وکرم سارا بھائی نے 1955میں گلمرگ کے مقام پر ایک سائنسی لیبارٹری کا سنگ بنیا د رکھا۔ یہ دنیا کی واحد ایسی لیبارٹری ہے جو اس قدر بلندی پر واقع ہے۔ اس لیبارٹری کے علاوہ ان کا بڑا تحفہ اپنی ہمشیرہ مردولا سارابھائی کو کشمیر کے ساتھ متعارف کروانے کا ہے۔ جس نے بعد میں کشمیر کی سیاسی جدو جہد میں اہم رول ادا کیا۔ ان کی زندگی کشمیریوں کے لیے ایثار و قربانی کی ایک مثال ہے۔
ہندوستان نے حال ہی میں چندریان مشن کے تحت جس ربورٹک گاڑی کو چاند کے قطب جنوبی کے پاس کامیابی کے ساتھ اتارا، اس کا نام ہندوستان کے خلائی مشن کے خالق وکرم سارا بھائی کے نام پر ‘وکرم’ رکھا گیاہے۔
گجرات کے صنعتکار جین مذہب سے تعلق رکھنے والے اس گھرانے کا کشمیر کے ساتھ ایک گہرا تعلق رہا ہے۔ جہاں 1945 میں وکرم سارا بھائی نے کا سمک شعاعوں پر اپنی تحقیق کشمیر میں مکمل کی، وہیں ان کی ہمشیرہ مردولا سارا بھائی کوکشمیریوں کی حق خود ارادیت کی جدوجہد اور اس سلسلے میں اس وقت اس جدو جہد کے سرخیل شیخ محمد عبداللہ کی حمایت کرنے پر ان گنت سختیاں برداشت کرنی پڑی۔
سال 1931میں عبدالقدیر خان کے بعد شاید وہ پہلی غیر کشمیری شخصیت رہی ہوں گی، جن کو کشمیریوں کی جدو جہد کی حمایت کرنے کی وجہ سے جیل جانا پڑاہو۔
ایک امیر گھرانے کے چشم و چراغ ہونے کے ناطے وکرم اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ ہر سال کشمیر میں چھٹیاں منانے آتے تھے۔ 1943میں وہ کئی ماہ تک کشمیر کے پہاڑوں اور مرغزاروں میں گھومتے رہے۔
وہ ان دنوں کا سمک شعاعوں پر تحقیق کر رہے تھے اور ایسی جگہ کے متلاشی تھے، جہاں یہ شعاعیں شدت کے ساتھ موجود ہوں۔ کپواڑہ، بانڈی پورہ، بارہمولہ، اننت ناگ وغیرہ کے پہاڑوں کی چوٹیوں کی خاک چھاننے کے بعد ان کو یہ شعاعیں مقررہ شدت کے ساتھ گلمرگ کے اپھروٹ کے مقام پر 13 ہزار فٹ کی بلندی پر مل گئیں۔
یہیں پر انہوں نے تجربات کرکے اپنے ڈاکٹریٹ کا مقالہ مکمل کردیا۔ لندن واپسی پر وہ اپنے دوستوں اور گھر والوں کو بتاتے تھے کہ اس تحقیق میں کشمیر نے ان کی جو مدد کی ہے، و ہ اس کے بدلے اس خطے کو کچھ لوٹانا چاہتے ہیں۔ 1955میں انہوں نے گلمرگ کے مقام پر ایک سائنسی لیبارٹری کا سنگ بنیا د رکھا۔ یہ دنیا کی واحد ایسی لیبارٹری ہے جو اس قدر بلندی پر واقع ہے۔
اس لیبارٹری کے علاوہ ان کا بڑا تحفہ اپنی ہمشیرہ مردولا سارابھائی کو کشمیر کے ساتھ متعارف کروانے کا ہے۔ جس نے بعد میں کشمیر کی سیاسی جدو جہد میں اہم رول ادا کیا۔ ان کی زندگی کشمیریوں کے لیے ایثار و قربانی کی ایک مثال ہے۔
اگر وہ چاہتی تو 1947کے بعد جواہر لال نہرو کی کابینہ میں اہم عہدہ حاصل کرسکتی تھی۔وہ 1946 میں کانگریس پارٹی کی جنرل سکریٹری اور ورکنگ کمیٹی کی رکن بنائی گئی تھی۔ مگر ان کا اوڑھنا بچھونا کشمیر بن چکا تھا۔ وہ کانگریس کی اہم کارکن تھی۔
