ہندوستان اپنی مصنوعات کے لئے بازار تک رسائی کے معاملے کو زور و شور سےاٹھا رہا تھا ، جس کا حل نہیں نکالا جا سکا۔ آر سی ای پی میں دس آسیان ممالک اوران کے چھ آزاد کاروبای شراکت دار چین، ہندوستان، جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اورنیوزی لینڈ شامل ہیں۔
نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے سوموار کو کہا کہ ہندوستان آر سی ای پی کے معاہدہ میں شامل نہیں ہوگا۔ ہندوستان کےذریعے اٹھائے گئے مسائل اور خدشات کے اطمینان بخش حل نہیں ہونے پر اس نے 16 ممالک کےدرمیان ہونے والے اس معاہدہ سے باہر رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔وزیر اعظم مودی نے آر سی ای پی چوٹی کانفرنس میں اپنے خطاب کے دوران ہی معاہدہ میں شامل نہیں ہونے کا اعلان کیا۔ اس کانفرنس میں دنیا کے کئی رہنما موجودتھے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ آر سی ای پی معاہدہ کو لےکر چل رہے مذاکرہ میں ہندوستان کے ذریعے اٹھائے گئے مسائل اور خدشات کو دور نہیں کیا جا سکا ہے۔ اس کے مدنظر ہندوستان نے اس سے الگ رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ مودی نے کہا، ‘ آرسی ای پی معاہدے کی موجودہ شکل اس کے اصل مقصد اور اس کے رہنما اصولوں کو پوری طرح سے ہدف نہیں بناتی ہے۔ اس میں ہندوستان کے ذریعے اٹھائے گئے باقی مسائل اور خدشات کا اطمینان بخش حل نہیں کیا جا سکا ہے۔ ایسے میں ہندوستان کے لئے آر سی ای پی معاہدہ میں شامل ہونا ممکن نہیں ہے۔ ‘
PM @narendramodi participated at the 3rd RCEP Summit in Bangkok. He conveyed India's decision not to join the RCEP Agreement based on the current global economic situation as well as on the grounds of fairness and balance. 1/3 pic.twitter.com/tEgXerBolD
— Raveesh Kumar (@MEAIndia) November 4, 2019
ذرائع نے بتایا کہ چین کی طرف سے چوٹی کانفرنس کے دوران آر سی ای پی معاہدہ کو پورا کرنے کو لےکر کافی دباؤ بنایا جا رہا تھا۔ چین کے لئے یہ اس کی امریکہ کے ساتھ چل رہی تجارتی جنگ کے اثر کے درمیان تجارت میں توازن لانے میں مددگار ثابت ہوتا۔ ساتھ ہی وہ مغربی ممالک کو حلقے کی اقتصادی طاقت کا بھی اندازہ کرا پاتا۔ہندوستان اپنی مصنوعات کے لئے بازار تک رسائی کے معاملے کو زور و شور سےاٹھا رہا تھا۔ ہندوستان خصوصی طور پر اپنے گھریلو بازار کو بچانے کے لئے کچھ چیزوں کی محفوظ فہرست کو لےکر بھی مضبوط رخ اپنائے ہوا تھا۔
ملک کے کئی صنعتوں کو ایسا خدشہ ہے کہ ہندوستان اگر اس معاہدہ پر دستخط کرتا ہے تو ملک میں چین کی سستی زراعت اور صنعتی مصنوعات کا سیلاب آ جائےگا۔ وزیر اعظم نے کہا، ‘ہندوستان وسیع تر علاقائی انضمام کے ساتھ آزاد تجارت اور اصول پر مبنی بین الاقوامی نظام کا حامی ہے۔ آر سی ای پی مذاکرہ کے آغاز کےساتھ ہی ہندوستان اس کے ساتھ تخلیقی اور معنی خیز طریقہ سے وابستہ رہا ہے۔ہندوستان نے آپسی معاہدہ کے ساتھ ‘لو اور دو ‘ کے جذبہ کے ساتھ اس میں توازن لانےکے لئے کام کیا ہے۔’
مودی نے کہا، ‘جب ہم اپنے چاروں طرف دیکھتے ہیں تو سات سال کی آر سی ای پی مذاکرہ کے دوران عالمی اقتصادی اور تجارتی منظرنامہ کے ساتھ کئی چیزوں میں تبدیلی آئی ہے۔ ہم ان تبدیلیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ ‘آسیان رہنماؤں اور چھ دیگر ممالک نے نومبر، 2012 میں نوم پیہہ میں 21ویں آسیان چوٹی کانفرنس کے دوران آر سی ای پی مذاکرہ کا آغاز کیا تھا۔ آرسی ای پی مذاکرہ کو شروع کرنے کا مقصد ایک جدید، وسیع، اعلیٰ معیار والا اور مفید اقتصادی شراکت داری قرار کرنا تھا۔
