کشمیری اور سکھ علیحدگی پسندوں کی پراسرار ہلاکتیں

پچھلے ایک سال کے دوران بیرون ملک مقیم سکھوں کی خالصتان تحریک یا کشمیر کی تحریک آزادی سے تعلق رکھنے والے افراد کی پر اسرار ہلاکتوں کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ہر قتل پر ہندوستان میں موجود سوشل میڈیا کے سرخیل خوشیاں منارہے ہیں، جس سے یہ تقریباً ثابت ہوجاتا ہے کہ ان ہلاکتوں کے تار کہاں سے کنٹرول کیے جار ہے ہیں۔

پچھلے ایک سال کے دوران بیرون ملک مقیم سکھوں کی خالصتان تحریک یا کشمیر کی تحریک آزادی سے تعلق رکھنے والے افراد کی پر اسرار ہلاکتوں کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ہر قتل پر ہندوستان میں موجود سوشل میڈیا کے سرخیل خوشیاں منارہے ہیں، جس سے یہ تقریباً ثابت ہوجاتا ہے کہ ان ہلاکتوں کے تار کہاں سے کنٹرول کیے جار ہے ہیں۔

ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی، کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اور امریکی صدر جو بائیڈن۔ فوٹو: آفیشل ایکس اکاؤنٹس۔

ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی، کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اور امریکی صدر جو بائیڈن۔ فوٹو: آفیشل ایکس اکاؤنٹس۔

یہ جولائی 2005کی بات ہے کہ ہندوستان کے اقتصادی مرکز ممبئی کے کرائم برانچ کے ڈپٹی کمشنر دھننجے کملاکر ملزموں کی ایک گینگ کے خلاف تفتیش کر رہے تھے کہ ان کو اطلاع ملی کہ اس گروہ کا ایک اہم رکن وکی ملہوترہ دہلی میں چھپا ہوا ہے۔

اپنے سینئر افسران سے صلاح و مشورہ کرکے ملہوترہ اپنی ٹیم کے ساتھ دہلی روانہ ہوگئے اور ضابطہ کے مطابق دہلی پولیس کو اطلاع دی۔ مخبروں کی اطلاع اور فون کی نگرانی کے دوران پتہ چلا کہ اگلی صبح دہلی کے ایک پانچ ستارہ ہوٹل میں ملہوترہ کی کسی کے ساتھ ناشتہ پر ملاقات طے ہے۔ رات بھر اس ہوٹل کے باہر اور اندر خفیہ پولیس نے جال بچھا دیا۔ استقبالیہ کلرکوں سے لےکر رپورٹروں تک کے بھیس میں خفیہ پولیس کے اہلکار موجود تھے۔

  ملہوترہ، چھوٹا راجن گینگ کا ایک اہم رکن تھا، اور کئی بار پولیس کو جل دینے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ اس د ن اس کے ستارے گردش میں تھے۔ ناشتہ کرنے کے بعد جب اس کی سفید ایمبیسڈر گاڑی ہوٹل کے احاطہ سے باہر نکلی، تو پولیس نے اس کو روک کر ملہوترہ پر بندوق تان کر باہر آنے کے لیے کہا۔ مگر کملاکر کی حیرت کی کوئی حد نہیں رہی، جب اس نے دیکھا کہ گینگسٹر کے ساتھ پچھلی سیٹ پر ہندوستانی خفیہ ادارہ کے حال ہی میں ریٹائرڈ ہوئے سربراہ اور موجودہ قومی سلامتی مشیر جیت کمار ڈوبھال برا جمان تھے۔

اس گاڑی کی ڈکی میں اسلحہ کی ایک کھیپ بھی موجود تھی۔ شاید یہ پورا واقعہ کبھی بھی منظر عام پر نہیں آتا۔ مگر ملہوترہ کے ارد گرد شکنجہ ایسا سخت کردیا گیا تھا اور اس کی گرفتاری کا ممبئی اور دہلی پولیس کو اتنا یقین تھا، کہ انہوں نے اس گرفتاری کو ریکارڈ کرنے کے لیے کئی کرائم رپورٹروں کو بھی مدعو کیا ہوا تھا۔

