی۔ وہ کبھی اپنی داڑھی نوچتے، کبھی ناک میں انگلی گھساتے، اور کبھی گہری سوچ میں غرق نظر آتے۔ پھر اچانک جیسے ہوش میں آئے اور لوگوں کی طرف دیکھا۔ چہرے پر شکنیں ڈالتے ہوئے، جیسے نہایت اداس ہوں، انھوں نے اپنی آنکھیں ذرا سی کھولیں اور کھنکھارکر گلا صاف کیا۔

معاملہ اتنا پیچیدہ تھا کہ عارفہ بھی بچوں کو سکول کی تیاری کرانے کے بجائے پردے کے پیچھے کھڑی ہوگئی۔  جمیلہ جو ذرا دیر سے بیدار ہوئی تھی، پردے کے پیچھے اپنی بھابھی سے آن ملی اور سرگوشی میں باتیں کرتے ہوئے سارا معاملہ سنا۔ خواتین کے دل دھڑ دھڑ دھڑک رہے تھے۔

’’یا اللہ! چاہے جو بھی ہو،  اس غریب بیچارے کی روح کو سکون ملے ۔ اسے وہ سب رسومات نصیب ہوں جن کی  ایک مسلمان لاش حقدار ہوتی ہے۔ اور قبرستان میں اسے تین گز زمین مل جائے۔‘‘

جمیلہ کے شوہر کو خبر ملی تو وہ  بھی باہر آکر دوسرے لوگوں کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ ہر شخص جوش میں تھا، پریشان تھا۔ اسلام کو بچانے کی خاطر مقدس جنگ کا جوش بڑھتا جا رہا تھا۔ بالآخر متولی نے بولنا شروع کیا: ’’اب ہمیں اپنی ساری کوششیں اس پر صرف کرنی ہوں گی کہ  نثار کے جسدِ خاکی کو وہاں سے نکال کر یہاں دفن کیا جائے۔ ہمیں ہر طرح کی رکاوٹ کا، کسی بھی مسئلے کا سامنا کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ سمجھ گئے؟‘‘

پھر وہ داؤد سے مخاطب ہوئے، ’’اور داؤد، تم ہماری یوتھ کمیٹی کو بھی اس کی خبر کردو۔جب وہ آ جائیں تو ہم  ساتھ چل کر ضلع کمشنر اور  پولیس سپرنٹنڈنٹ سے ملیں گے۔ اس کام کو آج ہی شروع کر دیں تو اچھا ہو۔‘‘ پھر انھوں نے جلدی سے اضافہ کیا: ’’ان سے  یہ بھی کہنا کہ کسی چیز کی فکر نہ کریں۔ فی الحال جماعت کے پاس پیسے نہیں ہیں، لیکن انھیں بتانا  کہ جو بھی اخراجات ہوں گے، میں خود ادا کروں گا۔‘‘

وہ جانتے  تھے کہ خرچ ہونے والی رقم اس مہم کی وجہ سے ملنے والی مقبولیت اور حمایت کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے۔ یہ بھی تھا کہ متوّلی کی حیثیت کے مدنظر ایسی باتیں کہنا عین مناسب تھا۔ پیسہ آخر جائے گا کہاں ؟ اپنے تجربے سے انھیں معلوم تھا کہ اس طرح کے کاموں کے لیے رقم عطیہ کرنے کے لیے لوگ سر کے بل آتے ہیں۔ یوتھ کمیٹی کا اعتبار  دوبارہ حاصل کرنے کا یہ انھیں ایک بہترین موقع بھی لگا،  کیونکہ کمیٹی  پہلے ان پر طرح طرح کے الزامات لگا  کر ان سے فاصلہ بنا چکی تھی۔

سب کچھ متولی کی توقعات کے عین مطابق ہورہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے گھر سے قدم باہر نکالیں، جمیلہ کے شوہر نے جیب سے ڈھائی سو روپے نکالے اور متولی کے سامنے میز پر رکھ دیے۔  ’’بھیا، اگر آپ انھیں اپنے کام کے لیے استعمال کریں گے، تو اس نیکی کا اجر مجھے بھی ملے گا۔ اللہ آپ کو اور آپ جیسے لوگوں کو مزید قوت، صحت اور مال و دولت سے نوازے۔‘‘  اس نے صدق دلی سے کہا۔ وہ یہ محسوس کر رہا تھا کہ جب ایک عظیم ذمہ داری سامنے ہے تو یہ مناسب نہیں کہ اس کی بیوی جائیداد میں حصہ مانگے ۔

پردے کے پیچھے  کھڑی جمیلہ نے اپنے شوہر  کے چہرے کے تاثرات دیکھے اور سکون کا گہرا سانس لیا۔ اس نے اپنے بڑے بھائی سے جائیداد میں حصہ صرف اس لیے مانگا تھا کہ اس کے شوہر نے اسے مجبور کیا تھا، اس لیے نہیں کہ وہ خود ایسا چاہتی تھی۔ جیسا کہ کہاوت ہے، ’لاٹھی کا وار اگر خالی جائے، تو جیون ہزار برس بڑھے۔‘  وہ خوش تھی کہ وہ اس معاملے کو یہیں چھوڑا جا سکتا ہے، کم از کم فی الحال۔

