ایلگار پریشدمعاملے میں گرفتار سماجی کارکن رونا ولسن کے کمپیوٹر سے ملے خطوط کی بنیاد پر ولسن سمیت پندرہ کارکنوں پر سنگین الزامات عائد کیے گئے تھے تھے۔ اب معاملے کے الیکٹرانک شواہد کی جانچ کرنے والے امریکی فرم کا کہنا ہے کہ انہیں ایک سائبر حملے میں ولسن کے لیپ ٹاپ میں ڈالا گیا تھا۔
رونا ولسن۔ (فوٹو: یوٹیوب/پکسابے)
پونے پولیس کے ذریعےدہلی میں کارکن رونا ولسن کے گھر پر چھاپہ مارکر انہیں گرفتار کرنے سےتقریباً22 مہینے پہلے ایک سائبر حملے میں ان کے لیپ ٹاپ کو مبینہ طور پر ہیک کیا گیا تھا اور کم سے کم دس ‘مجرمانہ ’خطوط اس میں پلانٹ کیے گئے تھے۔
امریکہ کے میساچیسیٹس کی ڈیجیٹل فارینسک فرم آرسینل کنسلٹنگ کی ایک رپورٹ میں ان خطوط کی صداقت پر سنگین سوال اٹھائے گئے ہیں، جن کی بنیادپر 2018 میں جانچ ایجنسیوں نےایلگار پریشد معاملے میں ولسن سمیت 15 کارکنوں کو گرفتار کیا تھا۔
اس فرم سے ولسن کے وکیلوں کی جانب سےالیکٹرانک شواہد کی جانچ کے لیے پچھلے سال جولائی میں رابطہ کیا گیا تھا۔ معاملے کی جانچ کی شروعات مقامی پونے پولیس نے کی تھی، لیکن بعد میں ریاست میں بی جے پی کی سرکار گرنے کے بعد جنوری 2020 میں اسےاین آئی اے کو سونپ دیا گیا تھا۔
آرسینل کنسلٹنگ کی اس رپورٹ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کیونکہ ایجنسی کے کارکنوں پر لگائے گئےالزام کلی طور پر ان ‘شواہد’پرمبنی ہیں، جنہیں ولسن سمیت گرفتار کیے گئے لوگوں کے کمپیوٹر سے ضبط کیا گیا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا ہے، ‘ولسن کا لیپ ٹاپ ہیک کرنے والے حملہ آور کے پاس جامع وسائل اور وقت تھا اور یہ صاف ہے کہ بنیادی ارادہ نگرانی(سرولانس)اورمجرمانہ دستاویز پہنچانا تھا۔’
ٹوئٹر پر جاری کیے گئے بیان میں فرم کے سربراہ مارک سپینسر نے کہا کہ ان کی ٹیم نے بھیما کورےگاؤں معاملے پر دیے گئے تفصیلی الیکٹرانک ڈیٹا پر بہت محنت سے کام کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی ٹیم نے ڈیجیٹل فارینسک کے مستقبل کے لیےبے حد اعلیٰ معیار طے کیا ہے۔
آرسینل نے اس سائبر حملہ آور کو اسی میلوییر انفراسٹرکچر کے ساتھ جوڑا، جو ولسن کے کمپیوٹر میں تقریباً چار سال کے لیے نہ صرف ان کی جانکاری شیئرکرنے کے لیے بلکہ 22 مہینوں تک ان کے ساتھی ملزمین پر بھی حملہ کرنے کے مقصدسےڈالا گیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے، ‘اس بات پر غور کیا جانا چاہیے کہ مختلف میٹرکس کی بنیاد پر یہ کیس شواہد سے چھیڑ چھاڑ کے معاملے میں آرسینل کے سامنے آئے سب سے سنگین معاملوں میں سے ایک ہے، جہاں پہلے اور آخری مجرمانہ دستاویز کی ڈلیوری کے بیچ ایک بڑی مدت ہے۔’
یہ معاملہ ولسن اور ناگپور کے جانےمانے کریمنل وکیل سریندر گاڈلنگ کے ذریعےمبینہ طور پر لکھے ہوئے خطوط پر مبنی تھا۔ ان کے کمپیوٹر پرمبینہ طور پرکل 13 ایسے خطوط پائے گئے تھے، جن کی بنیادپر وکیل سدھا بھاردواج،ماہر تعلیم آنند تیلتمبڑے ،شاعر ورورا راؤ جیسے دیگر ملزمین کی اس جرم میں شمولیت دکھائی گئی۔