بعد میں پتہ چلا کہ انٹلی جنس بیورو میں اپنی مدت سربراہی کے دوران ڈوبھال نے 1993 کے ممبئی دھماکوں کے ایک کلیدی مفرور کردار داؤد ابراہیم کو حریف گینگ کے ذریعے ٹھکانے لگانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ مگر اس سے پہلے ہی وہ ریٹائرڈ ہوگئے۔ اس وقت کی کانگریس کی زیر قیادت حکومت نے ان کی ملازمت میں توسیع نہیں کی۔ مگر انہوں نے اس آپریشن کو جاری رکھا۔

ریٹائرمنٹ کے چھ ماہ بعد ان کو معلوم ہوا کہ 23جولائی 2005 کو دبئی کے گرینڈ حیات میں داؤد کی بیٹی ماہ رخ اور پاکستانی کرکٹر جاوید میاں داد کے بیٹے جنید کے  ولیمہ کی تقریب منعقد ہونے والی ہے۔

لہذا طے ہوا تھا کہ دبئی میں ڈان داؤد کو ختم کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ کیونکہ 1993 کے بعد یہ ایسا پہلا موقع تھا، جب داؤد کے بارے میں اتنی پکی معلومات تھیں اوربیٹی کی شادی کے موقع پر اس کے منظر عام پر آنے کے قوی امکانات تھے۔ چونکہ آپریشن دبئی میں ہونا تھا، اس لیے بجائے حکومتی عناصر یعنی کمانڈوز کا استعمال کرنے کے انڈر گراؤنڈ مافیا چھوٹا راجن گینگ کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

چھوٹا راجن 1993 کے بمبئی دھماکوں کے بعد داؤد سے الگ ہو گیا تھا اور وہ 2000 میں بنکاک میں اس پر ہونے والے حملے کا بدلہ لینے کا موقع ڈھونڈ رہا تھا جس کے لیے اس نے اپنے دو قابل اعتماد آدمیوں وکی ملہوترا اور فرید تناشا کو معاملات طے کرنے کے لیے دہلی بھیجا تھا۔

کملاکر نے بعد میں کہا کہ انہیں صرف یہ پتہ تھا کہ راجن گینگ کے ارکان کسی سیاست دان یا اعلیٰ تاجر کو ختم کرنے کے لیے ہندوستان میں داخل ہوئے تھے۔ڈوبھال کو جانے کی اجازت دے دی گئی، جبکہ کملاکر ملہوترہ کو اپنے ساتھ ممبئی لے کر چلا گیا۔ بعد میں غالباً2010میں اس کو ضمانت پرعدالت نے رہا کر دیا۔

حال ہی میں پچھلے ایک سال کے دوران بیرون ملک مقیم سکھوں کی خالصتان تحریک یا کشمیر کی تحریک آزادی سے تعلق رکھنے والے افراد کی پر اسرار ہلاکتوں کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ ہر قتل پر ہندوستان میں موجود سوشل میڈیا کے سرخیل خوشیا ں منارہے ہیں، جس سے یہ تقریباً ثابت ہوجاتا ہے کہ ان ہلاکتوں کے تار کہاں سے کنٹرول کیے جار ہے ہیں۔

ابھی ان ہلاکتوں پر چہ منگوئیاں جاری ہی تھیں کہ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹرودیو نے نئی دہلی میں گروپ 20 ممالک کی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے بعد واپسی پر پارلیامنٹ میں بیان داغا کہ کنیڈا کے ایک سکھ باشندے ہردیپ سنگھ نجر کی ہلاکت میں ہندوستان کا ہاتھ ہے۔ چونکہ اس کو کینیڈا کی سرزمین پر اس ملک کے قوانین کی دھجیاں اڑا کر نشانہ بنایا گیا ہے، اس لیے کینیڈا کو اس پر تشویش ہے۔

اسی کی ساتھ کینیڈا کی وزارت خارجہ نے ہندوستانی سفارت خانے میں خفیہ ادارے ریسرچ اینڈ انالیسیز ونگ کے اہلکار پون کمار رائے کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔ ہندوستان نے اس کے جواب میں کینیڈا کے سفارت خانے میں اضافی عملہ کو واپس جانے اور کینیڈا کے خفیہ محکمہ کے اہلکار اولیور سیلوسٹر کو ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔

