ہندوستان اور چین کے خصوصی نمائندوں کے ساتھ بات چیت کے بعد جو سرکاری بیان جاری کیا گیا ہے، اس میں نمایاں فرق ہے۔ ہندوستان نے ایل اے سی پر پہلے کی صورت حال کو برقرار رکھنےپر زور دیا ہے، جبکہ چین نے سرحدکو لےکر کوئی بات نہیں کی اور پھر سے دعویٰ کیا کہ گلوان گھاٹی ان کی سرحدمیں ہے۔
نئی دہلی: ہندوستان اور چین نے سرحدی تنازعہ کے بیچ اسٹریٹجک بات چیت کی سطح میں تبدیلی کی ہے۔ اس معاملے کو لےکر اب ہندوستان کے قومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال اورچینی وزیر خارجہ وانگ ژئی نے ایک دوسرے سے فون پر بات کی۔حالانکہ اس سلسلے میں جاری کیے گئے بیانات کو دیکھ کر لگتا ہے کہ دونوں ملکوں کے بیچ کی کھائی ابھی بھی چوڑی بنی ہوئی ہے۔
اجیت ڈوبھال نے وانگ ژئی کے ساتھ اپنی دو گھنٹے کی بات چیت کے دوران ‘طے وقت اور براہ راست کارروائی’پرزوردیا۔ حکام نے سوموار کو یہ جانکاری دی۔ہندوستان-چین سرحدی تنازعہ پر 1968 بیچ کے ایک آئی پی ایس افسر ڈوبھال ہندوستان کی جانب سے خصوصی نمائندہ بنائے گئے ہیں۔حکام نے بتایا کہ بات چیت کا بنیادی موضوع امن وامان کی بحالی اور مستقبل میں اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے بہتر تال میل بنانا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ بات‘آزادانہ اور واضح’طریقے سے ہوئی اور دونوں فریق اس بات پر رضامند ہوئے کہ متعلقہ آرمی کمانڈر ایل اےسی کے ساتھ امن وامان بنائے رکھنے کے لیے طور طریقوں پر کام کریں گے۔حکام نے بتایا کہ دونوں نمائندے چین-ہندوستان تعلقات کی حفاظت اورتعاون کے لیے تبادلہ خیال پر بھی رضامند ہوئے۔
معلوم ہو کہ مئی مہینے سے ہی ہندوستان اور چین کی فوج مشرقی لداخ میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بنی ہوئی ہیں۔ اس دوران ایک دوسرے کے بیچ جھڑپ کی کئی خبریں آ چکی ہیں۔گزشتہ15 جون کو گلوان گھاٹی میں چین نے حملہ کیا تھا، جس کی وجہ سےہندوستان کے کم سے کم 20 جوان ہلاک ہو گئے۔
اس سے پہلے وانگ ژئی نے ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جئےشنکر کے ساتھ بھی معاملے کو لےکر بات چیت کی تھی۔ اس کے علاوہ فوج کی سطح پر بھی کئی راؤنڈ بات چیت کی گئی ہے، جس میں جلد سے جلد پہلے کی صورتحال کوبرقرار رکھنے کو کہا گیا تھا۔وزیر خارجہ نے 25 جون کو ہندوستان-چین سرحد معاملوں پر مشاورت اورتال میل کے لیے اپنے ورکنگ سسٹم کی ایک ورچوئل بیٹھک بھی کی تھی۔
چین کے وزارت خارجہ کے ترجمان نے سوموار کو اپنی ڈیلی بریفنگ کے دوران کہا کہ دونوں فریق سرحد پرحالات کو سدھارنے اور آسان بنانے میں مؤثر قدم اٹھا رہے ہیں۔ حالانکہ متنازعہ مقام پینگانگ جھیل پر چینی فوج کی پوزیشن میں ابھی بھی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے۔
دونوں فریق کے بیانات میں نمایاں فرق بھی تھے۔ہندوستانی بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں خصوصی نمائندوں نے اطمینان دلایا ہے کہ ہندوستان اور چین کو ایل اے سی کا سختی سے احترام کرنا چاہیے اورصورتحال کو بدلنے کے لیے ایک طرفہ کارروائی نہیں کرنی چاہیے۔
جبکہ چین کے بیان میں سرحدی علاقوں میں آگے ایسے واقعات سے بچنے کے لیے مواصلات اوراعتماد سازی کے تدابیر کو مضبوط کرنے کی بات کی گئی تھی، ایل اےسی یا اس کی صورتحال کو بنائے رکھنے کی ضرورت کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا تھا۔اس کے بجائے وانگ نے واضح طور پر اعادہ کیاکہ گلوان گھاٹی میں پرتشدد جھڑپ کے لیے چین ذمہ دار نہیں تھا اور وہ اپنے دعوے پر زور دیتا رہےگا۔
انہوں نے کہا، ‘چین ہندوستان سرحدکے مغربی علاقےمیں گلوان گھاٹی میں حال ہی میں جو ہوا، اس میں سہی اور غلط کیا ہے، یہ بہت صاف ہے۔ چین اپنی خطے کی سالمیت کی سلامتی اورسرحدی علاقوں میں امن و امان کی حفاظت کرنا جاری رکھےگا۔’چین نے پوری گلوان گھاٹی پر اپنا اختیار بتایا ہے، جو چین کی جانب سے سال 1960 میں کئے گئے دعوے کے برعکس ہے۔ چین نے ہندوستان کو گلوان گھاٹی میں میں پرتشددجھڑپوں کے ‘سخت نتائج’ کی وارننگ بھی دی تھی۔
وہیں ہندوستان نے کہا تھا کہ موجودہ بحران کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ چین نے ایل اےسی پر فوج کی ایک بڑی ٹکڑی کو اکٹھا کیا تھا اور سبھی سمجھوتوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہندوستانی گشت میں رکاوٹ ڈالی تھی۔چینی بیان میں گزشتہ سوموار کو کہا گیا ہے کہ دونوں فریق دونوں ملکوں کی جانب سےدستخط شدہ معاہدوں پر عمل کریں گے اور سرحدی علاقوں میں صورتحال کو آسان بنانے کے لیے مشترکہ کوشش کر رہے ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)