پہلے مسلمانوں کو سزا دینے کے لیے قتل عام کیا جاتا تھا، بھیڑ ان کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالتی تھی، ان کو نشانہ بناکر قتل کیا جاتا تھا، وہ حراستوں اورفرضی انکاؤنٹر میں مارے جاتے تھے یا جھوٹے الزامات میں قید کیے جاتے تھے۔ اب ان کی جائیدادوں کو بلڈوز سے منہدم کردینا اس فہرست میں شامل ایک نیا ہتھیار ہے۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکمرانی والی ریاستوں کی سرکاری ایجنسیوں اور عملے نےمسلمانوں کے گھروں، دکانوں اور ان کے کاروبار کی جگہوں پر بلڈوزر چلا کر انہیں گرانے کی شروعات کی ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کے حکومت مخالف مظاہروں میں شریک ہونے کے شبہ پر کیا جا رہا ہے۔ ان ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے اس پالیسی کو اپنی انتخابی مہم میں فخر یہ مشتہر کیا ہے۔
میرے ذہن میں یہ ایک ایسے لمحے کی نشاندہی ہے جب ایک انتہائی ناقص، کمزور جمہوریت زبردست عوامی حمایت کے ساتھ کھلے عام اور ڈھٹائی سے ایک مجرمانہ ہندو فسطائی ادارے میں تبدیل ہو چکی ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ ہم ہندو سنتوں کا چوغہ پہنے غنڈوں کے راج میں جی رہے ہیں۔ ان کے لیے مسلمان اب دشمن نمبر ایک ہیں۔
ماضی میں جب مسلمانوں کو سزائیں دی جاتی تھیں تو ان کا قتل عام کیا جاتا تھا، بھیڑ ان کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالتی تھی، انہیں نشانہ بناکر قتل کیا جاتا تھا، وہ حراستوں اور فرضی انکاؤنٹر میں مارے جاتے تھے،جھوٹے الزامات میں قید کیے جاتے تھے۔ ان کے گھروں اور کاروبار پر بلڈوزر چلا کر گرانا اس فہرست میں شامل ایک نیا اور انتہائی مؤثر ہتھیار ہے۔
جس طرح سے اس کی خبریں سنائی جا رہی ہیں اور ان کے بارے میں لکھا جا رہا ہے، اس میں بلڈوزر کو ایک قسم کی غیبی طاقت دے دی گئی ہے، جو بدلہ لینے کے لیے آئی ہے۔ ‘دشمن کو کچلنے’ کے لیے استعمال ہو رہی لوہے کے بڑے پنجوں والی یہ خوفناک مشین، شیطانوں کا قتل عام کرنے والے اساطیری دیوتا کا ایک مشینی ورژن بنا دی گئی ہے۔ یہ ایک نئے، بدلہ لینے کو بے چین ہندو راشٹر کا آلہ بن چکی ہے۔
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے اپنے حالیہ ہندوستانی دورے میں بلڈوزر کے ساتھ تصویر کھنچوائی۔ یہ یقین کرنا مشکل ہے کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ اصل میں کیا کر رہے ہیں اور وہ کس کی حمایت میں کھڑے ہو رہے تھے۔ ورنہ آخر کیوں کسی ایک ملک کا سربراہ ایک سرکاری دورے پر ایک بلڈوزر کے ساتھ تصویر کھنچوانے جیسی بیہودہ حرکت کرے گا؟
اپنے دفاع میں سرکاری عملہ زور دیتا ہے کہ وہ مسلمانوں کو نشانہ نہیں بنا رہا ہے، بلکہ وہ بس غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ عمارتوں کو گرا رہا ہے۔ یہ صرف ایک قسم کی میونسپل صفائی مہم ہے۔ وہ وجہ آپ کو یقین دلانے کے لیے ہےبھی نہیں۔ یہ تو مذاق اڑانے اور لوگوں میں خوف پیدا کرنے کے لیے کہا جا رہا ہے۔ ورنہ حکومتیں اور زیادہ تر ہندوستانی یہ بھی جانتے ہیں کہ ہندوستان کے ہر ایک قصبے اور شہر میں زیادہ تر تعمیرات یا تو غیر قانونی ہیں یا جزوی طور پر ہی قانونی ہیں۔