عارفہ اپنے شوہر پر بہت فخر محسوس کر رہی تھی۔ اس فکر میں  غلطاں کہ شاید  ناشتہ کیے بغیر ہی انھیں یہ ہمالہ جیسا بڑا کام کرنے نہ نکلنا پڑے، وہ ان کے لیے پھولوں جیسے ہلکے پھلکے پراٹھے بنانے چل دی۔ متولی نے اپنی بہن اور اس کے شوہر کے بدلے ہوئے رویے کو دیکھا اور خود ہی مسکرائے، لیکن اپنی خوشی ظاہر نہیں ہونے دی بلکہ  چہرے پر سنجیدگی طاری کیے گھر میں چلے گئے، جیسے گہری سوچ میں غرق ہوں۔

کئی نوجوانوں کو ساتھ لے کر وہ سب سے پہلے ضلع کمشنر سے ملے۔ ایسا کرنا ان کے لیے فخر کی بات تھی۔ ضلع کمشنر ایک نوجوان بنگالی برہمن تھا جو جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھا۔ وہ ضلع کے مختلف فرقوں کے باہمی رشتوں کے الجھیڑوں  اور جذباتی آویزشوں سے واقف تھا جو کبھی کبھار سر ابھارتی رہتی ہیں۔ اس نے متولی کی دی ہوئی درخواست پڑھی اور صورتِ حال کو سمجھنے کی کوشش کرنے لگا۔ اگرچہ وہ دل ہی دل میں ہنس رہا تھا لیکن چہرے پر سنجیدگی اور وقار طاری کیے بیٹھا رہا۔ اس نے متولی کی پرجوش جذباتی تقریر سنی اور مسئلے کو سلجھانے کے لیے ان سے اردو میں بات کرنے کا فیصلہ کیا۔

’’اور کیا کچھ نیا ہو رہا ہے متولی صاحب؟ آپ اپنے علاقے میں نیا بورویل لگوانے یا اسکول کی عمارت کی مرمت یا اس طرح کے کسی اور کام کے لیے مجھ سے ملنے کبھی نہیں آئے!‘‘

متولی نے بیچ میں ہی قطع کلام کیا۔ ’’میں کاموں کی فہرست بناؤں گا اور اگلی بار ملنےآؤں گا، سوامی؛ فی الحال تو، اگر آپ صرف ایک حکم نامہ جاری کر سکیں، تو مہربانی ہوگی۔

’’مگر پھر بھی متولی صاحب، مٹی تو ہر جگہ ایک سی ہے نا؟ مٹی مٹی میں کیا فرق کرنا؟‘‘ اس نے لاپروائی سے پوچھا۔

متولی کے پاس کئی غیر متعلق جوابات تھے۔ بات کو مزید طول نہ دے کر ڈپٹی کمشنر نے اسسٹنٹ کمشنر کو ذمہ داری کا حکم نامہ جاری کردیا۔

پندرہ دن گزر گئے۔ متولی صاحب بالکل نہیں تھکتے تھے، اس وقت بھی نہیں جب انہیں ایک افسر سے دوسرے افسر کے پاس، ایک محکمے سے دوسرے محکمے میں چکر لگانے پڑتے۔ حتیٰ کہ وہ اپنے ساتھ جانے والے لوگوں کے لیے کوفی اور سنیکس خریدنے سے بھی دریغ نہ کرتے۔

وہ اس سے قدرے مایوس تھے کہ اس بدمعاش شنکر کی جانب سے کوئی خاص مزاحمت نہیں لگتی تھی، تاہم پولیس اور اہلکاروں نے جو تاخیر کر رکھی تھی وہی کم نہ تھی۔

متولی سارا دن مختلف دفتروں کے چکر لگاتے رہتے۔ اس کے بعد رات گئے تک یا تو مسجد کے صحن میں، یا مدینہ ہوٹل کے بڑے ہال میں، یا ان کے گھر کے برآمدے میں بیٹھ کر غوروفکر کیا جاتا۔ وہ بیان کرتے کہ وہ کتنی بھاگ دوڑ کر رہے ہیں۔ منصوبے بناتے کہ کس طرح اور کب، کن افسروں کے پر کترے جائیں۔ وہ بتاتے کہ کن کن حلقوں سے اسلام کو کتنا خطرہ لاحق ہے، اور نوجوانوں کو سمجھاتے کہ ان مسائل کو کس طرح مؤثر طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے۔ انھیں قطعی پتا نہ چلا کہ یہ سب کرتے کرتے پندرہ دن کتنی عجلت میں گزر گئے۔ ساری جماعت نثار کی لاش اور متولی صاحب کی کوششوں کے سوا کسی موضوع پر گفتگو نہیں کر رہی تھی۔ عورتیں چادریں اوڑھ کر نماز ادا کرتیں، اور نثار کی لاش کے لیے تہہِ دل سے دعائیں مانگتیں کہ اسے مسلم قبرستان میں دفن ہونا نصیب ہو، اور اس کی روح کو ابدی سکون ملے۔