سال 1936میں کانگریس نے راجواڑوں میں پرجا منڈل یونٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس کے تحت کئی برسوں کے بعد مردولا سارا بھائی کو جموں و کشمیر کا انچارج بنا کر بھیجا گیا۔ پھر اپنے بھائی کی تحقیق کے دوران مدد کرنے کے لیے بھی وہ کشمیر میں رک گئی تھی۔ مارچ 1968کو دہلی سے شائع ہونے والے اردو ماہنامہ ہما کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ 1953تک کشمیر میں اس پرجا منڈل کی انچارج رہی۔ 9اگست 1953کو جب شیخ محمد عبداللہ کو وزرات اعظمیٰ سے برطرف اور پھر نظربند کیا گیا، تو مردولا بھی معتوب ہوگئیں۔ ان کا کشمیر میں رہنے کا پرمٹ اور پاسپورٹ منسوخ کردیا گیا۔
Click to view slideshow.اس دوران ان کو کانگریس سے بے دخل کرکے شیخ عبداللہ کی حمایت کرنے پر تہاڑ جیل میں قید کر لیا گیا۔ شیخ عبداللہ ان دنوں حق خود ارادیت کے سرخیل تھے۔ انہی دنوں عبداللہ کے خلاف حضرت بل سرینگر میں کسی پولیس افسر کی ہلاکت کا الزام لگاکر قتل کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
اس مقدمہ کے لیے پاکستانی حکومت عبداللہ کے دفاع کے لیے کسی بین الاقوامی نامہ گرامی وکیل کی خدمات لینے کے لیے کمر بستہ تھی۔ ہندوستان نے عندیہ دیا تھا کہ وہ کسی غیر ملکی وکیل کو یہ مقدمہ لڑنے کی اجازت نہیں دےگا۔
بقول مصنف اور ماہر قانون اے جی نورانی، مردولا سارا بھائی نے ان سے بمبئی میں رابطہ کرکے ان کو شیخ عبداللہ کا کیس لڑنے کی ترغیب دی۔ اس طرح نورانی صاحب پہلی بار کشمیر کی سیاست سے متعارف ہوئے اور انہوں نے جموں اسپیشل جیل میں شیخ عبداللہ سے بطور ان کے وکیل کے ملاقات کی۔
اس کے بعد تو انہوں نے ابھی تک کشمیر پر تحقیقی مقالوں اور کتابوں کی گویا ایک لڑی سی لگا دی۔ یعنی نورانی صاحب کی کشمیر پر تحقیق بھی سارا بھائی خاندان کی ہی مرہون منت ہے۔
مردولا سارابھائی ایک سال تک دہلی کے تہاڑ جیل میں قید رہی۔ اس انٹرویومیں اپنی گرفتاری کی روداد سناتے ہوئے وہ بتا رہی تھیں کہ جب انہوں نے بنیادی حقوق کا حوالہ دےکر سپریم کورٹ میں اپنی گرفتاری کو چیلنج کیا تو چیف جسٹس نے فیصلہ دیا کہ چونکہ ‘کشمیر دو ملکوں کے درمیان متنازعہ مسئلہ ہے، اس لیے کشمیر کے سلسلے میں بنیادی حقوق کا سوال ہی نہیں اٹھتا ہے۔’1967میں ان کو رہا کر دیا گیا۔
اس انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ ہندوستانی حکومت نے کشمیری عوا م کو بدگمان کردیا ہے۔ مراعات صرف کشمیری ہندوؤں کے لیے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ظلم و جبر کی فضا کو بدلنا ہوگا۔ کشمیر ایک مریض کی طرح ہے۔ پہلے اس کا مرض دور کیا جائے، پھر اس سے اس کی رائے پوچھی جائے۔ ان کا موقف تھا کہ کشمیری عوام کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دے دیا جائے۔
پاکستان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کو کشمیر سے بے تعلق نہیں کیا جاسکتا ہے۔ جب مسئلہ اقوام متحدہ کی میز پر ہو اور حد بندی لائن کھنچی گئی ہو، تو کیسے پاکستان کو اس مسئلہ سے الگ کیا جاسکتا ہے؟
