ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے 27 فروری کو ہدایات جاری کر کےتمام ممالک سے کہا تھا کہ وہ اس وبا سے لڑنے کے لئے اپنے یہاں بھاری مقدار میں حفظان صحت کے آلات کا اسٹاک اکٹھا کر لیں۔ حالانکہ اس کے باوجود ہندوستان نےماسک، دستانے، وینٹی لیٹر جیسے ضروری آلات کی ایکسپورٹ جاری رکھی۔
نئی دہلی: ہندوستان میں کورونا وائرس کے انفیکشن کا بحران لگاتار بڑھتا جارہا ہے۔ ہر دن متاثرین کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ حالانکہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ملک کے بڑے ہسپتالوں میں حفظان صحت کے آلات میں کافی کمی دیکھی جارہی ہے۔دہلی کے ایمس کےریزیڈنٹ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے اپنے ڈائریکٹر کو خط لکھکرہسپتال میں حفظان صحت کے آلات جیسے سرجیکل ماسک ، دستانے وغیرہ کی کمی پرتشویش کا ا ظہارکیاتھا۔ آج ایک بار پھر سے ایمس کے ڈاکٹروں نے ماسک، دستانےکی کمی کو لےکر شکایت کی ہے۔
کئی سارے ڈاکٹروں نے سوشل میڈیا کے ذریعے بھی اس بارے میں لوگوں کو واقف کرایا ہے۔ تازہ معاملہ لکھنؤ کے کنگ جارج میڈیکل کالج کا ہے، جہاں کے ریزیڈنٹ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن نے خط لکھکر حفظان صحت کے آلات کی کمی پرتشویش کا ا ظہار کیا ہے۔اب یہاں بڑا سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر کیوں اس طرح کی کمی ہسپتالوں میں ہورہی ہے اور ایسا کرکے کیوں حکومت ڈاکٹروں، نرسوں، وارڈ بوائے سمیت دیگر اہلکاروں کی حفاظت کے ساتھ کھلواڑ کر رہی ہے۔ اس سوال کا جواب حکومت کے ذریعے حال کے کچھ دنوں میں لئے گئے فیصلوں میں ہے۔
ہندوستان میں پہلی بار 30 جنوری کو کووڈ-19 (کورونا وائرس) کے انفیکشن کامعاملہ سامنے آیا تھا۔ اس کے اگلے ہی دن 31 جنوری 2020 کو مرکزی وزارت تجارت وصنعت نے نوٹیفکیشن جاری کر کے تمام طرح کے نجی حفاظتی آلات(پی پی ای) جیسےسرجیکل ماسک ، دستانے، وینٹی لیٹر وغیرہ کی ایکسپورٹ پر فوراً روک لگا دی۔
حالانکہ کچھ ہی دن بعد مرکزی حکومت نے اپنے فیصلے میں ترمیم کیا۔ محکمہ تجارت نے آٹھ فروری 2020 کو ایک حکم جاری کر کے سرجیکل ماسک اور این بی آر دستانےکو چھوڑکر تمام طرح کے دستانےکیاایکسپورٹ کو منظوری دے دی۔ دھیان رہے کہ یہ حفاظتی سامان ڈاکٹروں کے لئے بےحد اہم ہوتے ہیں۔
واضح ہو کہ اس دوران دنیا بھر میں کورونا انفیکشن کے معاملے بڑھتے جا رہےتھے۔ ہندوستان میں بھی اس کو لےکر خدشات بڑھ رہے تھے۔ حالانکہ حکومت یہ دعویٰ کرتی رہی کہ انہوں نے اس وائرس کو روکنے کے سارے انتظام کر لئے ہیں۔لیکن سچائی یہ ہے کہ آہستہ آہستہ کرکے حفاظتی سامان کی ایکسپورٹ میں ڈھیل دی جا رہی تھی۔ عالم یہ ہے کہ حکومت نے 31 جنوری کو جاری نجی حفاظتی سامان کی ایکسپورٹ پر بین لگانے والے حکم میں اور ترمیم کر دیا اور 25 فروری 2020 کو ایک نیا حکم جاری کرکے آٹھ دیگر چیزوں کی ایکسپورٹ میں بھی چھوٹ دے دی۔ ان سامانوں کو بنانے کے لئےکچے مال کی ایکسپورٹ میں بھی چھوٹ دے دی گئی۔
گزشتہ25 فروری کو حکم جاری کر کے مرکزی محکمہ تجارت نے سرجیکل ماسک / ڈسپوز ایبل ماسک، این بی آر کے علاوہ تمام طرح کے دستانے، سرجیکل بلیڈس،شو-کور، گیس ماسک، پلاسٹک تارپولین، سانس لینے والے آلات وغیرہ کی ایکسپورٹ کو منظوری دے دی۔ یاد رہے کہ اس دوران ہندوستان میں کورونا انفیکشن مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہونے کی شروعات ہو چکی تھی۔
اس بیچ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نے 27 فروری 2020 کو تمام ممالک کو ہدایات جاری کر کےکہا کہ کورونا وائرس کے انفیکشن کے پھیلاؤ کو دھیان میں رکھتے ہوئے تمام ممالک اپنے یہاں بھاری مقدار میں ذاتی حفاظتی سامان جمع کر کے رکھ لیں۔اس کے علاوہ آرگنائزیشن نے کہا تھا کہ اس طرح کے حفظان صحت کے آلات کی پیداوار میں 40 فیصد کا اضافہ کیا جائے۔