اس کارِ خیر کے لیے کافی رقم بھی جمع ہو گئی تھی۔

بالآخرکار نثار کی لاش قبر کھود کر نکال لی گئی۔ متولی اور ان کے حواریوں نے بوسیدہ، مسخ شدہ لاش کو بالکل نئے، کلف دار لٹھے کے کفن میں لپیٹ دیا جو وہ اپنے ساتھ لائے تھے۔ لاش اتنی مسخ تھی کہ غسل نہیں دیا جا سکتا تھا، چنانچہ اس پر مقدس آبِ زم زم چھڑکا گیا۔ لوگوں لگ رہا تھا کہ سڑاندھ کے مارے قے ہو جائے گی، لیکن کسی نے اپنے چہرے سے ظاہر نہیں ہونے دیا۔ پولیس والوں نے اپنی ناکوں پر رومال رکھ لیے۔ آخر کار نثار کا جنازہ متولی اور ان کے ساتھیوں نے اپنے کندھوں پر اٹھایا اور جلوس مسلم قبرستان کی سمت روانہ ہوا۔ میّت پر ڈھیروں عطر چھڑکا  گیا اور کفن کے اوپر چمیلی کی کلیوں سے بنی چادر ڈال دی گئی تھی تاکہ سڑتے ہوئے گوشت کی بو چھپ سکے۔ لیکن چمیلی کی کوئی کلی کھلی نہیں۔ ہر پھول کی قسمت میں کہاں نازِ عروس/ چند پھول تو کھلتے ہیں مزاروں کے لیے۔

جنازے کے جلوس کو کافی طویل فاصلہ طے کرنا تھا لیکن لوگ بھی خاصی تعداد میں جمع تھے۔ تابوت کسی کے کندھے پر ایک دو منٹ سے زیادہ نہیں ٹھہرا اور ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا رہا۔ جلوس شہر میں سے گزرا اور قبرستان کی طرف بڑھا۔ قبرستان اب سامنے ہی تھا، شہر کے سرے پر۔ شاید مزید دس قدم باقی تھے۔ تبھی ایک آدمی لڑکھڑاتا ہوا نمودار ہوا جو چیخ چیخ اونچی آواز میں، بیہودگی سے گالیاں بک رہا تھا، گویا صورتِ حال کی ساری سنگینی اور اداسی کو چکناچور کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ متولی نے جس لمحے اس شخص کو دیکھا، کہ اس وقت انھوں نے ہی جنازے کو کندھا دے رکھا تھا، تو دنگ رہ گئے۔ ان کا رنگ کسی مردے کی مانند زرد ہو گیا۔ جلوس میں شامل کئی دوسرے لوگوں کا بھی یہی حال ہوا۔ ان کے قدم وہیں تھم گئے۔ سب کے حلق خشک ہو گئے۔ اس آدمی نے زور سے کچھ اور مغلظات برسائیں، اور لڑکھڑاتا ہوا ایک چھوٹی سی گلی میں داخل ہو گیا۔

سب سے پہلے ہوش میں آنے والے متولی ہی تھے۔ انھوں نے پولیس کے اہلکاروں کی طرف دیکھا، جو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے جلوس کے ساتھ چل رہے تھے کہ کوئی ناخوشگوار بات واقع  نہ ہو، اور فی الفور محتاط ہوگئے۔ جلوس کو رکتے دیکھ کر ایک پولیس والا شرابی کو دھمکانے کے لیے لاٹھی اٹھائے آگے بڑھا۔ متولی نے آہستہ سے قدم آگے بڑھایا۔ جماعت نے پیروی کی۔ متولی صاحب کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ کوئی آگے بڑھا اور سرہانے کی جانب سے تابوت کو اپنے کندھے پر لے لیا۔ متولی صاحب نے اپنا رومال نکالا اور چہرے سے ٹپکتا پسینہ صاف کیا۔ انھوں نے داؤد کو گھور کر دیکھا جس نے سر جھکا کر نظریں نیچی کر لیں۔ بہت سے لوگ آنکھوں ہی آنکھوں میں بات کر رہے تھے۔ کوئی کچھ نہیں بولا، بلکہ لمبے لمبے قدم اٹھاتے ہوئے قبرستان میں داخل ہو گئے۔

پولیس کے اہلکار باہر کھڑے رہے اور لاش کو مسلم قبرستان میں دفنایا جانے لگا۔ متولی کے سر کے نسیں پھٹنے کو آمادہ تھیں۔ آخر وہ کس کی لاش تھی جسے وہ دفنا رہے تھے؟

انھیں قطعی شک نہیں تھا کہ وہ شرابی نثار پینٹر ہی تھا۔ انھیں داؤد اور پینٹر کی بیوی پر اتنا شدید غصہ آ رہا تھا کہ بس چلتا تو ان کا قیمہ کر دیتے۔ لیکن راحت کی بات یہ تھی کہ جماعت کے بہت سے لوگ اگرچہ نثار کو پہچان گئے تھے لیکن کسی نے بھی پولیس کو اطلاع نہیں دی۔ سب نے ان کی عزت بچالی تھی۔ لیکن یہ سکون لمحہ بھر میں ہوا ہو گیا۔ کائیں کائیں کا نوحہ کرتے ہزاروں کوّے ان کا دماغ نوچنے لگے۔ کیا یہ  ہندو کی لاش تھی؟ یا مسلمان کی؟ لاش اتنی بوسیدہ تھی کہ پہچانی نہیں کی جا سکتی تھی۔ اسے یہاں مٹی میں ملنا چاہیے، یا وہاں؟

