ہندوستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کو آزاد ملک کا درجہ دینے سے متعلق قرارداد کی حمایت میں ووٹ دیا

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 12ستمبر کو فلسطین کو  آزاد ملک کا درجہ دینے کی قرارداد منظور کی۔ 193 رکن ممالک میں سے 142 نے اس کی حمایت کی، 10 نے مخالفت کی اور 12 غیر حاضر رہے۔ ہندوستان نے دو ریاستی حل اور محفوظ سرحدوں کے اندر آزاد فلسطینی قوم کے حق میں اپنی پالیسی کا اعادہ کیا۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 12ستمبر کو فلسطین کو  آزاد ملک کا درجہ دینے کی قرارداد منظور کی۔ 193 رکن ممالک میں سے 142 نے اس کی حمایت کی، 10 نے مخالفت کی اور 12 غیر حاضر رہے۔ ہندوستان نے دو ریاستی حل اور محفوظ سرحدوں کے اندر آزاد فلسطینی قوم کے حق میں اپنی پالیسی کا اعادہ کیا۔

تصویر بہ شکریہ: وکی میڈیا کامنز

نئی دہلی: اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جمعہ (12 ستمبر) کو فلسطین کو آزاد ملک کا درجہ دینے کی تجویز اکثریت سے منظور کر لی گئی ۔ کل 193 ممبر ممالک میں سے 142 نے اس کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 10 ممالک نے اس کی مخالفت کی اور 12 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔

‘نیویارک ڈیکلریشن’ کہلانے والی اس تجویز کو ہندوستان، چین، روس، سعودی عرب، قطر، یوکرین، برطانیہ، اٹلی، فرانس اور جرمنی سمیت کئی ممالک کی حمایت حاصل ہوئی۔ اس کے برعکس امریکہ اور اسرائیل ان 10 ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے اس کے خلاف ووٹ دیا۔

ووٹنگ سے عین قبل ویسٹ بینک میں عدومیم بستی کے دورہ پر آئے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے واضح طور پر کہا تھا کہ فلسطین کو کبھی بھی ایک قوم کا درجہ نہیں ملے گا اور یہ علاقہ صرف اسرائیل کا ہے۔

دو ریاستی حل

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فرانس اور سعودی عرب کے تعاون سے پیش کی گئی ‘نیویارک قرارداد’ کی منظوری کے بعد فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے کہا کہ 142 ممالک کی یہ حمایت مشرق وسطیٰ میں مستقل امن کی جانب ایک ناقابل واپسی قدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘نیویارک ڈیکلریشن آج فرانس اور سعودی عرب کی پہل پر اپنایا گیا ہے، جو دو ریاستی حل پر عمل درآمد کے لیے ٹھوس راہ ہموار کرتا ہے۔’

صدر ایمانوئل میکرون نے جولائی میں فلسطین کو آزاد ملک کے طور پر تسلیم کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا تھا ۔ انہوں نے 24 جولائی کو ایکس پر لکھا تھا، ‘مشرق وسطیٰ میں منصفانہ اور دیرپا امن کے لیے اپنے تاریخی عزم کے حصے کے طور پر، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ فرانس فلسطین کو ایک قوم کے طور پر تسلیم کرے گا۔’

انھوں نے کہا، ‘ہمیں حماس کی غیر عسکری کاری کو یقینی بنانا چاہیے  اور ساتھ ہی غزہ کو محفوظ بنانا اور اسے دوبارہ تعمیر کرنا چاہیے۔’

صدر میکرون نے مزید لکھا، ‘آج سب سے بڑی ضرورت غزہ میں جنگ کو ختم کرنے اور شہریوں کو بچانے کی ہے۔ امن ممکن ہے۔ فوری جنگ بندی کی جائے اور یرغمال بنائے گئے افراد کو رہا کیا جائے۔ غزہ کے لوگوں کو بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی ضرورت ہے۔’

