کسان یونینوں کی جانب سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ریاست کے مختلف گاؤں میں پوسٹر لگائے گئے ہیں۔ان میں سے کئی پوسٹر نوجوان کسان شبھ کرن سنگھ کو معنون ہیں، جن کی فروری میں کسانوں کے احتجاج کے دوران مبینہ طور پر سیکورٹی فورسز کی گولی لگنے سے موت ہو گئی تھی۔
جالندھر: بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کےپنجاب میں 2024 کے پارلیامانی انتخابات کے لیے چھ امیدواروں کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی مشتعل کسانوں نے بی جے پی کے خلاف محاذ کھول دیا ہے اور اپنے گاؤں میں بی جے پی رہنماؤں کے داخلے پر پابندی والے پوسٹر لگانا شروع کر دیے ہیں۔
پنجاب میں ایک جون کو ووٹنگ ہوگی۔
اکثر بینر مختلف کسان یونینوں کی طرف سے خود لگائے جا رہے ہیں، وہیں شمبھو اور کھنوری سرحدوں پر کسانوں کے احتجاج کی قیادت کرنے والے سنیکت کسان مورچہ (غیر سیاسی) اور کسان مزدور مورچہ (کے ایم ایم) نے بھی ایک علیحدہ پوسٹر ریلیز کیا ہے،جس میں کسانوں کے خلاف بی جے پی کی ‘بربریت’ اور سفاکی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
ایس کے ایم (غیر سیاسی) اور کے کے ایم نے اپنا پوسٹر نوجوان کسان شبھ کرن سنگھ کو معنون کیا ہے، جن کو کھنوری سرحد پر مبینہ طور پر سیکورٹی فورسز نے اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جب کسان 21 فروری کو کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کی قانونی گارنٹی کے لیے احتجاج کر رہے تھے۔
بی جے پی مخالف پیغامات
زیادہ تر دیہاتوں میں کسان، ‘کسان دا دلی جانا بند ہے، بھاجپا دا پنڈ وچ اونا بند ہے’ جیسے نعروں کے ساتھ پوسٹر لگا رہے ہیں’، جنہیں بی کے یو (ایکتا داکوندہ) بھوچو خورد، بھٹنڈہ کی طرف سے جاری کیا گیا ہے۔
بی کے یو ایکتا، سدھوپور کا شبھ کرن کو معنون ایک اور بینر کئی گاؤں میں لگایا گیا ہے، جس پر لکھا تھا: ‘میرا کی قصور سی (میری کیا غلطی تھی)…’
صرف پوسٹر ہی نہیں، پنجاب کے دیہاتوں سے مودی سرکار پر سوال اٹھانے والے لوگوں کے ویڈیو بھی فیس بک اور انسٹاگرام پر وائرل ہو رہے ہیں۔
اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس سال کے کسانوں کی تحریک کے خلاف ہریانہ حکومت کی سخت پالیسی کے پیش نظر کسانوں میں عدم اطمینان اور غصہ بڑھ رہا ہے، بی کے یو کے انقلابی جنرل سکریٹری بلدیو سنگھ جیرا نے کہا، ‘جس طرح شبھ کرن سنگھ کا قتل کیا گیا، کسانوں پر آنسو گیس کے گولے اور پیلٹ کا استعمال کیا گیا، جس نے کسانوں کو شدید طور پر زخمی کر دیا، اس کی وجہ سے لوگ نہ صرف غصے میں ہیں بلکہ انہوں نے بی جے پی کا مکمل بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لوگ پارٹی کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کر رہے ہیں اور جگہ جگہ ایسے پوسٹر لگا رہے ہیں۔’
بلدیو نے کہا کہ ایس کے ایم (غیر سیاسی) اور کے ایم ایم نے مختلف پارٹیوں کے بی جے پی لیڈروں اور دیگر سیاست دانوں سے سوال پوچھنے کے حوالے سے اپیل کی ہے۔
انہوں نے کہا، ‘ہماری اپیل بی جے پی سے سوال پوچھنے تک ہی محدود تھی۔ تاہم، بی جے پی سے ناراض لوگوں نے اس کے لیڈروں کے داخلے پر پابندی لگانے والے بینر لگانا شروع کر دیے ہیں۔ ہم نے کسانوں سے نہ صرف بی جے پی لیڈروں بلکہ دیگر پارٹیوں کے لیڈروں سے بھی سوال کرنے کو کہا ہے، تاکہ لوگ ایم ایس پی اور دیگر زرعی مسائل پر ان کا موقف جان سکیں۔ اس سے پنجاب میں بی جے پی کے انتخابی امکانات متاثر ہوں گے۔’
انہوں نے کہا کہ بی جے پی کے خلاف احتجاج کی قیادت نہ صرف ایس کے ایم (غیر سیاسی) اور کے ایم ایم کر رہی ہے، بلکہ ایس کے ایم بھی کر رہی ہے، جس نے دہلی میں کسانوں کے پچھلے احتجاج کی قیادت کی تھی۔
انہوں نے کہا، ‘2020 کی پچھلی کسان تحریک کی طرح اس بار بھی بی جے پی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔’
سنگرور ضلع کے نامول گاؤں میں بھی گاؤں والوں نے پچھلے ہفتے ایک پوسٹر لگا کر بی جے پی لیڈروں سے کہا تھا کہ وہ ان کے گاؤں آنے سے پرہیز کریں۔ پوسٹر بی کے یو آزاد نے جاری کیا تھا۔