جب ان سے پوچھا گیا کہ کشمیر کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں کی قسمت بھی جڑ گئی ہے، تو انہوں نے اس استدلال کو رد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا ہندو اور ہندوستان کا مسلمان بطور یرغمال نہیں ہیں۔ یہ نظریہ ہی غلط ہے۔ 1975میں شیخ عبداللہ کے اندرا گاندھی کے ساتھ کیے گئے ایکارڈ سے قبل ہی یعنی 1974میں ان کا انتقال ہوگیاتھا۔
ان کے بھائی وکرم سارا بھائی سائنس کے علاوہ سنسکرت کے اسکالر، فوٹوگرافر، فنون لطیفہ (شاعری موسیقی اور رقص) کے دلدادہ تھے۔ مشہور ڈانسر ملیکا سارابھائی ان کی صاحبزادی ہیں۔
ان کا پورا خاندان جدوجہد آزادی میں شامل تھا اور وہ خود مہاتما گاندھی سے بہت متاثر تھے۔ان کے سیاست میں آنے کے پیچھے بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔
مہاتما گاندھی احمد آباد آئے ہوئے تھے اور اپنے کسی کارکن جس کا نام بھی سارابھائی تھا، کے ہاں ان کو جانا تھا۔
وکرم اور مردولا کے والد امبا لال سارابھائی کو چونکہ شہر میں کافی لوگ جانتے تھے، انہوں نے ان کو غلطی سے ان کے گھر پہنچا دیا گیا۔
اب گاندھی جیسا لیڈر دہلیز پر ہو، تو ان کی پذیرائی تو بنتی ہی ہے۔ امبا لال نے ان کو گھر پر ٹھہرایا اور ان کے کارکن سارا بھائی کو وہیں بلاکر لائے۔
تعلق ایسا بنا کہ جب بھی وہ اب احمد آباد آتے، تو سیدھے سارابھائی کے مہمان خانہ میں ہی ٹھہرتے۔ ان کے علاوہ یہ دیگر کانگریسی لیڈروں کا بھی ڈیرا بن گیا۔
رابندر ناتھ ٹیگور، سائنسدان سی وی رمن وغیرہ کے لیے بھی احمدا ٓباد میں ان کا گھر ایک ٹھکانہ بن گیا تھا۔
ہومی جہانگیر بھابھا کی ایک فضائی حادثے میں اچانک موت کے بعد، وکرم سارابھائی کو مئی 1966 میں اٹامک انرجی کمیشن کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ وہیں انہوں نے ہندوستان کے خلائی پروگرام کی بنیاد ڈالی۔
ہندوستان کے سابق صدر اور سائنس دان اے پی جے عبدالکلام ان کی ہی دریافت تھی۔
کلا م خو د ہی لکھتے ہیں انجینئرنگ میں ان کے پاس اعلیٰ ڈگری نہیں تھی، لیکن وہ سخت محنت کرتے تھے۔
جب لیبارٹری کے گشت کے دوران وکرم نے ان کو محنت کرتے دیکھا تو ڈگری وغیر ہ کی پروا کیے بغیر ان کو کئی پروگراموں کا انچارج بنادیااور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔
وکرم سارا بھائی کی ٹیلنٹ پر گہری نظر تھی اور وہ چاہتے تھے کہ ہندوستان خلائی تحقیق کا مرکز بن جائے۔
قابل ذکر ہے کہ 31 دسمبر 1971 کو، وہ بمشکل 52 سال کی عمر میں اچانک انتقال کر گئے۔
امریتا شاہ نے اپنی کتاب ‘وکرم سارا بھائی – ایک زندگی’ میں وکرم کی موت کے بارے میں ‘فول پلے’ کی طرف اشارہ کیا ہے۔
وکرم سارا بھائی کی قریبی ساتھی کملا چودھری کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ‘وکرم نے مجھے بتایا تھا کہ امریکی اور روسی دونوں انہیں دیکھ رہے ہیں۔’