کینیڈا کا کہنا ہے کہ جی 20 سربراہ کانفرس کے دوران جب وزیر اعظم  ٹرودیونے ہندوستانی ہم منصب  نریندر مودی سے دوطرفہ ملاقات کی، تو قومی سلامتی مشیر اور وزیر خارجہ جے شنکر کی موجودگی میں اس ہلاکت میں ہندوستانی اہلکاروں کے ملوث ہونے کے ‘ناقابل تردید’ ثبوت فراہم کیے گئے اور امید تھی کہ ہندوستان خود ہی اس پر کوئی قدم اٹھائے گا۔ مگر چونکہ یہ ثبوت زیادہ تر فون کی نگرانی اور دیگر غیر قانونی ذرائع سے حاصل  کیے گئے تھے، ہندوستان کو یقین تھا کہ کینیڈا ان ثبوتوں کو کبھی بھی کسی عدالت کے سامنے لا سکے گا نہ ہی ان پر کچھ زیادہ واویلا مچا پائے گا۔

کینیڈا کے ساتھ یہ تنازعہ چل ہی رہا تھا کہ امریکی محکمہ انصاف نے باضابطہ ایک چارج شیٹ عدالت میں دائر کی، جس میں بتایا گیا کہ ہندوستانی اہلکاروں کی ایما پر امریکہ میں مقیم سکھ لیڈر گرپتونت سنگھ پنو کو ہلاک کرنے کی سازش کی گئی تھی۔

اس سازش کے ایک کردار نکھل گپتا، جو نیم فوجی تنظیم سینٹرل ریزر و پولیس فورس کے ایک سابق اہلکار ہیں، کو امریکی ہدایت کے تحت چیک حکومت نے پراگ میں گرفتار کیا ہے اور فی الوقت وہ جون سے جیل میں ہیں۔ کینیڈا کے انکشافات اورپھر امریکی چارج شیٹ نے فی الحال پچھلے ایک سال سے جاری ہلاکتوں کے تار طشت از بام کر دیے ہیں۔

 ان پر اسرار واقعات میں جو افراد ہلاک ہو گئے ہیں، وہ ہیں سلیم رحمانی، ریاض احمد المعروف ابو قاسم،  بشیر احمد پیر، سید خالد رضا، پرم جیت سنگھ، شا ہد لطیف، ہردیب سنگھ نجر(کنیڈا)، اوتار سنگھ(برطانیہ) لکھبیر سنگھ روڑے، اعجاز احمد آہنگر (افغانستان)، مستری ظہور ابراہیم، لال محمد(کٹھمنڈو)، اکرم غازی، خواجہ شاہد (لائن آف کنٹرول کے پاس ان کی سربریدہ لاش ملی تھی)، مولانا ضیاء الرحمان، مفتی قیصر فاروق اور پاکستان کی ملی مسلم لیگ سے وابستہ عدنان احمد المعروف حنظلہ شامل ہیں۔ ان میں اکثر افراد کو پاکستان میں ہلاک کیا گیا۔ ان ہلاکتوں کو گھر میں گھس کر مارنے اور چھپن انچ کی چھاتی یعنی انتہائی جرٲت سے تشبیہ دے کر ان پر شادیانے بجائے گئے۔

ایک امریکی آن لائن اخبار دی انٹرسیپٹ کے مطابق اکتوبر میں برطانیہ میں اوتار سنگھ کھنڈا کے خاندان نے الزام لگایا گیا کہ ان کو انٹلی جنس ایجنٹوں نے زہر دیا تھا۔ اس سے قبل  2022 میں،پودامن سنگھ ملک نامی 75 سالہ کینیڈین شخص، جسے 1985 میں ایئر انڈیا کی پرواز پر ہونے والے مہلک بم دھماکے میں ملوث ہونے کے الزام سے بری کر دیا گیا تھا، کو کینیڈا میں اس کے دفتر کے باہر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

اس اخبار کے مطابق پاکستان میں دو سکھ کارکنوں کو لاہور اور اسلام آباد کے شہروں میں قتل کا نشانہ بنا یا گیا۔ اسلام آباد میں ایک مبینہ ہدف نامعلوم ہے، جب کہ دوسرا لکھبیر سنگھ روڈے ہے، جو 1990 کی دہائی سے پاکستان میں مقیم ایک سرکردہ سکھ علیحدگی پسند رہنما تھا اور جس پر ہندوستانی حکومت طویل عرصے سے دہشت گردی کا الزام لگاتی رہی ہے۔روڈے کا بیٹا بھگت سنگھ، ایک کینیڈین شہری ہے، اپنے والد کی طرح سکھ علیحدگی کی تحریک میں نمایاں ہے۔ اس نے دی انٹرسیپٹ کو بتایا کہ ان والد ایک طویل عرصے سے ہندوستانی حکومت کی ہٹ لسٹ پر تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سال نجر کے قتل کے بعد انہیں کینیڈا کی انٹلی جنس نے اپنی جان کو لاحق خطرات کے بارے میں بھی خبردار کیا تھا۔