فرانس یورپی یونین میں ایسا قدم اٹھانے والا سب سے بااثر ملک ہے۔ یورپی یونین کے ارکان جیسے سویڈن، اسپین، آئرلینڈ اور سلووینیا پہلے ہی فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں۔ پولینڈ اور ہنگری نے کمیونسٹ دور حکومت میں 80 کی دہائی میں فلسطین کو تسلیم کیا تھا۔

اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے 140 سے زائد پہلے ہی فلسطین کو تسلیم کر چکے ہیں۔ ان میں اسپین اور آئرلینڈ سمیت یورپی یونین کے کچھ ممالک شامل ہیں۔

ہندوستان دو ریاستی حل کی حمایت کرتا رہا ہے

وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق، ‘فلسطین کے تئیں ہندوستان کی پالیسی دیرینہ رہی ہے اور ہم نے ہمیشہ بات چیت کے ذریعے دو ریاستی حل کی حمایت کی ہے۔’

وزیر مملکت برائے امور خارجہ کیرتی وردھن سنگھ کے 13 دسمبر 2024 کو راجیہ سبھا میں دیے گئے جواب میں اس بات کی تصدیق کی  گئی ہےکہ فلسطین کے تئیں ہندوستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے،’فلسطین کے بارے میں ہندوستان کی پالیسی طویل عرصے سے ایک جیسی رہی ہے۔ اس میں بات چیت کے ذریعے دو ریاستی حل کی حمایت شامل ہے، جس کے تحت تسلیم شدہ اور محفوظ سرحدوں کے اندر ایک خودمختار، آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کاقیام عمل میں آئے ،جو اسرائیل کے ساتھ امن وامان کے ساتھ رہ سکے۔ ہندوستان اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت کی بھی حمایت کرتا ہے۔’

وزارت خارجہ کے اعداد و شمار کے مطابق، گزشتہ پانچ سالوں میں ہندوستان نے فلسطین کے حق میں 54 قراردادوں کے حق میں ووٹ دیا ہے اور صرف 8 قراردادوں پر ووٹنگ کے دوران وہ غیر حاضر رہا ہے۔ تاہم، پچھلے تین سالوں میں ہندوستان کم از کم چار بار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قراردادوں پر ووٹنگ کے دوران غیر حاضر رہا ہے جس میں غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ آخری بار 12 جون 2025 کو ہوا تھا۔ اس غیر موجودگی کے بارے میں، ہندوستان نے واضح کیا تھا کہ یہ ‘بات چیت کی کمی اور قرارداد کے متن میں مجموعی عدم توازن کی وجہ سے ہوا ہے، لیکن فلسطین کے تئیں ہندوستان کی بنیادی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی’۔

امریکہ نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ‘پبلسٹی اسٹنٹ’ قرار دیا

امریکہ، جو غزہ جنگ میں اسرائیل کی حمایت کر رہا ہے، نے اس تجویز کی مخالفت کی اور اسے ‘پبلسٹی اسٹنٹ’ قرار دیا، جو اس کے مطابق  صرف حماس کو فائدہ پہنچاتا ہے۔

مخالفت کرنے کے اپنے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے اقوام متحدہ میں امریکی مشن نے کہا کہ نیویارک ڈیکلریشن پر اقوام متحدہ کا ووٹ ‘گمراہ کن’ تھا اور اس نے یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ کے بحران کو ختم کرنے کی سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچایا۔

ایک بیان میں امریکی مشن نے کہا، ‘نیویارک اعلامیہ پر اقوام متحدہ کی کارروائی ایک اور غلط اور غلط وقت پر کیا گیا پبلسٹی اسٹنٹ ہے، جو تنازع کے خاتمے کے لیے سنجیدہ سفارتی کوششوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ اس میں کوئی بھرم نہیں ہونا چاہیے کہ یہ قرارداد حماس کے لیے ایک تحفہ ہے۔ یہ قابل مذمت ہے، واضح طور پر گھریلو سیاست سے متاثر ہے، نہ کہ کسی سنجیدہ غیرملکی پالیسی ایجنڈےسے ۔’