کسی بھی بات پرجیل بھیج دیے جانے کے خوف میں جینا ایک طرح سے جیل میں ہی جینا ہے۔ ایسے میں عدالت یا حکومت جیل ڈیبٹ کارڈ کا سسٹم نافذ کرے، تاکہ ٹوئٹر پر جب بھی مہم چلے کہ فلاں کو گرفتار کرو، جیل بھیجوتو اس وقت اس شخص کے جیل ڈیبٹ کارڈسے پولیس اتنی سزا کی مدت ڈیبٹ کرلے۔
عزت مآب،
ہندوستان میں عزت مآبوں کی کمی نہیں ہے، اس لیے اس خط میں یہ واضح کرنے کی ضرورت نہیں کہ عزت مآب کون ہے۔ اپنی سہولت کے مطابق کو ئی بھی عزت مآب فرض کر سکتا ہے کہ یہ خط انہی کے نام ہے۔ آپ عدالت بھی ہو سکتے ہیں، حکومت بھی ہو سکتے ہیں، عام شہری بھی ہو سکتے ہیں۔
جس طرح سے آئے دن ٹوئٹر پر کسی کو بھی جیل بھیجنے کی مہم چلائی جاتی ہے اور بعد میں اسے جیل بھیج بھی دیا جاتا ہے، اب یہ ممکن ہے کہ ٹوئٹر پر کسی بھی وقت مہم چلا کر کسی کو بھی جیل بھیجا جا سکتا ہے۔
صحافت کے پیشے میں جو بھی صحافت کر رہا ہے، وہ اس خدشے کا شکار ہے کہ اسے کبھی بھی جیل بھیجا جا سکتا ہے۔ وہ نہیں تو اس کے دوست کو جیل میں ڈالا جا سکتا ہے۔ اس کی اپنی نوکری جا سکتی ہے، اس پر حملہ ہو سکتا ہے۔ صحافی ذہنی دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں۔ جب جیل جانا ہی مقدر ہے تو کیوں نہ میرا آئیڈیاآزما کر دیکھا جائے۔
عزت مآب،آپ اپنی طرف سے جیل ڈیبٹ کارڈ سسٹم نافذ کردیجیے۔ لوگ خود ہی جیل جاکر اس ڈیبٹ کارڈ میں جیل کریڈٹ کریں گے۔ یعنی خود سے ایک سال جیل میں رہیں گے، جیل کی اذیتیں برداشت کریں گے اور جیل ڈیبٹ کارڈ میں کریڈٹ کراد یں گے۔
ویسے بھی کسی بھی بات پر جیل بھیج دیے جانے کے خوف میں جینا ایک طرح سےجیل میں ہی جینا ہے۔ لہٰذا ایسی صورت حال میں عدالت یا حکومت کو کوئی انتظام کرنا چاہیے۔ جو لوگ خود جیل جانا چاہتے ہیں انہیں جیل جانے کا موقع دیں۔ جیل ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے پولیس کو جھوٹے شواہد کی بنیاد پر مختلف دفعات لگا کر تفتیش کے لیے عدالتی یا پولیس حراست طلب کرنے کے کام سے نجات ملے گی۔
جو حکومت سے سوال کرے گا، صحافت کرے گا، اپوزیشن کی سیاست کرے گا، اس کے پاس جیل ڈیبٹ کارڈ ہونا لازمی قرار دیا جائے۔ تاکہ جب بھی ٹوئٹر پر مہم چلے کہ اسے گرفتار کرو، جیل بھیجو تو اس شخص کے جیل کے ڈیبٹ کارڈ سے پولیس سزا کی مدت کو ڈیبٹ کرلے یعنی نکال لے۔
جب بہت سے قوانین اس طرح بنائے جا رہے ہوں کہ ان کا غلط استعمال بھی ہو سکے اور کسی کو پھنسا کر جیل میں ڈالا جا سکے تو ایک ایسا قانون بھی بن جائے کہ کوئی اس خوف سے نجات پانے کے لیے خود ہی جیل جا سکتا ہے۔
اس طرح سے جیل ایک کامیاب بزنس ماڈل بن سکتا ہے۔ اسٹارٹ اپ کھل سکتا ہے۔ بڑی تعداد میں لوگ جیل جانا شروع کر دیں گے۔ اخبارات میں لمبے لمبے مضامین لکھ کر حکومت کو چڑھانے سے بہتر ہے کہ خود جیل چلے جائیں۔ حکومت کے حامیوں کی انا بھی مطمئن ہو جائے گی کہ فلاں جیل جا چکا ہے۔
میرے خیال میں صحافت کرنے والے دو چار سو صحافی بھی نہیں ہوں گے، ان سب کو عدالت کو خط لکھنا چاہیے کہ ہمیں جیل ڈیبٹ کارڈ دیا جائے اور جرم سے پہلے ہی جیل میں رہنے کی اجازت دی جائے۔ جو بھی جیل جانا چاہے اسے جیل میں ڈال دیا جائے۔ اس سے حکومت کے ذہن سے یہ بوجھ ہٹ جائے گا کہ کس کو جیل بھیجنا ہے اور کب جیل بھیجنا ہے۔
جیل ڈیبٹ کارڈ ہر باشعور شہری کا حق ہونا چاہیے۔ جو بھی آواز اٹھاتا ہے، اس کے لیے یہ کارڈ لازمی ہونا چاہیے۔ اگرہم جیل کو شہریوں میں مقبول بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں جیل ڈیبٹ کارڈ اپنانا ہوگا۔ اس سے جیل کا خوف ختم ہو جائے گا اور دنیا میں ہندوستان کی امیج خراب نہیں ہو گی کہ وہاں حکومت سے سوال کرنے پر جیل بھیج دیا جاتا ہے۔
جیل ڈیبٹ کارڈ سے ہندوستان کی امیج اچھی بنے گی کہ لوگ خود ہی جیل جا رہے ہیں۔ گاندھی نے خود جیل جا کر غلام ہندوستان کے لوگوں کے دل سے جیل کا خوف نکالا۔ اب آزاد ہندوستان میں کوئی بھی خود سے جیل نہیں جارہا ہے تو اس کے انتظار میں کتنا خوف زدہ رہا جائےکہ اس کی باری کب آئے گی۔
بہتر ہے کہ سارے لوگ مل کر جیل چلیں۔ گلی گلی سے جیل جتھہ نکلے۔ لوگ جیل جائیں۔ نوجوان اسکول– کالج چھوڑ کر جیل جائیں۔ دفتر سے نکلے لوگ راستہ بدل کر جیل چلے جائیں۔ جس کسی کے پاس یہ کارڈ ہوگا اس کے اندر سے جیل کا خوف ختم ہوجائے گا۔
آپ کا،
رویش کمار
(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)