لوگ جلدی جلدی قبر پر مٹی ڈال رہے تھے۔ تدفین کا عمل مکمل ہونے کا انتظار کیے بغیر وہ گھر کی طرف بھاگے۔ وہ بالکل تنہا تھے، لیکن کوے ساتھ تھے، جو چیخ چیخ کر ٹھونگیں مارتے انھیں مار ڈالنے کی کوشش کر رہے تھے۔

تھکن سے چور وہ گھر میں داخل ہوئے اور ڈرائنگ روم میں ہی بیٹھ گئے۔ کئی منٹ تک جب عارفہ نظر نہ آئی تو انھوں نے بے چینی سے آواز دی، ’’عارفہ! ایک گلاس پانی تو لا دو۔‘‘

عارفہ کے بجاے انھوں نے اپنی بیٹی کو باہر آتے دیکھا اور پوچھا، ’’آج اسکول نہیں گئیں؟‘‘

’’اماں گھر پر نہیں ہیں، نا۔ اسی لیے میں گھر پر رک گئی تھی۔‘‘

’’گھر پر نہیں ہے؟ کہاں چلی گئی؟‘‘

لڑکی نے آنکھوں پر سے، جو روتے روتے سرخ ہو چکی تھیں، اپنی جھکی ہوئی پلکیں اٹھاتے ہوئے جواب دیا، ’’انصار بہت بیمار ہے نا، اپّا! اماں ہسپتال میں اسی کے ساتھ ہیں۔‘‘

’’ہیں؟ کیا کہہ رہی ہو؟ کون بیمار ہے؟ کب سے؟ کیا بیماری ہے؟‘‘

سوالوں کی بوچھار پر جواب میں لڑکی کی آنکھوں سے آنسوؤں کے موٹے موٹے قطرے ٹپکنے لگے۔

’’انصار کو پندرہ بیس دن سے تیز بخار تھا نا؟ ڈاکٹر کہہ رہا تھا دماغ کی کوئی بیماری ہے۔ بیماری کا نام شاید میننجائٹس ہے۔ گردن توڑ بخار۔‘‘ وہ بے قابو ہو کر رونے لگی۔

پانی کا گلاس پھسل کر متولی صاحب کے  ہاتھ سے گر پڑا۔

آوازیں پھر سے ان کے کانوں میں دھیرے دھیرے سر ابھارنے لگیں۔ انّا، میرے حصے کی جائیداد… انّا، مہربانی کر کے اس غریب بیوہ کی مدد کیجے…  مائی باپ، میری بیٹی کی شادی کے لیے قرضہ دیجیے… حقدار ترسے تو انگار کا مینہہ برسے… آگ کی بارش، کوے… سیاہ، سرمئی … اور ان سے جھانکتے دھنک کے رنگ…

(ارجمند آرا دہلی یونیورسٹی میں اردو زبان و ادب کی پروفیسر ہیں اور شوقیہ مترجم ہیں۔)

Next Article

پنجاب کے صحافیوں پر خفیہ پولیس کی دستک، بے وجہ مانگی جا رہی نجی جانکاری

ان دنوں پنجاب پولیس آزاد صحافیوں کو پریشان کر رہی ہے۔ ان سے تمام طرح کی ذاتی معلومات طلب کی جا رہی ہے۔ اس کے باعث صحافیوں میں غصہ ہے۔ ان کے مطابق یہ صحافیوں کو ڈرانے کی کوشش ہے۔

چنڈی گڑھ: پنجاب کے برنالہ ضلع کے کھڈّی گاؤں کے  صحافی گرپریت کو جب 6 جون کو اسٹیٹ انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے ایک افسر نے پولیس اسٹیشن بلایا تو انہیں ایک بارکو لگا کہ یہ کوئی عام سی کارروائی ہے۔ لیکن جب افسر نے گرپریت سے سوال پوچھنا شروع کیا تو انہیں تھوڑا شک ہوا۔

اس افسر نے گرپریت سے پوچھا؛


کہاں سےپڑھائی کی ہے؟

صحافت کی ڈگری کہاں سے حاصل کی؟ کس سال حاصل کی؟

زمین کتنی ہے، بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات؟

کن کن ممالک کا دورہ کیا ہے؟ پاسپورٹ کی تفصیلات؟

کار کا رجسٹریشن نمبر کیا ہے؟

گھر والے کیا کرتے ہیں؟


افسر انتہائی ذاتی معلومات کے بارے میں تقریباً بیس سوال پوچھتا رہا اور گرپریت سہمے ہوئے جواب دیتے رہے۔ گرپریت گزشتہ 8 سال سے صحافت کر رہے ہیں اور گزشتہ 4 سالوں سے وہ ‘پنجابی نیوز کارنر’ کے نام سے اپنا ایک آزاد ویب چینل چلا رہے ہیں۔

گرپریت نے دی وائر کو بتایا، ‘یہ پہلا موقع تھا جب اس طرح سے میری ذاتی معلومات مانگی جا رہی تھیں۔ آدھار کارڈ نمبر، پاسپورٹ نمبر، خاندان میں کون کون ہیں اور کیا کرتے ہیں؟ زمین کتنی ہے؟ ایسے کئی سوالات پوچھے گئے۔’