کینیڈا کی طرح امریکہ نے بھی ہندوستانی خفیہ ادارے راء کے دو سینئر افسران کو ملک چھوڑنے کے لیے کہا۔ چونکہ امریکہ نے اس کی پبلسٹی نہیں کی اور ان افسران کے نام بھی ظاہر نہیں کیے، اس لیے ہندوستان یہ کڑوی گولی نگل گیا۔ جن افسران کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا، وہ سان فرانسسکو کے مشن میں کام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ، ہندوستان کو واشنگٹن میں را ء کے اسٹیشن چیف کی پوسٹ پر تعیناتی سے روک دیا گیا ، جو اس سال کے شروع سے خالی ہے۔ نئے افسر کو 30 جون سے قبل چارج لینا تھا۔

سان فرانسسکو، واشنگٹن اور اوٹاوا میں راء کے افسران کی بے دخلی یقیناً ہندوستان کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ مگر خیر ہو ہندوستانی میڈیا کا، جو اب اپنے حکمرانوں سے سوال پوچھنے کے بجائے الٹا اپوزیشن کو ہی ہر معاملے میں کٹہرے میں کھڑا کر دیتا ہے۔ اس طرح ایک طرح سے شمالی امریکی براعظم کوہندوستان کے خفیہ اداروں کے اہلکاروں سے صاف کر دیا گیا ہے۔ ان  افسران کی بے دخلی کا مقصد اس پیغام کو اجاگر کرنا ہے کہ اگر ہندوستانی ایجنسیاں مغرب میں جارحانہ کارروائیاں کرتی ہیں، تو ان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

کینیڈا کے مقابلے امریکی الزامات کے جواب میں بھارت کا رویہ یکسر مختلف تھا۔ امریکہ میں گرپتونت سنگھ کے خلاف قتل کی سازش کا بھانڈا پہلے فنانشل ٹائمز نے پھوڑا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہندوستانی وزارت خارجہ نے الزامات کو یکسر مسترد نہیں کیا۔

جو صحافی ہندوستانی وزارت خارجہ کو کور کرتے ہیں، ان کو معلوم ہے کہ کہ ایسی رپورٹ پر پہلا ردعمل یہی ہوتا ہے کہ ہندوستانی وزارت خارجہ قیاس آرائی پر مبنی کسی میڈیا رپورٹ پر رائے زنی نہیں کرتی ہے۔ بعد میں جب ایسی رپورٹیں پارلیامنٹ یا عدالت جیسے دیگر فورمز کے ذریعے درست ثابت ہو جائیں تو خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے۔

فنانشل ٹائمز نے وہائٹ ہاؤس کے ذرائع کے حوالے سے جب دعویٰ کیا کہ امریکہ نے پنن کے قتل کی سازش کو ‘اعلی ترین سطح’ پر ہندوستان کے ساتھ اٹھایا۔تو تردید کرنے کے بجائے ہندوستانی وزار ت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا کہ ہندوستان اس طرح کے الزامات کو سنجیدگی کے ساتھ لیتا ہے، کیونکہ یہ اس کی قومی سلامتی کے مفادات پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ انہوں نے  تصدیق کی کہ مریکہ نے کچھ معلومات شیئر کی ہیں۔

 اس سے بھی بڑی بات یہ تھی کہ ترجمان نے کہا کہ لگتا ہے کہ منظم مجرموں یعنی مافیا، اسلحہ برداروں، دہشت گردوں اور ‘دیگر’ کے درمیان گٹھ جوڑ ہے، جس کی تہہ تک جانے کی ضرورت ہے۔ چونکہ سفارت کاری میں الفاظ چن چن کر استعمال کیے جاتے  ہیں، اس لیے اس جملہ میں لفظ ‘دیگر’ کی شمولیت ایک واضح شارہ ہے۔یعنی کچھ اور لوگ یا ا یجنسیاں ملوث ہیں۔ باگچی نے مزید کہا کہ نومبر میں ہی حکومت نے معاملے کے تمام متعلقہ پہلوؤں کو دیکھنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کمیٹی تشکیل دی اور یہ کہ حکومت اس کے نتائج کی بنیاد پر کارروائی کرے گی۔