مسلمانوں کے گھروں اور کاروباری اداروں کو بغیر کسی نوٹس، بنا کسی اپیل یا سماعت کا موقع دیے صرف انہیں سزادینے کے لیے مسمار کرنے سے ایک ساتھ کئی مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے۔
بلڈوزر کے دور سے پہلے مسلمانوں کو سزا دینے کا کام قاتل ہجوم اور پولیس کیا کرتی تھی – جو یا تو براہ راست خود ہی انہیں سزا دیاکر تی تھی یا جرم کو نظر انداز کر دیتی تھی۔ لیکن جائیدادوں کو مسمار کرنے میں نہ صرف پولیس کا عمل دخل ہوتا ہے بلکہ اس میں میونسپل حکام، میڈیا اور عدالتوں کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔
میڈیا کا وہاں ہونا ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ ایسے واقعات کو شیطانوں کی تباہی کے جشن کے طور پر مشتہر کرے۔ اور عدالتوں کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ آنکھیں بند کر لیں اور کوئی مداخلت نہ کریں۔
اس کا مطلب مسلمانوں کو یہ بتانا ہوتا ہے کہ اب تم بے سہارا ہو۔ کوئی بھی تمہاری مدد کے لیے نہیں آئے گا۔ تم اپنی فریاد لے کر کہیں نہیں جا سکتے۔ اس پرانی جمہوریت کو صحیح راستے پر رکھنے کے لیے بنایا گیا ہر قانون اور ہر ادارہ اب ایک ہتھیار ہے جسے تمہارےخلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔
دوسری کمیونٹی کے حکومت مخالف مظاہرین کی املاک کو شاذ و نادر ہی اس انداز میں نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، 16 جون 2022 کو بی جے پی حکومت کی فوج میں بھرتی کی نئی پالیسی سے ناراض دسیوں ہزار نوجوانوں نے پورے شمالی ہندوستان میں پرتشدد احتجاج کیا۔ انہوں نے ٹرینوں اور گاڑیوں کو جلا دیا، سڑکیں بلاک کر دیں اور یہاں تک کہ ایک قصبے میں تو انہوں نے بی جے پی کا دفترتک جلا دیا۔ لیکن ان میں سے زیادہ تر مسلمان نہیں ہیں۔اس لیے ان کے گھر اور خاندان محفوظ رہیں گے۔
سال 2014 اور 2019 کے عام انتخابات میں بی جے پی نے یہ ثابت کیا ہے کہ اسے عام انتخابات میں پارلیامنٹ میں اکثریت کے لیے ہندوستان کی 20 کروڑ مسلم آبادی کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے۔ تواصل میں ہم جو دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک طرح سے اس آبادی کو ہر طرح کے حق اور خصوصی طور پر ووٹ کے حق سے محروم کر دیاجاتا ہے تب آپ کا کوئی وجود نہیں رہ جاتا۔ آپ بے معنی ہو جاتے ہیں ۔ آپ کا استعمال ہو سکتا ہے، آپ کے ساتھ بدتمیزی ہو سکتی ہے۔ آج ہم جو دیکھ رہے ہیں، وہ یہی ہے۔
جب بی جے پی کے اعلیٰ عہدیداروں نے عوامی طور پر ہر اس چیز کی توہین کی جسے مسلمان سب سے مقدس مانتے ہیں، تب بھی اپنے اصل حامیوں کے بیچ پارٹی کی حمایت پر کوئی آنچ نہیں آئی اور نہ ہی اس کی کسی طرح کی کوئی معنی خیز تنقیدہوئی۔
اس توہین کے ردعمل میں مسلمانوں کی جانب سے اہم احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ یہ احتجاج سمجھ میں آتے ہیں کیونکہ یہ واقعہ اس قدر تشدد اور بربریت کے پس منظر میں رونما ہوا ہے۔