یہ صرف گرپریت ہی نہیں تھے، جن سے ریاستی انٹلی جنس محکمہ نے ذاتی تفصیلات طلب کی ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دوران، پنجاب کے صحافیوں کو پریشان  کرنے والاپیٹرن سامنے آیا ہے، جس میں پنجاب کے مالوا علاقے سے تعلق رکھنے والے پانچ دیگر صحافیوں — منندرجیت سنگھ (لوک آواز)، سکھویندر سنگھ سدھو (لوک ناد)، منٹو گروسریا، سندیپ لادھوکا (اے بی سی پنجاب)، اور جسگریوال (آر ایم بی ٹیلی ویژن) — کی ذاتی تفصیلات بھی مانگی گئی ہیں۔


مالوا کے بٹھنڈہ ضلع سے اپنا آزاد چینل چلا رہے صحافی منندر سدھو کے دفتر پر 5 جون کو انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے ایک اہلکار نے دستک دی  اور چائے پینے کے بعد منندر پر ایسے ہی سوالات کی بوچھاڑ کردی۔

منندر سدھو۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

منندر نے دی وائر کو بتایا، ‘جب انٹلی جنس والےنے مجھ سے سوال پوچھنا شروع کیا تو مجھے لگا کہ سسٹم (ریاست) کے پاس پہلے سے ہی ہماری بنیادی معلومات موجود ہیں، پھر اس کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن سوال جب پڑھائی-لکھائی کے سال ، زمین، پاسپورٹ نمبر تک پہنچے تو مجھے احساس ہوا کہ یہ نارمل نہیں ہے۔ آج تک پنجاب میں کسی حکومت نے صحافیوں کی اتنی ذاتی معلومات اکٹھی نہیں کیں۔’

منندر سنگھ گزشتہ چار سالوں سے ‘لوک آواز ٹی وی’ کے نام سے اپنا ویب چینل چلا رہے ہیں۔ وہ اپنی تنقیدی رپورٹنگ کے لیے مالوا خطے میں کافی مقبول ہیں اور اس سے قبل بھی ریاستی حکومت کے نشانے پر رہے ہیں۔

اس سال فروری میں بھی ان کے خلاف عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے بلکار سنگھ سدھو کے پی اے کی شکایت پر بٹھنڈہ ضلع کے رام پورہ سٹی پولیس اسٹیشن میں بی این ایس کی دفعہ (4)(کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے کی گئی جعلسازی) اور انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ 2000 کی دفعہ 66ڈی کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی، لیکن ریاستی سطح پر ہوئے صحافیوں کے احتجاج کے دباؤ میں ایف آئی آر رد کر دی گئی تھی۔

منندر اس واقعے کو صحافیوں پر دباؤ ڈالنے کی کارروائی تصور کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا، ‘اگر آپ غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ سی آئی ڈی نے ان صحافیوں کی معلومات اکٹھی کی ہیں جو نہ تو حکومت سے اشتہار لیتے ہیں اور نہ ہی ان  کے مطابق خبریں کرتے ہیں۔ یہ صرف ہم صحافیوں کو ڈرانے کے لیے کیا جا رہا ہے تاکہ ہم سب خاموش  بیٹھ جائیں ۔’

(مائیک تھامے ہوئے) منندر سنگھ سدھو، سکھویندر سدھو، منٹو گرسریا، (نیچے) جسگریوال، سندیپ لادھوکا، گرپریت سنگھ۔ (تصویر: ارینجمنٹ)

بھٹنڈہ سےہی ‘آر ایم بی ٹیلی ویژن’ نامی ویب چینل کے لیے صحافت کرنے والے جسگریوال سے انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے اہلکار نے  فون پر بات کی، جس میں ایسے ہی سوالات ان سے بھی پوچھے گئے۔ جسگریوال نے کہا، ‘مجھے انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے اہلکار کی کال موصول ہونے سے پہلے ہی پتہ چل گیاتھا کہ وہ ہماری معلومات اکٹھا کرتے پھر رہے ہیں۔ دراصل،انہوں نے میرے گاؤں کے لوگوں سے معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کی تھی۔’

افسر نے جس کو دفتر آنے کو کہا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور صاف کہہ دیا کہ جو کچھ پوچھنا ہے، فون پر ہی پوچھ لیجیے۔ اس کے بعد افسر نے ان سے بھی کئی ذاتی سوال  پوچھے۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا جب آر ایم بی ٹیلی ویژن اور اس کے صحافیوں کو ہراساں کیا جا رہا ہو۔ جس بتاتے ہیں، ‘اس سے پہلے بھی حکومت دو بار ہمارے ویب چینل کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو بند کر چکی ہے۔ ایک بار تو سال بھر کے لیے بند رکھا۔ 2022 کے انتخابات کے دوران بھی مجھے ان کی میڈیا پی آر والی میڈم کا فون آیا تھا۔ انہوں نے مجھ سے ملنے کو کہا لیکن میں نے منع  کر دیا تھا۔