چار سال قبل جرمنی نے بھی ہندوستانی خفیہ ایجنسیوں پر سوال اٹھا دیے تھے۔ 2020 میں، جرمنی نے ایک افسر کوملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا، جو انڈین ریونیو سروس (آئی آر ایس) سے ڈیپوٹیشن پرخفیہ ایجنسی میں خدمات انجام دے رہا تھا۔ جوابی کارروائی میں دہلی میں جرمن انٹلی جنس افسراوی کیہم کو  ملک بدر کر دیا گیا تھا۔ جرمنی نے ایک سکھ پناہ گزین بلویر سنگھ کو خالصتان کے حامیوں کی مبینہ جاسوسی کرنے کے الزام میں ایک سال قید اور  2400  یورو جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

اس سے قبل فرینکفرٹ کی ایک عدالت نے ایک ہندوستانی صحافی کو کشمیری اور سکھ علیحدگی پسندوں کی جاسوسی کرنے پر 18 ماہ کی سزا سنائی تھی۔اس سے قبل 2015 میں جرمنی کے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا میں کام کرنے والے ایک جرمن امیگریشن افسر پر خالصتان کے مشتبہ کارکنوں کی معلومات را ء کو فروخت کرنے کے لیے سرکاری ڈیٹا بیس تک رسائی کے لیے مقدمہ چلایا گیا تھا۔ابھی حال ہی میں ہندوستان کے آٹھ سابق بحریہ کے افسران کو قطر  کی ایک عدالت نے جاسوسی سے متعلق الزامات پر سزائے موت سنائی ہے،  جبکہ متعدد دیگر ہندوستانی شہری مشرق وسطیٰ میں جاسوسی کے الزام میں گرفتار ہیں۔

امریکہ اور ہندوستان اس وقت تو دوستی کی حدیں طے کررہے ہیں اور مختلف امور خاص طور پر انٹلجنس میں بھی تعاون کر تے ہیں۔ مگر سرد جنگ کے دوران امریکی سی آئی اے اکثر راء کو نشانہ بناتی رہی ہے۔  1987 میں  راء کے ایک افسرکے وی اننی کرشنن کو گرفتار کیا گیا تھا اور قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) کے تحت تہاڑ جیل میں رکھا گیا۔ وہ ایجنسی کے طرف سے سری لنکا میں علیحدگی پسند لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم (ایل ٹی ٹی ای) کا رابطہ کار تھا، مگر پتہ چلا کہ وہ معلومات کولمبو میں تعینات سی آئی اے افسر کے ساتھ شیئر کرتا تھا اور اکثر اس کے ساتھ شراب پیتا تھا۔وہ ایک ایئر ہوسٹس کے عشق میں مبتلا ہو گیا تھا اور بعد میں معلوم ہوا کہ سی آئی اے نے ان کی کچھ تصویریں لی تھیں، جن سے وہ بلیک میل ہوتا تھا۔ اگر چہ وہ 18 ماہ تک  جیل میں رہا، لیکن اس پر کوئی مقدمہ نہیں چلایا گیا۔ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا کیونکہ سماعت کے دوران ہندوستان کی تامل ٹائگرز کو مدد و تربیت دینے کا بھانڈا بیچ چوراہے میں پھوٹ جاتا۔

اسلام آباد، بنکاک اور کینیڈا میں تعینات ایک سابق  افسر شمشیر سنگھ مہاراج کمار نے اپنی سروس کے اختتام پر اپنے بیٹے کے ساتھ کینیڈا میں رہنے کو ترجیح دی۔ اسی طرح ایک اور سابق افسر سکندر لال ملک نے اپنی سروس کے اختتام پر امریکہ میں رہنے کا انتخاب کیا۔ سابق سربراہ گریش سکسینہ کے سکریٹری ایم ایس سہگل لندن میں رہتے ہیں۔اشوک ساٹھے، جو کبھی ایران میں اسٹیشن کے انچارج تھے، کہا جاتا ہے کہ وہ کیلیفورنیا میں رہتے ہیں۔این وائی بھاسکر اور بی آر بچار دونوں نے امریکہ میں رہائش حاصل کی ہے۔اسی طرح  میجر آر ایس سونی اپنے ادارہ کو بغیر کوئی اطلاع کینیڈا چلے گئے۔