آرسینل کی رپورٹ کے مطابق، 17 اپریل 2018 کو ولسن کے گھر چھاپےماری ہونے سے کچھ وقت پہلے ہی ان کے کمپیوٹر سے چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی۔
رپورٹ دکھاتی ہے کہ ان کے کمپیوٹر میں آخری تبدیلی 16 اپریل 2018 کی شام چار بج کر پچاس منٹ پر کی گئی تھی۔ اس کی اگلی ہی صبح 6 بجے جانچ افسر شیواجی پوار کے ساتھ پونے پولیس دہلی میں منریکا میں ان کے گھر چھاپہ مارنے پہنچی تھی۔
آرسینل کے نتائج ، جسے اب معاملے کی خصوصی جانچ کی مانگ کی عرضی کا بنیاد بنایا گیا ہے، کے مطابق ولسن کے لیپ ٹاپ کو ہیک کرنے کے لیے اسی سال شاعر ورورا راؤ کی ای میل آئی ڈی کا استعمال کیا گیا تھا۔رپورٹ میں لکھا ہے، ‘ولسن کا لیپ ٹاپ 13 جون 2016 کو کسی کے ورورا راؤ کی ای میل آئی ڈی کا استعمال کرتے ہوئے کئی مشتبہ میل کرنے کے بعد ہیک ہوا۔ راؤ اس معاملے میں ولسن کے شریک ملزم ہیں۔
اس طرح کا ایک ای میل ایک دیگر شخص نہال سنگھ راٹھوڑ کو بھی بھیجا گیا تھا، جو اس معاملے میں دفاعی فریق کے وکیل ہیں۔ راٹھوڑ وکیلوں، کارکنوں اور صحافیوں پر ہوئے ایسے دو سائبر حملوں کا شکار ہوئے ہیں۔
راٹھوڑ کو پیگاسس اسپائی وییر کی مدد سے نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے بارے میں
دی وائر نے اکتوبر 2019 میں ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ اس میں نسل پرستی کے خلاف کام کرنے والے اورایلگار پریشدمعاملے سے وابستہ کارکنوں کو نشانے پر لینے کا سیدھا پیٹرن نظر آتا ہے۔
دوسرے معاملے میں راٹھوڑ ان لوگوں میں شامل تھے، جنہیں ای میل کے ذریعے ایک سائبر اٹیک کا نشانہ بنایا گیا۔
دی وائر نے دسمبر 2019 میں اس کے بارے میں بتایا تھا کہ کیسے ای میل پانے والے کے مفادات کو دھیان میں رکھتے ہوئے کچھ فرضی ای میلزبھیجے گئے، جن میں ایسا میلوییر تھا جو آپ کے ڈیوائس کا مکمل اختیار حملہ آور کو مہیا کرواتا ہے۔
دسمبر2019 میں شائع ایک رپورٹ میں دی وائر نے بتایا تھا کہ پولیس کے دعوے کے مطابق ولسن کے کمپیوٹر میں ملے ڈیجیٹل شواہد میں کئی خامیاں تھیں۔سال 2018 میں شروع ہوئے ایلگار پریشد معاملے میں کئی موڑ آ چکے ہیں، جہاں ہر چارج شیٹ میں نئے نئے دعوے کیے گئے۔ معاملے کی شروعات ہوئی اس دعوے سے کہ ‘اربن نکسل’ کاگروپ‘راجیو گاندھی کے قتل’ کی طرح وزیر اعظم نریندر مودی کے قتل کا منصوبہ بنا رہا ہے۔
یہ حیرت انگیزدعویٰ پونے پولیس نے کیا تھا، جس کے فوراً بعد 6 جون 2018 کو پانچ لوگوں رونا ولسن، سریندر گاڈلنگ، کارکن سدھیر دھاولے، مہیش راؤت اورماہر تعلیم شوما سین کو گرفتار کیا گیا۔
ماؤنوازوں سے تعلق اور وزیر اعظم کے قتل کی سازش کےالزام میں گرفتار کیے گئے سماجی کارکن سدھیر دھاولے، سریندر گاڈلنگ، شوما سین مہیش راؤت اور رونا ولسن۔