بس جو بات ناقابل فہم تھی وہ یہ کہ جیسا ہوتا ہی ہے کچھ مشتعل افراد نے توہین رسالت کے قانون کا مطالبہ کیا۔ بی جے پی تو شاید اسے خوشی سے نافذ کرنا چاہے گی، کیونکہ تب اس قانون کے تحت ہندو راشٹر واد کے بارے میں تقریباً ہر قسم کا تبصرہ جرم بن جائے گا۔ یہ ہر اس تنقید اور فکری تبصرے کو عملی طور پر خاموش کردے گا جو اس سیاسی اور نظریاتی دلدل کے بارے میں کی جاتی ہے جس میں ہندوستان ڈوب رہا ہے۔
احتجاج کرنے والے دوسرے افراد نے، جیسے کہ ایک اہم سیاسی جماعت، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) سے وابستہ ایک شخص نے پھانسی دینے اور لوگوں کا سر قلم کرنے کا مطالبہ کیا۔یہ تمام واقعات مسلمانوں کے بارے میں بتائے جانے والے ہر اس دقیانوسی تصور کو ثابت کرنے کے لیے استعمال میں لائے گئے ، جس کو ہندو رائٹ ونگ بڑی محنت کرکے بناتا ہے۔
توہین کی اونچی دیواروں اور دونوں طرف سے آ رہی موت کی دھمکیوں کے درمیان کسی بھی طرح کی کوئی بات چیت ممکن نظر نہیں آتی۔
ان مظاہروں کے بعد ہونے والے پولرائزیشن نے بس یہی کیا کہ بی جے پی کی حمایت میں اضافہ ہو گیا۔ توہین کرنے والی بی جے پی ترجمان کو پارٹی سے معطل کر دیا گیا ہے، لیکن ان کے کیڈر نے انہیں کھلے عام اپنا لیا ہے۔ ان کا سیاسی مستقبل روشن نظر آتا ہے۔
آج ہم ہندوستان میں جس دور میں رہ رہے ہیں وہ ‘اسکارچڈ ارتھ پالیسی‘ کی ایک سیاسی شکل ہے۔ اس پالیسی کے تحت دشمن کے لیے مفید ہر چیز کو تباہ کر دیا جاتا ہے، تاکہ وہ انہیں استعمال نہ کر سکے۔
ہز چیز، ہر ادارہ جسے بنانے میں برسوں لگے، تباہ کیے جا رہے ہیں۔ یہ حیران کن ہے۔ نوجوانوں کی ایک نئی نسل اس طرح پروان چڑھے گی کہ انہیں کوئی حقیقت معلوم نہیں ہوگی، سوائے ان بے بنیاد باتوں کے جو ان کے ذہنوں میں بھری گئی ہوں گی۔ ان کا اپنے ملک کی تاریخ اور اس کی ثقافتی پیچیدگیوں سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
یہ حکومت 400 ٹی وی چینلوں، لاتعداد ویب سائٹس اور اخباری میڈیا کی مدد سے مذہبی بنیاد پرستی اور نفرت کو ہوا دیتی رہتی ہے۔ اس میں ہندو مسلم علیحدگی کے دونوں اطراف سے اٹھنے والے،زہر فشانی کرتے خستہ حال کردار آگ لگاتے رہتے ہیں۔
ہندو رائٹ ونگ کے کیڈر کے اندر ایک نیا، جارحانہ انتہا پسند رائٹ ونگ ہے جس میں ایک طرح کی بے قراری نظر آ رہی ہے، جس پر قابو پانےمیں مودی حکومت کو بھی مشکل پیش آ رہی ہے۔ کیونکہ یہ حصہ بی جے پی کا حقیقی حامی ہے۔
سوشل میڈیا پر اب مسلمانوں کی نسل کشی کا مطالبہ روزمرہ کی بات بن چکی ہے۔ ہم ایک ایسے مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں سے واپسی ممکن نظر نہیں آتی۔ اب ہمیں ، جو اس کے خلاف کھڑے ہیں اورخصوصی طو رپر ہندوستان کے مسلمانوں کو، جس بات پر سوچنے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ ہم اس سے کیسے بچ کر نکل سکتے ہیں؟ کیسے ہم اس کی مخالفت کر سکتے ہیں؟
ان سوالوں کا جواب دینا مشکل ہے، کیونکہ آج ہندوستان میں احتجاج کو ہی ، چاہے وہ کتنا ہی پرامن کیوں نہ ہو، دہشت گردی جیسا گھناؤنا جرم بنا دیا گیا ہے۔