اسی طرح صحافی سندیپ اور سکھویندر کو بھی فون کرکے ان کی تمام ذاتی تفصیلات طلب کی گئی تھیں۔ صحافی سندیپ نے بتایا، ‘انٹلی جنس افسر نے فون پر کہا کہ آپ فاضلکا میں میرے دفتر آئیں تاکہ ہم یہ جانچ سکیں کہ آپ اصلی صحافی ہیں یا نہیں۔ ہم فاضلکا ضلع کے صحافیوں سے تفتیش کر رہے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں فاضلکا میں کام ہی نہیں کرتا۔ میں چندی گڑھ سے کام کرتا ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے مجھ سے ذاتی تفصیلات پوچھنا شروع کر دیں۔’

سندیپ اس کارروائی کو صحافیوں کو دھمکانے کی کوشش سمجھتے ہیں۔ تقریباً ایک سال قبل بھی سندیپ کو پنجاب اسمبلی کی کوریج سے روک دیا گیا تھا اور ان کا پاس لے  لیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے ہرمیت سنگھ پٹھان ماجرا نے بھی سندیپ کے ساتھ ایک بار بدسلوکی کی تھی۔

صحافی سکھویندر سدھو کو بھی پچھلے تین سالوں میں کئی بار ہراساں کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا، ‘حکومت ہماری ذاتی معلومات اکٹھی کرکے کیا کرے گی۔ خیر، اس سے پہلے بھی وہ کئی بار مجھ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ تقریباًسوا سال پہلے کی بات ہے۔ پٹیالہ پولیس نے مجھے حراست میں لیا تھا، اس وقت ایس ایس پی نے خود مجھ سے کہا کہ بھگونت مان کے بارے میں کچھ بھی رپورٹ نہ کرنے کا تحریری حلف نامہ دیں۔ میں نے صاف منع کر دیا تھا۔


 مالوا کے مکتسر ضلع کے ایک صحافی منٹو گرسریا کی ذاتی معلومات بھی انٹلی جنس اہلکاروں نے اس ہفتے اکٹھی کی ہیں۔


انہوں نے کہا، ‘مجھ سے براہ راست پوچھنے کے بجائے اہلکاروں نے میرے محلے سے میرے بارے میں معلومات اکٹھی کی ہیں۔ میں جس دفتر میں کام کرتا ہوں وہ کس کے نام ہے، میرے پاس کتنی زمین ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے گاؤں میں کوآپریٹو سوسائٹی کے میرے بینک اکاؤنٹ کی بھی تلاشی لی ہے۔ ایسا ہم نے یوپی میں سنا تھا کہ صحافیوں کے ساتھ ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ لیکن تحریکوں سے ابھرنے والی جماعت پنجاب میں یوپی ماڈل کو براہ راست کاپی پیسٹ کر رہی ہے۔ اس سے زیادہ افسوسناک اور کیا ہو سکتا ہے؟’

صحافیوں کی حمایت میں اپوزیشن

دریں اثناپنجاب کے ان صحافیوں کی ذاتی معلومات اکٹھا کرنے کے حوالے سے گزشتہ ہفتے اپوزیشن جماعتوں نے صحافیوں کی حمایت میں بیانات دیے ہیں۔

شرومنی اکالی دل کے سربراہ سکھبیر بادل نے اس معاملے کو نمایاں طور پر اٹھایا اور کہا، ‘حکمران پارٹی اور وزیر اعلیٰ کو پریس کی آزادی کو سلب کرنے کی کوششوں سے باز آنا چاہیے۔ پولیس کی جانب سے صحافیوں کے گھروں پر جانے اور ان سے گھنٹوں پوچھ گچھ کرنے کی خبریں انتہائی تشویشناک اور ناقابل قبول ہیں۔ اس طرح کے اقدامات جمہوریت کے چوتھے ستون پر ایک زبردست حملہ ہے اور حکومت کو جوابدہ ٹھہرانے والوں کو ڈرانے اور خاموش کرانے کی منصوبہ بند حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ پریس کو ہراساں کرنے سے سچائی کو دبایا نہیں جا سکتا، بلکہ اس سےصرف ان صحافیوں کے عزم کو تقویت ملے گی جو سچ کے لیے پرعزم ہیں۔’

اس معاملے پر دی وائر نے پنجاب میں عام آدمی پارٹی حکومت کے ترجمانوں سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن صرف ایک ترجمان بلتیج پنوں نے ہمارا فون اٹھایا۔ انہوں نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے اپنی نااہلی کا حوالہ دیا اور دوسرے شخص کا فون نمبر دیا۔ اس نمبر پر بار بار کال کرنے کے باوجود ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

(مندیپ صحافی ہیں اور ‘گاؤں سویرا’ نام کا ویب پورٹل چلاتے ہیں۔)

Next Article

کیا اسرائیل ایرانی مخبروں کے بغیر تہران پر حملہ کر پاتا؟

اسرائیل نے یہ کیسے معلوم کیا کہ اعلیٰ ایرانی حکام کے گھر کہاں ہیں اور وہ کہاں سو رہے تھے؟ اس کا سہرا مخبروں کے اس وسیع نیٹ ورک کو جاتا ہے، جو اسرائیل نے ایران کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اندر  بنا رکھا ہے۔