جہاں ایک اور دعویٰ تھا کہ وزیر اعظم کے قتل کی مبینہ سازش کی جانکاری انہیں ولسن کے لیپ ٹاپ پر ملی(جسے انہوں نے 17 اپریل 2018 کو ضبط کیا تھا)اس بارے میں 6 جون تک کوئی گرفتاری نہیں ہوئی۔ اس طرح کی خامیوں کو لےکر جرح کے دوران دفاعی فریق نے کئی بار سوال اٹھائے ہیں۔
ولسن کا کمپیوٹر ہیک کرنے کا طریقہ بتاتے ہوئے آرسینل کی رپورٹ کہتی ہے کہ راؤ کی آئی ڈی سے بھیجے گئے ای میل میں ایک اٹیچ مینٹ تھا اور ولسن سے اسے کھولنے کو کہا گیا تھا۔
یہ ای میل دوپہر 03.07 پر بھیجا گیا تھا جسے ولسن نے کچھ ہی گھنٹوں میں کھول لیا تھا۔ شام 06.16 پر ولسن نے جواب دیا کہ وہ اٹیچ مینٹ کھولنے میں کامیاب ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق ٹھیک اسی وقت ان کا کمپیوٹر ہیک ہو چکا تھا۔
آرسینل کی جانچ میں سامنے آیا،‘ڈاکیومینٹ کو کھولنا (Rar آرکائیو فائل کے اندر another victory.rar نام کی ایک اور فائل)اس منصوبے کا حصہ تھا، جس سے نیٹ وائر ریموٹ ایکسیس ٹروزن (RAT)ولسن کے کمپیوٹر میں انسٹال ہوا۔’
جہاں ولسن کو لگا کہ انہوں نے اس ای میل کے ذریعے ڈراپ باکس کھولا ہے، وہیں اس ای میل سے نیٹ وائر میلوییر کے ذریعے ان کا لیپ ٹاپ ہیک کر لیا گیا۔ آرسینل نے بتایا کہ انہوں نے اپنے انالسس کے دوران کچھ ٹولس ڈیولپ کیے جن کی مدد سے وہ ولسن کے کمپیوٹر سے اس میلوییر کو ڈکرپٹ (decrypt)کر سکے۔
آرسینل نے اس میلوییر کے 2016 کے آخر سے 17 اپریل 2018 کے بیچ کے 57 دن کے کچھ لاگ پوری اور کچھ جزوی طور پرری کور کیے ہیں۔ لاگ کی ایکٹیوٹی میں ولسن کی براؤزنگ ہسٹری، پاس ورڈس، ای میل لکھنا اور ڈاکیومینٹ ایڈیٹنگ شامل ہے۔
قانونی قدم
دفاعی فریق کو یہ رپورٹ کے ملنے کے بعد ان کی جانب سے بامبے ہائی کورٹ میں عدالت کی نگرانی میں ایک ایس آئی ٹی کی تشکیل کے لیے اپیل دائر کی گئی ہے۔
عرضی میں کہا گیا ہے کہ معاملے میں جانچ ایجنسیوں کارول سوالیہ رہا ہے، ساتھ ہی‘ان کا رویہ دکھاتا ہے کہ ان کے ریکارڈس کوویری فائی کرنے یا ان کی صداقت کوپرکھنے کی کوئی منشا نہیں ہے اور ان کاجوش صرف عرضی گزار (ولسن) اوردیگر ملزمین کو گرفتار کرنے میں نظر آتا ہے۔’
اس معاملے میں ولسن اور دیگر کارکنون کی طرف سے پیش ہونے والے وکیل مہر دیسائی نے دی وائر سے کہا کہ اس معاملے کی شروعات سے ہی وکیل اورہیومن رائٹس کارکن کہتے آئے ہیں کہ ایلگار پریشد معاملہ جانچ ایجنسیوں کے بنے گئے ‘جھوٹ’پر مبنی ہے۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ ان شواہد کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے، انہوں نے کہا، ‘آج عدالت کے سامنے پیش کیے گئے ثبوت صرف اسی بات کی تفصیل ہیں جو ہم شروع سے کہتے آئے ہیں۔ ولسن کی ہی طرح ایک دیگر ملزم کے ڈیجیٹل ڈیٹا سے بھی چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی۔’
دیسائی کا ماننا ہے کہ قریب تین سال سے جیل میں بند تمام ملزمین کے حق میں یہ ثبوت معاملے کو مضبوط کرتے ہیں۔ دفاعی وکیلوں نے ملزمین کی فوراً رہائی کے ساتھ ہی معاوضے کی بھی مانگ کی ہے۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)