شمبھو بارڈر سے دی وائر سے بات کرتے ہوئے بی کے یو ایکتا آزاد کے صدر ہیپی سنگھ نامول نے کہا کہ جس طرح بی جے پی نے کسانوں کو دہلی نہیں پہنچنے دیا، اسی طرح وہ بی جے پی کو ان کے گاؤں میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ وہ پوچھتے ہیں، ‘جو لوگ ہمارے خلاف غلط ارادے رکھتے ہیں، ہم ان کو اپنے گاؤں میں آنے کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں؟’
منسا ضلع کے کوٹلی کلاں گاؤں میں کسانوں کے ساتھ گاؤں والوں نے مل کر اپنے گاؤں کے داخلہ پر ایک بینر لگایا ہے، جس پر لکھا ہے ‘بی جے پی-آر ایس ایس کی نو انٹری’۔
اسی طرح کا ایک پوسٹر، بھٹنڈہ کے منڈی کلاں میں بھی ایس کے ایم (غیر سیاسی) اور کے ایم ایم نےجاری کیا ہے، جس میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ اگر کوئی بی جے پی لیڈر کو گاؤں میں لاتا ہے یا کوئی بھی پارٹی بی جے پی کے ساتھ اتحاد کرتی ہے تو انہیں بھی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دی وائر سے بات کرتے ہوئے بی کے یو (شہید بھگت سنگھ) کے ترجمان تیجویر سنگھ امبالا نے کہا کہ زیادہ تر کسان یونینوں نے اپنی سطح پر اس تھیم پر پوسٹر بنائے ہیں۔ پنجاب اور ہریانہ کے گاؤں میں مختلف کسان یونینوں اور مقامی لوگوں کی طرف سے بی جے پی کے خلاف پوسٹر لگائے جا رہے ہیں۔
بی کے یو (ایکتا آزاد) کے ریاستی سکریٹری منجیت سنگھ نیال، جن کی تنظیم نے پٹیالہ ضلع کے نیال گاؤں میں پوسٹر لگائے، نے کہا کہ انہوں نے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے کہا، ‘کسانوں کے پاس بی جے پی کے لیے واضح پیغام ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ بی جے پی لیڈر ان کے گاؤں میں داخل ہوں۔ ہم 13 فروری سے شمبھو بارڈر پر ڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں لیکن ہمارے مطالبات سننے کے بجائے بی جے پی نے ایک نوجوان کسان کو مار ڈالا، دوسروں کو زخمی کر دیا اور ہائی وے کو بلاک کر دیا، جس سے ملک کے اندر ایک سرحد بن گئی ہے۔’
قابل ذکر ہے کہ پنجاب میں یہ پہلا موقع ہے جب بی جے پی اپنے بل بوتے پر پارلیامانی انتخابات لڑے گی۔ اس سے قبل، بی جے پی نے 2022 کا پنجاب اسمبلی انتخابات اکیلے لڑا تھا، کیونکہ شرومنی اکالی دل اور بی جے پی نے 2020 میں زرعی قوانین کے احتجاج کے بعد اپنے راستے الگ کر لیے تھے۔
بی جے پی لیڈروں کا ردعمل
گاؤں والوں میں بی جے پی مخالف جذبات کا جواب دیتے ہوئے پنجاب کے سینئر بی جے پی لیڈر اور قومی ایگزیکٹو ممبر ہرجیت سنگھ گریوال نے دی وائر کو بتایا کہ یہ گاؤں والے نہیں بلکہ کسان یونین ہیں جو ووٹروں کو گمراہ کر رہی ہیں۔
انہوں نے عام آدمی پارٹی اور کانگریس کو بھی نشانہ بنایا اور کہا، ‘کسان یونینوں کے علاوہ عام آدمی پارٹی (عآپ) اور کانگریس بھی ہماری پارٹی کے خلاف اس پوسٹر وار کے لیے ذمہ دار ہیں، لیکن میں آپ کو بتاتا چلوں کہ کسان بی جے پی کے ساتھ ہیں۔جہاں تک شمبھو اور کھنوری سرحدوں پر کسانوں کے احتجاج کا تعلق ہے، تو یہ ان کا حق ہے اور وہ ایسا کرنے کے لیے آزاد ہیں لیکن پرتشدد طریقے سے نہیں۔ ہم ان کے احتجاج کا خیر مقدم کرتے ہیں۔’
ایس کے ایم ‘جن مہاپنچایت’ کے ذریعے بی جے پی سے سوال کرے گی
ایس کے ایم نے عام انتخابات سے پہلے بی جے پی کے خلاف ملک بھر میں ‘جن مہاپنچایت’ کا اعلان کیا ہے۔ ایک پریس ریلیز میں ایس کے ایم نے بھی کہا کہ وہ ملک بھر کے دیہاتوں میں بی جے پی سے سوال کرنے والے پوسٹر اور بینر لگائے گی۔
گروپ نے کہا، ‘جن مہاپنچایت لوگوں سے زرعی بحران، ایم ایس پی، قرض کی معافی، بے روزگاری، لیبر کوڈ اور پبلک سیکٹر کی نجکاری جیسے معاش کے مسائل پر بات کرنے کی اپیل کرے گی۔ اس میں لوگوں سے مودی حکومت کے آمرانہ طریقوں کو ختم کرنے اور آئین ہند میں درج جمہوری، سیکولر، وفاقی اصولوں کی حفاظت کرنے کی بھی اپیل کی جائے گی۔’
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