13 جون 2025 کو ایران کے تہران میں ہوئے دھماکے کے بعد اٹھتادھواں تصویر: اے پی /پی ٹی آئی

جمعہ ، 13 جون ، صبح 4 بجے کے قریب ، اسرائیل نے ایران  پر، اس کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا اور مبینہ طور پر چھ شہروں میں ایران کے اعلیٰ فوجی حکام کو ہلاک کر دیا ۔

اعلیٰ ترین رینکنگ والے میجر جنرل محمد باقری ، مسلح افواج کے چیف آف اسٹاف اور سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے بعد دوسرے اعلیٰ ترین کمانڈر جنرل حسین سلامی ، ایران کی بنیادی فوجی طاقت، اسلامی انقلابی گارڈ کور کے کمانڈر ان چیف  اور جنرل غلام علی راشد ، مسلح افواج کے ڈپٹی کمانڈر ان چیف  کے ساتھ تین جوہری سائنسدانوں –  فریدون عباسی ، ایران کی اٹامک انرجی آرگنائزیشن کے سابق سربراہ محمد مہدی تہرانچی ، نظریاتی طبیعیات دان اور تہران کی اسلامی آزاد یونیورسٹی کے صدر اور عبدالحمید منوشار  بھی مارے گئے ۔​​​

مجھے ایک کہانی یاد آرہی ہے ۔ چینیوں نے خود کو حملوں سے بچانے کے لیے ‘ دیوارِ چین ‘ تعمیر کی ۔ لیکن حملے کبھی نہیں رکے کیونکہ ملک  کے اندر غدار دشمنوں کے لیے دروازے کھول دیتے تھے ۔ ایران نے زیادہ بڑی قیمت ادا کی ہے کیونکہ اسرائیل کی طرف سے ایسا حملہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا تھا جب تک کہ اسرائیل کو ‘ خفیہ ‘ اور ‘ کھلی ‘ حمایت حاصل نہ ہو ۔

آخر کیسے اسرائیل نے ایران کے چھ شہروں پر اتنی درستگی کے ساتھ  حملہ کیا ؟ اسرائیل کو کیسے پتہ چلا کہ ایران کے اعلیٰ حکام کے  گھر کہاں ہیں اور وہ کہاں سو رہے تھے ؟

اس کا سہرا مخبروں کے اس وسیع نیٹ ورک کو جاتا ہے، جو اسرائیل نے ایران کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے اندر بنا رکھا ہے ۔

ایران میں ہلاکتوں کی فہرست بہت طویل ہے

ہلاکتوں کی ایک طویل فہرست ہے اور ایران کی جوہری تنصیبات پر بم دھماکوں کا بھی ایک سلسلہ ہے ، جو ایران کے اندر موجود جاسوسوں کی وجہ سے ممکن ہوا ہے ۔ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کے ٹھکانے کی جانکاری کس نے دی ، جس کے نتیجے میں ان کا قتل ہوا ؟ نیوکلیئر سائنسدان محسن فخر زادہ کو اس وقت ہلاک کر دیا گیا جب ان کے ٹھکانے کی جانکاری لیک کی گئی ۔

گزشتہ 19مئی 2024 کو ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اور وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان کو قتل کر دیا گیا ۔ ایران نے سرکاری طور پر اسے ایک حادثہ قرار دیا  تھا ۔ لیکن یہ حادثہ مخبروں کے بغیر کبھی نہیں ہو سکتا تھا ۔

اس کے بعد 31 جولائی 2024 کو حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ کو تہران کے انتہائی محفوظ علاقے میں قتل کر دیا گیا ، وہ بھی اس وقت جب مسعود پیزشکیان صدر کے عہدے کا حلف اٹھانے والے تھے ۔ یہ پیزشکیان کے لیے ذاتی دھچکا تھا ۔

اسرائیل نے یہاں تک مذاق اڑایا کہ ہانیہ کو رئیسی کے جنازے میں مارا جانا تھا لیکن اسے کسی اور دن قتل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ لبنان کے حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ اور ایران کے جنرل عباس نیلفروشان  کوبھی اسرائیل نے ملبے میں دفن کر دیا ۔ یہ سب ایسے  ہی ‘ اندرونی لوگوں  ‘ کی مدد سے ہوا ۔

کیا ہم نے کبھی ایران میں ہائی پروفائل قتل کے بعد کسی تحقیقاتی کمیشن کے نتائج کے بارے میں سنا ہے ؟ شاید نہیں ۔ دو بار منتخب ہونے والے سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے ، جن کا پرچہ نامزدگی اس بار بھی مسترد کر دیا گیا ، ایک بار ایک تلخ سچائی سے پردہ اٹھایا تھا ۔

انہوں نے بتایا تھا کہ ان کے دور میں انہوں نے ایران کے سیکورٹی اداروں میں موساد کے ایجنٹوں کی تحقیقات کے لیے ایک خفیہ سروس یونٹ قائم کیا تھا اور پتہ چلا کہ اس کا سربراہ 20 دیگر افراد کے ساتھ موساد کے پے رول پر تھا ۔