حالانکہ حکومت ہند نے ڈبلیو ایچ او کے ان ہدایتوں کا بھی دھیان نہیں رکھااور اپنے 25 فروری کے حکم کو جاری رکھا۔ ڈبلیو ایچ او کے ذریعے کہے جانے کے تقریباًایک مہینے بعد گزشتہ 19 مارچ 2020 کو مرکزی وزارت تجارت نے سرجیکل ماسک اوروینٹی لیٹر کی ایکسپورٹ پر روک لگائی۔ اس کے علاوہ ماسک کے کچے مال کی ایکسپورٹ پر بھی روک لگائی گئی ہے۔
حالانکہ دیگر حفاظتی سامان کے کچے مال کی ایکسپورٹ پر روک نہیں ہے۔ دیگرحفاظتی سامان کی ایکسپورٹ پر بھی روک نہیں ہے۔اکانومک ٹائمس کی ایک خبر کے مطابق، حکومت ہند کو پہلے ہی پتہ تھا کہ ہسپتالوں میں حفظان صحت کے آلات کی بھاری کمی ہے۔ اخبار کے ذریعے حاصل کئے گئے ایک میٹنگ کے منٹس کے مطابق افسروں کو یہ بتایا گیا تھا کہ این-95 ماسک اور باڈی کورکرنے والی چیزوں کی کافی کمی ہے۔
منٹس کے مطابق، حکومت ہند نے 725000 باڈی کور، 15 لاکھ این-95 ماسک اور10 لاکھ 3-پلائی ماسک کے لئے ٹینڈر جاری کیا ہے۔ حالانکہ ابھی تک صرف دو لاکھ ماسک کی ہی ڈلیوری ہوئی ہے اور سپلائر نے ان کے ریٹ میں 266 فیصد اضافہ کی مانگ کی ہے۔
J: What about reports that India did not maintain stockpile of PPEs, despite WHO guidelines?
Lav Agarwal: Where is the report? We do not have any such advisory. This is fake news.
This is the WHO guideline from Feb 27. https://t.co/jifsKrrkrN
— Vidya (@VidyaKrishnan) March 23, 2020
حالانکہ ان سب کے باوجود وزارت صحت یہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہے کہ ہسپتالوں میں حفاظتی سامان کی کافی کمی ہو رہی ہے۔ سوموار کو وزارت صحت کےذریعے کی گئی ایک پریس کانفرنس میں سوال پوچھا گیا تو وزارت کے جوائنٹ سکریٹری لواگروال نے اس کو خارج کر دیا اور کہا کہ یہ فیک نیوز ہے۔
اب اس معاملے کو لےکر اپوزیشن حکومت پر حملہ آور ہے۔ کانگریس نے اس کولےکر تجارتی وزیر اور سکریٹری پر کاروائی کی مانگ کی ہے۔
आदरणीय प्रधान मंत्री जी,
क्या आप कामर्स मंत्री व सचिव पर कार्यवाही करेंगे जिन्होंने 19 मार्च तक देश से वेंटिलेटर, सर्जिकल मास्क, फ़ेस मास्क व अन्य सामान का निर्यात जारी रखा, जबकि देश के डाक्टरों, नर्स, स्वास्थ्य कर्मियों व करोना मरीज़ों के लिए इनकी सबसे अधिक आवश्यकता है। ⬇️ pic.twitter.com/JtsMBF7sVj
— Randeep Singh Surjewala (@rssurjewala) March 23, 2020
کانگریس ترجمان رندیپ سرجےوالا نے ٹوئٹ کر کےکہا، ‘ قابل احترام وزیر اعظم، کیا آپ تجارتی وزیر اور سکریٹری پر کارروائی کریںگے، جنہوں نے 19 مارچ تک ملک سے وینٹی لیٹر، سرجیکل ماسک، فیس ماسک اور دیگر سامان کی ایکسپورٹ کو جاری رکھا، جبکہ ملک کے ڈاکٹروں، نرس،دوسرےا ہلکاراور کورونا وائرس سے متاثر مریضوں کے لئے ان کی سب سےزیادہ ضرورت ہے۔
आदरणीय प्रधानमंत्री जी,
WHO की सलाह
1. वेंटिलेटर
2. सर्जिकल मास्क
का पर्याप्त स्टाक रखने के विपरीत भारत सरकार ने 19 मार्च तक इन सभी चीजों के निर्यात की अनुमति क्यों दीं?ये खिलवाड़ किन ताक़तों की शह पर हुआ? क्या यह आपराधिक साजिश नहीं है?#Coronavirus https://t.co/tNgkngZ936
— Rahul Gandhi (@RahulGandhi) March 23, 2020
اس کے علاوہ کانگریس رہنما راہل گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی سے سوال کیا کہ ڈبلیو ایچ او کی صلاح پر وینٹی لیٹر، سرجیکل ماسک کا کافی اسٹاک رکھنے کے بجائے حکومت ہند نے 19 مارچ تک ان تمام چیزوں کی ایکسپورٹ کی اجازت کیوں دی؟
انہوں نے کہا، ‘ یہ کھلواڑ کن طاقتوں کی شہ پر ہوا؟ کیا یہ مجرمانہ سازش نہیں ہے؟ ‘
کئی ماہرین صحت نے سوال اٹھایا ہے کہ اگر ہسپتالوں میں اسی طرح حفاظتی سامان کی کمی ہوتی رہی تو یہ اہلکار وں کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ ہوگا، جو اس وباسے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