مودی نے کہا، ‘جب میں آر سی ای پی قرار کو تمام ہندوستانیوں کے مفادات سےجوڑکر دیکھتا ہوں، تو مجھے مثبت جواب نہیں ملتا۔ ایسے میں نہ تو گاندھی جی کاکوئی جنتر اور نہ ہی میرا اپنا ضمیر آر سی ای پی میں شامل ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ ‘وزارت خارجہ میں سکریٹری (سابق) وجے ٹھاکر سنگھ نے نامہ نگاروں کو بتایاکہ ہندوستان نے چوٹی کانفرنس کے دوران آر سی ای پی قرار میں شامل نہیں ہونے کےاپنے فیصلے کی اطلاع دے دی ہے۔ ہمارا یہ فیصلہ موجودہ عالمی صورتحال کے جائزہ کےعلاوہ معاہدہ منصفانہ اور متوازن نہیں ہونے کی بنیاد پر لیا گیا ہے۔
ہندوستان کے کئی اہم مسائل تھے جن کو حل نہیں کیا گیا۔ آر سی ای پی میں دس آسیان ممالک اور ان کے چھ آزاد تجارتی شراکت دار چین، ہندوستان، جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔حالانکہ، ہندوستان نے اب آر سی ای پی سے باہر نکلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگرآر سی ای پی معاہدہ کو آخری شکل دے دی جاتی تو یہ دنیا کا سب سے بڑا آزاد تجارتی حلقہ بن جاتا۔ اس میں دنیا کی تقریباً آدھی آبادی شامل ہوتی اور عالمی تجارت کا 40 فیصد اورورلڈ جی ڈی پی کا تقریباً35 فیصد اس کے دائرے میں ہوتا۔
ذرائع نے کہا کہ ہندوستان کو چھوڑکر آر سی ای پی کے تمام 15 ممبر ممالک سوموار کی چوٹی کانفرنس کے دوران قرار کو آخری شکل دینے کو لےکر متفق تھے۔ہندوستان کے اس فیصلے سے ہندوستانی کسانوں، مائیکرو، چھوٹے اور منجھولےکاروبار(ایم ایس ایم ای) اور ڈیری مصنوعات کا مفاد محفوظ ہوگا۔ ذرائع نے کہا کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جبکہ وزیر اعظم مودی کی رہنمائی میں ہندوستان نے عالمی تجارت اور اس سے متعلق مذاکرہ میں سخت رخ اختیار کیا ہے۔
امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ بھی مودی کو مشکل مذاکرہ کار قرار دے چکے ہیں۔حالانکہ، ٹرمپ کو خود بھی سخت رخ اپنانے کے لئے جانا جاتا ہے۔ سرکاری ذرائع نے کہا کہ اس بار ہندوستان ‘فرنٹ فٹ’پر کھیلا ہے اور اس نے تجارتی نقصان کو لےکر ملک کے خدشات کو اٹھایا ہے۔ ساتھ ہی ہندوستان نےہندوستانی خدمات اور سرمایہ کاری کے لئے دیگر ممالک کو اپنے بازاروں کو اورکھولنے کا دباؤ بھی بنایا ہے۔
یو پی اے حکومت کی مدت کار کے دوران ہندوستان نے 2007 میں ہندوستان-چین ایف ٹی اےکا امکان تلاش کرنے اور 2011-12 میں چین کےساتھ آر سی ای پی مذاکرہ میں شامل ہونے کی رضامندی دی تھی۔ ذرائع نے کہا کہ یو پی اے کے دوران لئے گئے ان فیصلوں کی وجہ سے آر سی ای پی کے ممالک کے ساتھ ہندوستان کا تجارتی نقصان جو 2004 میں سات ارب ڈالر تھا وہ 2014 میں 78 ارب ڈالر پرپہنچ گیا۔ اس وقت ہوئے ان فیصلوں سے ہندوستانی گھریلو صنعت ابھی تک متاثر ہیں۔
سنیچر کو ہوئی کانفرنس میں 16 آر سی ای پی ممالک کے وزیرتجارت ہندوستان کے ذریعے اٹھائے گئے زیرالتوا مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ حالانکہ، آسیان چوٹی کانفرنس سے الگ کچھ زیر التوا مسائل کو سلجھانے کے لئے پردے کے پیچھے بات چیت چلتی رہی۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)