اس رپورٹ کوعظیم پریم جی یونیورسٹی کے سینٹر آف سسٹینبل امپلائمنٹ کی طرف سے شائع کیا گیا ہے۔ آزاد ہندوستان میں پہلی بار نوکریوں میں اس طرح کی گراوٹ درج ہوئی ہے۔
نئی دہلی : ملک میں2011-2012 اور 2017-2018 کے بیچ نوکریاں گھٹی ہیں۔ پچھلے چھ سال کے دوران 90 لاکھ نوکریاں گھٹی ہیں۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، اس رپورٹ کو عظیم پریم جی یونیورسٹی کے سینٹر آف سسٹینبل امپلائمنٹ کی طرف سے شائع کیا گیا ہے۔ اس کو سنتوش مہروترا اور جے کے پری دا نے تیار کیا ہے۔آزاد ہندوستان میں پہلی بار نوکریوں میں اس طرح کی گراوٹ درج ہوئی ہے۔
مہروترا اور پری دا کے مطابق، 2011-2012 سے 2017-2018 کے دوران کل روزگار میں 90 لاکھ کی کمی آئی ہے۔ ایسا آزادہندوستان میں پہلی بار ہوا ہے۔ مہروتراجواہر لال نہرو یونیورسٹی میں اکانومکس کے پروفیسر ہیں، جبکہ جی کے پری دا پنجاب سینٹرل یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔رپورٹ کا خلاصہ حال ہی میں ہوئی اس اسٹڈی سے الگ ہے، جسے لویش بھنڈاری اور امریش دوبے نے تیار کیا تھا۔ ان دونوں کو بعد میں وزیر اعظم کی اکانومک ایڈوائزی کاؤنسل میں شامل کیا گیا۔
لویش بھنڈاری اور امریش دوبے نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ2011-2012 میں کل نوکریاں 43.3 کروڑ تھیں جو 2017-2018 میں بڑھ کر 45.7 کروڑ ہو گئی۔حالاں کہ مہروترا اور پری داکی رپورٹ کے مطابق، 2011-2012 میں نوکریاں 47.4 کروڑ سے گھٹ کر 2017-2018 میں 46.5 کروڑرہیں۔گزشتہ ایک اگست کو اس پر جے این یو کے محقق ہمانشو نے منٹ میں اپنے مضمون میں لکھاتھا کہ2011-2012 میں کل نوکریاں 47.25 کروڑ سے گھٹ کر 2017-2018 میں 45.70 کروڑرہ گئیں، یعنی بیتے چھ سالوں میں 1.5 کروڑ سے زیادہ نوکریاں ختم ہو گئیں۔ دوسرے لفظوں میں کہیں تو 2011-2012 سے 2017-2018 کے بیچ ہر سال لگ بھگ 26 لاکھ نوکریاں گھٹی ہیں۔
ایسے میں بھنڈاری اور دوبےاور مہروترااور پری دا کے مطالعے میں نمایاں فرق دیکھا جا سکتا ہے۔یہ مطالعہ نیشنل سیمپل سروے آفس (این ایس ایس او)کے روزگارسروے2004-05 اور 2011-12 کے علاوہ پیریاڈک لیبر فورس سروے (پی ایل ایف ایس) 2017-18 کے اعداد وشمار کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔ ایسے میں بھنڈاری اور دوبے اور مہروترا اور پری دا کے 2011-12 کے روزگاراعداد وشمار میں لگ بھگ چار کروڑ کا فرق کیسے ہے؟
سادہ لفظوں میں کہیں تو ان سبھی اکادمک لوگوں کے ذریعے استعمال میں لائے گئے روزگار اور بے روزگاری کا تناسب تو یکساں ہے لیکن اعداد وشمار الگ الگ ہیں۔ دو وجہ ہو سکتی ہیں۔ پہلا ملک کی کل آبادی کے تجزیے کے لیے استعمال کیا گیا طریقہ کار۔ اگرآبادی کا اعداد و شما رزیادہ ہوگا تو روزگار کی تعداد میں بھی اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔
بھنڈاری اور دوبے نے 2017-2018 میں دیش کی کل آبادی 1.36 ارب مانی ہے۔ وہیں، مہروترا اور پریدا نے اسے 1.35 ارب مانا ہے۔ 2017-2018 کے لیے ورلڈ بینک نے آبادی 1.33 ارب مانی ہے۔ ہمانشو نے جی ڈی پی کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق1.31 ارب کی آبادی کے اعداد وشمار کا استعمال کیا۔ہندوستان کی آبادی کو لے کر شک بڑھا ہے، کیونکہ سرکار نے ابھی تک 2011 کی مردم شماری کی بنیاد پر آبادی سے متعلق رپورٹ جاری نہیں کی ہے۔ سرکار کواصولوں کے لحاظ سے اس کو2016 میں جاری کر دینا چاہیے تھا۔
بھنڈاری اور دوبے کے اندازے اور باقی کے اندازے کے بیچ فرق کی دوسری وجہ یہ ہے کہ بھنڈاری اور دوبے نے روزگار کے ‘پرنسپل ا سٹیٹس’ کا استعمال کیا ہے جبکہ باقی نے ‘سبسیڈیری اسٹیٹس’ کا استعمال کیا ہے۔روزگار کے صحیح اعداد وشمار پر پہنچنے کے لیے ‘پرنسپل ا سٹیٹس’ اور ‘سبسیڈیری اسٹیٹس’ دونوں کا ہی استعمال کیا جاتا ہےلیکن اگر صرف‘پرنسپل اسٹیٹس’ کا استعمال کیا جانا ہے تو اس میں دیکھا جائے گا کہ کوئی فرد 365 دن میں سے 182 دن سے زیادہ دنوں تک کام کرتا ہو اور ‘سبسیڈیری اسٹیٹس’ میں دیکھا جاتا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں فرد کے پاس کم سے کم 30 دن تک کام رہا ہو۔ صرف ‘پرنسپل ا سٹیٹس’ کا انتخاب کرکے روزگار اور بے روزگاری دونوں کاصحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