اسرائیل نے اہم ایرانی تنصیبات پر بمباری کی

رئیسی کے قتل کے بعد ایران کو اسرائیل پر حملہ کرنے میں پورے دو ماہ ( اکتوبر 2024 ) لگے ، کیوں ؟

اسرائیل نے جوابی کارروائی کی، لیکن ایران کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا سکا، کیونکہ ایران نے خود کو نئے روسی دفاعی نظام کے ساتھ جوڑ رکھا تھا ۔ یہ وہی نظام ہے جو اس بار ناکام ہوا ۔ اسرائیل نے عراق میں امریکی فوجی اڈوں سے ایران کے اندر اہم تنصیبات پر بمباری کی ۔ اردن نے اسرائیل کو اپنی فضائی حدود بھی فراہم کر رکھی ہیں ۔ اسرائیل ایران کے اندر تمام ریڈار وغیرہ کو جام کرنے میں کامیاب رہا ہے ۔

تیرہ جون کو، اسرائیل نے دن دہاڑے 200 لڑاکا بمبار طیاروں کا استعمال کرتے ہوئے ایران پر حملہ کیا ۔ اسرائیل سائنسدانوں کو ان کے گھروں میں گھس کر کیسے مار سکتا ہے ؟

عالمی میڈیا میں اس وقت ایسی خبروں کی بھرمار ہے، جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ موساد کے کمانڈوز پہلے ہی ایران میں گھس گئے تھے۔ انہوں نے خفیہ ڈرون لگائے ، میزائلوں کی اسمگلنگ کی اور ایرانی دفاعی نظام کو نشانہ بنانے کے لیے ایران کی سطح سے فضا تک میزائل ڈیفنس کے قریب درست گائیڈڈ ہتھیار نصب کیے ۔

اسرائیل نے ویڈیوز جاری کیے ہیں کہ  کیسے اس نے خفیہ طور پر اسٹرائیک سسٹم قائم کیا ، جو ایرانی فضائی دفاعی نظام پر فائر کیے گئے ۔ یہ روس میں یوکرین کے ‘ آپریشن اسپائیڈر ویب ‘ سے بہت ملتا جلتا ہے ، جس میں سینکڑوں ڈرون روس میں بھیجے گئے تھے ۔ اسرائیل نے اس حملے کو ‘ آپریشن رائزنگ لائن ‘ کا نام دیا ہے جس کا مطلب ہے کہ حملے جاری رہیں گے ۔

مشرق وسطیٰ کا تقریباً ہر ملک ایران کے خلاف ہے ۔ 22 عرب ممالک امریکہ کے سیٹلائٹ ہیں ۔ مصر ، اردن ، متحدہ عرب امارات ، سعودی عرب ، قطر ، عمان وغیرہ ہمیشہ امریکہ کی طرف رہے ہیں ۔ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے ان ممالک نے غزہ ، فلسطین میں اسرائیلی نسل کشی پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے ۔ غزہ میں روزانہ اوسطاً 100 افراد مارے جا رہے ہیں ۔

ایران کو سخت امریکی پابندیوں کا سامنا ہے

کوئی بھی اسٹریٹجسٹ  بہت آسانی سے کہہ سکتا ہے کہ امریکی صدر کا مشرق وسطیٰ کا آخری دورہ ( 13-16 مئی ) ایران پر آنے والے اسرائیلی حملے کے پیش نظر عرب ریاستوں کی حمایت حاصل کرنا تھا ۔ ایران 50 سال سے زیادہ عرصے سے سخت ترین امریکی پابندیوں کا سامنا کر رہا تھا، لیکن اس نے اسے برداشت کیا ہے ۔ مشرق وسطیٰ میں تنازعہ روس اور چین کے حمایت یافتہ ایران بمقابلہ امریکہ کی حمایت یافتہ اسرائیل اور عرب ریاستوں کے درمیان ہے ۔ فلسطین کی نسل  کشی عربوں یا ترکوں کے لیے ‘ تشویش کا معاملہ ‘ نہیں ہے ۔

ایران نے فلسطین میں حماس ، لبنان میں حزب اللہ ، شام میں بشارالاسد اور یمن میں انصاراللہ کی مدد کی ، جو اسرائیل اور امریکہ کے خلاف محاذ تھے ۔​​​ فلسطین کی نسل کشی کے دوران ترکی خاموش تماشائی بنا رہا ۔ لیکن اس نے الجولانی کو شام میں اسد کا تختہ الٹنے میں مدد کی اور کھیل اسرائیل کے حق میں جھک گیا ۔      الجولانی اور اسرائیل شام میں ایرانی تنصیبات پر حملوں میں ایک ساتھ ہیں ۔ روس ، جس نے گزشتہ دہائی میں اسد کی مدد کی تھی ، کو بھی اپنے فوجی اڈے چھوڑنے پڑے ۔ روس فروری 2022 سے یوکرین کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے جسے نیٹو اور امریکہ نے مسلح کیا ہے ۔ لیکن ایران میں موساد کی دراندازی کو دیکھتے ہوئے اسرائیل اب آیت  اللہ  خامنہ ای کو نشانہ بنانے کے بہت قریب ہوسکتا ہے ۔

(حیدر عباس اتر پردیش کے سابق ریاستی انفارمیشن کمشنر اور سیاسی تجزیہ کار ہیں۔)